صحائف
ایلما ۱۲


باب ۱۲

ایلما، زِیضرم سے بحث کرتا ہے—خُدا کے بھید صِرف اِیمان داروں کو بخشے جاتے ہیں—اِنسان کی عدالت اُن کے خیالات، عقائد، کلام اور اَعمال سے ہوتی ہے—بدکار رُوحانی موت جھیلیں گے—یہ فانی زِندگی کیفیتِ کارِ آمُوزی ہے ہے—نجات کے منصوبہ کی بدولت مُردوں کی قیامت وقُوع پذیر ہوتی ہے، اور اِیمان کے وسِیلے سے، گُناہوں کی مُعافی—اِکلوتے بیٹے کے وسِیلے سے تائِب رحم پانے کے حق دار ہیں۔ قریباً ۸۲ ق۔م۔

۱ اب ایلما، یہ دیکھتا ہے کہ امیولک کی باتوں نے زِیضرم کو خاموش کر دِیا ہے، پَس اُس نے دیکھا کہ امیولک نے اُس کے اپنے ہی جُھوٹ اور فریب میں پکڑ کر اُسے برباد کر دِیا ہے، اور وہ یہ دیکھ کر اپنے احساسِ جُرم کے باعث کانپنے لگا، اُس نے اپنا مُنہ کھولا اور اُس سے کلام کرنے لگا اور امیولک کی باتوں کی تصدیق کرنے لگا اور اِس سے بڑھ کر یعنی جو امیولک نے کِیا تھا، اُس سے بڑھ کر نوِشتوں کو آشکار کرنے لگا۔

۲ اب وہ باتیں جو ایلما نے زِیضرم سے بیان کِیں اور اِرد گِرد کے لوگوں نے سُنیں کیوں کہ ہجُوم بُہت بڑا تھا اور وہ یُوں ہم کلام ہُوا:

۳ اب زِیضرم دیکھ کہ تُو اپنے جُھوٹ اور عیّاری میں خُود پھںس گیا ہے، پَس تُو نے نہ صِرف آدمیوں سے جُھوٹ بولا ہے بلکہ خُدا سے بھی جُھوٹ بولا ہے؛ پَس دیکھ وہ تیرے سب خیالوں کو جانتا ہے اور تُو دیکھتا ہے کہ تیرے خیال اُس کے رُوح کے وسِیلے سے ہم پر ظاہر کِیے جاتے ہیں۔

۴ اور تُو دیکھتا ہے کہ ہمیں خبر ہے کہ تیرا منصوبہ اِبلِیس کی مکاری کی طرح اِنتہائی پُراسرار تھا، گویا تُو جُھوٹ بول کر اور اِن لوگوں کو دھوکا دے کر اُنھیں ہمارے خِلاف بھڑکائے، تاکہ وہ ہمیں لعن طعن کریں اور نِکال باہر کر دیں—

۵ اب تیرے دُشمن کا یہی منصوبہ تھا، اور اُس نے اپنی قُوّت کا مُظاہرہ تیری بدولت کِیا۔ اب مَیں چاہتا ہُوں کہ تُو یاد رکھ کہ جو کُچھ مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں وہی مَیں سب سے کہتا ہُوں۔

۶ اور دیکھو مَیں تُم سب سے کہتا ہُوں کہ یہ دُشمن کا جال تھا، جو اُس نے اِن لوگوں کو پھانسنے کے لِیے لگایا، تاکہ وہ تُمھیں اپنے ماتحت کرے، تاکہ تُمھیں گھیر کر زنجِیروں سے باندھے کہ وہ اپنی اَسیری کی قُوّت سے تُمھیں زنجیروں سے باندھ کر اَبَدی ہلاکت تک پُہنچائے۔

