مجلسِ عامہ
ملکِ صدق کہانت اور کُنجیاں
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۰


ملکِ صدق کہانت اور کُنجیاں

کلیسیا میں کہانت کے اِختیار کی مشق کہانتی رہنما کے زیرِ ہدایت ہوتی ہے جو اُس کہانت کی کُنجیوں کا حامل ہوتا ہے۔

میں نے خُدا کی کہانت کے بارے میں مزید بات کرنے کا چناؤ کیا ہے، اس عنوان پر پہلے ہی تین خطیب بات کر چُکے ہیں جنہوں نے ہمیں سِکھایا ہے کہ کیسے کہانت مستورات، نوجوان خواتین اور نوجوان مردوں کو برکت بخشتی ہے۔

کہانت ایک الہی طاقت اور اختیار ہے جو اِس اعتماد سے سونپی جاتی ہے کہ اُس کے بچوں کے فائدے کے لیے خُدا کے کام میں استعمال کی جائے۔ کہانت وہ لوگ نہیں ہیں جنہیں کہانت کے کسی عہدے پر فائز کیا جاتا ہے یا وہ جو اِس کے اِختیار کا استعمال کرتے ہیں۔ کہانت کے حاملین مرد خصرات کہانت نہیں ہیں۔ گو کہ ہمیں تقرری پانے والے مَردوں کو کہانت نہیں کہنا چاہیے، لیکن انہیں کہانت کے حاملین کہنا مناسب ہے۔

کہانت کی طاقت کلیسیا اور خاندانی تنظیم دونوں میں موجود ہے۔ لیکن کہانتی اختیار اور کہانتی طاقت کلیسیا میں اور خاندان میں مختلف طور پر کام کرتی ہے۔ یہ سب کچھ اُن اصولوں کے مطابق ہے جو خُداوند نے مقرر کیے ہیں۔ خُدا کے منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ اُس کے بچوں کی ابدی زندگی کی جانب رہنمائی ہو۔ فانی خاندان اُس منصوبے میں لازمی ہیں۔ کلیسیا کے وجود کا مقصد ایسی تعلیم، اختیار اور رسوم مہیا کرنا ہے جو ابدیت میں خاندانی تعلقات کے تسلسل کے لیے ضروری ہیں۔ یوں، انجمنِ خاندان اور یِسُوع مسِیح کی کلیسیا کا باہمی تعلق ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے کا ہے۔ کہانت کی برکات—مثلاً اِنجیل کی معموری اور بپتسمہ، استحکام اور رُوحُ القُدس کی نعمت، ہَیکل کی ودیعت اور ابدی بیاہ جیسی رسوم—مرد و زن کو یکساں طور پر میسر ہیں۔۱

جس کہانت کی ہم بات کر رہے ہیں وہ ملکِ صدق کہانت ہے، جسے اِنجیل کی بحالی کی ابتدا میں ہی بحال کر دیا گیا تھا۔ جوزف سمتھ اور اولیور کاؤڈری کو پطرس، یعقوب، اور یوحنا، نے تقرری بخشی تھی جو اپنے بارے میں کہتے تھے کہ ”وہ بادشاہی اور زمانوں کی معموری کے دور کی کنجیاں رکھتے تھے“ (عقائد اور عہود ۱۲۸: ۲۰)۔ اِن بُزرگ رسولوں نے خود نجات دہندہ سے وہ اختیار پایا تھا۔ کہانت میں تمام دیگر اختیارات اور عہدے ملکِ صدق کہانت کے عضو ہیں (دیکھیں عقائد اور عہود ۱۰۷: ۵)، کیونکہ یہ ”اُس میں صدارت کا حق ہے، اور دُنیا کے تمام زمانوں میں کلیسیا کے تمام عہددوں کی طاقت اور اختیار اِسی میں ہیں۔“(عقائد اور عہود ۱۰۷: ۸

کلیسیا میں کہانتِ کبیرہ یعنی ملکِ صدق کہانت، اور کہانتِ صغیرہ یعنی ہارونی کہانت کا استعمال کہانتی رہنما کے زیرِ ہدایت ہوتا ہے، جیسا کہ بشپ یا صدر، جس کے پاس کہانت کی کُنجیاں ہوتی ہیں۔ کلیسیا میں کہانتی اختیار کے استعمال کو سمجھنے کے لیے، ضروری ہے کہ ہم کہانتی کُنجیوں کے اُصول کو سمجھیں۔

