مجلسِ عامہ
کامل درخشاں اُمید
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۰


کامل درخشاں اُمید

کیوں کہ بحالی نے اِس بُنیادی سچّائی کی ایک بار پھر تصدیق کر دی کہ خُدا اِس دُنیا میں مصروفِ عمل ہے، لہٰذا ہم اُمید کر سکتے ہیں، ہمیں اُمید کرنی چاہیے بھی، یہاں تک کہ جب انتہائی ناقابلِ تسخیر مُشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

گزشتہ اکتوبر میں صدر رسل ایم نیلسن نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اپریل ۲۰۲۰ میں ہونے والی اِس مجلسِ عامہ کے لیے مُنتظر رہیں اور اپنے اپنے انداز سے ہم سب ماضی میں جھانکتے ہُوئے یِسُوع مسِیح کی اِنجیل کو بحال کرنے میں خُدا کے ہاتھ کا جلال دیکھیں۔ سسٹر ہالینڈ اور مَیں نے اِس پیغمبرانہ دعوت کو سنجیدگی سے لیا۔ ہم نے اپنے آپ کو ۱۸۰۰ کی دہائی کے اوائل میں اُس دَور کے مذہبی عقائد پر نظر کرتے ہُوئے زندگی بسر کرنے کا تصور کیا۔ اِس تصوراتی ماحول میں، ہم نے خود سےپُوچھا، ”یہاں کس چیز کی کمی ہے؟“ ہم کس چیز کے مُشتاق ہوتے؟ ہم کس چیز کی اُمید کرتے کہ ہمارے رُوحانی اِشتیاق کے جواب میں خُدا فراہم کرے گا؟“

اچھا، ایک بات کے لیے، ہمیں احساس ہُوا کہ دو صدیاں پہلے بہ نسبت اُس زمانے میں جو کچھ بھی تھا،ہم نے خُدا کی زیادہ سچّی ذات کی شدت سے آرزو کی ہوتی، کیوں کہ اکثر ایسا لگتا تھا کہ وہ صدیوں سے مذہبی غلطی اور کلیسیائی غلط فہمی کے پیچھے چھِپ گئی تھی۔ اُس زمانے کی ممتاز مذہبی شخصیت ولیم ایلری چیننگ کا جملہ مُستعار لیتے ہُوئے، ہم نے ”خُدا کی پدرانہ سیرت“ کی تلاش کی ہوتی، جس کو چیننگ نے ”مسیحیت کا پہلا عظیم عقیدہ“ سمجھا۔۱ ایسے عقیدے نے خُدا کو آسمان میں شفیق باپ کی حیثیت سے تسلیم کیا ہوتا، بجائے اِس کے کہ کرخت مُنصف جو سخت اِنصاف فراہم کرے یا غیر حاضر آقا کی حیثیت سے جو کبھی زمینی معاملات میں مشغول تھا لیکن اب کائنات میں کہیں اور مصروفِ عمل تھا۔

جی ہاں، ۱۸۲۰ میں ہماری اُمیدیں خُدا کو موجودہ دَور میں اِس طرح صاف صاف انداز میں راہ نمائی کرتے اور کلام کرے ہوُئے ڈھونڈتے جیسے اُس نے ماضی میں کیا تھا، اُس لفظ کے سب سے زیادہ محبت بھرے مفہوم میں، ایک سچّا باپ۔ وہ یقینی طور پر سرد مہر اور من موجی جابر نہ ہوتا جس نے چند منتخب لوگوں کے لیے نجات مُقدر کی ہوتی اور اِس کے بعد باقی خاندانِ اِنسان کو دوزخ کے سُپرد کر دیا ہوتا۔ نہیں، وہ ایسا ہوگا جس کا ہر عمل، اِلہٰی اعلان کے مُطابق ہوگا، ”دُنیا کی بھلائی کے واسطے؛ کیوں کہ وہ دُنیا سے محبّت کرتا ہے“۲ اور اِس میں بسنے والے ہر فرد کے واسطے۔ یہی محبت یِسُوع مسِیح، اپنے اِکلوتے بیٹے، کو زمین پر بھیجنے کی اصل وجہ ہوگی۔۳

