مجلسِ عامہ
خُدا کے کام کی تکمیل میں مُتّحِد
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۰


خُدا کے کام کی تکمیل میں مُتّحِد

اپنی الہٰی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ ہم اکٹھے کام کریں، کہانت کی قُدرت اور اِختیار سے برکت پاتے ہوئے۔

عزیز بہنوں اور بھائیو، آپ کے ساتھ ہونا باعثِ مسرت ہے۔ آپ جہاں بھی میری آواز سُن رہے ہیں، میں اپنی بہنوں کو بازوؤں کی گرفت اور اپنے بھائیوں کو دِلی مصافحہ کی پیشکش کرتی ہوں۔ ہم خُداوند کے کام میں مُتّحِد ہیں۔

جب ہم آدم اور حوا سے متعلق سوچتے ہیں، تو اکثر ہماری پہلی سوچ باغِ عدن میں اُن کی پُر سکون زندگی کے بارے میں ہوتی ہے۔ میں تصور کرتی ہوں کہ وہاں کا موسم ہمیشہ خوشگوار رہتا ہوگا—نہ بہت زیادہ گرم اور نہ ہی بہت زیادہ سردی—اور کہ مزیدار پھل اور سبزیاں بہتات میں اُن کی پہنچ میں اُگتیں ہوں گی تاکہ وہ جب چاہیں اُن کو کھا سکیں۔ چونکہ یہ اُن کے لیے ایک نئی دنیا تھی، دریافت کرنے کے لیے بہت کچھ تھا، لہذا جانوروں کی زندگی کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے اور اُن کے خوبصورت ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے ہر دن دلچسپ تھا۔ ان کو اطاعت کرنے کے لیے احکامات بھی دیئے گئے تھے اور ان ہدایات کی تکمیل کے مختلف طریقے تھے، جس کی وجہ سے کچھ ابتدائی اضطراب اور الجھن پیدا ہوئی۔۱ لیکن چونکہ انھوں نے ایسے فیصلے کیے جن سے ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی، انھوں نے مل کر کام کرنا سیکھا اور اُن کے—اور اپنے تمام بچوں کے بارے میں خُدا کے مقاصد کی تکمیل کے لیے وہ مُتّحِد ہو گئے۔

اب اسی جوڑے کا فانیت میں تصور کریں۔ انھیں اپنے کھانے کے لیے مشقت کرنی پڑتی، کچھ جانوروں نے انھیں اپنی خوراک سمجھا، اور انھیں ایسی مشکل چنوتیوں کا سامنا تھا جن قابو پانا مِل کر مشورت اور دُعا کرنے کے بغیر ناممکن تھا۔ میرا خیال ہے کہ چنوتیوں کو حل کرنے کے بارے میں کم از کم چند بار اُن کی رائے مختلف رہی ہوگی۔ تاہم، اُن کے گرنے کی بدولت، وہ اِس امر سے واقف تھے کہ اتحاد اور محبت سے کام کرنا ضروری تھا۔ الہامی ذرائع سے حاصل کردہ تربیت میں، انھیں نجات کا منصوبہ اور یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کے ایسے اصول سکھائے گئے تھے جو منصوبہ کو قابلِ عمل بناتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھ گئے کہ ان کا زمینی مقصد اور دائمی مقصد بالکل ایک جیسا ہے، تاہم انہوں نے مل کر محبت اور راستبازی سے محنت کرنے کے بارے میں اپنے فہم میں اطمینان اور کامیابی حاصل کی۔

