مجلسِ عامہ
اُٹھ! وہ تُجھے بُلاتا ہے
مجلسِ عامہ اپریل 2024


اُٹھ! وہ تُجھے بُلاتا ہے

اِنجیل چنوتیوں اور مسائل سے بچنے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ ہمارے ایمان کو بڑھانے اور یہ سیکھنے کا ایک حل ہے کہ اُن سے کیسے نپٹنا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے، مَیں نے اپنی بیوی سے پوچھا، ”کیا آپ مُجھے بتا سکتی ہو، جہان تک مُجھے یاد پڑتا ہے، ہماری زندگیوں میں کبھی کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہیں آیا؟“

اُس نے مجھے دیکھا اور کہا، ”ضرور! میں آپ کو بتاؤں گی کہ کیوں ہمیں کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہیں آیا؛ ایسا اِس لیے ہے کیونکہ آپ کی یاد داشت نہایت کمزور ہے!“

اُس کے فوری اور دانشمندانہ جواب نے مُجھے محسوس کرنے میں مدد دی کہ یِسُوع مسِیح کی اِنجیل پر عمل کرنا اُس درد اور اُن مسائل کو ختم نہیں کرتا، جو کہ فروغ پانے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

اِنجیل چنوتیوں اور مسائل سے بچنے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ ہمارے ایمان کو بڑھانے اور یہ سیکھنے کا ایک حل ہے کہ اُن سے کیسے نپٹنا ہے۔

اِس حقیقت کا مُجھے چند ماہ پہلے احساس ہُوا جب مَیں ایک دِن پیدل چل رہا تھا، اور اچانک سے میری نظر دھندلی، تاریک، اور لہری ہو گئی۔ مَیں ڈر گیا۔ تب، ڈاکٹروں نے مُجھے بتایا، ”اگر آپ نے فوری علِاج شروع نہ کرایا، تو آپ ہفتوں کے اندر اپنی بصارت کھو دیں گے۔“ میں مزید خوف زدہ ہو گیا۔

اور پھر، اُنہوں نے کہا: ”آپ کو آنکھوں کے ٹیکے لگوانے کی ضرورت ہے—آنکھوں میں بالکل کھلی آنکھوں میں—ہر چار ہفتے بعد، اپنی باقی ماندہ زندگی ٹیکے لگوانے ہیں۔“

یہ ایک جنجھوڑنے والی تکلیف دہ بات تھی۔

پھر ایک سوال کی صورت میں یہ سوچ آئی۔ مَیں نے خُود سے پوچھا: ”ٹھیک ہے! میری جسمانی بصارت اچھی نہیں ہے، لیکن میری رُوحانی بصارت کا کیا؟ کیا مُجھے وہاں بھی علِاج کی ضرورت ہے؟ اور شفاف رُوحانی بصارت رکھنے سے کیا مُراد ہے؟“

مُیں نے، مرقس کی اِنجِیل میں بیان کردہ، برتِمائی نامی، نابینا آدمی کی کہانی پر غور کیا۔ صحائف بتاتے ہیں، ”اور وہ یہ سُن کر کہ یِسُوع ناصری ہے چِلاّ چِلاّ کر کہنے لگا، اے ابنِ داؤد، اے یِسُوع، مُجھ پر رحم کر۔“1

تکنیکی طور پر، بہت سوں کی نظر میں، یِسُوع صرف یوسف کا بیٹا تھا، لہذا برتِمائی نے اُسے ”ابن داؤد“ کیوں پکارا؟ صرف اِس لیے کیوں کہ اُس نے پہچان لیا تھا کہ یِسُوع درحقیقت ممسوح تھا، جس کی داؤد کی نسل سے پیدا ہونے کی نبوت کی گئی تھی۔2

یہ دلچسپ ہے کہ وہ نابینا آدمی، جس کی جسمانی بصارت نہیں تھی، یِسُوع کو پہچان گیا۔ اُس نے رُوحانی طور پر وہ دیکھا جو وہ جسمانی طور نہیں دیکھ سکتا تھا، اگرچہ بہت سے یِسُوع کو جسمانی طور پر دیکھ سکتے تھے مگر رُوحانی طور پر مکمل طور پر نابینا تھے۔

