مجلسِ عامہ
مسِیح کی تعلیم کا پُرفضل و قادِر دائرہ
مجلسِ عامہ اپریل 2024


مسِیح کی تعلیم کا پُرفضل و قادِر دائرہ

مَیں آپ کو مسِیح کی تعلِیم پر بار بار عمل کرنے اور دُہرانے، اور شعُوری طور پر دعوت دیتا ہُوں اور دُوسروں کی اُن کے راستے میں مدد کریں۔

برسوں پہلے، روتھ، میری اَہلیہ، ہماری بیٹی، ایشلی، اور مَیں دیگر سیاحوں کے ساتھ امریکا کی ریاست ہَوائی میں کشتی رانی کے لِیے گئے تھے۔ کائیک ایک چھوٹی سی کشتی ہے جِس میں سوار آگے کی طرف منہ کر کے بیٹھتا ہے اور کشتی کو آگے کی طرف دھکیلنے کے لِیے چپُو کو باری باری دونوں اطراف سے چلاتا ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ اوآہو کے ساحل سے دُور دو چھوٹے جزیروں پر کشتی رانی کر کے جانا اور پِھر واپس آنا تھا۔ مَیں پُراعتماد تھا کیوں کہ، جوانی میں، مَیں پہاڑی جھیلوں میں کشتی رانی کر چُکا تھا۔ غرُور کبھی پسندِیدہ نہیں ہوتا، واقعی؟

ہمارے گائیڈ نے ہمیں ہدایات دیں اور ہمیں چھوٹی سَمُندری کشتیاں دِکھائیں جِن کو ہم نے اِستعمال کرنا تھا۔ وہ اُن سے مُختلف تھیں جِن کو مَیں پہلے اِستعمال کر چُکا تھا۔ مُجھے اِس کے اندر بیٹھنے کی بجائے چھوٹی کشتی کے اُوپر بیٹھنا تھا۔ جب مَیں کشتی پر سوار ہُوا تو میرا مرکزِ کششِ ثقل اِس سے زیادہ تھا جِس کا مَیں عادی نہیں تھا، اور مَیں پانی میں کم مستحکم تھا۔

جُوں ہی ہم نے آغاز کِیا، مَیں نے رُوتھ اور اَیشلی سے زیادہ تیزی سے چپُو چلائے۔ تھوڑی دیر بعد، مَیں اُن سے بُہت آگے تھا۔ اَلبتہ اپنی سُبک رفتاری پر فخر کرتے ہُوئے، مَیں نے چپُو چلانے چھوڑ دیے اور اُن کے پُہنچنے کا اِنتظار کیا۔ ایک بڑی لہر—اِنتہائی بڑی، تقریباً 13 سینٹی مِیٹر1—میری کشتی کے کنارے سے ٹکرائی اور مُجھے پانی میں اُلٹا دِیا۔ جب تک مَیں نے کشتی کو سِیدھا کِیا اور اِس پر سوار ہونے کی کوشش کر رہا تھا، روتھ اور اَیشلی میرے پاس سے گُزر چکی تھیں، لیکن مُجھے دوبارہ چُپو چلانے کی فکر تھی۔ اِس سے پہلے کہ مَیں اپنی سانسیں سنبھال پاتا، ایک اور لہر، واقعی بُہت بڑی—کم از کم 20 سینٹی میٹر2—میری کشتی سے ٹکرائی اور مُجھے دوبارہ اُلٹا دِیا۔ جب تک مَیں کشتی کو سِیدھا کر پانے میں کامیاب ہُوا، میری سانسیں پُھول چُکی تھیں اور مُجھے ڈر تھا کہ مَیں سوار نہیں ہو پاؤں گا۔

میری صُورتِ حال کو دیکھ کر، گائیڈ اپنی کشتی میں میرے پاس آیا، میری کشتی کو مضبُوطی سے پکڑا، جِس سے میرے لیے اِس پر چڑھنا آسان ہو گیا۔ جب اُس نے دیکھا کہ مَیں ابھی تک دم بخُود تھا اور چپُو نہیں چلا پا رہا تھا، تو اُس نے میری کشتی کو اپنی کشتی سے رسّی سے باندھا اور چپُو چلانے لگا، اِس طرح وہ اپنی کشتی کے ساتھ ساتھ میری کشتی کو بھی کھینچ رہا تھا۔ جلد ہی مَیں نے اپنی سانسوں پر قابُو پا لِیا اور اپنے چپُوؤں کو مناسب انداز سے چلانا شُروع کر دِیا۔ اُس نے رسی کو کھول دِیا، اور مَیں مزید مدد کے بغیر پہلے جزیرے پر پُہنچ گیا۔ وہاں پُہنچتے ہی، مَیں تھکا ہارا ریت پر لیٹ گیا۔