شبیہ
آدم اور حوا اپنے بچّوں کو تعلیم دیتے ہوئے

جب ان کے ہاں بچے پیدا ہوئے، تو آدم اور حوا نے اپنے خاندان کو وہی سکھایا جو انہوں نے آسمانی پیغام رسانی پر معمور ہستیوں سے سیکھا تھا۔ ان کی توجہ اپنے بچوں کو ان اصولوں کو سمجھنے اور اُن کو قبول کرنے میں معاون ثابت ہونے جن کی بدولت وہ اس زندگی میں خُوشی پاسکیں، اور ساتھ ہی ساتھ ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے اور خدا کی اطاعت میں خود کو اہل ثابت کرنے کے بعد اپنے آسمانی والدین کے پاس واپس جانے کی تیاری پر بھی مرکوز تھی۔ اس عمل میں، آدم اور حوا نے اپنی الگ قوتوں کو سراہنا سیکھ لیا اور اہم ابدی کام میں ایک دوسرے کی معاونت کی۔۲

جیسے ہی صدیاں اور پھر ہزار سال آئے اور گئے، مردوں اور عورتوں کی اِلہامی اور باہمی شراکتوں کی وضاحت بہکاؤں اور غلط فہمیوں سے بھر گئیں۔ باغ عدن میں اس شاندار آغاز اور اس وقت کے دوران، مخالف ہماری جانوں کو فتح کرنے کی کوششوں میں مرد اور خواتین کو تقسیم کرنے کے اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہا تھا۔ ابلیس جانتا ہے کہ اگر وہ مردوں اور عورتوں کی محسوس کردہ یکجہتی کو نقصان پہنچائے، اگر وہ ہماری الہٰی قدر اور عہد کی ذمہ داریوں کے بارے میں ہمیں الجھا دے، تو وہ ان خاندانوں کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا، جو ابدیت کی لازمی اکائی ہیں۔

شیطان تقابل کو ایک آلے کی حیثیت سے استعمال کرتے ہوئے انسانوں کو اکسانے کے لیے برتر یا کمتر ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے، تاکہ اس ابدی سچائی کو چھپا دے کہ مردوں اور عورتوں کے فطری فرق خُدا کی طرف کی عطا کردہ ہیں اور یکساں طور پر قابلِ قدر ہیں۔ اس نے خاندان اور سماج میں خواتین کی شراکت کی تذلیل کرنے کی کوشش کی، پس اچھائی کے لیے اُن کی رفعت کے اثر کو کم کردیا۔ اُس کا مقصد مردوں اور عورتوں کی انفرادی شراکتوں کو سراہنے کی بجائے اقتدار کی جدوجہد کو فروغ دینا ہے حالانکہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل اور اتحاد میں معاونت کرتے ہیں۔

چنانچہ، برسوں سے اور پوری دنیا میں، خواتین اور مردوں کا الہامی انحصار اور پھر بھی مختلف شراکتوں اور ذمہ داریوں کی مکمل تفہیم غائب ہوگئی۔ خواتین بہت سارے معاشروں میں ساتھی حصہ داروں کی بجائے مردوں کے تابع ہوگئیں، ان کی سرگرمیاں محدود دائرہ کار تک سمٹ گئیں۔ ان تاریک اوقات میں روحانی پیش رفت سست روی کا شکار ہوگئی؛ حقیقتاً، تھوڑی ہی روحانی روشنی غالب روایات میں جکٹرے ذہنوں اور دلوں تک جا سکتی تھی۔

اور پھر بحال شدہ انجیل کی روشنی ”سورج کی چمک سے بالا تر ہو کر“۳ چمکی جب خُدا باپ اور اُس کا بَیٹا، یِسُوع مسِیح، ۱۸۲۰ کے موسمِ بہار کے شروع میں نیو یارک کے بالائی حصے میں درختوں کے جھنڈ میں لڑکے جوزف سمتھ پر ظاہرہوئے۔ اُس واقعہ سے آسمانی مُکاشفہ کا جدید بہاؤ شروع ہوا۔ مسِیح کی اصل کلیسیا کے بحال ہونے والے عناصر میں سے پہلا خُدا کی کہانت کا اختیار تھا۔ جب بحالی کا سلسلہ بدستور جاری رہا، تو مرد اور عورتوں کو شراکت دار کی حیثیت سے کام کرنے کی اہمیت اور صلاحیت کا ایک بار پھر احساس ہونے لگا، جس مقدس کام کو کرنے کا اُس نے اُنھیں اختیار دیا اور راہنمائی بخشی۔