۷ اب جب ایلما یہ باتیں کہہ چُکا، تو زِیضرم اور زیادہ کانپنے لگا، کیوں کہ وہ مزید خُدا کی قُدرت کا قائل ہو گیا تھا؛ اور وہ اِس بات کا بھی قائل ہُوا تھا کہ ایلما اور امیولک کو اُس کی بابت عِلم تھا، پَس وہ قائل ہو گیا تھا کہ وہ اُس کے دِل کے خیالوں اور اِرادوں کو جانتے تھے؛ پَس اُن کو قُدرت بخشی گئی تھی کہ وہ نبُوّت کی رُوح کے مُوافِق اِن باتوں کو جان سکیں۔

۸ اور زِیضرم اُن سے بڑی جان فشانی سے دریافت کرنے لگا، تاکہ وہ خُدا کی بادِشاہی کے بابت مزید جان سکے۔ اور اُس نے ایلما سے کہا: جو امیولک نے مُردوں کی قیامت کی بابت کہا ہے اِس کے کیا معنی ہیں، کہ تمام راست باز اور ناراست دونوں مُردوں میں سے جی اُٹھیں گے اور اپنے اَعمال کے مُوافِق خُدا کے حُضُور عدالت میں کھڑے ہونے کے لِیے لائے جائیں گے؟

۹ اور اب ایلما اُس کو اِن باتوں کی وضاحت یہ کہہ کر بیان کرنے لگا: بُہتیروں کو یہ قُدرت بخشی گئی ہے کہ خُدا کے بھیدوں کو جانیں؛ اَلبتہ، وہ سخت حُکم کے ماتحت ہیں کہ وہ بنی آدم کو اُس کے کلام کے اُس حِصّے کے سِوا جو وہ عطا کرتا ہے مزید نہ سِکھائیں گے، اُس توجہ اور مُستعدی کے مُطابق جو وہ خُدا کے لیے وقف کرتے ہیں۔

۱۰ اور پَس وہ جو اپنے دِل کو سخت کرے گا، وہی کلام کا تھوڑا حِصّہ پائے گا؛ اور وہ جو اپنے دِل کو سخت نہیں کرے گا، اُسے اُس کے کلام کا زیادہ حِصّہ دِیا جائے گا، اور اُس وقت تک اُسے بخشا جاتا ہے جب تک وہ خُدا کے بھید مکمل طور پر جان نہیں لیتا۔

۱۱ اور وہ جو اپنے دلوں کو سخت کریں گے، اُنھیں کلام کا تھوڑا تھوڑا حِصّہ دِیا جائے گا جب تک کہ اُس کے بھیدوں کی بابت وہ سمجھ سے محرُوم نہیں ہو جاتے؛ اور تب اِبلِیس اُنھیں اَسیری میں لے جاتا ہے، اور اُس کی مرضی کے مُطابق ہلاکت تک پہنچیں گے۔ اب جہنم کی زنجِیروں کے یہی معانی ہیں۔

۱۲ اور امیولک نے موت، اور اِس فنا پذیری سے بقا کی حالت میں زِندہ ہونے، اور خُدا کی بارگاہ میں ہمارے اَعمال کے مُطابق عدالت کے لِیے لائے جانے کی بابت صاف صاف بیان کِیا ہے۔

۱۳ پھر اگر ہمارے دِل سخت ہو گئے ہیں، ہاں، اگر ہم نے اپنے دِلوں کو کلام کے خِلاف سخت کر لِیا ہے، حتی کہ یہ ہم میں ہے ہی نہیں، تب ہماری حالت ہول ناک ہو جائے گی، کیوں کہ پھر ہم مُجرم ٹھہرائے جائیں گے۔

۱۴ پَس ہمارا کلام ہمیں مُجرم ٹھہرائے گا، ہاں، ہمارے سارے کام ہمیں مُجرم ٹھہرائیں گے؛ ہم بےداغ نہ پائے جائیں گے؛ اور ہمارے خیال ہمیں مُجرم ٹھہرائیں گے؛ اور اِس ہول ناک حالت میں ہم خُدا کی جانب نظر اُٹھانے کی بھی جُراَت نہ کریں گے؛ اور ہمیں خُوشی ہو گی اگر ہم چٹانوں اور پہاڑوں کو حُکم دیں کہ وہ ہمیں اُس کی حُضُوری سے چُھپا نے کے لِیے ہم پر آ گِریں۔

