مجلسِ عامہ
اے صِیُّون، اپنی شوکت سے مُلبس ہو
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۲


اے صِیُّون، اپنی شوکت سے مُلبس ہو

ہم میں سے ہر ایک کو اپنی دُنیاوی اور رُوحانی ترجیحات کا خلُوصِ نِیّت اور دُعا کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔

تمثیلیں یِسُوع مسِیح کی تعلیم کی ماہرانہ حِکمتِ عملی کا واضع منظر پیش کرتی ہیں۔ آسان لفظوں میں، نجات دہندہ کی تمثیلیں ایسی کہانیاں ہیں جو رُوحانی سچائیوں کا مادی چیزوں اور فانی تجربات کے ساتھ موازنہ کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، عہدِ جدِید کی اِنجیلیں ایسی تعلیمات سے بھری ہُوئی ہیں جن میں آسمان کی بادشاہی کو رائی کے دانے،۱ قیمتی موتی،۲ گھر کے مالک اور اُس کے تاکستان میں مزدوروں،۳ دس کنواریوں،۴ اور ایسی کئی دیگر مثالوں سے تشبیہ دی ہے۔ صحائف نشان دہی کرتے ہیں کہ گلیل میں خدمت گُزاری کے حصے کے دوران میں خُداوند نے وہاں کے لوگوں کے ساتھ ”تمثیلوں کے بغیر بات نہیں کی۔“۵

عام طور پر کسی تمثیل کا مطلوبہ مفہوم یا پیغام واضع طور پر بیان نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ، کہانی صرف وصول کُنندہ پرحصہ بہ حصہ خُدا پر اُس کے ایمان، ذاتی رُوحانی تیاری، اور سیکھنے کے لیے آمادگی کے موافق الہی سچائیاں ظاہر کرتی ہے۔ اِس طرح، کسی بھی فرد کو اپنے اخلاقی ارادے کا اِستعمال کرنا ضروری ہے،” مانگو، ڈُھونڈو، اور کھڑکھڑاو“۶ اور مستعدی سے تمثیل میں سرایت سچائیوں کو دریافت کرو۔

میری دِل سے دُعا ہے کہ رُوحُ القُدس ہم میں سے ہر ایک کو تقویت بخشے جیسا کہ اب ہم شاہی بیاہ کی ضیافت کی اہمیت پر غور کرنے کو ہیں۔

شاہی بیاہ کی ضیافت

”اور یِسُوع … نے پھر اُن سے تمثیلوں میں بات کی، اور کہا،

”آسمان کی بادشاہی اُس بادشاہ کی مانِند ہے، جس نے اپنے بیٹے کی شادی کی،

”اور اپنے نوکروں کو بھیجا کہ بُلائے ہُووں کو شادی میں بُلا لائیں: اور وہ نہ آئے۔

پھر، اُس نے اپنے نوکروں کو یہ کہہ کر، بھیجا: کہ بُلائے ہُووں کو جا کر کہیں، دیکھو، مَیں نے ضیافت تیار کر لی ہے: میرے بیل اور میرے موٹے موٹے جانور ذبح ہو چُکے ہیں، اور سب کُچھ تیار ہے: شادی میں آو۔

” مگر وہ بے پرواہی کر کے اپنی اپنی راہ چل دیئے، ایک اپنے کھیت کو، تو دُوسرا اپنی سوداگری کو“ 7

قدیم زمانے میں، یہودیوں کی زندگی میں سب سے زیادہ خُوشی کی تقاریب میں سے ایک شادی کا جشن ہوتا تھاـــــــ ایسی تقریب جو ایک یا دو ہفتوں پر محیط ہوتی تھی۔ اِس طرح کی تقریب کے لیے بُہت زیادہ منصوبہ بندی کی جاتی تھی، اور جشن کے آغاز کے دِن کی یادہانی کے ساتھ، مہمانوں کو بُہت پہلے ہی اطلاع دی جاتی تھی۔ کسی بادشاہ کی طرف سے اپنی رعایا کو اِس طرح شادی کا دعوت نامہ گویا کہ کسی حُکم کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ پھر بھی اِس تمثیل میں بُلائے گئے مہمانوں میں سے بُہت سے نہ آئے۔۸

”بادشاہ کی ضیافت میں شرکت سے اِنکار شاہی حُکم نامے کے خلاف جان بُوجھ کر بغاوت اور بادشاہ اور اس کے بیٹے دونوں کے لیے بے عزتی ہوتی تھی۔ … ایک آدمی کا اپنے کھیت کی راہ جانا، اور دُوسرے کا اپنے [کاروباری مفادات]“۹ کی طرف مُنہ موڑنا مکمل طور پر اُن کی گُم راہ ترجیحات اور بادشاہ کی مرضی کی نظر اندازی کو ظاہر کرتا ہے۔۱۰