شبیہ
انجمنِ خواتین کی تنظیم

۱۸۴۲ میں، جب نوخیز کلیسیا کی خواتین اس کام میں مدد کے لیے ایک با ضابطہ گروہ کی تشکیل دینا چاہتی تھیں تو، صدر جوزف سمتھ نے انھیں ”کہانت کی طرز کے مطابق کہانت کے تحت“ منظم کرنے کی تحریک پائی۔۴ اس نے کہا، ”اب میں خدا کے نام پر آپ کو کنجیاں سونپتا ہوں …—یہ اچھے دنوں کی شروعات ہے۔“۵ اور جب سے یہ کنجیاں سونپی گئیں، خواتین کے لئے تعلیمی، سیاسی، اور معاشی مواقعے آہستہ آہستہ پوری دُنیا میں پھیلنا شروع ہوگئے۔۶

انجمنِ خواتین کے نام سے قائم کردہ، خواتین کے لیے کلیسیا کی یہ نئی تنظیم، اس زمانے کی خواتین کی دیگر تنظیموں کے برعکس تھی کیونکہ اس کا قیام ایک نبی نے کیا تھا جس نے کلیسیا کے ڈھانچے میں، اِس سے الگ نہیں، خواتین کو اختیار، مقدس ذمہ داریاں، اور سرکاری عہدے دینے کے لیے کہانت کے اختیار کا استعمال کیا تھا۔۷

نبی جوزف سمتھ کے دن سے لے کر آج تک، ہر چیز کی مسلسل بحالی سے کہانت کے اختیار اور اقتدار کی ضرورت میں روشن خیالی آگئی ہے جس سے مرد اور خواتین دونوں کو اپنی الہٰی مقرر کردہ ذمہ داریوں کو نبھانے میں مدد ملی ہے۔ حال ہی میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ جن خواتین کو کہانتی کنجیوں کے حامل افراد کی راہنمائی میں مخصوص کیا گیا ہے وہ اپنی بلاہٹوں میں کہانت کے اختیار سے کام کرتی ہیں۔۸

اکتوبر۲۰۱۹ میں، صدر رسل ایم نیلسن نے یہ تعلیم دی کہ جن خواتین نے ہیکل میں ودیعت پائی، انھوں خُدا کے ساتھ باندھے گئے مقدس عہود کی پابندی کے باعث اپنی زندگیوں اور گھروں میں کہانت کی قدرت کی نعمت پائی۔۹ اُنھوں نے واضح کیا کہ ”آسمان بالکل اُسی طرح خواتین کے لیے کُھلے ہیں جن کو خُدا کی رواں دواں قُدرت اُن کے کہانتی عہود کی بدولت عطا ہُوئی جیسے اُن مردوں کو جو کہانت بردار ہیں۔“ اور انھوں نے ہر بہن کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ”نجات دہندہ کی قدرت سے فیاضی کے ساتھ اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کی مدد کے لیے فیض پائیں۔“۱۰

تو آپ کے اور میرے لئے اس کا کیا مطلب ہے؟ کہانت کے اختیار اور قدرت کو سمجھنے سے ہماری زندگیاں کیسے تبدیل ہوتی ہیں؟ یہ فہم مرکزی اہمیت کا حامل ہے کہ جب خواتین اور مرد اکٹھے مِل کر کام کرتے ہیں، تو ہم الگ کام کرنے سے کہیں زیادہ پھل حاصل کرتے ہیں۔۱۱ ہمارے کردارتکمیلی ہیں نہ کہ مسابقتی۔ اگرچہ خواتین کو کہانت کے عہدے پر مامور نہیں کیا جاتا، جیسا کہ پہلے مشاہدہ کیا گیا ہے کہ خواتین کو کہانت کی قُدرت کی نعمت حاصل ہوتی ہے جب وہ اپنے عہود پر قائم رہتی ہیں، اور ایک بُلاہٹ کے لیے مخصوص ہونے کے بعد کہانتی اِختیار کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

