۲۰۱۰–۲۰۱۹
توبہ سے پاک صاف ہُوئے
مجلس عامہ اپریل ۲۰۱۹


توبہ سے پاک صاف ہُوئے

کیوں کہ خُدا کے مُنصوبے اور یِسُوع مِسیح کے کفارے کے باعث، ہم توبہ کے عمل سے پاک صاف ہو سکتے ہیں۔

فانی زندگی میں ہم خُدا اور اِنسان کے قوانین کے ماتحت ہیں۔ اِن دونوں قوانین کے تحت مجھے سنجیدہ غیراِخلاقی رویوں کی مُنصفی کرنے کا غیر معمولی تجربہ ہے—پہلے یوٹاہ کی عدالتِ عظمیٰ میں جج کی حیثیت سے اور اب کلیسیا کی صدارتِ اَوّل کے رُکن کی حیثیت سے۔ خُدا کے قوانین اور اِنسان کے قوانین کے تقابلی تجربے نے مجھ پر یِسُوع مِسیح کے کفارے کی قُدرت اور حقیقت کے حوالے سے میرے اِدراک میں اِضافہ کیا ہے۔ اِنسانی قوانین کے تحت، سنگین جرائم کے مُرتکب شخص کو بِلا ضمانت عمر قید ہو سکتی ہے۔ لیکن پیارے آسمانی باپ کے رحیم و رحمان منصوبے کے تحت صورتِ حال مُختلف ہے۔ میں نےمُشاہدہ کیا ہے کہ یِسُوع مِسیح کے کفارے کی قربانی کے وسیلے سے اُن سب کے وہی گُناہ اِس فانی زندگی میں معاف ہو سکتے ہیں ”جو پشیمان رُوح اور شِکستہ دِل ہیں“ (۲ نیفی ۲:‏۷)۔ مِسیح بچاتا ہے اور اُس کا کفارہ سچّا ہے۔

ہمارے نجات دہندہ کی محبت آمیز شفقت اِس گیت سے ظاہر ہوتی ہے جسے کوائر نے ابھی ابھی پیش کیا ہے۔

مِسیح کے پاس آ: وہ ہمیشہ تیری خبرگیری کرے گا،

اگرچہ تاریکی میں تُو گُم راہ ہو گیا ہو۔

اُس کی محبت تجھے پا لے گی اور نرمی سے راہ نمائی کرے گی

رات کی تاریکی سے دِن کے اُجالے میں۔۱

یِسُوع مِسیح کے کفارے کی قربانی ”سب اِنسانوں [کی] توبہ اور اُس کے پاس آنے“ کا دروازہ کھول دیتی ہے (عقائد اور عہود ۱۸:‏۱۱؛ مزید دیکھیے مرقس ۳:‏۲۸؛ ۱ نیفی ۱۰:‏۱۸؛ ایلما ۳۴:‏۸، ۱۶)۔ ایلما کی کتاب واضح کرتی ہے کہ توبہ اور معافی حتیٰ کہ اُن کے واسطے بھی ہے جو بدکار اور خون کے پیاسے ہیں (دیکھیے ایلما ۲۵:‏۱۶؛ ۲۷:‏۲۷، ۳۰)۔ آج میرا پیغام ہم سب کے لیے اُمید کا ہے، حتیٰ کہ اُن کے واسطے بھی جو کلیسیا میں اپنی رُکنیت نام کی موقوفی یا دین بدری کے سبب سے کھو چُکے ہیں۔ ہم سب گُناہ گار ہیں جو توبہ کے وسیلے سے پاک صاف ہو سکتے ہیں۔ ”گُناہ سے توبہ کرنا آسان نہیں،“ بُزرگ رسل ایم نیلسن نے پچھلی مجلسِ عامہ میں سِکھایا۔ ”بلکہ اِنعام بیش قیمت ہے۔“۲

I۔ توبہ

توبہ ہمارے نجات دہندہ سے شُروع ہوتی ہے، اور یہ رحمت ہے، ناکہ زحمت۔ صدر رسل ایم نیلسن نے گُزِشتہ دسمبر میں کرسمس کے وعظ میں سِکھایا: سچی توبہ ایک بار کی بات نہیں ہے۔ یہ لازوال اِختیار ہے۔ یہ ذہنی سکون، تسلی، اور شادمانی اور ترقی وترویج کی بُنیاد ہے۔“۳

توبہ پر سب سے اعلیٰ تعلیم مورمن کی کتاب میں ایلما کے وعظ میں پائی جاتی ہے جو اُس نے کلیسیا کے اَرکان کو بیان کرتے ہُوئے کہا کہ وہ ”بے حد بے اعتقاد،“ ”تکبُر … سے بھرے ہُوئے،“ اور دِل ”دُنیا کی دولت اور فضول چیزوں پر“ لگے ہُوئے تھے (ایلما ۷:‏۶)۔ اِس بحال شُدہ کلیسیا کے ہر رُکن کے واسطے ایلما کی اِس اِلہٰی تعلیم سے سیکھنے کے لیےبہت کچھ ہے۔

