مجلسِ عامہ
خُدا کی بُزرگی اور فضلیت پر غوروفکر کریں
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۰


خُدا کی بُزرگی اور فضلیت پر غوروفکر کریں

مَیں تُمھیں دعوت دیتا ہُوں کہ آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی بُزرگی اور جو کچھ وہ ہمارے لیے کرتے ہیں ہر روز یاد کیا کرو۔

ہر زمانے میں، یہاں تک کہ اور خاص طور پر دُشوار گُزار گھڑیوں میں، اَنبیا نے خُدا کی بُزرگی کو یاد رکھنے اور غوروفکر کرنے کی ہمت اَفزائی فرمائی ہے کہ اُس نے بطورِ اَفراد، بطورِ خاندان، اور بطورِ اُمت ہمارے واسطے کیا کیا کِیا ہے۔۱ ایسی ہدایت پورے صحائف میں پائی جاتی ہے لیکن مورمن کی کتاب خاص طور پر نمایاں ہے۔ صفحہِ عُنوان بیان کرتا ہے کہ مورمن کی کِتاب کے فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ ”اِسرائیل کے گھرانے کے بقیہ پر ظاہر کرنا کہ خُداوند نے اُن کے باپ دادا کے واسطے کتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔“۲ مورمن کی کِتاب مرونی کی اِلتماس کے ساتھ مُکمل ہوتی ہے: ”دیکھو، مَیں تُمھیں تاکید کرتا ہُوں کہ جب تُم اِن باتوں کو پڑھو گے — تو تُم یاد رکھو گے کہ خُداوند بنی آدم پر، کتنا رحیم رہا ہے — اور تُم اپنے دِلوں میں اِس پر غور کرنا۔“۳

خُدا کی فضلیت پرغوروفکر کرنے کے لیے نبیّوں کی طرف سےاِلتجاؤں کا تسلسل حیران کُن ہے۔۴ ہمارا آسمانی باپ چاہتا ہے کہ ہم اُس کی اور اُس کے پیارے بیٹے کی فضلیت کو یاد کریں، اُن کی اپنی خُوش نُودی کے واسطے نہیں، بلکہ ہم پر ایسی یادگار تاثیر کے واسطے۔ اُن کے رحم و کرم پر غوروفکر کرنے سے ہمارا فہم اور زوایہِ نِگاہ وسعت پاتے ہیں۔ اُن کی شفقت پر سوچ بچار کرنے سے، ہم اور زیادہ عاجز، دُعاگُزار، اور ثابت قدم بن جاتے ہیں۔

سابق مریض کے ساتھ دِل خراش معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ شفقت اور سخاوت کے لیے شُکرگُزاری کیسے ہماری کایا پَلٹ سکتی ہے۔ ۱۹۸۷ میں، میری مُلاقات تھامس نیِل سن سے ہُوئی، وہ خُوب رُو شخص تھا جس کو ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی۔ وہ ۶۳ برس کا تھا اور لوگن، یوٹاہ، ریاستہائے مُتحدہ میں رہتا تھا۔ دُوسری عالمی جنگ کے دوران میں فوجی خدمت کے بعد، اُس نے ڈونا ولکس کے ساتھ لوگن یوٹاہ ہیکل میں بیاہ کیا۔ وہ کام یاب اور کام ران معمار بن گیا۔ آنے والے برسوں میں سکول کی چُھٹیوں کے دوران میں وہ اپنے سب سے بڑے نواسے جوناتھن کے ساتھ کام کرکے بڑی خُوشی محسوس کرتا تھا۔ اِن دونوں کے درمیان بہت خاص رشتہ استوار ہو گیا تھا، بجز کیوں کہ ٹام اپنے آپ کو جوناتھن میں دیکھتا تھا۔

دِل کے عطیے کا اِنتظار ٹام کے لیے بڑا مایوس کُن تھا۔ وہ کوئی بہت صبر کرنے والا شخص نہ تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے اہداف کا تعین کرتا تھا اور مُصمم اِرادے اور سخت محنت کے ذریعے سے پایہ تکمیل تک پہنچایا کرتا تھا۔ دِل کے عارضے کے ساتھ لڑتے لڑتے، اُس کی زندگی رُک سی گئی تھی، ٹام بعض اوقات مجھ سے پوچھتا کہ اِس عمل کو تیز کرنے کے لیے مَیں کیا کر رہا تھا۔ مُذاق کرتے ہُوئے، وہ ایسی جگہیں تجویز کرتا جہاں سے دِل کا عطیہ فوراً مِل سکتا تھا۔