اگست کے ایک خوبصورت دن، مجھے صدر رسل ایم نیلسن کے ساتھ، ہارمنی، پنسلوینیا میں جوزف اور ایما سمتھ کے نئے تعمیر شدہ گھر میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا جہاں قریب ہی ایامِ آخر میں ہارونی کہانت بحال ہوئی تھی۔ ہماری گفتگو میں، صدر نیلسن نے بحالی میں خواتین کے اہم کردار کے بارے میں بات کی۔

صدر نیلسن: ”جب میں کہانت کی بحالی کی اِس جگہ پر آتا ہوں تو ایک بہت اہم پہلو مجھے یاد آتا ہے جو کہ وہ اہم کردار ہے جو خواتین نے بحالی میں ادا کیا تھا۔

”جب جوزف نے سب سے پہلے مورمن کی کتاب کا ترجمہ شروع کیا تو اِسے تحریر کس نے کیا تھا؟ ٹھیک ہے، اُس نے تھوڑی سی تحریر کی، لیکن زیادہ نہیں۔ ایما نے تحریر کرنے میں مدد کی۔

”اور پھر میں سوچتا ہوں کہ کیسے جوزف پالمئرا، نیویارک میں واقع اپنے گھر کے قریب جنگل میں دُعا کرنے کے لیے گیا۔ وہ کہاں گیا؟ وہ مُقدّس جُھنڈ میں گیا۔ وہ وہاں کیوں گیا؟ کیونکہ دُعا مانگنے کے لیے اُس کی ماں بھی وہاں ہی جاتی تھی۔

”یہ اُن کئی عورتوں میں سے صرف دو ہیں جنھوں نے کہانت کی بحالی اور کلیسیا کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیے۔ بِلا شبہ، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بیویاں بھی اُتنی ہی اہم ہیں جتنی اُس وقت کی یہ خواتین تھیں۔ یقیناً، وہ ہیں۔“

ایما اور لوسی اور جوزف کی طرح، ہم بھی تب نہایت موثر ہوتے ہیں جب ہم ایک دوسرے سے سیکھنے کے لیے راضی ہوتے ہیں اور یِسُوع مسِیح کے شاگرد بننے کے مقصد میں متحد ہوتے اور اس راہ میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔

ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ ”کہانت خُدا کے بچوں کی زندگیوں کو اَن گنت طریقوں سے برکت دیتی ہے۔ … [کلیسیائی] بُلاہٹوں، ہیکل کی رسومات، خاندانی رشتوں، اور پُرسکون، انفرادی خدمت میں، ایام آخر کی خواتین اور مرد کہانتی قدرت اور اختیار کے ساتھ اکٹھے آگے بڑھتے ہیں۔ خُدا کے کام کو اُس کی قدرت کے ذریعہ سرانجام دینے میں مردوں اور عورتوں کا یہ باہمی انحصار نبی جوزف سمتھ کے ذریعہ بحال ہونے والی یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کا مرکز ہے۔“۱۲

اتحاد اُس اِلہامی کام کے لیے نہایت ضروری ہے جس کا اعزاز اور بُلاہٹ ہمیں حاصل ہے، لیکن ایسا خود ہی نہیں ہوتا۔ ایک ساتھ مل کر مشورت کرنے کے لیے کوشش اور وقت درکار ہوتا ہے—ایک دوسرے کو سننے، دوسرے کی رائے کو سمجھنے، اور تجربات کا اشتراک کرنے کے لیے—لیکن یہ عمل مزید الہامی فیصلوں کے حصول کا سبب بنتا ہے۔ اپنی الہٰی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ ہم اکٹھے کام کریں چاہے یہ ذمہ داریاں گھر کی ہوں یا کلیسیائی، اپنے متفرق لیکن تکمیلی کرداروں میں کہانت کی قُدرت اور اِختیار سے برکت پاتے ہوئے۔

