مجلسِ عامہ
ہر چیز میں تضاد
مجلسِ عامہ اپریل 2024


ہر چیز میں تضاد

اپنی مختاری کی مشق کرنے کے قابل ہونے کے لیے، ہمیں متضاد انتخابات کو زیر غور لانے کی ضرورت ہے۔

حال ہی میں، ہمارے لیے ایک انجان شہر میں گاڑی چلانے کے دوران، مَیں نے نادانستہ طور پر ایک غلط موڑ لیا، جو مجھے اور میری اہلیہ کو ایک ایسے ایکسپرس ہائی وے پر لے گیا جہاں لامحدود میلوں تک گھوم کر واپس آنے کا کوئی موڑ تھا ہی نہیں۔ ہمیں ایک مہربان دوست کے گھر جانے کی دعوت مل چکی تھی اور ہمیں یہ فکر لاحق تھی کہ اب ہمیں وہاں پہنچنے میں توقع سے زیادہ تاخیر ہو جائے گی۔

اِس شاہ راہ پر گاڑی چلاتے اور مایوسی کے عالم میں واپسی کا راستا ڈھونڈتے ہُوئے، مَیں نیویگیشن سسٹم پر بہتر توجہ نہ دینے کی وجہ سے خُود کو کوس رہا تھا۔ اِس تجربے نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ بعض اوقات ہم لوگ کس طرح اپنی اپنی زندگیوں میں غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں جن کا ہمیں عاجزی اور صبر کے ساتھ خمیازہ اُس وقت تک بھگتنا پڑتا ہے جب تک ہم اپنے راستے کو دوبارہ تبدیل کرنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔

زندگی کا کُل دارومدار انتخابات پر ہے۔ ہمارے آسمانی باپ نے ہمیں مختاری کی الہٰی نعمت عطا کی تاکہ ہم اپنے انتخابات یعنی درست انتخابات سے اور غلط انتخابات سے بھی سیکھ سکیں۔ توبہ کرنے سے ہم اپنے غلط انتخابات کی درستگی کرتے ہیں۔ یہیں سے نشوونما کا آغاز ہوتا ہے۔ آسمانی باپ کا ہم سب کے لیے منصوبہ ہمیشہ کی زندگی کے بارے میں سیکھنے، بڑھنے اور ترقی کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔

جب بہت سال قبل مَیں اور میری اہلیہ نے مشنریوں کے ذریعے سیکھا اور کلیسیا میں شامل ہوئے تب سے، مَیں ہمیشہ لحیؔ کی اُن گہری تعلیمات سے بہت متاثر ہوتا ہوں جو اُس نے مورمن کی کِتاب میں اپنے بیٹے یعقوب کو دی تھیں۔ اُس نے اُسے سکھایا کہ ”خداوند خُدا نے عمل کے لیے آدمی کو اپنی مرضی پر چھوڑ دیا“1 اور یہ کہ ”تمام چیزوں کے لیے، ضروری تھا کہ اُن کا تضاد بھی لازمی ہو۔“2 اپنی مختاری کی مشق کرنے کے قابل ہونے کے لیے، ہمیں متضاد انتخابات کو زیر غور لانے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے میں، مورمن کی کِتاب ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ ہمیں ”اتنی ہدایت“ کی گئی ہے“3 اور پھر ”مسِیح کا رُوح“ ۴ ہم میں سے ہر ایک کو دیا گیا ہے تاکہ ”نیکی اور بدی میں پہچان کریں۔“5

زندگی میں، ہمیں مسلسل کئی اہم انتخابات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر:

  • یہ انتخاب کرنا کہ آیا ہم خُدا کے حکموں کی پیروی کریں گے یا نہیں۔

  • ایمان لانے کا انتخاب کرنا اور جب معجزات رُونما ہوں تو اُنھیں پہچاننا یا شک میں مبتلا ہو کر ایمان کا انتخاب کرنے سے پہلے کسی چیز کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کرنا۔

  • خُدا پر اعتقاد میں بڑھنے کا انتخاب کرنا یا ڈرتے ہوئے اگلی کسی اَور مشکل کی توقع کرنا۔