ایک فرحت بخش مگر ہول ناک دِن، جب ایک کارآمد دِل کا عطیہ ٹام کو میسر آیا۔ خُون کا گروپ اور دِل کا سائز میچ کر گیا تھا، عطیہ دینے والا صرف ۱۶ برس کا نوجوان تھا۔ عطا کردہ دِل ٹام کے پیارے نواسے جوناتھن کا تھا اُس دِن، جوناتھن جان لیوا حادثے کا شِکار ہُوا تھا جس کار میں وہ سفر کر رہا تھا اُس کو آتی ہُوئی ٹرین نے ٹکر ماری تھی۔

جب مَیں ہسپتال میں ٹام اور ڈونا سے مِلنے کے لیے گیا تو وہ مخبوط اُلحواس ہو چُکے تھے۔ اِس بات کا اندازہ لگانا مُشکل تھا کہ وہ کس کرب سے گُزر رہے تھے، یہ بات جان کر کہ اُن کے نواسے کا دِل لگا کر ٹام کی زندگی لمبی ہو سکتی ہے۔ پہلے پہل تو، اُنھوں نے جوناتھن کے غم زدہ والدین یعنی اپنی بیٹی اور داماد سے دِل کا عطیہ قبول کرنے سے منع کر دیا۔ ٹام اور ڈونا، اگرچہ، جانتے تھے کہ جوناتھن دماغی لحاظ سے مُردہ ہو چُکا تھا، اور جان چُکے تھے کہ ٹام کے واسطے عطیہِ دِل کی دُعائیں جوناتھن کے حادثے کا سبب نہ تھیں۔ نہیں، جوناتھن کا دِل نعمت تھی جو ٹام کے لیے باعثِ برکت ہوسکتا تھا۔ اُنھوں نے جان لیا تھا کہ اِس سانحے کی بدولت کوئی نہ کوئی بھلائی سامنے آئے گی اور اُنھوں نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔

ٹرانسپلانٹ کے طریقہ کار بہتر رہے۔ اِس کے بعد، ٹام مُختلف آدمی تھا۔ یہ تبدیلی رُوبہِ صحت یا شُکرگُزاری سے بھی آگے تھی۔ اُس نے مُجھے بتایا کہ وہ ہر صبح جوناتھن کے بارے میں،اپنی بیٹی، اور داماد کے بارے میں، عطا کردہ نذرانےکے بارے میں غوروفکر کرتا تھا، اور کس بِنا پر یہ نذرانہ مُشروط تھا۔ اگرچہ اُس کاقُدرتی طنز و مزاح اور عزم ابھی تک بڑے نمایاں تھے، تو بھی مَیں نے دیکھا کہ ٹام زیادہ سنجیدہ، پُرفکر، اور نرم دِل ہوگیا تھا۔

ٹرانس پلانٹ کے بعد ٹام نے مزید ۱۳ برس زندگی گُزاری، یہ سال اُس کو دُوسری صورت میں نہ مِل پاتے۔ اُس کے اعلانِ وفات میں ذکر تھا کہ اِن برسوں نے اُس کو اپنے خاندان اور دُوسروں کی زندگیوں کو محبت اور فراخ دلی سے چھُونے کا موقع بخشا تھا۔ وہ شخصی مُحسن تھا اور سب کے لیے رجائیت اور عزم کی مثال تھا۔

ٹام کی طرح، ہم سب کو ہمارے آسمانی باپ اور اُس کے پیارے بیٹے کی طرف سے نعمتیں مِلی ہیں جو ہم خود سے مہیا نہیں کر سکتے تھے، یِسُوع مسِیح کی کفارہ بخش قُربانی کے وسیلے سے مُخلصی بھی شامل ہے۔۵ اِس دُنیا میں ہم نے زندگی پائی ہے؛ اِس کے بعد ہم طبعی زندگی، اور نجات اور سرفرازی پائیں گے—اگر ہم اِس کو چُنتے ہیں—سب کچھ آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی بدولت ہے۔

جب بھی ہم اِن نعمتوں کو اِستعمال کریں، مُستفید ہوں، یا صرف اُن کے بارے میں سوچیں، ہمیں پروردگار کی اُس قُربانی، مہربانی، اور فراخ دلی پر غوروفکر کرنا چاہیے۔ عطا کرنے والے کی بندگی ہمیں صرف شُکرگُزار ہونے سے زیادہ بڑا بناتی ہے۔ اُن کی نعمتوں پر سوچ بچار ہمیں تبدیل کر سکتی ہے اور کرنا چاہیے۔