گروپ کے آرام کرنے کے بعد، گائیڈ نے خامُوشی سے مُجھ سے کہا، ”مسٹر۔ رینلنڈ، اگر آپ اپنی رفتار کو برقرار رکھتے ہُوئے چپُو چلاتے رہتے، تو میرے خیال میں آپ کے لِیے بہتر ہوتا۔“ مَیں نے اُس کی نصیحت پر عمل کِیا جِس دوران ہم دُوسرے جزیرے پر پُہنچے اور پھر اپنے نقطہِ آغاز پر واپس آ گئے۔ دو بار گائیڈ میری کشتی کے پاس سے گُزارا اور مُجھے کہا کہ مَیں اچھی کشتی رانی کر رہا تھا۔ اِس سے بھی بڑی بڑی لہریں میری کشتی کی اطراف سے ٹکراتی تھیں، لیکن مُجھے اُلٹا نہ سکیں۔

لگاتار چپُو چلانے سے، مَیں نے اپنی رفتار کو برقرار رکھا، اور اطراف سے ٹکرانے والی لہروں کے اثرات کو کم کرتے ہُوئے آگے بڑھتا رہا۔ یہی اُصُول ہماری رُوحانی زندگی میں بھی لاگُو ہوتا ہے۔ جب ہم سُست ہو جاتے ہیں اور خاص طور پر جب ہم رُک جاتے ہیں تو ہم کم زور ہو جاتے ہیں۔3 اگر ہم نجات دہندہ کی طرف مُسلسل ”کشتی چلاتے“ ہوئے رُوحانی رفتار کو برقرار رکھتے ہیں، تو ہم زیادہ محفُوظ اور زیادہ مضبُوط ہو جاتے ہیں کیوں کہ ہماری اَبَدی زِندگی اُس پر ہمارے اِیمان پر مُنحصر ہے۔4

رُوحانی رفتار اُس وقت پیدا ہوتی ہے ”جب ہم ساری عُمر لگاتار مسِیح کی تعلیم کو قبُول کرتے ہیں۔“5 اَیسا کرنے سے، صدر رسل ایم نیلسن نے سِکھایا، کہ ”پُرفضل و قادِر دائرہ“ وجُود میں آتا ہے۔6 درحقیقت، مسِیح کی تعلِیم کے عناصر مثلاً خُداوند یِسُوع مسِیح پر اِیمان، تَوبہ، بپتِسما کے ذریعے سے خُداوند کے ساتھ عہد کا رِشتہ جوڑنا، رُوحُ القُدس کی نعمت کو پانا، اور آخِر تک برداشت کرنا7—اَیسے واقعات کا فقط ایک بار تجربہ پانا، اور کارِ امور کی فہرست سے مِٹا دینا مقصد نہیں ہے۔ بالخصُوص، ”آخِر تک برداشت کرنا“ مسِیح کی تعلیم میں کوئی الگ سے اِقدام نہیں ہے—جَیسے ہی ہمارے پہلے چار عناصر مُکمل ہوتے ہیں اور پھر دبک کر بیٹھتے ہیں، اپنے دانت پِیستے ہیں، اور مرنے کا اِنتظار کرتے ہیں۔ نہیں، آخِر تک برداشت کرنا بار بار اور لگاتار مسِیح کی تعلِیم کے دُوسرے عناصر کو بھی اپنانا ہے، جیسے صدر نیلسن نے فرمایا کہ ”پُرفضل و قادِر دائرہ“ کی تخلیق ہوتی ہے۔8

بار بار کا مطلب یہ ہے کہ ہم مسِیح کی تعلِیم کے عناصر کے تجربے کو لگاتار اپنی ساری عُمر دُہرائیں۔ دُہرائی کا مطلب ہے کہ ہم ہر بار اَیسا کرنے سے بہتر اور مضبُوط ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہم عناصر کو دُہراتے ہیں، تو ہم صِرف دائروں میں نہیں گھوم رہے ہوتے بلکہ ہم آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ، ہر بار دائرہ کو دُہرا کر ہم یِسُوع مسِیح کے اور قریب آتے ہیں۔