وہ شراکت داری آج عہد کی خواتین کی زِندگیوں میں کیسے نمایاں ہوتی ہے؟ میں آپ کو ایک مثال دیتی ہوں۔

شبیہ
ٹینڈم سائیکل پر بیٹھا ایک جوڑا

ایلیسن اور جان کی ایک شراکت داری تھی جو منفرد تھی۔ انہوں نے مختصر اور لمبے مقابلوں میں ٹینڈم سائیکل چلائی۔ اس گاڑی پر کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے، دونوں سواروں کا ہم آہنگ ہونا شرطِ لازم ہے۔ انہیں صحیح وقت پر اسی سمت جھکنا پڑتا ہے۔ ایک شخص دوسرے پر حاوی نہیں ہوسکتا، لیکن انہیں واضح طور پر بات چیت کرنا ہوتی ہے اور ہر ایک اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ آگے والے، کپتان، کے پاس کنٹرول ہوتا ہے کہ کب بریک لگائیں اور کب کھڑے ہوں۔ پیچھے والے، سٹاکر کو، اِس پر دھیان دینے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور اگر وہ تھوڑا سا پیچھے رہ جاتے ہیں تو اضافی طاقت دینے کے لیے تیار رہتا ہے یا اگر وہ دوسرے سائیکل سواروں کے قریب ہوجاتے ہیں تو آہستہ ہو جاتا ہے۔ انہیں آگے بڑھنے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوتاہے۔

ایلیسن نے وضاحت کی: ”پہلے تھوڑی دیر کے لیے، کپتان کے عہدے پر فائز شخص کہے گا ’کھڑے ہو جاؤ‘ جب ہمیں کھڑے ہونے کی ضرورت ہو اور جب پیڈلنگ کو روکنے کی ضرورت پڑتی ہے تو ’بریکنگ‘ کہے گا۔ تھوڑی دیر کے بعد، وہ شخص جو سٹاکر کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا ہے یہ جان جاتا ہے کہ کپتان کب کھڑے ہونے یا بریک لگانے کا حکم دے گا، اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر جان پاتے ہیں کہ دوسرا شخص کیا کر رہا ہے اور بتا سکتے ہیں کہ وہ کب مشکل میں ہے اور [پھر] پہلا شخص کمی پیشی کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ واقعی اعتماد اور اکٹھے کام کرنے کے بارے میں ہے۔“۱۳

جان اور ایلیسن نہ صرف اپنی سائیکل چلانے میں متحد تھے، بلکہ وہ اپنی شادی میں بھی متحد تھے۔ ہر ایک اپنی خوشی سے زیادہ دوسرے کی خوشی کا خواہاں ہوتا ہے؛ ہر ایک دوسرے میں بھلائی کی تلاش کرتا ہے اور اپنے آپ میں جو چیز اچھی نہیں پاتا اُس پر غالب آنے کے لیے کام کرتا ہے۔ انہوں نے باری باری راہنمائی کی اور جب ایک ساتھی مشکل میں ہوتا تو دوسرا زیادہ کوشش کرتا۔ ہر ایک نے دوسرے کی شراکت کی قدر کی اور جب انہوں نے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو اکٹھا کیا تو ان کو چنوتیوں کے بہتر حل ملے۔ وہ مسِیح کی محبت کے ذریعے واقعی ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں۔

آج کل اکٹھے متحد ہو کر کام کرنے کے الہٰی نمونے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے نہ کہ ”پہلے میں“ کے پیغامات جو کہ ہمارے ارد گرد گونج رہے ہیں۔ خواتین کو مخصوص، الہٰی نعمتیں حاصل ہیں۱۴ اور انھیں انفرادی ذمہ داریاں دی جاتی ہیں، لیکن یہ مردوں کی نعمتوں اور ذمہ داریوں سے زیادہ—یا کم—اہم نہیں ہیں۔ ہر ایک کو آسمانی باپ کے الہٰی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس منصوبے کے لیے سب کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ہر بچے کو اپنی الہٰی صلاحیت کو پورا کرنے کا بہترین موقع فراہم کرے۔