تمثیل جاری ہے:

”تب اُس نے اپنے نوکروں سے کہا، شادی کی ضیافت تو تیار ہے، مگر بُلائے ہُوئے لائق نہ تھے۔

”تُم راستوں کے ناکوں پر جاؤ اور جِتنے بھی تُمہیں مِلیں، شادی میں بُلا لاو

پَس وہ نَوکر باہر راستوں پر گئے اور جو بھی اُنہیں مِلے، کیا بُرے کیا بھلے سب کو جمع کر لائے اور شادی کی محفِل مِہمانوں سے بھر گئی۔11

اُن دِنوں میں رواج تھا کہ شادی کی ضیافت کا میزبان ـــــ جو اِس تمثیل میں، بادشاہ ہےـــــ مہمانوں کے لیے شادی کا لباس مہیا کرتا۔ شادی کے ایسی پوشاکیں سادہ ہوتی تھیں، غیر رسمی جو کہ تمام حاضرین پہنتے تھے۔ اِس طرح، رُتبے اور مقام ختم ہو جاتے تھے، اور ضیافت میں ہر کوئی برابر شرکت کرتا۔۱۲

شادی میں شراکت کے لیے شاہراہوں سے مدعو کیے گئے لوگوں کے پاس تقریب کی تیاری کے لیے مناسب لباس خریدنے کا وقت یا ذریعہ نہیں ہوتا۔ تھا نتیجتاً، بادشاہ نے ممکن طور پر مہمانوں کو اپنی ہی الماری سے کپڑے دیے۔ ہر کسی کو شاہی لباس پہننے کا موقعہ دِیا گیا۔۱۳

یُوں جب بادشاہ مِہمانوں کو دیکھنے کو اندر آیا تو اُس نے فورا وہاں ایک مہمان کو دیکھا جو شادی کے لِباس میں نہ تھا۔ اُس آدمی کو آگے لایا گیا، بادشاہ نے پُوچھا، ”مِیاں تُو شادی کی پوشاک پہنے بغَیر یہاں کیوں کر آ گیا؟ پر اُس کا مُنہ بند تھا۔“۱۴ اِس پر بادشاہ نے پُوچھا، ”تُم نے کیوں کر شادی کا لباس نہ پہنا، حالاں کہ تُمھیں یہ فراہم کِیا گیا تھا؟“۱۵

ظاہر ہے کہ اس شخص نے اِس خاص موقع کی مناسبت سے لباس نہیں پہنا ہُوا تھا، اور یہ جُملہ ”اُس کا مُنہ بند تھا،“ اِس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ آدمی کے پاس کوئی بہانہ نہیں تھا۔۱۶

بُزرگ جیمز ای. ٹالمج آدمی کے اعمال کی اہمیت کے بارے میں یہ سبق آموز تبصرہ فراہم کرتا ہے:”کہ اِس سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ بِن پوشاک کا مہمان غفلت، جان بوجھ کر بے عزتی، یا کسی اور سنگین جُرم کا مرتکب تھا۔ بادِشاہ پہلے تو بڑی شفقت کے ساتھ، پُوچھتا رہا ہو گا کہ یہ آدمی شادی کے لباس کے بغیر کیسے داخل ہو گیا تھا۔ اگر وہ آدمی اپنی غیر معمولی صورتِ حال کی وضاحت کرنے،کے لائق ہوتا یا وہ کوئی معقُول بہانہ بتا پاتا، تو واقعی وہ کُچھ بول پاتا، لیکن ہمیں بتایا گیا ہے کہ اُس کا مُنہ بند تھا۔ بادشاہ کا حُکم نامہ اُن سب لوگوں تک پُہنچایا گیا جو بھی اُس کے نوکروں کو ملے تھے؛۔ لیکن اُن میں سے ہر ایک کو شاہی محل میں داخل ہونے کے لیے دروازے سے گُزر کر جانا پڑتا تھا؛ اور ضیافت کے کمرے تک پہنچنے سے پہلے، جہاں پر بادشاہ خُود موجود ہوتا، ہر ایک کو مناسب لباس پہنایا جاتا؛ تھا لیکن ناقص لباس والے، کسی طریقے سے دُوسرے راستے سے داخل ہوجاتے تھے؛ اور پھاٹک پر موجُود پہرے داروں سے نہ گزرنے والا شخص، بِن بُلایا مہمان ہوتا تھا۔“۱۷|