بادشاہی کی ملکِ صدق کہانت کی کُنجیاں پطرس، یعقوب، اور یوحنا، نے عطا کی تھیں، لیکن کہانتی کُنجیوں کی بحالی یہاں مکمل نہیں ہوئی۔ بعض کہانتی کُنجیاں بعد میں عطا کی گئیں۔ کرٹ لینڈ، اوہائیو، میں اِس زمانے کی پہلی ہَیکل کی تقدیس کے بعد، تین نبِیوں—موسیٰ، الیاس، اور ایلیاہ—نے ”اِس زمانے کی کُنجیاں“ بحال کیں، جس میں اسرائیل کو اکٹھا کرنے اور خُداوند کی ہَیکلوں کا کام شامل ہیں (دیکھیں عقائد اور عہود ۱۱۰)، جیسا کہ صدر آئرنگ نے ازراہِ ترغیب بیان کیا ہے۔

کنجیوں کی کار گزاری کی مانوس ترین مثال کہانتی رسومات کی ادائیگی ہے۔ رسم ایک سنجیدہ عمل ہوتا ہے جو عہود باندھنے اور برکات کے وعدے کی علامت ہے۔ کلیسیا میں تمام رسومات کو کہانتی رہنما کے اختیار کے تحت ادا کیا جاتا ہے جس کے پاس اُس رسم کی کنجیاں ہوتی ہیں۔

رسم عام طور ایسے اشخاص ادا کرتے ہیں جو کہانت کے مخصوص عہدے پر فائز کیے گئے ہوں اور وہ کہانتی کنجیوں کے حامل شخص کے زیرِ ہدایت کار گزاری کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہارونی کہانت کے متفرق عہدوں کے حاملین بشپ کی کنجیوں اور زیر ہدایت، عشائے ربانی کی رسم کے فرائض سر انجام دیتے ہیں،جس کے پاس ہارونی کہانت کی کُنجیاں ہیں۔ یہی اُصول اُن کہانتی رسومات پر بھی لاگو ہوتا ہے جس میں رسومی فرائض خواتین ادا کرتی ہیں۔ گو کہ خواتین کہاتنی عہدے پر فائز نہیں ہوتیں، لیکن وہ ہَیکل کی مُقدّس رسومات ہَیکل کے صدر کے زیرِ ہدایت سر انجام دیتی ہیں، جس کے پاس ہَیکل کی کہانتی رسوم کی کُنجیاں ہوتی ہیں۔

کہانتی اختیار کی کنجیوں کے حامل کے زیرِ ہدایت استعمال کرنے کی ایک اور مثال مرد و زن کی تعلیم ہے جنہیں اِنجیل کی تعلیم دینے کے لیے بلایا جاتا ہے، چاہے تعلیم اُن کے حلقوں کی جماعتوں میں ہو یا میدانِ تبلیغ میں۔ دیگر مثالیں اُن کی ہیں جو اپنی وارڈوں میں قیادتی عہدوں میں خدمت کرتے ہیں اور اپنی قیادت میں کہانتی اختیار کا استعمال اپنی بلاہٹ کے سبب، اپنی تقرری اور کہانتی رہنما کے زیرِ ہدایت استعمال کرتے ہیں جس کے پاس وارڈ یا سٹیک کی کُنجیاں ہیں۔ کلیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام میں کہانت کے اختیار اور کُنجیوں کا استعمال اور اس سے استعفادہ اِسی طور پر اٹھایا جاتا ہے۔۲

ایامِ آخر کے مُقدّسین کے خاندانوں میں بھی کہانت کے اختیار کا استعمال ہوتا اور اِس کی برکات حقیقت پذیر ہوتی ہیں۔ خاندان سے میری مُراد کہانت کا حامل مرد اور ایک عورت جو بیاہے ہوں اور اُن کے بچے۔ میں موت یا طلاق کی وجہ سے اِس مثالی رشتے میں تغیر کو بھی شامل کرتا ہوں۔