زوردار تحریک میں سِمت اور رفتار دونوں شامِل ہیں۔9 اگر مَیں کشتی کو غلط سمت میں زور زور سے چپُو چلا کر لے گیا ہوتا، تو مَیں نے خاصی تیز رفتار پکڑ لی ہوتی، لیکن مَیں منزلِ مقصُود تک نہ پُہنچ پاتا۔ اِسی طرح، زِندگی میں، ہمیں نجات دہندہ کی جانب ”کشتی چلانے“ کی ضرُورت ہے تاکہ اُس کے پاس آئیں۔10

یِسُوع مسِیح پر ہمارے اِیمان کو ہر روز پرورش پانے کی ضرُورت ہے۔11 یہ اُس وقت پرورش پاتا ہے جب ہم روزانہ دُعا کرتے ہیں، روزانہ صحائف کا مُطالعہ کرتے ہیں، روزانہ خُدا کی فضِیلت پر غَور و فکر کرتے ہیں، روزانہ توبہ کرتے ہیں، اور روزانہ رُوحُ القُدس کی ترغِیبوں پر عمل کرتے ہیں۔ جِس طرح اپنی ساری خُوراک کو اِتوار تک رکھ چھوڑنا اور پھر پُورے ہفتہ کی غذا کو ایک ہی دفعہ کھانا صحت کے لِیے اچھا نہیں ہے، اُسی طرح یہ رُوحانی صحت کے لِیے بھی اچھا نہیں ہے کہ ہم اپنے گواہی دینے والے رویے کو ہفتے کے ایک دِن تک محدُود رکھیں۔12

جب ہم اپنی اپنی گواہی کی ذِمہ داری قبُول کرتے ہیں،13 تو ہم رُوحانی رفتار حاصل کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ یِسُوع مسِیح پر ٹھوس اِیمان بڑھاتے ہیں، اور مسِیح کی تعلِیم زِندگی کے مقصد کا مرکز بن جاتی ہے۔14 جَیسے جَیسے ہم تَوبہ کرتے اور خُدا کے قوانین کی فرماں برداری کرتے ہیں ویسے ویسے رفتار بڑھتی جاتی ہے۔ تَوبہ خُوشی بخش ہے اور ہمیں اپنی غلطیوں سے سِیکھنے کا موقع دیتی ہے، اِسی طرح ہم اَبَدی ترقی کرتے ہیں۔ بلاشبہ ہم پر اَیسے وقت بھی آئیں گے جب ہماری کشتیاں اُلٹ جائیں گی اور ہم خُود کو گہرے پانی میں پائیں گے۔ تَوبہ کے ذریعے سے، ہم واپس اِس پر سوار ہو سکتے ہیں اور اپنا سفر جاری رکھ سکتے ہیں، چاہے ہم کتنی ہی بار گِرتے ہیں۔15 اہم بات یہ ہے کہ ہم ہمت نہ ہاریں۔

مسِیح کی تعلِیم کا اگلا عُنصر بپتِسما ہے، جِس میں پانی کا بپتِسما اور، استحکام کے ذریعے سے، رُوحُ القُدس کا بپتِسما شامل ہے۔16 حالاں کہ بپتِسما واحد واقعہ ہے، جب ہم عِشائے ربانی میں شرِیک ہوتے ہیں تو ہم اپنے بپتِسما کے عہد کی بار بار تجدید کرتے ہیں۔ عِشائے ربانی بپتِسما کی جگہ نہیں لیتی، لیکن یہ مسِیح کی تعلِیم کے اِبتدائی عناصر—اِیمان اور تَوبہ—کو رُوحُ القُدس کے اِنعام سے جوڑتی ہے۔17 جب ہم دیانت داری کے ساتھ عِشائے ربانی میں شرِیک ہوتے ہیں،18 تو ہم رُوحُ القُدس کو اپنی زِندگیوں میں مدعو کرتے ہیں، بالکل اُسی طرح جب ہم نے بپتِسما لیا تھا اور اِستحکام پایا تھا۔19 جب ہم عِشائے ربانی کی دُعاؤں میں بیان کردہ عہد پر عمل کرتے ہیں، تو رُوحُ القُدس ہمارا رفِیق بن جاتا ہے۔