آج، ”ہمیں ایسی خواتین کی ضرورت ہے جو ہماری ماں حوا کی سی ہمت اور بصیرت کی حامل ہوں“۱۵ کہ وہ جانوں کو مسِیح کے پاس لانے کے لیے اپنے بھائیوں سے متحد ہوں۔۱۶ مردوں کو حقیقی شراکت دار بننے کی ضرورت ہے بجائے اِس کے کہ وہ سمجھیں کہ وہ اکیلے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں یا ”دکھاوے کے“ شراکت دار کے طور پر کام کریں جبکہ خواتین زیادہ تر کام سرانجام دیں۔ خواتین کو شراکت دار کی حیثیت سے ”آگے بڑھنے [اور] [اپنی] حق کی اور ضروری جگہ“۱۷ لینے پر راضی ہونے کی ضرورت ہے یہ سوچنے کی بجائے کہ انہیں یہ سب خود کرنے کی ضرورت ہے یا انتظار کرنے کی کہ اُن کو بتایا جائے کہ کیا کرنا ہے۔۱۸

خواتین کو اہم شراکت دار کی حیثیت سے دیکھنا برابری پیدا کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ عقائدی صداقت کو سمجھنے کے بارے میں ہے۔ اس کے لیے ایک پروگرام کے قیام کے بجائے، ہم عورتوں کی قدر کرنے کے لیے متحرک طور پر کام کر سکتی ہیں جس طرح خُدا کرتا ہے: نجات اور سرفرازی کے کام میں ضروری شراکت دار کی حیثیت سے۔

کیا ہم تیار ہیں؟ کیا ہم ثقافتی تعصب پر قابو پانے اور اس کے بجائے بنیادی تعلیم پر مبنی الہٰی نمونوں اور طریق کار کو اپنانے کی کوشش کریں گی؟ صدر رسل ایم نیلسن نے ہمیں دعوت دی ہے کہ ہم ”اِس مُقدّس کام میں ہاتھوں میں ہاتھ لے کر ساتھ چلیں … [تاکہ] دُنیا کو خُداوند کی آمدِ ثانی کے لیے تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔“۱۹ ایساکرنے سے، ہم ہر فرد کی شراکت کی قدر کرنا اور اُس اثر میں اضافہ کرنا سیکھیں گے جس سے ہم اپنے الہٰی کردار کو پورا کرتے ہیں۔ ہم کہیں زیادہ خوشی محسوس کریں گے جس کا ہم نے کبھی تجربہ کیا ہے۔

کاش ہم میں سے ہر کوئی خُداوند کے الہامی طریقے میں متحد ہونے کا انتخاب کر کے اُس کے کام کوآگے بڑھائے۔ ہمارے پیارے نجات دہندہ، یِسُوع مسِیح کے نام پر آمین۔

حوالہ جات

  1. دیکھیں پیدائش ۳: ۱–۱۸؛ موسیٰ ۴: ۱–۱۹۔

  2. دیکھیں موسیٰ ۵: ۱–۱۲۔ یہ آیات آدم اور حوا کی حقیقی شراکت داری کا درس دیتی ہیں: اُن سے بچے پیدا ہوئے (آیت ۲)؛ اُنھوں نے اپنے اور اپنے بچّوں کی فراہمی کے لیے مِل کر محنت کی (آیت ۱)؛ اُنھوں نے اکٹھے دُعا کی (آیت ۴)؛ اُنھوں نے اکٹھے خُدا کے احکامات کی تعمیل کی اور قربانیاں چڑھائیں (آیت ۵)؛ اُنھوں نے سیکھا (آیات ۴، ۶–۱۱) اور یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کو اکٹھے اپنے بچّوں سِکھایا (آیت ۱۲

  3. جوزف سمتھ—تاریخ ۱: ۱۶۔

  4. Joseph Smith, in Sarah M. Kimball, “Auto-Biography,” Woman’s Exponent, Sept. 1, 1883, 51; see also Teachings of Presidents of the Church: Joseph Smith (2007), 451.