۱۵ مگر ایسا نہیں ہو سکتا؛ ضرور ہے کہ ہم آگے بڑھیں اور اُس کے جلال اور اُس کی قُدرت اور اُس کی قُوّت، شان و شوکت، اور اُس کی بادِشاہی میں، اُس کے حُضُور کھڑے ہوں، اور اپنی اَبَدی شرمندگی کا اِقرار کریں کہ اُس کے تمام فیصلے راست ہیں، کہ وہ اپنے سب کاموں میں سچّا ہے، اور یہ کہ وہ بنی آدم پر رحم کرتا ہے، اور کہ اُس میں ہر آدمی کو بچانے کی پُوری قُدرت ہے جو اُس کے نام پر اِیمان لاتے ہیں اور تَوبہ کے مُوافِق پھل لاتے ہیں۔

۱۶ اور اب دیکھو، مَیں تُم سے کہتا ہُوں پھر ایک موت آتی ہے، یعنی دُوسری موت جو رُوحانی موت ہے؛ تب اُس وقت جو کوئی اپنے گُناہوں میں مرتا ہے، یعنی جسمانی موت مرتا ہے، رُوحانی طور پر بھی مر جائے گا، ہاں، راست بازی کی باتوں کی بابت وہ مُردہ ہو جائے گا۔

۱۷ پھر وہ وقت آئے گا جب اُن کا عذاب آگ اور گندھک کی جِھیل کی مانِند ہو گا، جس کا شُعلہ اَبَد اور ہمیشہ تک بُلند رہے گا؛ اور تب اُس وقت وہ شَیطان کی طاقت اور اَسیری کے مُطابق دائمی ہلاکت کی زنجِیروں میں باندھے جائیں گے، کیوں کہ اُس نے اپنی مرضی کے مُوافِق اُنھیں تابع کِیا ہے۔

۱۸ پھر، مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ وہ ایسے ہوں گے گویا کوئی مُخلصی دی ہی نہیں گئی تھی؛ پَس وہ خُدا کے اِنصاف کے مُوافِق نہ مُخلصی پا سکتے ہیں؛ اور نہ مر سکتے ہیں، چُوں کہ موت تو رہی نہیں ہے۔

۱۹ اب اَیسا ہُوا کہ جب ایلما نے اپنا کلام ختم کِیا تو لوگ اور بھی حیران ہونے لگے۔

۲۰ بلکہ ایک اینطیُونا جو اُن میں اعلیٰ سردار تھا، آگے بڑھا اور اُس سے کہا: یہ کیا ہے جو تُو کہتا ہے کہ اِنسان مُردوں میں سے جی اُٹھے گے اور اِس فانی حالت سے غیر فانی حالت میں بدل جائیں گے، چُوں کہ جان کبھی مر نہیں سکتی؟

۲۱ اِس صحیفہ کے کیا معنی ہیں جو کہتا ہے کہ خُدا نے باغِ عدن کے مشرق کی جانب کروبیوں اور گُھومنے والی شُعلہ زن تلوار کو رکھا، مبادا ہمارے پہلے والدین داخل ہوں اور زِندگی کے درخت کا پھل کھائیں، اور ہمیشہ زِندہ رہیں؟ اور اِس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ زِندہ رہنا اُن کے لِیے مُمکن نہ رہا۔

۲۲ اب ایلما نے اُس سے کہا: یہی وہ بات ہے جو مَیں بیان کرنے کو تھا۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ خُدا کے کلام کے مُوافِق آدم مُمنوعہ پھل کھانے سے زوال پذیر ہُوا اور یُوں ہم دیکھتے ہیں، اُس کے زوال پذیر ہونے سے کُل بنی نوع اِنسان گُم راہ ہو گئے اور زوال پذیر ہُوئے۔