یِسُوع مسِیح کا ذِکر کرتے ہُوئے، اگر ہم اُنیسویں صدی کے اِن پہلے برسوں میں رہتے تو ہمیں بڑا پُرخطر احساس ہوتا کہ نجات دہندہ کی زندگی اور قیامت کی حقیقت کے بارے میں شکوک و شبہات نے مسیحیت کے اندر بڑی گرفت اِختیار کرنا شروع کردی ہے۔ پس، ہم پُوری دنیا کے لیے ثبوت کے نُزول کی اُمید کرتے ہوں گے جو بائِبل کی گواہی کی تصدیق کرے گا کہ یِسُوع المسِیح ہے، خُدا کا حقیقی بیٹا، الفا اور اومیگا، واحد نجات دہندہ جس کو یہ دُنیا جانے گی۔ یہ ہماری سب سے عزیز اُمیدوں میں سے ہوتا ہے کہ دُوسرے صحیفوں کے شواہد کو آگے لایا جائے، کچھ ایسا جو یِسُوع مسِیح کا ایک اور عہد نامہ بن سکتا ہے، جو اُس کی معجزاتی پیدایش، حیرت انگیز خدمت، کفارے کی قُربانی اور پُرجلال جی اُٹھنے کے بارے میں ہمارے علم کو وسیع اور عریض بنا سکتا۔ درحقیقت اِس قسم کا صحیفہ ”آسمان سے [بھیجی گئی] راست بازی؛ اور زمین سے آگے [بھیجی گئی] سچائی“ ہوگی۔۴

اُس دَور میں مسِیحی دُنیا کا مشاہدہ کرتے ہوئے، ہم نے اُمید کی ہوتی کہ کسی ایسے شخص کو تلاش کرتے جس کو خُدا نے مُقرر کیا سچّی کہانت کے اِختیار سے جو بپتسما دے سکتا، رُوحُ القُدس کی نعمت عطا کر سکتا، اور اِنجیل کی ساری رُسوم ادا کرتا جو سرفرازی کے لیے ضروری ہیں۔ ۱۸۲۰ میں، ہم نے خُداوند کے عالی شان گھر کی واپسی کے بارے میں یسعیاہ، مِیکاہ اور دُوسرے قدیم نبیوں کے پُرجوش وعدوں کو پورا کرتے ہوئے دیکھنے کی اُمید کی ہوگی۔۵ ہم پاک رُوح کے ساتھ، رُسوم، قُدرت، اور اِختیار کے ساتھ ابدی سچّائیاں سِکھانے، شخصی زخموں پر مرہم رکھنے، اور خاندانوں کو ہمیشہ کے لیے مُہر بند کرنے کے لیے دوبارہ قائم کردہ مقدس ہیکلوں کا جلال دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ مَیں نے ہر طرف اور ہر جگہ تلاش کیا ہوتا کہ کوئی شخص مجھے اور میری پیاری پیٹریشیا سے یہ کہنے کا مجاز مل سکے کہ کسی صورت میں ہمارا نِکاح اِس دُنیا اور ساری ابدیت کے لیے مُہربند ہُوا ہوتا، کبھی نہ سننے یا ہم پر خوف ناک بددُعا کہ ”تُم موت تک وفادار رہو“ مسلط ہُوتی۔ مَیں جانتا ہُوں کہ ”[ہمارے] باپ کے گھر میں بہت سارے مکان ہیں،“۶ لیکن، ذاتی طور پر بات کرتے ہوئے، اگر مَیں اِتنا خُوش قسمت ہوتا کہ اِن میں سے کسی کا ایک وارث بن جانتا، تو میرے حصّے میں کوئی بوسیدہ جھونپڑی کے سِوا کچھ نہ آ سکتا تھا اگر پیَٹ اور ہمارے بچے میراث میں حصہ پانے کے لیے میرے ساتھ نہ ہوتے۔ اور ہمارے آباواجداد کے لیے، جن میں سے بعض نے یِسُوع مسِیح کا نام سُنے بغیر ہی قدیم وقتوں میں زندگی گُزاری اور وفات پا گئے، ہم نے اُمید کی ہوگی کہ بائِبل کی نہایت ہی برحق اور رحیم سچائیوں میں سے کو بحال کیا جائے—زندہ اِنسان اپنے رفتگان کے لیے نیابتی رُسوم ادا کریں۔۷ مَیں کسی ایسے عمل کا تصّور نہیں کر سکتا جو اِس سے زیادہ عالی شان ہو جو پیارے خُدا کی اپنے زمینی بچّوں کی فکرمندی کو ظاہر کر سکے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کب حیات تھے یا کہاں وفات پائی تھی۔