ایک قابلِ ذِکر تبدیلیِ سیرت نوجوان اَیلما کی تھی۔ جیسے ایلما ”خُدا کے خلاف بغاوت کرتا پھرتا تھا،“۶ ایک فرشتہ ظاہر ہُوا۔ فرشتہ نے ”گرج کی آواز،“۷ کے ساتھ ایلما کو کلیسیا کو ستانے اور ”لوگوں کے دِلوں کو بہلانے پُھسلانے“۸ پر جھڑکا۔ فرشتے نے اِس تنبیہ کے ساتھ بات ختم کی: ”جا، اور اپنے باپ دادا کی اِسیری کو یاد کر —؛ اور یاد کر کہ [خُدا]نے اُن کے لیے کتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔“۹ تمام ممکنہ تنبیہوں میں سے، یہ وہ تھی جس پر فرشتے نے زور دیا۔

اَیلما نے توبہ کی اور یاد رکھا۔ اُس نے بعد میں فرشتے کی تنبیہ اپنے بیٹے کو بتائی۔ ایلما نے تاکید کی، ”مَیں چاہتا ہُوں کہ ہمارے باپ دادا کی اِسیری کو یاد رکھنے میں، تُم ویسا ہی کرو جیسا کہ مَیں نے کیا؛ کیوں کہ وہ اِسیری میں تھے، اور اَبراہام —، اور اِضحاق —، اور یعقوب کے خُدا کے سِوا کوئی اُنھیں رہائی نہیں دے سکتا تھا؛ اور اُسی نے یقیناً اُن کی مصیبتوں میں اُنھیں رہائی دی۔“۱۰ ایلما نے صاف صاف فرمایا، ”مَیں اُسی پر توکل کرتا ہُوں۔“۱۱ ایلما سمجھ گیا کہ اِسیری سے رہائی ”ہر قسم کی آزمایشوں اور تکلیفوں“ کے دوران میں مدد کو یاد کرنے سے، ہم خُدا کا علم اور اُس کے وعدوں کی یقین دہانی پاتے ہیں۔۱۲

ہم میں سے بہت سے لوگوں کو ایلما کی طرح سنسنی خیز تجربہ حاصل ہے، پھر بھی ہماری تبدیلیِ سیرت اتنی ہی گہری ہوسکتی ہے۔ نجات دہندہ نے قدیم میں حلف اُٹھایا:

”مَیں تُم کو نیا دِل بخشوں گا، اور نئی رُوحُ تُمھارے بطن میں ڈالوں گا: اور تُمھارے جسم میں سے سنگین دِل نکال ڈالوں گا — ، اور گوشتین دِل تُم کو عنایت کروں گا۔

”اور تُمھارے بطن میں اپنا رُوح ڈالوں گا۔ —

”— ،اور تُم میری اُمت ہو گے، اور مَیں تُمھارا خُدا ہُوں گا۔“۱۳

جی اُٹھے نجات دہندہ نے نیفیوں کو بتایا کہ تبدیلیِ سیرت کیسے شُروع ہوتی ہے۔ اُس نے آسمانی باپ کے مُنصوبے کی مرکزی خُوبی کو پہچان لیا تھا جب اُس نے فرمایا:

”اور میرے باپ نے مُجھے بھیجا کہ مَیں صلیب پر چڑھایا جاؤں اور صلیب پر چڑھائے جانے کے بعد تمام اِنسانوں کو اپنی طرف کھینچ لُوں۔ —

”اور اِسی واسطے مَیں چڑھایا گیا ہُوں؛ اِس لیے، باپ کی قُدرت کے مطابق مَیں سب اِنسانوں کو اپنی طرف کھینچوں گا۔“۱۴

نجات دہندہ کی طرف کھینچے جانے کے واسطے تُمھیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ اپنے باپ کی مرضی کے لیے یِسُوع مسِیح کی فرماں برداری پر غوروفکر کریں، موت پر اُس کی فتح، اُس کا تُمھاری خطاؤں اور گُناہوں کو اپنے اُوپر لینا، تُمھاری شِفاعت کے لیے باپ کی طرف سے قُدرت پانا، اور تُمھاری خاطر اُس کی کامل نجات۔۱۵ کیا یہ چیزیں تُمھیں اُس کی طرف کھینچنے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ میرے لیے وہ ہیں۔ یِسُوع مسِیح ”[آپ کو اور مُجھے] شِفا دینے، مُعاف کرنے، طہارت کرنے، مضبوطی بخشنے، پاک صاف کرنے اور مُقدس کرنے کی اُمید اور چاہت لیے ہُوئے بازو کھولے کھڑا رہتا ہے۔“۱۶