  5. Joseph Smith, in “Nauvoo Relief Society Minute Book,” 40, josephsmithpapers.org.

  6. دیکھیں جارج البرٹ سمتھ، ”Address to the Members of the Relief Society،“ Relief Society Magazine، دسمبر ۱۹۴۵، ۷۱۷۔

  7. دیکھیں John Taylor, in Nauvoo Relief Society Minutes, Mar. 17, 1842, available at churchhistorianspress.org. ایلیزا آر سنو کے مطابق، جوزف سمتھ نے یہ بھی سِکھایا کہ خواتین سابقہ​ادوار میں بھی باضابطہ طور پر منظم تھیں (دیکھیں الیزا آر سنو، ”Female Relief Society،“ Deseret News، اپریل ۲۲، ۱۸۶۸، ۱؛ Daughters in My Kingdom: The History and Work of Relief Society [۲۰۱۱]، ۱–۷)۔

  8. دیکھیں ڈیلن ایچ اوکس، ”The Keys and Authority of the Priesthood،“ لیحونا، مئی ۲۰۱۴، ۴۹–۵۲۔

  9. دیکھیں رسل ایم نیلسن، ”رُوحانی خزانے،“ لیحونا، مئی ۲۰۱۹، ۷۸، ۷۹۔

  10. دیکھیں رسل ایم نیلسن، ”رُوحانی خزانے،“ ۷۷۔

  11. ”لیکن بحال شدہ اِنجیل ابدی خیال کی تعلیم دیتی ہے کہ شوہر اور بیویاں باہم وابستہ ہیں۔ وہ برابر ہیں۔ وہ شراکت دار ہیں“ (بروس آر اور میری کے ہافن، ”Crossing Thresholds and Becoming Equal Partners،“ لیحونا، اگست ۲۰۰۷، ۲۸)۔

  12. Gospel Topics, “Joseph Smith’s Teachings about Priesthood, Temple, and Women,” topics.ChurchofJesusChrist.org.

  13. ذاتی خط و کتابت۔

  14. دیکھیں رسل ایم نیلسن، ”A Plea to My Sisters،“ لیحونا، نومبر ۲۰۱۵، ۹۵–۹۷۔

  15. دیکھیں رسل ایم نیلسن، ”A Plea to My Sisters،“ ۹۷۔

  16. دیکھیں General Handbook: Serving in The Church of Jesus Christ of Latter-day Saints, 1.4, ChurchofJesusChrist.org.

  17. دیکھیں رسل ایم نیلسن، ”A Plea to My Sisters،“ ۹۷۔

  18. ”میری پیاری بہنوں، آپ کی جو بھی بُلاہٹ ہو، آپ کے جو بھی حالات ہوں، ہمیں آپ کے تاثرات، آپ کی بصیرت اور آپ کے اِلہام کی ضرورت ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ آپ وارڈ اور سٹیک کے مشاورتی اجلاس میں بولیں اور بات کریں۔ جب آپ اپنے شوہر کے ساتھ اپنے خاندان کی نگرانی کرنے میں متحد ہوں تو ضروری ہے کہ ہر شادی شدہ بہن ’ایک شراکت دار اور مکمل حصہ دار‘ کی حیثیت سے بات کرے۔ شادی شدہ یا غیر شادی شدہ، آپ بہنیں مخصوص صلاحیتوں اور خصوصی بصیرت کی مالک ہیں جو آپ کو خُدا کی طرف سے بطور تحفہ موصول ہوئی ہیں۔ ہم بھائی آپ کے منفرد اثر کی نقل نہیں کرسکتے۔ …

    ”… ہمیں آپ کی قوت کی ضرورت ہے!“ (رسل ایم نیلسن، ”A Plea to My Sisters،“ ۹۷)۔

  19. دیکھیں رسل ایم نیلسن، ”A Plea to My Sisters،“ ۹۷۔