بہرکیف، ہماری ۱۸۲۰ کی اُمیدوں کی فہرست مزید بڑھ سکتی ہے، لیکن شاید بحالی کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ ایسی اُمیدیں رائیگاں نہ ہوتیں۔ مُقّدس جُھنڈ میں آغاز اور آج کے دِن تک یہ سلسلہ جاری ہے، اِن آرزوؤں کو حقیقت کاجامہ پہنانا شُروع ہُوا اور حقیقت بنیں، جیسے پولُوس رُسول اور دُوسروں نے سِکھایا، وہ ہماری جان کا اَیسا سچّا لنگر ہے جو ثابِت اور قائِم رہتا ہے۔۸ جس کی کبھی صرف اُمید کی جاتی تھی اب وہ تاریخ بن چکی ہے۔

یوں، ہم نے دُنیا کے لیے خُدا کی فضیلت کے گُزشتہ ۲۰۰ برس پر نظر دوڑائی۔ البتہ آگے کس بات کے مُنتظر ہیں؟ ہماری اُمیدیں ہیں جو ابھی تک پُوری نہیں ہوئیں۔ اب جب ہم بات کر رہے ہیں، ہم COVID-19 کے ساتھ جنگ لڑنے جا رہے ہیں ”سب تیاری کریں“، یہ ایک خاص یاد دہانی ہے کہ ریت کے دانے۹ سے ۱۰۰۰ گنا چھوٹے وائرس۱۰ نے پوری آبادی اور عالمی معیشت کو گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہم اُن کے لیے دُعا گو ہیں جِنھوں نے اپنے پیاروں کو اِس جدید وبا کی وجہ سے کھویا ہے، اِس کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے بھی جو حالیہ مُتاثرین ہیں یا خطرے میں ہیں۔ ہم یقیناً اُن کے لیے دُعا گو ہیں جو حفظانِ صحت کے لیے اعلیٰ خدمت دے رہے ہیں۔ جب ہم اِس پر قابو پا چُکیں گے—اور ہم پائیں گے—کاش ہم دُنیا کو بھوک کے وائرس سے آزاد کرانے، محلوں اور قوموں کو غربت کے وائرس سے چُھٹکارا دِلانے کے لیے یکساں طور پر کاربند ہوں۔ کاش ہم ایسے سکولوں کی اُمید رکھیں جہاں طلبا کو تعلیم دی جاتی ہے—وہ گولی لگنے سے خوف زدہ نہیں—اور خُدا کے ہر بچے کے شخصی وقار کے حق کے لیے، کسی قسم کے نسلی، قومی، یا مذہبی تعصب سے پاک۔ یہ ساری باتیں اِن دو عظیم حُکموں کی مزید پاس داری کے لیے ہماری مُستقل اُمید کو تقویت پُہنچاتی ہیں کہ: خُدا کی مشورت پر عمل کرتے ہوئےاُس سے پیار کریں اور اپنے ہمسایوں سے شفقت اور ہمدردی، صبر اور معافی کا مظاہرہ کریں۔۱۱ یہ دو الہٰی ہدایات اب بھی ہیں—اور ہمیشہ رہیں گی—ہمیں اپنے بچوں کے حوالے بہتر دُنیا کرنے کی واحد حقیقی اُمید ہے جس سے وہ اب واقف ہیں۔۱۲