جب رُوحُ القُدس ہماری زِندگیوں پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، تو ہم آہستہ آہستہ اور مُسلسل مسِیح جیسی صفات کو فروغ دیتے ہیں۔ ہمارے دِل بدل جاتے ہیں۔ برائی کرنے کا ہمارا رُجحان کم ہو جاتا ہے۔ ہمارا نیکی کرنے کا شَوق اُس وقت تک بڑھتا جاتا ہے جب تک فقط ہم ”مسلسل نیکی کرنا“ نہ چاہیں گے۔20 اور اِس طرح ہم آخِر تک برداشت کرنے کے لیے درکار آسمانی قُدرت تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔21 ہمارا اِیمان بڑھ چُکا ہے، اور ہم اُس پُرفضل و قادِر دائرے کو پھر سے دُہرانے کے لِیے تیار ہوتے ہیں۔

آگے بڑھنے والی رُوحانی رفتار ہمیں خُدا کے گھر میں خُدا کے ساتھ مزید عہُود باندھنے کی ترغیب دیتی ہے۔ مُتعدد عہُود ہمیں مسِیح کے قریب لاتے ہیں اور ہمیں اُس کے ساتھ زیادہ مضبُوطی سے جوڑتے ہیں۔ اِن عہُود کے ذریعے سے، ہم اُس کی اَبَدی قُدرت تک رسائی پاتے ہیں۔ واضح طور پر، بپتِسما اور ہَیکل کے عہُود، اپنے بطن میں اور بذاتِ خُود، طاقت کا سرچشمہ نہیں ہیں۔ طاقت کا سر چشمہ خُداوند یِسُوع مسِیح اور ہمارا آسمانی باپ ہے۔ عہد باندھنا اور قائم رکھنا ہماری زِندگیوں میں اُن کی قُدرت کے لِیے راہ تیار کرتے ہیں۔ جب ہم اِن عہُود کے مُطابق زِندگی بسر کرتے ہیں، تو ہم بالآخِر اُن تمام چِیزوں کے وارِث بن جاتے ہیں جو آسمانی باپ کی ہیں۔22 مسِیح کی تعلِیم کے مُطابق زِندگی بسر کرنے سے پیدا ہونے والی رفتار نہ صرف ہماری اِلہٰی فطرت کو ہماری اَبَدی تقدیر میں تبدیل کرنے کی تقویت دیتی ہے، بلکہ یہ ہمیں مناسب طریقوں سے دُوسروں کی مدد کرنے کی تحریک بھی عطا کرتی ہے۔

غَور کریں کہ کشتی کے اُلٹنے کے بعد گائیڈ نے میری کس طرح مدد کی۔ اُس نے بڑی دُور سے چِلا کر فضُول سوال نہیں پُوچھا، مثلاً، ”مسٹر رینلنڈ، آپ پانی میں کیا کر رہے ہیں؟“ اُس نے میرے پاس آ کر ملامت کرتے ہُوئے، یہ نہیں کہا، ”مسٹر رینلنڈ، اگر آپ جسمانی طور پر زیادہ فِٹ ہوتے تو آپ اَیسی صُورتِ حال سے دوچار نہ ہوتے؟“ اُس نے میری کشتی کو اُس وقت کھینچنا شُروع نہیں کیا جب مَیں اِس پر سوار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُس نے گرُوپ کے سامنے مُجھے تاکید نہیں کی۔ بلکہ، اُس نے میری اُس وقت مدد کی جب مُجھے اِس کی ضرُورت تھی۔ اُس نے مُجھے اُس وقت ہدایت دی جب مَیں قبُول کرنے کے لِیے تیار تھا۔ اور اُس نے آگے بڑھ کر مُجھے حوصلہ بھی دِیا۔

جب ہم دُوسروں کی خِدمت کرتے ہیں، ہمیں فضُول سوالات پُوچھنے یا عمومی باتیں کرنے کی ضرُورت نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ جو مُصِیبت میں مُبتلا ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ مُصِیبت میں گِھرے ہُوئے ہیں۔ ہمیں عدالت نہیں کرنی چاہیے؛ ہماری عدالت کرنا مددگار ثابت نہیں ہوتی یا قبُول نہیں کی جاتی اور اکثر معلُومات غلط ہوتی ہیں۔