ایک مسِیحی مُصنف، جان او رِیڈ، نے حوالہ دِیا کہ اُس شخص کا شادی کا لباس پہننے سے اِنکار ”بادِشاہ اور اُس کے بیٹے دونوں کی بے عزتی کی واضح مثال ہے۔“ اُس کے پاس شادی کے لباس کی کمی نہیں تھی؛ بلکہ، اُس نے اُسے نہ پہننے کا اِنتخاب کیا۔ اُس نے ڈھٹائی سے موقعے کی مناسبت سے پوشاک پہننے سے اِنکار کِیا۔ بادِشاہ کا ردِ عمل فوری اور فیصلہ کُن تھا: ”اِس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر، باہر لے جاؤ، اور اندھیرے میں ڈال دو؛ وہاں رونا اور دانت پِیسنا ہو گا۔“۱۸

اُس آدمی کی بابت بادِشاہ کا فیصلہ بُنیادی طور پر شادی کے لباس کی کمی پر مبنی نہیں ہے—بلکہ ”درحقیقت، لباس نہ پہننے کی بابت اُس کا پُختہ اِرادہ تھا۔ اُس شخص نے شادی کی ضیافت میں شرکت کا شرف پایا مگر وہ بادشاہ کی ریت ورواج پر عمل نہیں کرنا چاہتا تھا اُس نے اپنے طریقے سے سب کُچھ کرنا چاہا۔ اُس کے مُناسب لباس کی کمی نے بادشاہ اور اُس کی ہدایات کے خلاف آدمی کے اندر کی بغاوت کو ظاہر کیا۔“۱۹

بُلائے ہُوئے بُہت ہیں، مگر برگُزِیدہ تھوڑے۔۔

یہ تمثیل اِس سرایت کر جانے والے صحییفے کے ساتھ ختم ہوتی ہے، ”کیوں کہ بُلائے ہُوئے تو بُہت ہیں، مگر برگُزیدہ تھوڑے۔“۲۰

دِل چسپ بات ہے کہ، جوزف سمتھ نے بائبل کے اِلہامی ترجمہ میں متّی کی اِس آیت کی درج ذیل ترتیب کی: ”کیوں کہ بُلائے ہُوئے بُہت ہیں، مگر برگُزیدہ تھوڑے ہیں؛ چُوں کہ سب کے پاس شادی کے کپڑے نہیں ہوتے۔“۲۱

شادی کی ضیافت کی دعوت اور ضیافت میں شراکت کا باہمی تعلق ہے مگر مختلف۔ دعوت نامہ تمام مرد اور عورتوں کے لیے ہے۔ حتی کہ کوئی فرد دعوت نامے کو قبول کرتا اور ضیافت میں آ بھی جاتا ہے — تاہم اُس کے شرکت سے وہ برگُزیدہ نہیں ہو جاتا کیونکہ اُس کے پاس خُداوند یِسُوع اور اُس کے الہی فضل پرایمان کو قائل کرنے والی شادی کی پوشاک نہیں ہوتی ہے۔ پَس، ہمارے پاس خُدا کی بُلاہٹ اور اُس بُلاہٹ کے لیے ہمارا اِنفرادی ردِعمل دونوں،ہیں اور بہت سے بُلائے گئے مگر برگُزیدہ تھوڑے۔۲۲

برگُزیدہ ہونا یا برگُزیدہ بننا ہمیں کوئی ممتاز رُتبہ عطا نہیں کرتا۔ بلکہ، آپ اور مَیں بالآخر اپنی اخلاقی رضامندی سے نیک عمل کر کے برگُزیدہ ہونے کا چُناو کر سکتے ہیں۔

براہِ کرم لفظ برگُزیدہ کے اِستعمال کو درج ذیل عقائد و عہُود سے اِن معروف آیات پر دھیان دیں:

”دیکھو بُہت سے بُلائے گئے ہیں، مگر برگُزِیدہ تھوڑے ہیں۔ اور وہ برگُزیدہ کیوں نہیں ہیں؟

”کیوں کہ اُن کے دِل نہایت زیادہ اِس دُنیا کی چیزوں پر لگے ہُوئے ہیں، اور وہ آدمیوں سے تعظیم چاہتے ہیں۔“۲۳

میرا ماننا ہے کہ اِن آیات کا مفہوم بالکل سیدھا ہے۔ خُدا کے پاس پسندیدہ لوگوں کی کوئی فہرست نہیں ہے جس کی ہمیں امید کرنی چاہیے کہ کسی دن ہمارے نام اِس میں شامل ہو جائیں گے۔ اُس نے ”برگُزیدوں“ کو چند کے واسطے محدود نہیں کِیا ہے۔ بلکہ ہمارے دِلوں، ہماری خواہشوں، ہمارے پاک اِنجیل کے عہُود اور رسُوم کی تعظیم،ہماری حُکموں کو ماننے کی فرماں برداری، اور، سب سے اہم، کہ نجات دہندہ کا فِدیہ بخش فضل اِس بات کا تعین کرتا ہے کہ آیا ہم خُدا کے برگُزیدوں میں شُمار کِیے جاتے ہیں۔۲۴