یہ سچّائیاں ہمیں نیا دِل عطا کرتی ہیں اور آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی تقلید کو مُنتخب کرنے کے لیے ہمیں ترغیب دیتی ہیں۔ لیکن پھر بھی ”نیا دِل بھٹکنے پر مائل، — اُس خُدا کوجسے [ہم] پیار کرتے ہیں چھوڑنے پر آمادہ “ہو سکتا ہے۔۱۷ اِس رُجحان کا مُقابلہ کرنے کے لیے، ہمیں ہر روز اُن عطا کردہ نعمتوں پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے اور وہ کیسے مشروط ہیں۔ بِنیمین بادشاہ تاکید کرتے ہیں، ”مَیں چاہوں گا کہ تُم یاد رکھو، اور ہمیشہ اپنی یادداشت میں محفوظ کرو، خُدا کی بُزرگی — اور اپنے لیے اُس کی فضیلت اور تحمل۔“۱۹ اگر ہم ایسا کرتے ہیں، تو ہم عظیم اُلشان آسمانی رحمتوں کے لائق ہوجاتے ہیں۔

خُدا کی فضیلت اور رحمت پر غوروفکر کرنے سے ہمیں روحانی طور پر مزید قبول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں، بھرپُور رُوحانی حساس ہمیں رُوحُ القُدس کی قُدرت کے وسیلے سے سب باتوں کی حقیقت کو جاننے کی اِجازت عطا کرتا ہے۔۱۹ یہ مورمن کی کِتاب کی سچّائی کی گواہی بھی شامل کرتا ہے، یہ جانتے ہُوئے کہ یِسُوع المسِیح ہے، ہمارا شخصی نجات دہندہ اور مُخلصی دینے والا، اور یہ مانتے ہُوئے کہ اِن آخری ایّام میں اُس کی اِنجیل بحال ہو چکی ہے۔۲۰

جب ہم اپنے آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی بُزرگی کو یاد کرتے ہیں اور جو کچھ اُنھوں نے ہمارے واسطے کِیا ہے، تو ہم اُن کی بےقدری نہ کریں گے، بالکل جیسے ٹام نے جوناتھن کے دِل کی بےقدری نہ کی تھی۔ تکریم و تعظیم اور پُرمسرت انداز میں، ٹام نے اُس سانحے کو بلاناغہ یاد رکھا جس نے اُس کی زندگی کو بڑھایا۔ اِس بے پناہ آگہی پر کہ ہم بچائے اور سرفراز کیے جاسکتے ہیں، ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ نجات اور سرفرازی کی بہت بڑی قیمت چُکائی گئی ہے۔۲۱ ہم بڑی عقیدت مندی سے پُرجوش ہو سکتے ہیں جب ہمیں احساس ہو کہ یِسُوع مسِیح کے بغیر ہم برباد ہوں گے لیکن اُس کے ساتھ ہم آسمانی باپ سے مِلنے والی سب سے بڑی نعمت پا سکتے ہیں۔۲۲ درحقیقت، یہ عقیدت ہمیں ”اِس دُنیا میں ابدی زندگی“ کے وعدے سے شادمان ہونے اور آخر کار آنے والی دُنیا میں ”ابدی زندگی — حتیٰ کہ لافانی جلال“ پانے کی اِجازت دیتی ہے۔۲۳

جب ہم اپنے آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی فضیلت پر غوروفکر کرتے ہیں، تو اُن پر ہمارا توّکل اور بڑھ جاتا ہے۔ ہماری دُعائیں تبدیل ہو جاتی ہیں کیوں کہ ہم جان جاتے ہیں کہ خُدا ہمارا آسمانی باپ ہے اور ہم اُس کی اُمت ہیں۔ ہم اُس کی رضا بدلنے کے خواہاں نہیں ہوتے بلکہ اپنی مرضی کو اُس میں ضم کرتے ہیں اور اپنے لیے برکات کماتے ہیں جو ہمیں وہ عطا کرنے کا مُشتاق ہے، ہمارے لیے اُن کا مانگنا مشروط ہے۔۲۴ ہم اور زیادہ فروتن، اور زیادہ پاکیزہ، اور زیادہ ثابت قدم، اور زیادہ مسِیح کی مانند بننے کے لیے بےقرار ہوتے ہیں۔۲۵ یہ تبدیلیاں ہمیں مزید آسمانی برکات پانے کے لیے اَہل بناتی ہیں۔