بالکل جیسے مَیں نے شاہ راہ پر غلط موڑ لیا تھا، بالکل ویسے ہمارے اپنے نکمے فیصلوں کے نتائج سے پیدا ہونے والا دُکھ اکثر بہت تکلیف دہ ہو سکتا ہے کیوں کہ ہمارے پاس خُود کو الزام دینے کے سوا اَور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ تو بھی، ہمارے لیے توبہ کے الہٰی عمل کے ذریعے تسلی حاصل کرنے کا انتخاب ہمیشہ موجود رہتا ہے، تاکہ غلط چیزوں کو دوبارہ ٹھیک کر سکیں، اور ایسا کرنے سے زندگی کو تبدیل کر دینے والے کچھ اسباق بھی سیکھ سکیں۔

بعض اوقات ہم بھی اپنے قابو سے باہر کی چیزوں کے تضاد اور آزمایشوں کا تجربہ حاصل کر سکتے ہیں، جیسے کہ:

  • صحت کے لمحات اور بیماری کے ادوار۔

  • امن کے اوقات اور جنگ کے اوقات۔

  • دِن اور رات کی گھڑیاں اور گرمیوں اور سردیوں کے موسم۔

  • مشقت کے اوقات اور اُن کے بعد آرام کے اوقات۔

اگرچہ عموماً ہم اِن اقسام کے حالات کے مابین انتخاب نہیں کر پاتے کیوں کہ وہ بس وقوع پذیر ہو جاتے ہیں، مگر ہمیں پھر بھی انتخاب کرنے کی آزادی حاصل رہتی ہے کہ اُن پر کیسے ردِ عمل کا مظاہرہ کریں۔ ہم ایک مثبت یا پُر اُمید رویے کے ساتھ یہ کام بآسانی کر سکتے ہیں۔ ہم اِس تجربے سے سیکھنے کی جستجو کے ساتھ ساتھ اپنے خُداوند سے مدد اور سہارے کے لیے دُعا بھی کر سکتے ہیں، یا ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ ہمیں اِس آزمایش کا اپنے بل بوتے پر سامنا کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں اِس کا دُکھ اکیلے برداشت کرنا ضرور ہے۔ ہم ”اپنی کشتیوں کا رُخ“ اِس نئی حقیقت کے مطابق تبدیل کر سکتے ہیں، یا ہم کسی بھی چیز کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں، ہم اپنی روشنی کو جلا سکتے ہیں. موسمِ سرما کی سردی میں ہمیں گرم کپڑے پہننے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ بیماری کے موسم میں، ہم طبی اور رُوحانی مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ اِن حالات پر ردِعمل کا انتخاب ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔

ترتیب درست کرنا، سیکھنا، جستجو کرنا، انتخاب کرنا یہ سب عملی افعال ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہم عامل ہیں مفعول نہیں۔ ہمیں یِسُوع کے اُس وعدے کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ ”اپنے لوگوں کی تکلیفیں اور بیماریاں اپنے پر لے لے گا … تاکہ وہ … مدد کر سکے“ یا جب ہم اُس کی طرف رجوع لائیں تو ہماری مدد کرے گا۔6 ہم اپنی بنیاد اُس چٹان پر تعمیر کرنے کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں جو یِسُوع مسِیح ہے تاکہ جب طوفان آئیں، ”تو اُن کا [ہم پر] کوئی زور نہ چلے۔“7 اُس نے وعدہ کیا ہے کہ ”جو کوئی [میرے پاس] آئے گا، اُسے [مَیں] قبول کروں گا؛ اور [اُس کے] پاس آنے والے مبارک ہیں۔“8