۲۳ اور اب دیکھ مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں کہ اگر اُس وقت آدم کے لِیے شجرِ حیات کا پھل کھانا مُمکن ہو جاتا تو پھر موت نہ ہوتی اور کلام بے سُود ہو جاتا، خُدا کو جُھوٹا ٹھہراتا پَس اُس نے فرمایا: جِس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مَرا۔

۲۴ اور ہم دیکھتے ہیں کہ بنی نوع انسان پر موت آتی ہے، ہاں، وہ موت جِس کی بابت امیولک نے کہا جو جسمانی موت ہے؛ تو بھی اِنسان کو مُہلَت عطا کی گئی ہے جِس میں وہ تَوبہ کر سکے؛ پَس یہ زِندگی کیفیتِ کارِ آمُوزی ہے؛ خُدا سے مُلاقات کی تیاری کا وقت؛ اَزلی و اَبَدی حالت کے لِیے تیار ہونے کا وقت جِس کی بابت ہم نے کہا ہے جو کہ مُردوں کی قیامت کے بعد کا ہے۔

۲۵ اب، اگر مُخلصی کا منصُوبہ تیار نہ کِیا گیا ہوتا، جِس کی بُنیاد بِنائے عالم ہی سے رکھی گئی تھی، تو مُردوں کی قیامت ہو نہیں سکتی تھی؛ چُوں کہ مُخلصی کا منصُوبہ تیار کِیا جا چُکا تھا، جو مُردوں کی قیامت کو مُمکن بنائے گا، جِس کی بابت کہا گیا ہے۔

۲۶ اور اب دیکھ، اگر اَیسا مُمکن ہوتا کہ ہمارے پہلے والدین نے آگے بڑھ کر شجرِ حیات کا پھل کھا لِیا ہوتا تو تیاری کی مُہلَت نہ پا کر اُنھوں نے ہمیشہ کے لِیے بدبخت ہو جانا تھا؛ اور یُوں مُخلصی کا منصُوبہ کالعدم ہو جاتا، اور خُدا کا کلام باطِل قرار پاتا، یعنی بے تاثِیر ہو جاتا۔

۲۷ مگر دیکھ اَیسا بالکل نہ تھا؛ بلکہ اِنسان کے لِیے یہ مُقرّر کِیا گیا تھا کہ ضرُور ہے کہ وہ مرے؛ اور موت کے بعد، وہ ضرُور عدالت کے لِیے آئے، یعنی کہ وہی عدالت جِس کی بابت ہم نے کہا ہے، جو کہ آخِرت ہے۔

۲۸ اور خُدا نے اِن باتوں کو مُقرّر کر لینے کے بعد کہ یہ اِنسان کا مُقدّر ہیں، دیکھ، اُس نے پھر نظر کی کہ اِنسان کا اِن باتوں کی بابت جاننا فائدہ مند تھا، جو اُس نے اُن کے لِیے مُقرّر کی تھیں؛

۲۹ پَس اُس نے فرِشتوں کو اُن کے ساتھ ہم کلام ہونے کے لِیے بھیجا، جِنھوں نے بنی نوع اِنسان کو اُس کا جلال دِکھایا۔

۳۰ اور اُسی وقت سے وہ اِس کا نام پُکارنے لگے؛ پَس خُدا اِنسان کے ساتھ ہم کلام ہُوا، اور اُن پر نجات کا منصُوبہ آشکار کِیا، جو بنائے عالم سے تیار کِیا گیا تھا؛ اور یہ اُس نے اُن کے اِیمان اور تَوبہ اور پاک اَعمال کے مُوافِق اُن پر ظاہر کِیا۔