اِن عالم گیر آرزوؤں کے علاوہ، آج کے بہت سارے سامعین کی گہری شخصی اُمیدیں ہیں: اَزدواجی زندگی میں بہتری لانے کی اُمید، یا کبھی کبھی صرف زوج کی اُمید؛ کسی لت پر قابو پانے کی اُمید؛ کسی گُم راہ بچے کے واپس آنے کی اُمید؛ سو قسم کے جسمانی اور جذباتی روگ کے روک تھام کی اُمید۔ کیوں کہ بحالی نے اِس بُنیادی سچّائی کی ایک بار پھر تصدیق کر دی کہ خُدا اِس دُنیا میں مصروفِ عمل ہے، لہٰذا ہم اُمید کر سکتے ہیں، ہمیں اُمید کرنی چاہیے بھی، یہاں تک کہ جب انتہائی ناقابلِ تسخیر مُشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ صحیفہ کا یہی مطلب تھا جب اَبرہام نااُمّیدی کی حالت میں اُمّید کے قابل ہُوا۱۳—یعنی وہ یقین نہ کرنے کی ہر وجہ کے باوجود بھی یقین کرنے پر مُصر تھا—حالاں کہ اُسے اور اُس کی سارہ کو حاملہ ہونا بالکل ناممکن نظر آتا تھا۔ لہٰذا، مَیں پوچھتا ہُوں، ”اگر ہماری ۱۸۲۰ کی اُمیدوں میں سے بہت ساری البتہ شمالی نیو یارک کے درختوں کے ایک چھوٹے سے جُھنڈ میں محض ایک لڑکے کے گھٹنے ٹیکنے الہٰی نُور کی جھلک کے ساتھ پُورا ہونا شروع ہوسکتی ہیں تو، ہمیں کیوں اُمید نہیں رکھنی چاہیے کہ راست حسرتیں اور مانندِ مسِیح حوصلے کیا اب بھی حیرت انگیز اور مُعجزانہ طور پر، تمام اُمیدوں کے خُدا کے وسیلے سے پُورے نہیں ہو سکتے؟“ ہم سب کو یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ جس چیز کے ہم راست بازی سے مُشتاق ہوتے ہیں وہ کسی روز، کسی وسیلے سے، کسی نہ کسی طرح ہمیں مِل سکتی ہے۔

بھائیو ، بہنو، ہم جانتے ہیں کہ ۱۹ویں صدی کے اوائل میں کون کون سی مذہبی خامیاں تھیں۔ مزید برآں، ہم آج کی مذہبی کوتاہیوں میں سے بعض سے واقف ہیں جس کی بھوک اور چند کی نامکمل اُمید ابھی باقی ہے۔ ہم اُن میں سے بہت ساری ناگواریوں سے ہم واقف ہیں جو بعض لوگوں کو روایتی مذہبی اِداروں سے دُور کر رہی ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں، جیسا کہ ایک دِل برداشہ مُصنف نے لکھا ہے کہ، ”کئی مذہبی راہ نما [موجودہ دَور کے]لگتا ہے جاہل ہیں“ اِس قسم کی گراوٹ کا ازالہ کرتے ہُوئے، جواب پیش کیا ”شِفا کے لیے عقیدے کا پتلا دلیہ، بے فائدہ علامتی سرگرمی، خلافِ شرع چکنی چُپڑی باتیں، [یا کبھی کبھی صرف] بے ہُودہ بکواس“۱۴—اوروہ بھی اَیسے وقت میں جب دُنیا کو بہت زیادہ ضرورت ہے، جب اُبھرتی ہوئی نسل زیادہ سے زیادہ کی مستحق ہے ، اور جب یِسُوع کے زمانے میں اُس نے بے حد زیادہ عطا کیا ہو۔ بحیثیتِ مسِیح کے شاگِرد، ہم اپنے زمانے میں اُن قدیم اِسرائیلیوں سے اُوپر اُبھر سکتے ہیں جِنھوں نے ماتم کیا، ”ہماری ہڈِّیاں سُوکھ گئِیں اور ہماری اُمّید جاتی رہی۔“۱۵ در حقیقت، اگر ہم بالآخر اُمید کھو دیتے ہیں، تو ہم اپنی آخِری تکیہ گاہ کھوتے ہیں۔ عین دوزخ کے دروازے پر ہی تھا کہ دانتے نے اپنی Divina Commedia کے ذریعے سے سب مُسافروں کو مُتنبہ کیا: ”ساری اُمیدیں ترک کردو،“ اُس نے کہا، ”تُم سب جو یہاں داخل ہو۔“۱۶ سچّ جب اُمید جاتی رہتی ہے، تو ہمارے پاس ہر طرف سے لپکنے والے دوزخ کے شعلے رہ جاتے ہیں۔