اب، ایک اضافی اصول ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لحی نے کہا تھا کہ ”تضاد ہونا … ضرور ہے تمام چیزوں میں۔“9 اِس کا مطلب ہے کہ تضادات ایک دوسرے سے جدا ہو کر کوئی وجود نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ہم اُس وقت تک خوشی کی شناخت کرنے کے قابل نہیں بن سکتے جب تک ہمیں زندگی میں کسی وقت دُکھ کے تجربے میں سے گزرنا نہ پڑے۔ کئی بار بھوک لگنا بھی ہمیں شکرگزار بننے میں مدد دیتا ہے خاص طور پر جب ہمارے پاس کھانے کے لیے دوبارہ سے کافی کچھ موجود ہو۔ جب تک ہمیں اِدھر اُدھر سے جھوٹ سننے کا موقع نہ ملے تب تک ہم سچائی کی شناخت کرنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔

یہ تضادات بالکل ایسے ہی ہیں جیسے ایک ہی سِکے کے دو رُخ۔ دونوں اطراف ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ چارلس ڈکنز نے اِس نظریے کی مثال دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ”یہ بہترین وقتوں کا زمانہ تھا، یہ بدترین وقتوں کا زمانہ تھا۔“10

اب مَیں خود اپنی زندگی سے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ شادی کرنے، خاندان تشکیل دینے، اور اولاد ہونے سے ہمیں اپنی زندگیوں میں مسرت کے عظیم ترین لمحات میسر آئے مگر جب ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی کچھ ہُوا تو ہمیں تکلیف، اذیت، اور دُکھ کے گہرے ترین لمحات سے بھی گزرنا پڑا۔ اپنے بچّوں کے ساتھ لامحدود خوشی اور مسرت کے بعد یکے بعد دیگرے بیماریوں کے ادوار، سپتالوں میں داخلے، اور پریشانی سے بھری بے چین راتیں، ساتھ ہی ساتھ دُعاؤں میں سکون تلاش کرنے اور کہانتی برکات کے اوقات بھی دیکھے۔ اِن تقابلی تجربات نے ہمیں سکھایا کہ دُکھ کی گھڑیوں میں ہم کبھی اکیلے نہیں ہوتے، اور اِنھوں نے ہمیں یہ بھی دکھایا کہ ہم خُداوند کے سہارے اور مدد سے کتنا آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اِن تجربات نے تشکیل سازی میں عجیب طریقوں سے ہماری مدد کی، اور یہ سب کچھ ہمارے حق میں کُلی طور پر بہت فائدہ مند رہا۔ کیا یہ وہی نہیں جس کے لیے ہم یہاں آئے ہیں؟

صحائفِ مقدسہ میں بھی ہمیں اِس کی کچھ دل چسپ مثالیں ملتی ہیں:

  • لحیؔ نے اپنے بیٹے یعقوبؔ کو سکھایا کہ جو تکلیفیں اُس نے بیابان میں سہی تھیں اُن کے وسیلہ سے اُسے خُدا کی عظمت کو جاننے میں بڑی مدد ملی تھی اور یہ کہ ”[خُدا] تیری تکلیفیوں کو تیرے لیے مخصوص کر دے گا۔“11

  • لبرٹی جیل میں جوزف سمتھؔ پر ظالمانہ تشدد کے دوران، خُداوند نے اُسے بتایا کہ ”اِن سب چیزوں سے [تجھے] تجربہ حاصل ہوگا، اور [تیری] بھلائی ہوگی۔“12

  • آخرکار، یِسُوع مسِیح کی لازوال قربانی دُکھ اور تکلیف کی عظیم ترین مثال ہے، مگر اِس سے خُدا کے سب فرزندوں کے لیے اُس کے کفارے کی شان دار برکات بھی جاری ہوئیں۔

جہاں دھوپ ہوتی ہے وہاں سائے ضرور بنتے ہیں۔ سیلاب تباہی پھیلاتے ہیں، مگر وہ عموماً زندگی بھی لاتے ہیں۔ دُکھ کے آنسو کبھی کبھار سکون اور خوشی کے آنسوؤں میں بدل جاتے ہیں۔ پیاروں کی موت کے وقت اُداسی کے احساسات کا بدلہ بعد ازاں دوبارہ ملاپ کی خوشی کی صورت میں ملتا ہے۔ جنگ اور تباہی کے ادوار میں، مہربانی اور محبت کے چھوٹے چھوٹے اعمال بھی اُن کے لیے رُونما ہوتے رہتے ہیں ”جو دیکھنے والی آنکھیں، اور سننے والے کان رکھتے ہیں۔“13