”کیوں کہ ہم اپنے بچوں، اور اپنے بھائیوں، کو آمادہ کرنے کے لیے جان فشانی سے لکھتے ہیں، تاکہ وہ مسِیح پر اِیمان، لائیں اور خُدا سے ملاپ کریں؛ پَس ہم جانیں کہ جو کُچھ بھی ہم کر سکتے ہیں، اُس کے بعد ہم اُس کے فضل کے وسیلے سے بچائے جاتے ہیں۔“۲۵

اپنی روزمرہ کی زندگی کی مصروفیت اور جدید دنیا کے اِن ہنگاموں میں جن میں ہم رہتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ خُوشی، خُوش حالی، مقبولیت اور نمایاں ہونے کو اپنی بنیادی ترجیحات بنانے کے باعث، ہم سب سے اہم دائمی چیزوں سے اپنی توجہ کو ہٹا لیں۔ ہمارے تھوڑے عرصہ کے مشغلوں سے ” دُنیا جہان کی چیزوں“ اور ”اِنسانی وقار“ کے باعث، ہم اپنے رُوحانی پیدائشی حق کو کھو دینے کی جانب جا سکتے ہیں جو کہ کسی غلاظت سے بھی کم تر ہے۔۲۶

وعدہ اور گواہی

مَیں پُرانے عہد نامے کے نبی حجی کے ذریعے اپنے لوگوں کو خُداوند کی اس نصیحت کو دُہراتا ہُوں: ”پَس اب رب الافواج یُوں فرماتا ہے؛ اپنے طریقوں پر غور کرو۔“۲۷

ہم میں سے ہر کسی کو اپنی روحانی اور دُنیاوی ترجیحات کا خُلوص اوردُعا کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے تاکہ وہ ہماری زندگیوں میں اُن باتوں کی نشاندہی کریں جوکہ نجات دہندہ اور آسمانی باپ کی طرف سے بخشی جانے والی نعمتوں میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ یعنی رُوحُ القُدس ہمیں اپنے آپ کو دیکھنے میں ایسے مدد کرے جیسے ہم حقیقت میں ہیں۔۲۸

جُوں ہی ہم لائق طور پر دیکھنے والی نگاہ اور سُننے والے کانوں کی رُوحانی نعمت کو پانے میں مُشتاق ہوتے ہیں،۲۹ مَیں وعدہ کرتا ہُوں کہ ہمیں زِندہ خُداوند کے ساتھ اپنے عہد کے تعلق کو مضبوط کرنے کی صلاحیت اور فیصلے سے نوازا جائے گا۔ ہم اپنی زندگیوں میں خُدائی قُدرت کو بھی پائیں گے۳۰ـــــــ—اور بالاخر ہم خُداوند کی ضیافت کے لیے بُلائے ہُوئے اور برگُزیدہ ہوں گے۔

”جاگ، جاگ؛ اَے صِیُّون، اپنی شَوکت سے مُلبّس ہو۔“۳۱

”چُناں چہ صِیُّون حُسن میں اور پاکیزگی میں ضرور بڑھے؛ اُس کی حدیں ضروری وسیع کی جائیں، اُس کی میخیں ضرور مضبُوط کی جائیں؛ ہاں، مَیں تُم سے سچّ کہتا ہُوں، صِیُّون ضرور اُٹھے اور اپنے فخر کا لباس اوڑھے۔“۳۲

مَیں خُوشی سے خُدا، ہمارے ابدی باپ اور اُس کے پیارے بیٹے، یِسُوع مسِیح کی الوہیت اور زندہ حقیقت کا اعلان کرتا ہُوں۔ میری گواہی ہے کہ یِسُوع مسِیح ہمارا نجات دہندہ اور رہائی دینے والا ہے اور وہ زِندہ ہے۔ اور مَیں یہ بھی گواہی دیتا ہُوں کہ باپ اور بیٹا لڑکے جوزف سمتھ پر ظاہر ہُوئے، پَس اُس نے آخِری ایّام میں نجات دہندہ کی اِنجِیل کی بحالی کا آغاز کیا۔ ہم میں سے ہر کوئی دیکھنے والی نِگاہ اور سُننے والے کانوں کو پانے کی نعمت کے مُشتاق ہوں، مَیں یِسُوع مسِیح کے مُقدّس نام پر دُعا کرتا ہُوں ، آمین ۔