ہر اچھی چیز یِسُوع مسِیح کی طرف سے آتی ہے اِس بات کا اِقرار کرنے سے ہم زیادہ مؤثر طریقے سے دُوسروں کے ساتھ اپنے اِیمان کا اِظہار کریں گے۔۲۶ ہم میں ہمت و جُراَت ہوگی جب ناممکن نظر آنے والے معاملات اور حالات کا مقابلہ کرنا پڑے۔۲۷ نجات دہندہ کی تقلید کے عہود پر چلنے کے لیےہم اپنے عزم کو پُختہ کریں گے۔۲۸ ہم خُد کی محبت سے معمور ہو کر چاہیں گے کہ، ضرورت مندوں کی بِلااِمتیاز مدد کریں، اپنے بچّوں سے محبت کریں اور راست بازی میں اُن کو پروان چڑھائیں، اپنے گُناہوں کی معافی کو برقرار رکھیں، اور ہمیشہ خُوش رہیں۔۲۹ خُدا کی فضیلت اور رحم و کرم کو یاد رکھنے کے یہ بےمثال پھل ہیں۔

اِس کے برعکس، نجات دہندہ نے خبردار کیا، ”اِنسان خُدا کو کسی بات پر غصہ نہیں دِلاتا، یا نہ ہی کسی پر اُس کا قہر بھڑکتا ہے، سوائے اُن کے جو ہر کام میں اُس کے ہاتھ کا اِقرار نہیں کرتے۔“۳۰ مَیں نہیں سوچتا کہ جب ہم خُدا کو بھول جاتے ہیں تو اُس کی توہین ہوتی ہے۔ بلکہ، مَیں سوچتا ہُوں کہ وہ شدید مایوس ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اُسے اور اُس کی فضیلت کو یاد کرنے کی بدولت اُس کی طرف زیادہ رُجوع لانے کے موقع سے ہم نے خود کو محروم کر لیا ہے۔ اِس کے بعد ہم اُس کو اپنی طرف رُجوع لانے اور اُن خاص موعودہ برکات کو پانے سے محروم ہوجاتے ہیں۔۳۱

مَیں تُمھیں دعوت دیتا ہُوں کہ آسمانی باپ اور یِسُوع مسِیح کی بُزرگی اور جو کچھ وہ ہمارے لیے کرتے ہیں ہر روز یاد کیا کرو۔ اُن کی فضیلت پر اپنے غوروفکر کو اور زیادہ مضبوطی سے اپنے بھٹکنے والے دِل کو اُن کے واسطے قابو کرنے دو۔۳۲ اُن کی شفقت پر سوچ بچار کرو، اور تُم مزید رُوحانی حساس سے نوازے جاؤ گے اور زیادہ سے زیادہ مسِیح کی مانند بنو گے۔ اُن کی ہم گُدازی پر تدّبُر کرنا ”آخر تک وفادار رہنے“ میں تُمھاری مدد کرے گا، یہاں تک کہ تُمھارا ”فردوس میں اِستقبال ہو“ تاکہ”کبھی نہ ختم ہونے والی خوشی کی حالت میں خُدا کے ساتھ قیام کرو۔“۳۳

ہمارے آسمانی باپ نے اپنے پیارے بیٹے کی طرف اِشارہ کرکے فرمایا، ”اُس کی سُنو!“۳۴ جب تُم اُن اَلفاظ پر عمل کرتے اور اُس کو سُنتے ہو، شادمانی اور تکریم و تعظیم سے یاد کرتے ہو، کہ نجات دہندہ اُن چیزوں کو بحال کرنے کا مُشتاق ہے جن کو تُم بحال نہیں کر سکتے، اُن زخموں کو بھرنے کا مُشتاق ہے جن کو تُم نہیں بھر سکتے، وہ اُس کو جوڑنے کا مُشتاق ہے جو بالکل بِکھر چُکا ہو،۳۵ تُم پر ڈھائی گئی کسی بھی زیادتی کا اَزالہ کرتا ہے،۳۶ اور وہ شِکستہ دِلوں کو دائمی طور پر رفو کرنے کا مُشتاق ہے۔۳۷

جب مَیں نے آسمانی باپ کی طرف سے اور یِسُوع مسِیح کی طرف سے مِلنے والی نعمتوں پر غوروفکر کیا، تو آسمانی باپ کی ساری اُمت کے واسطے اُن کی لامحدود محبت اور ناقابلِ فہم شفقت کی آگہی مَیں نے پائی۔۳۸ اِس آگہی نے مُجھے تبدیل کر دیا ہے، اور یہ تُمھیں بھی تبدیل کرے گی۔ یِسُوع مسِیح کے نام سے آمین۔