۳۱ پَس، اُس نے بنی نوع اِنسان کو اَحکام عطا کِیے، وہ پہلے حُکموں کے خِلاف پہلے ہی خطا کے مُرتکِب ہوگئے جو کہ دُنیاوی چِیزوں کی بابت تھے، اور خُداؤں کی مانِند بن گئے، نیکی اور بدی کو پہچاننے والے، خُود کو کیفیتِ عمل داری میں لے آئے، یعنی اپنے اپنے اِرادہ اور اپنی اپنی خُوشی کے مُوافِق عمل کرنے کی حالت میں رکھا گیا، کام کریں، خواہ بدی کا اِرتکاب کریں یا نیکی عمل میں لائیں—

۳۲ پَس، خُدا نے اُن پر مُخلصی کا منصوبہ ظاہر کرنے کے بعد، اُن کو حُکم عطا کِیے، تاکہ وہ بدی کے مُرتکب نہ ہوں، جِس کی سزا دُوسری موت رکھی گئی، جو کہ راست بازی کی باتوں کے حوالے سے دائمی موت تھی؛ پَس اَیسوں پر مُخلصی کے منصوبے کا فضل نہیں ہو سکتا، پَس خُدا کے افضل ترین کرم کے مُوافِق اِنصاف کے تقاضوں کو معدُوم نہیں کِیا جا سکتا۔

۳۳ مگر خُدا نے اپنے بیٹے کے نام پر لوگوں کو بُلا کر کہا: (یہ مُخلصی کا منصُوبہ تھا جو تیار کِیا گیا): اگر تُم تَوبہ کرو اور اپنے دِلوں کو سخت نہ کرو، تب مَیں تُم پر، اپنے اِکلوتے بیٹے کے وسِیلے سے رحم کرُوں گا۔

۳۴ پَس، جو کوئی تَوبہ کرے، اور اپنے دِل کو سخت نہ کرے، اُسے اپنے گُناہوں کی مُعافی کے لِیے میرے اِکلوتے بیٹے کے وسِیلے سے، میرا رحم پانے کا حق ہے؛ اور یہ میرے آرام میں داخل ہوں گے۔

۳۵ اور جو کوئی اپنے دل کو سخت کرے گا اور بدی کا مُرتکب ہو گا، دیکھو، مَیں اپنے قہر میں قسم کھاتا ہُوں، کہ وہ میرے آرام میں داخل نہ ہو گا۔

۳۶ اور اب، میرے بھائیو، دیکھو مَیں تُم سے کہتا ہُوں، اگر تُم اپنے دِلوں کو سخت کرو گے تو تُم خُداوند کے آرام میں داخل نہ ہو گے؛ پَس تُمھاری سِیہ کاری اُسے غُصّہ دِلاتی ہے اور وہ اپنا قہر تُم پر نازل کرتا ہے جس طرح قہرِ اَوّل میں کِیا، ہاں، اُس کے کلام کے مُوافِق قہرِ آخِر جَیسا کہ قہرِ اَوّل، تُمھاری جانوں کی دائمی ہلاکت کے مُوافِق؛ پَس، اُس کے کلام کے مُوافِق، آخِری موت نازِل ہوتی ہے جِس طرح پہلی ہُوئی۔

۳۷ اور اب میرے بھائیو، چُوں کہ ہم یہ باتیں جانتے ہیں، اور یہ سّچ ہیں، آؤ ہم تَوبہ کریں، اور اپنے دِلوں کو سخت نہ کریں تاکہ ہم خُداوند اپنے خُدا کے غصّے کو اپنے تیئں نہ اُبھاریں تاکہ وہ اپنے دُوسرے حُکموں کی نافرمانی کے سبب جو اُس نے ہمیں دِیے ہیں؛ اپنا غضب ہم پر نازِل نہ کرے بلکہ آؤ ہم خُدا کے آرام میں داخل ہوں جو اُس نے اپنے کلام کے مُوافِق تیار کِیا ہے۔