پس، جب ہم دِیوار سے لگ جاتے ہیں اور، جیسا کہ گیت کہتا ہے، ”دُوسرے مددگار ناکام ہو جائیں اور سُکون فرار ہو جائے،“۱۷ تو ہماری سب سے زیادہ ناگُزیر خوبیوں میں سے یہ اُمید کی اَن مول نعمت ہوگی جس کا دارومدار خُدا پر ہمارے اِیمان اور دُوسروں کے لیے محبت پر ہوتا ہے۔

اِس دو صد سالہ برس میں، جب ہم پیچھے مُڑ کر دیکھتے ہیں کہ ہمیں کیا کچھ عطا کیا گیا اور یہ جان کر خُوش ہوں کہ ہماری بہت اُمیدیں پُوری ہُوئی ہیں، مَیں اُس پیاری سی نوجوان مُبلغہ بہن کے جذبات کو دُہراتا ہُوں جس نے صرف چند ماہ قبل جوہانسبرگ میں ہمیں بتایا تھا، ”[ہم] اِتنے دُوریہاں اِس لیے نہیں آئے کہ محض اِتنے دُور آنا ہے۔“۱۸

اب تک کے سب سے زیادہ مرقوم پُرتاثیر الوداعی صحیفائی حوالے کو اپنے اَلفاظ میں، نیفی نبی اور اُس بہن کے ساتھ کہتا ہُوں:

”اب، میرےپیارے بھائیو [اور بہنو]، جب تُم نے [بحالی کے اِن پہلے پھلوں کو پا لیا]، تو مَیں تُم سے پوچھتا ہُوں آیا سب کچھ مکمل ہو گیا ہے؟ دیکھو، مَیں تُم سے کہتا ہُوں، نہیں۔ —

”—تُم ضرور مِسیح میں ثابت قدمی کے ساتھ، کامل درخشاں اُمید پا کر، اور خُدا اور کُل بنی نوع اِنسان کی محبت میں آگے بڑھو۔ — اگر تُم بڑھو گے[،] باپ یوں فرماتا ہے:تُم ابدی زندگی پاؤ گے۔“۱۹

مَیں ہر اُس شے کا شُکر ادا کرتا ہُوں، میرے بھائیو اور بہنو، جو ہمیں اِس آخری اور سارے زمانوں میں سے عظیم ترین میں عطا کیا گیا ہے، یہ یِسُوع مسِیح کی بحال شُدہ اِنجیل کا زمانہ ہے۔ اُس اِنجیل سے جو نعمتیں اور رحمتیں برستی ہیں میرے لیے سب کچھ ہے—سب کچھ—اِس لیے اپنے آسمانی باپ کا اُن کے واسطے شُکر ادا کرنے کی کوشش میں،مُجھے ”وعدےپُورے کرنے ہیں، اور سونے سے پہلے مُجھے کئی میل طے کرنے ہیں، اور سونے سے پہلے مُجھے کئی میل طے کرنے ہیں۔“۲۰ کاش ہم اپنے دِل میں محبت سمیٹے آگے بڑھیں، ”درخشاں اُمید“۲۱ میں چلتے ہُوئے جو پاک توّکل کی راہ منور کرتی ہے جس پر ہم اب ۲۰۰ برس سے ہیں۔ مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ مستقبل اِتنا ہی معجزوں اور کثیر برکتوں سے بھرا ہے جتنا ماضی رہا ہے۔ ہمارے پاس اُن سے بھی زیادہ نعمتیں پانے کی اُمید کا ہر سبب ہے جو ہمیں پہلے مل چُکی ہیں، کیوں کہ یہ کارِ خُدا تعالیٰ ہے، یہ پیہم مُکاشفے کی کلیسیا ہے، اور یہ مسِیح کے لامحدود فضل اور فیاضی کی اِنجیل ہے۔ مَیں اِن ساری سچّائیوں کی گواہیں دیتا ہُوں اور اِس سے بھی بڑھ کر یِسُوع مسِیح کے نام سے، آمین۔