ہماری آج کی دُنیا کو اکثر خوف اور اضطراب کی دُنیا کا نام دیا جاتا ہے—خوف یہ کہ پتہ نہیں مستقبل ہمارے لیے کیا لائے گا۔ مگر یِسُوع نے ہمیں سکھایا ہے کہ اعتقاد رکھنا اور ”ہر بات میں مُجھ پر بھروسا رکھنا، شک نہ کرنا، نہ ڈرنا۔“14

آئیے ہم مسلسل ایک دانستہ کوشش جاری رکھتے ہوئے اپنی زندگیوں کے لئے مختص کئے گئے ہر سِکے کی دونوں اطراف کو دیکھیں۔ اگرچہ دونوں اطراف بعض اوقات فوری طور پر ہمارے سامنے قابلِ دید نہیں ہوتے، مگر ہم یہ بات جانتے اور بھروسا رکھتے ہوئے تسلیم کر سکتے ہیں کہ وہ دونوں اطراف ہمیشہ موجود ضرور رہتے ہیں۔

ہم اِس بات پر پختہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہماری مشکلات، مصیبتیں، تکلیفیں، اور اذیتیں ہماری اصل شناخت نہیں؛ بلکہ، یہ ہمارے رویے کی بات ہے کہ ہم کس طرح اُن میں سے گزرتے ہیں تاکہ اُن کی مدد سے ہم بڑھیں اور خُدا کی اَور نزدیکی حاصل کر سکیں۔ یہ ہمارے رویے اور انتخابات ہیں جو ہماری مشکلات سے زیادہ بہتر طور پر ہماری شخصیت کو اُجاگر کرتے ہیں۔

جب تندرست ہوں، اُس کے ہر لمحے کو عزیز جانیں اور شکرگزاری کریں۔ جب بیمار ہوں، صبر کے ساتھ اُس سے سیکھنے کی جستجو کریں اور جانیں کہ خُدا کی مرضی کے مطابق یہ دوبارہ بدل بھی سکتی ہے۔ جب دُکھی ہوں، بھروسا رکھیں کہ خوشی بالکل نزدیک ہے؛ ہم صرف اُسے ابھی دیکھ نہیں سکتے۔ دانستہ طور پر اپنی توجہ تبدیل کریں اور اپنے خیالات کو درپیش مشکلات کے مثبت پہلوؤں پر مرکوز کریں، کیوں کہ بلاشبہ وہ بھی ہمیشہ وہیں موجود ہوتے ہیں! شکرگزاری کرنا کبھی مت بھولیں! یقین کرنے کا انتخاب کریں۔ یِسُوع مسِیح پر اِیمان رکھنے کا انتخاب کریں۔ ہمیشہ خُدا پر بھروسا رکھنے کا انتخاب کریں۔ جیسے صدر رسل ایم۔ نیلسنؔ نے حال ہی میں ہمیں سکھایا تھا کہ ”اپنی سوچ آسمانی رکھنے” کا انتخاب کریں۔ ۱۵

آئیے ہمیشہ اپنے آسمانی باپ کے اُس شان دار منصوبے پر اپنا دھیان لگائیں جو وہ ہمارے لیے رکھتا ہے۔ وہ ہم سے محبت رکھتا ہے اور اُس نے اپنے پیارے بیٹے کو اِسی واسطے بھیجا تاکہ ہماری آزمایشوں میں ہماری مدد کرے اور اپنی طرف رجوع لانے کا دروازہ ہمارے واسطے کھولے۔ یِسُوع مسِیح زندہ ہے اور ہر لمحہ وہاں کھڑے ہو کر، ہمارا منتظر ہے کہ ہم مدد، طاقت اور نجات کی فراہمی کے لیے اُسے پکارنے کا انتخاب کریں۔ اِن چیزوں کی گواہی مَیں یِسُوع مسِیح کے نام پر دیتا ہوں، آمین۔