کلیسیاء کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ کہانتی اِختیار صرف اُس شخص کی رہنمائی میں استعمال کیا جاسکتا ہے جس کے پاس اُس کام کی کنجیاں ہوتی ہیں، لیکن خاندان میں یہ اُصول لاگو نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، ایک باپ جس کے پاس کہانت ہو وہ اپنے خاندان کی صدارت اور کہانت کا استعمال اپنے پاس موجود کہانت کے اختیار کے تحت کرتا ہے۔ اُسے اپنی خاندانی ذمہ داریوں کو سرانجام دینے کے لیے کہانتی کُنجیوں کے کسی حامل کی سرپرستی یا اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ اِس میں اپنے خاندان کے ممبروں کی اصلاح کرنا، خاندانی میٹنگز کا انعقاد، اپنی بیوی اور بچوں کو کہانتی برکات دینا، یا خاندان کے اراکین یا دُوسروں کو شفائیہ برکتیں دینا شامل ہے۔۳ کلیسیائی رہنما خاندان کے ارکان کو تعلیم دیتے ہیں لیکن خاندان میں کہانتی اختیار کے استعمال کی سرپرستی نہیں کرتے۔

یہی اصول تب بھی لاگو ہوتا ہے جب باپ موجود نہیں ہوتا اور ماں خاندان کی سربراہی کرتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں صدارت کرتی ہے، اور ہیکل میں اپنی ودیعت اور سربمہری سے کہانت کی برکات اور طاقت اپنے خاندان کو بہم پہنچانے کا موجب بنتی ہیں۔ گو کہ اُسے کہانتی برکات دینے کا اِختیار حاصل نہیں ہے، جو کہانت کے مخصوص عہدے پر مقرر شخص ہی دے سکتا ہے، وہ خاندان کی سربراہی کے تمام دیگر فرائض انجام دے سکتی ہے۔ ایسا کرنے سے، وہ اپنے بچوں کے نفع کے لیے کہانتی طاقت کا استعمال کر رہی ہوتی ہے جن کے لیے وہ خاندان میں قیادتی عہدے پر صدارت کرتی ہے۔۴

اگر والد صاحبان اپنے خاندان میں اپنی کہانت کوعظمت بخشیں گے، تو ایسا کرنے اور جتنا کچھ بھی وہ کرسکتے ہیں اس سے، کلیسیاء کے مشن کو مزید فروغ ملے گا۔ والد صاحبان جو ملکِ صدق کہانت کے حامل ہیں، اُنہیں چاہیے کہ ایسا، ”ترغِیب سے،تحمل سے، مہربانی اور حلِیمی سے،اور بے رِیا محبّت سے“ کریں (عقائد اور عہود ١٢١: ۴١)۔ ہر کہانتی اختیار کی مشق کے لیے یہ اعلیٰ معیار خاندان میں سب سے اہم ہے۔ کہانت کے حاملین کو احکام پر عمل کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے خاندان کے ارکان کو برکت دینے کے لیے کہانت میں طاقت حاصل کرسکیں۔ اُنہیں پیار بھرے خاندانی رشتوں کو بھی فروغ دینا چاہیے تاکہ خاندان کے ارکان اُن سے برکت مانگنا چاہیں۔ اور والدین کو خاندان میں اور زیادہ کہانتی برکات حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔۵

کانفرنس کی اِن عبادات میں، جب ہم نے تباہ کُن وبا جیسی بشری پریشانیوں سے مختصراً پناہ لی ہے، تو ہمیں ابدیت کے اعلیٰ اصول سِکھائے گئے ہیں۔ میں ہم میں سے ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں کہ ابدیت کی اِن سچائیوں کو قبول کرنے کے لیے اپنی نظر ”مرکوز“ رکھیں تا کہ ہمارے جسم بھی ”روشنی سے معمور“ہوں۔(۳ نیفی ۱۳: ۲۲

مورمن کی کتاب اور بائبل میں مرقوم اپنے وعظوں میں، نِجات دہندہ سِکھاتا ہے کہ اجسامِ فانی روشنی یا تاریکی سے معمور ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ، ہم، چاہتے ہیں کہ ہم روشنی سے معمور ہوں اور ہمارے نجات دہندہ نے سِکھایا ہے کہ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ابدیت کی سچائیوں کے پیغامات سنیں۔ اُس نے ہماری آنکھ کی مثال استعمال کی ہے، جس سے ہم اپنے جسموں میں روشنی اتارتے ہیں۔ اگر ہماری آنکھ ”مرکوز“ ہے—باالفاظِ دیگر، اگر ہم ابدی نُور اور سمجھ پانے پر غور کر رہے ہیں—وہ فرماتا ہے ”تمہارا پورا جسم نور سے منور ہو جائے گا“ (متی ۶: ۲۲؛ ۳ نیفی ۱۳: ۲۲)۔ لیکن اگر ہماری ”آنکھ بد ہو“—یعنی، اگر ہم بدی پر نظر کریں اور اُسے اپنے جسموں میں قبول کریں—توہ وہ فرماتا ہے ”تمہارا پورا جسم تاریکی سے بھر جائے گا“ (آیت ۲۳)۔ با الفاظِ دیگر ہمارے جسموں کی تاریکی یا روشنی کا انحصار اِس بات پر ہے کہ ہم سِکھائی ہوئی ابدی سچائیوں کو کیسے دیکھتے—یا قبول—کرتے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم نجات دہندہ کی دعوت پر عمل پیرا ہوں اور ابدیت کی سچائیوں کو سمجھنے کی التجا کریں۔ وہ وعدہ کرتا ہے کہ آسمانی باپ ہر ایک کو وہ سچائیاں سِکھانا چاہتا ہے جس کے وہ متلاشی ہوتے ہیں (دیکھیں ۳ نیفی ۱۴: ۸)۔ اگر ہم یہ خواہش کریں اور اپنی آنکھ کو اِسے قبول کرنے پر مرکوز رکھیں، تو نجات دہندہ وعدہ کرتا ہے ابدیت کی سچائیاں ہم پر ”عیاں کی جائیں“ گی (دیکھیں ۳ نیفی ۱۴: ۷–۸