ہم یِسُوع مِسیح پر اِیمان سے شُروع کرتے ہیں، کیوں کہ ”یہ وہی ہے جو جہاں کے گُناہوں کو اُٹھانے کے لیے آتا ہے“ (ایلما ۵:‏۴۸)۔ ہمیں لازم ہے کہ توبہ کریں کیوں کہ، جیسا ایلما نے سِکھایا، ”سوائے اِس کے کہ تم توبہ کرو، تم ہرگز آسمان کی بادشاہی کے وارث نہیں بن سکتے“ (ایلما ۵:‏۵۱)۔ یہ خُدا کے مُنصوبے کا اہم حصہ ہے۔ کیوں کہ سب اپنی اپنی فانی زندگی میں گُناہ کریں گے اور خُدا کی حُضوری سے کاٹ ڈالے جائیں گے، اِنسان توبہ کے بغیر ”نجات“ نہیں پا سکتا (ایلما ۵:‏۳۱؛ مزید دیکھیے ہیلیمن ۱۲:‏۲۲

ایسا اِبتدا سے سِکھایا جا چُکا ہے۔ خُداوند نے آدم کو حکم دیا، ا”ِسے اپنے بچوں کو سکھا، کہ ہر شخص، ہر جگہ ضرور توبہ کرے، ورنہ وہ کسی بھی صورت خُدا کی بادشاہی کے وارث نہیں ہو سکتے، کیوں کہ کوئی بھی ناپاک چیز وہاں ٹھہر نہیں سکتی، یا اُس کی حضوری میں ٹھہر نہیں سکتی“ (موسیٰ ۶:‏۵۷)۔ ہمیں ضرور توبہ کرنی ہے اپنے سارے گُناہوں سے—اپنے سارے اعمال سے یا خُدا کے حکموں کے برخلاف کاہلی سے۔ کوئی بھی مُستثنٰی نہیں۔ ابھی گُزِشتہ شام صدر نیلسن نے مطالبہ کیا ہے، ”بھائیو، ہم سب کو توبہ کرنی ہے۔“۴

توبہ کے وسیلے سے پاک صاف ہونے کے لیے، ہمیں خُداوند اور اُس کے فانی مُنصف کے سامنے اپنے گُناہوں کا اعتراف کرنا اور اُنھیں لازم ترک کرنا ہے (دیکھیے عقائد اور عہود ۵۸:‏۴۳)۔ ایلما نے یہ بھی سِکھایا کہ ضرور ہے کہ ہم ”راستی بازی کے کام کریں“ (ایلما ۵:‏۳۵)۔ یہ سب کچھ بار بار مِسیح کے پاس آنے کے رُوحانی بُلاوے کا حصہ ہے۔

ہمیں ہر سبت کے دِن عشائے ربانی میں شریک ہونے کی ضرورت ہے۔ اِس پاک رسم میں ہم عہد کرتے اور برکت پاتے ہیں کہ ہمیں سب خواہشوں اور کاموں پر غالب آنے میں مدد فرما جو اُس کاملیت کو پانے سے روکتے ہیں جس کی دعوت ہمارا نجات دہندہ دیتا ہے (دیکھیے متی ۵:‏۴۸؛ ۳ نیفی ۱۲:‏۴۸)۔ جب ہم ”ساری بے دینی سے [اپنے تئیں] اِنکار کرتے، اور خُدا کو [اپنی] ساری جان، اپنی ساری عقل اور طاقت سے پیار کرتے ہیں،“ تب، ہم مِسیح میں کامل ہوں گے اور اُس کے خون بہانے کے سبب سے ”پاک صاف“ ہوں گے کہ ”بے داغ، مقدس بنیں“ (مرونی ۱۰:‏۳۲–۳۳)۔ کتنا خوب صورت وعدہ ہے! کتنا دِل کش معجزا ہے! کیسی ارفع برکت ہے!

II۔ جواب دہی اور فانی فیصلے

خُدا کے مُنصوبے کا ایک مقصد اِس فانی تجربے کا یہ ہے کہ ہمیں ”آزمائے“ اور ”دیکھے آیا [ہم] تمام باتوں کو مانیں گے جن کا خُداوند [ہمارا] کا خُدا [ہمیں] حکم دے گا“ (ابرہام ۳:‏۲۵)۔ اِس منصوبے کا حصہ ہوتے ہُوے، ہم خُدا اور اُس کے برگُزیدہ خادموں کے سامنے جواب دہ ہیں،اور اُس جواب دہی میں دُنیاوی اور اِلہٰی فیصلے شامل ہوتے ہیں۔

خُداوند کی کلیسیا میں، اَرکان کے لیے یا ممکنہ اَرکان کے لیے فانی فیصلے وہ راہ نما صادر کرتے ہیں جو اِلہٰی ہدایت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ یہ اُن کی ذمہ داری ہے کہ اُن لوگوں کی عدالت کریں جو مِسیح کے پاس آنے کے مُشتاق ہیں کہ ابدی زندگی کو پانے کے لیے اُس کے کفارے کی قُدرت کو عہد کے راستے پر حاصل کریں۔ فانی فیصلے طے کرتے ہیں کہ آیا کوئی شخص بپتسمے کے لیے تیار ہے۔ کیا یہ شخص ہیکل جانے کے لیے تصدیق نامے کے لائق ہے؟ کیا جس شخص کا نام کلیسیا کے اندراج سے موقوف کر دیا گیا تھا اُس نے واجب طور پر یِسُوع مِسیح کے کفارے کی بدولت توبہ پائی ہے کہ دوبارہ بپتسمہ پا سکے؟