دُوسروں سے اپنا موازنہ کرنا ہمارے لیے بُہت بڑی غلطیاں کرنے کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر اگر ہم یہ نتیجہ اخذ کریں کہ ہم مُصِیبت میں مُبتلا لوگوں سے زیادہ راست باز ہیں۔ اِس طرح کا موازنہ کرنا یہ ایسے ہی ہے جَیسے خُود تین میٹر23 گہرے پانی میں لاچاری سے دُوب رہے ہوں، چار میٹر24 گہرے پانی میں کسی دُوسرے کو دُوبتے ہُوئے دیکھ دیکھ کر، اپنے سے کسی زیادہ بڑے گُناہ گار کی عدالت کرنا، اور اپنے بارے میں اچھا محسُوس کرنا ہو۔ اِس کے باوجُود، ہم سب کسی نہ کسی حوالہ سے کش مکش کا شِکار ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی نجات نہیں کماتا۔25 ہم کبھی نہیں کما سکتے۔ مورمن کی کِتاب میں، یعقُوب نے سِکھایا، ”یاد رکھو، خُدا کے ساتھ [ہمارے] میل ملاپ کے بعد، صِرف اور صِرف خُدا کے فضل کے وسِیلے سے [ہم] بچائے جاتے ہیں۔“26 ہم سب کو نجات دہندہ کے لامحدود کَفارہ کی ضرُورت ہے، نہ کہ صرف اُس کے کُچھ حِصّے کی۔

جب ہم اپنے آس پاس کے لوگوں سے میل ملاپ کرتے ہیں تو ہمیں اپنی پُوری ہمدردی، دردمندی اور محبّت کی ضرُورت ہوتی ہے۔27 جو کسی کش مکش کا شِکار ہیں اُنھیں ”یِسُوع مسِیح کے سچّے عِشق کا احساس پانے کی ضرُورت ہے جو [ہماری] باتوں اور کاموں سے ظاہر ہوتا ہے۔“28 جب ہم خِدمت انجام دیتے ہیں، تو اکثر دُوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مدد فراہم کرتے ہیں۔ اگر کوئی اِس کو قبُول نہیں کرتا، پھر بھی ہم اُن کی خِدمت کرنا جاری رکھتے ہیں جِس قدر وہ اِجازت دیں۔ نجات دہندہ نے سِکھایا کہ ”پَس تُو اَیسوں کی خِدمت کرتے رہنا؛ پَس تُو نہیں جانتا کہ کب وہ واپس آئیں گے اور تَوبہ کریں گے، اور اپنے پُورے دِل کے ساتھ میرے پاس آئیں گے، اور مَیں اُنھیں شِفا دُوں گا؛ اور تُو اُن کے واسطے نجات لانے کا وسِیلہ بنے گا۔“29 نجات دہندہ کا کام شِفا دینا ہے۔ ہمارا فرض محبّت کرنا ہے—اِس طرح محبّت کرنا اور خِدمت کرنا کہ دُوسرے یِسُوع مسِیح کی طرف کِھینچے چلے آئیں۔ یہ مسِیح کی تعلیم کے پُرفضل دائرہ کی قُدرت کے پھلوں میں سے ایک ہے۔

مَیں آپ کو مسِیح کی تعلِیم پر بار بار عمل کرنے اور دُہرانے، اور شعُوری طور پر دعوت دیتا ہُوں اور دُوسروں کی اُن کے راستے میں مدد کریں۔ میں گواہی دیتا ہُوں کہ مسِیح کی تعلِیم آسمانی باپ کے منصُوبے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے؛ یہ، آخِر کار، اُسی کی تعلِیم ہے۔ جب ہم یِسُوع مسِیح اور اُس کے کَفارہ پر اِیمان کا مُظاہرہ کرتے ہیں، تو ہم عہد کے راستے پر چلتے ہیں اور یِسُوع مسِیح کے بااِیمان شاگرد بننے میں دُوسروں کی مدد کرنے کے لیے ہمت پاتے ہیں۔ ہم آسمانی باپ کی بادِشاہی میں وارِث بن سکتے ہیں، جو مسِیح کی تعلِیم پر اِیمان داری سے زِندگی گُزارنے کی معراج ہے۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