اِس کے برعکس، ابلیس ہماری سوچ میں تذبذب برپا کرنے یا خُدا کی کہانت کے طریقہِ عمل کے جیسے اہم معاملات میں ہمیں گمراہ کرنے کے لیے بے چین ہے۔ نِجات دہندہ نے ”جھوٹے انبیا، کے بارے بھی خبردار کیا جو بھیڑوں کے روپ میں آتے ہیں مگر اندر سے پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں“ (۳ نیفی ۱۴: ۱۵)۔ اُس نے ہمیں تذبذب میں ڈالنے والی متفرق تعلیمات میں سے سچائی کو چننے کے لیے یہ کسوٹی بخشی ہے، اُس نے سکھایا ”اُن کے پھلوں سے تم اُن کو پہچان لو گے“ (۳ نیفی ۱۴: ۱۶)۔ ”ایک اچھا درخت بُرا پھل نہیں لا سکتا، نہ ہی بُرا درخت اچھا پھل لا سکتا ہے“ (آیت ۱۸)۔ اِس لیے، ہمیں سکھائے جانے والے اُصولوں اور اُن کو سِکھانے والے لوگوں کے نتائج—”پھلوں“—پر نظر رکھنی چاہیے۔ کلیسیا اور اِس کی تعلیمات و پالیسی اور قیادت کے خلاف سنے جانے والے بیشتر اعتراضات کا بہترین جواب یہی ہے۔ اُسی کسوٹی کو استعمال کریں جو نجات دہندہ نے سکھائی۔ پھلوں—نتائج کو دیکھیں۔

جب ہم اِنجیل اور یِسُوع مسِیح کی بحال شدہ اِنجیل کے پھلوں کا سوچتے ہیں، تو ہم اِس بات میں خوش ہیں کہ کیسے کلیسیا، اپنے زندہ ارکان کی زندگی ہی میں، مغربی پہاڑی وادیوں کی مقامی جماعتوں سے بڑھی، اب اِس کے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ارکان کی اکثریت ریاست ہائے متحدہ سے باہر کے ممالک میں بستے ہیں۔ اِس ترقی کے باعث، ہم نے محسوس کیا ہے کہ کلیسیا نے اپنے ارکان کی مدد کرنے کی استعداد میں بھی ترقی پائی ہے۔ ہم احکام پر عمل کرنے، بحال شدہ اِنجیل کی منادی کرنے کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے، اسرائیل کو اکٹھا کرنے اور پوری دُنیا میں ہَیکلیں تعمیر کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

ہماری رہنمائی نبی صدر رسل ایم نیلسن، کرتے ہیں، جن کی قیادت کو خُداوند نے اُس تمام ترقی کے لیے استعمال کیا ہے جو ہم نے اُن کی دو سال سے زائد کی قیادت میں محسوس کی ہے۔ اب ہم صدر نیلسن کو سننے کی سعادت پائیں گے، جو ہمیں سکھائیں گے کہ کیسے اِن مشکل حالات میں ہم یِسُوع مسِیح کی بحال شدہ کلیسیا میں اپنی ترقی کو مزید فروغ دے سکتےہیں۔

میں اِن سچائیوں کی گواہی دیتا ہوں اور اپنے نبی کے لیے دُعا میں آپ کے ساتھ شامل ہوتا ہوں، جن کا خطاب ہم اب سنیں گے، یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