اِس کہانی سے ہم شفاف روحانی بصارت کے متعلق مزید سیکھتے ہیں۔

ہم پڑھتے ہیں، ”اور بہتوں نے اُسے ڈانٹا کہ چپ رہے: مگر وہ اور بھی زیادہ چِلاّیا، کہ اے ابنِ داؤد، مُجھ پر رحم کر۔“3

اُس کے آس پاس کے سب لوگ اُسے چُپ کروا رہے تھے، مگر وہ اور شدت سے چِلاّیا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ یِسُوع دراصل کون تھا۔ اُس نے اُن آوازوں کو اَن سُنا کیا اور زیادہ شدت سے چِلاّیا۔

اُس نے عمل کیا اِس کی بجائے کہ اُس پر عمل کیا جاتا۔ اپنے محدود حالات کے باوجود، اُس نے اپنی کمزوریوں سے آگے بڑھنے کے لیے اپنے ایمان کا استعمال کیا۔

پَس، پہلا اُصُول جو ہم سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم شفاف رُوحانی بصارت کے حامل تب ہوتے ہیں جب ہم یِسُوع مسِیح پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور ہم اُس سے وفادار رہتے ہیں جو ہم جانتے ہیں کہ سچ ہے۔

بھائیو اور بہنو، اپنی رُوحانی بصارت کو برقرار رکھنے کے لیے، ہمیں اپنے ارد گرد کی آوازوں کو نہ سُننے کا فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس اُلجھی ہوئی اور الجھانے والی دُنیا میں، ہمیں اُس سے وفادار رہنا چاہیے جو ہم جانتے ہیں، اپنے عہود سے وفادار، احکام کی بجاآوری میں وفادار، اور اپنے عقائد کی، اُس آدمی کی مانند مزید مضبوط تر، از سر نو توثیق کریں۔ ہمیں مزید بلند آواز سے خُداوند کی اپنی گواہی دُنیا کو بتانے کی ضرورت ہے۔ یہ آدمی یِسُوع کو جانتا تھا، جس پر وہ ایمان رکھتا تھا اُس سے وفادار رہا، اور اپنے ارد گرد کی آوازوں کی بدولت اپنا دھیان نہ بھٹکایا۔

آج یہاں بہت سی آوازیں ہیں جو یِسُوع مسِیح کے شاگردوں کی حیثیت سے ہماری آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دُنیا کی آوازیں ہمیں خاموش کرانے کی کوشش کررہی ہیں، مگر یہ بالکل اِسی لیے ہے کیوں کہ ہمیں مُنجّی کے متعلق اپنی گواہیوں کا زیادہ بلند اور مضبوط آواز سے اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ دُنیا کی تمام آوازوں کے مابین، خُداوند ہماری گواہیوں کا اعلان کرنے، اپنی صدائیں بلند کرنے، اور اُس کی آواز بننے کے لیے ہم پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے، کون یِسُوع مسِیح کی گواہی دے گا۔ کون اُس کا نام پکارے گا اور اُس کے الہٰی مشن کا پرچار کرے گا؟

یِسُوع مسِیح کے بارے ہمارے علم کی بدولت ہم پر ایک رُوحانی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

مگر برتِمائی نے اِس کے بعد کیا کِیا؟

خُداوند کے اُٹھنے کے حکم پر، اُس نے پھر سے ایمان کے ساتھ عمل کیا۔

صحائف بتاتے ہیں، ”اور وہ، اپنا کپڑا پھینک کر، اُچھل پڑا، اور یِسُوع کے پاس آیا۔“4

یہ فروتن اور وفادار آدمی سمجھ گیا تھا کہ وہ یِسُوع کے فرمان سے ایک بہتر زندگی کے لیے اوپر اُٹھ سکتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اپنے حالات سے بہتر تھا، اور سب سے پہلا کام جو اُس نے کیا جب اُس نے یِسوع کو اُسے پکارتے ہوئے سُنا اُس نے اپنا بھیک مانگنے والا کپڑا پھینک دیا۔

پھر سے اُس نے عمل کیے جانے کی بجائے عمل کیا۔

اُس نے سوچا ہو گا، ”مُجھے اِس کی مزید ضرورت نہیں، چونکہ اب یِسوع میری زندگی میں آ چُکا ہے۔ یہ نیا دِن ہے۔ مَیں مصیبت کی زندگی جی چُکا ہوں۔ مَیں یِسُوع کے ساتھ، اُس کے ہمراہ، اور اُس کے ذریعے نئے خُوش و خرم جیون کی شروعات کر سکتا ہُوں۔ اور دُنیا میرے بارے میں کیا سوچتی ہے مُجھے اِس کی پراہ نہیں ہے۔ یِسُوع مُجھے بُلا رہا ہے، اور نیا جیون گزارنے میں وہ میری مدد کرے گا۔“

یہ نہایت شاندار تبدیلی ہے!

جیسے ہی اُس نے اپنا بھیک والا جھولا پھینکا، اُس نے سارے بہانوں سے نجات پا لی۔

اور یہ دُوسرا اُصُول ہے: ہم شفاف رُوحانی بصارت کے حامل ہوتے ہیں جب ہم نفسانی آدمی کو پیچھے چھوڑتے، توبہ کرتے، اور مسِیح میں ایک نئے جیون کا آغاز کرتے ہیں۔

ایسا کرنے کا طریقہ یِسُوع مسِیح کے ذریعے ایک بہتر زندگی کی طرف اٹھنے کے لیے عہُود باندھنا اور اُن پر عمل کرنا ہے۔

جتنی دیر ہم اپنے حالات اور مسائل اور اپنی زندگیوں میں واقع ہونے والی تمام بُری باتوں پر افسوس کرنے کے بہانے بناتے رہیں گے، اور حتٰی کہ اُن تمام بُرے لوگوں کے بارے میں رنجیدہ رہیں گے جو ہم سوچتے ہیں ہمیں ناخوش کرتے ہیں، ہم بِھیک کا جھولا اپنے کندھوں پر اُٹھائے رکھتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بعض اوقات لوگ، جانے انجانے میں ہمیں تکلیف پہنچاتے ہیں۔ مگر ہمیں یِسُوع پر ایمان کے ساتھ ذہنی اور جذباتی جھولے کو اُتار پھینکنے کا فیصلہ کرنے کے لیے عمل کرنے کی ضرورت ہے جس کو ہم اپنے بہانے یا گناہ چھپانے کے لیے ابھی تک پہنے پھرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ وہ ہمیں شِفا دے سکتا ہے اور دے گا۔

یہ کہنے کا کبھی کوئی اچھا بہانہ نہیں ہے، ”مَیں اِیسا چند بد قسمت یا ناخوشگوار حالات کی بدولت ہُوں۔ اور مَیں بدل نہیں سکتا، اور مَیں حق بجانب ہوں۔“

جب ہم اِس انداز میں سوچتے ہیں، ہم خُود پر عمل کیے جانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ہم بھکاری کا جھولا اُٹھائے رہتے ہیں۔

ایمان سے عمل کرنے سے مُراد ہے اپنے مُنجّی پر بھروسا کرنا، یقین رکھتے ہوئے کہ اُس کے کفارہ کے ذریعے، ہم اُس کے حکم سے ہر چیز سے اوپر اُٹھ سکتے ہیں۔

تیسرا اُصُول آخری چار اَلفاظ مِیں ہے: ”[وہ] یِسُوع کے پاس آیا۔“

وہ یِسوع کے پاس کیسے جا سکتا تھا حالانکہ وہ نابینا تھا؟ واحد طریقہ اُس کی آواز کو سُنتے ہوئے یِسُوع کی طرف چل کر جانا تھا۔

اور یہ ہے تیسرا اصُول: ہم شفاف رُوحانی بصارت تب رکھتے ہیں جب ہم خُداوند کی آواز کو سُنتے ہیں اور اُسے اپنی راہ نُمائی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

بالکل اُس آدمی کی طرح جس نے اپنی آواز کو اپنے ارد گرد کی تمام آوازوں سے بلند کیا، وہ اُن تمام آوازوں کے درمیان میں خُداوند کی آواز کو سُننے کے قابل ہُوا۔

یہ ویسا ہی ایمان ہے جس نے پطرس کو پانی پر چلنے کی اجازت دی جتنی دیر اُس نے اپنی روحانی توجہ خُداوند پر مرکوز رکھی اور اپنے گرد کی آندھیوں کو اپنا دھیان نہ بھٹکانے دیا۔

اور پھراِس نابینا شخص کی کہانی اِن الفاظ کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے ”وہ فی الفور بینا ہو گیا اور وہ راہ میں اُس کے پیچھے ہو لیا۔“5

اِس کہانی میں اہم ترین اسباق میں سے ایک یہ ہے کہ اِس شخص نے یِسُوع مسِیح پر حقیقی ایمان کا مظاہرہ کیا اور معجزہ پایا کیوں کہ اُس نے نیک نیتی سے مانگا تھا، اُس کی نیک نیتی سے پیروی کرنے کے واسطے۔

اور یِسُوع مسِیح کی پیروی کرنا، ہماری زندگیوں میں برکات پانے کی حتمی وجہ ہے۔ یہ اُسے پہچاننے کے متعلق ہے، خُدا کے ساتھ عہد باندھنا اور پورا کرنا اُس کی بدولت، اُس کے ذریعے اپنی فطرت کو بدلنا، اور اُس کی پیروی کرتے ہوئے آخر تک برداشت کرنا۔

میرے لیے، شفاف رُوحانی بصارت رکھنا یِسُوع مسِیح پر توجہ مزکور رکھنا ہے۔

پس ، کیا میری رُوحانی بصارت شفاف ہے، جیسے میں اپنی آنکھوں میں ٹیکے لگواتا ہُوں؟ خیر یہ کہنے والا مَیں کون ہوں؟ مگر مَیں اُس کے لیے شکر گزار ہُوں جو میں دیکھتا ہوں۔

مَیں اِس کارِ مُقدس اور اپنی زندگی میں خُداوند کے ہاتھ کو واضح طورپر دیکھتا ہُوں۔

میں بہت سوں کے ایمان کو دیکھتا ہُوں جہاں کہیں بھی جاتا ہُوں جو میرے اپنے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں۔

مَیں اپنے ارد گرد فرشتوں کو دیکھتا ہُوں۔

مُیں بہت سوں کے ایمان کو دیکھتا ہُوں جو خُداوند کو جسمانی طور نہیں دیکھتے مگر رُوحانی طور پر اُسے پہچانتے ہیں، کیونکہ وہ اُسے قریب سے جانتے ہیں۔

مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ یہ اِنجیل ہر بات کا جواب ہے، کیوں کہ یِسُوع مسِیح ہر کسی کے لیے جواب ہے۔ مَیں اُس سب کے لیے شُکر گُزار ہوں جو مَیں دیکھ سکتا ہوں جب میں اپنے مُنجّی کی پیروی کرتا ہُوں۔

میں وعدہ کرتا ہوں کہ جب ہم خُداوند کی آواز کو سُنتے ہیں اور اُسے نجات دہندہ کے عہد کے راستے پر اپنی راہ نمائی کرنے کی اجازت دیتے ہیں، تو ہمیں ہماری پوری زندگیوں میں واضح بصارت، رُوحانی فہم، اور دل و دماغ کے اطمینان کی برکت ملے گی۔

کاش ہم، اُس کے بارے میں اپنی گواہیاں اپنے اردگرد کی آوازوں سے زیادہ بلند آواز میں بتائیں، ایسی دُنیا میں جِسے یِسُوع مسِیح کو زیادہ سُننے کی ضرورت ہے اور کم نہیں۔ کاش ہم بھکاری کے اُس جھولے کو اُتار پھینکیں جِسے ہم ابھی تک پہنے ہوئے ہیں اور مسِیح میں اور اُس کے ذریعے بہتر تر زندگی میں اِس دُنیا سے اُوپر اُٹھیں۔ کاش ہم یِسُوع مسِیح کی پیروی نہ کرنے کے تمام بہانوں سے چھٹکارا حاصل کریں اور اُس کی پیروی کرنے کی تمام تر اچھی وجوہات کو پائیں جب ہم اُس کی آواز سُنتے ہیں۔ یہ میری دُعا ہے یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