جب خُدا کا بُلایا ہُوا فانی مُنصف کسی شخص کی مزید ترقی و ترویج کے لیے مُنظوری دیتا ہے، جیسا کہ ہیکل کے حقوق، وہ یہ ثابت نہیں کر رہا ہوتا کہ وہ شخص کامل ہے، اور وہ کوئی گُناہ معاف نہیں کر رہا۔ بُزرگ سپنسر ڈبلیو کمبل نے سِکھایا کہ ”سزاؤں [سے] فانی اِستثنیٰ“ پانے کے بعد وہ شخص ”ضرور آسمان کے خُدا سے حتمی توبہ کا طالب اور مُستحق ہو، اور صرف وہ ہی مُبرا ٹھہرا سکتا ہے۔“۵ اور اگر گُناہ آلودہ اعمال اور اِرادے یومِ آخر تک جُوں کے تُوں بغیر توبہ کے رہتے ہیں، غیر نادم اَفراد ناپاک ہی رہیں گے۔ حتمی جواب دہی،توبہ کی تقدیس کے آخری اثرات، خُدا اور ہم میں سے ہر ایک کے درمیان میں ہے۔

III۔ قیامت اور یومِ آخر

صحائف عام طور بیان کردہ عدالت یومِ آخر کی عدالت ہے جو قیامت کے فوراً بعد ہوگی (دیکھیے ۲ نیفی ۹:‏۱۵)۔ بہت سے صحائف لکھتے ہیں کہ ”ہم سب مِسیح کے تختِ عدالت کے سامنے کھڑے ہوں گے“ (رومیوں ۱۴:‏۱۰؛ مزید دیکھیے ۲ نیفی ۹:‏۱۵؛ مضایاہ ۲۷:‏۳۱) ”اعمال کی عدالت کے واسطے جو اِس فانی زندگی میں سرزد ہُوئے ہیں“ (ایلما ۵:‏۱۵؛ مزید دیکھیے مُکاشفہ ۲۰:‏۱۲؛ ایلما ۴۱:‏۳؛ ۳ نیفی ۲۶:‏۴)۔ سب لوگوں کی ”اُن کے اعمال کے مطابق عدالت ہوگی“ (۳ نیفی ۲۷:‏۱۵) اور ”اُن کے دِل کی نیتوں کے مطابق“ (عقائد اور عہود ۱۳۷:‏۹؛ مزید دیکھیے ایلما ۴۱:‏۶

یومِ آخری کی عدالت کا مقصد یہ بات طے کرنا ہے کہ آیا ہم نے ”دِل کی بڑی تبدیلی“ کو حاصل کر لیا ہے جو نے ایلما بیان کی تھی (دیکھیے ایلما ۵:‏۱۴، ۲۶)، جہاں ہم نئی مخلوق بن جاتے ہیں، جس کی بدولت ”ہم میں بدی کرنے کی نہیں، بلکہ مسلسل نیکی کرنے کی خواہش رہتی ہے“ (مضایاہ ۵:‏۲)۔ اِس کا مُنصف ہمارا نجات دہندہ، یِسُوع مِسیح، ہے (دیکھیے یوحنا ۵:‏۲۲؛ ۲ نیفی ۹:‏۴۱)۔ اُس کی عدالت کے بعد ہم سب اِس بات کا اِقرار کریں گے ”کہ اُس کے فیصلے راست ہیں“ (مُضایاہ ۱۶:‏۱؛ ۲۷:‏۳۱؛ ایلما ۱۲:‏۱۵)، اپنی ہمہ دانی کے سبب سے (دیکھیے ۲ نیفی ۹:‏۱۵، ۲۰) اُس کو ہمارے کاموں اور اِرادوں کا کامل علم ہوتا ہے، ہر دو راست یا توبہ شُدہ اور وہ بھی جو ناراست اور غیرنادم یا پچھتاوے کے بغیر۔

صحائف آخری عدالت کے اِس طریقۂ کار کو بیان کرتے ہیں۔ ایلما سِکھاتا ہے کہ خُدا کے اِنصاف کا تقاضا ہے کہ قیامت کے روز ”ہر شے اپنے اپنے راست مقام پر بحال کی جائے“ (ایلما ۴۱:‏۲)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ”اگر اِس زندگی میں اُن کے اعمال نیک تھے، اور اُن کے دِل کے اِرادے نیک تھے، … یومِ آخر کو [اُنھیں] اُس میں بحال کیا جائے گا جو نیک ہے“ (ایلما ۴۱:‏۳)۔ اِسی طرح، ”اگر اُن کے اعمال [یا اُن کے اِرادے] بُرے ہیں وہ بُرائی میں بحال کیے جائیں گے“ (ایلما ۴۱:‏۴–۵؛ مزید دیکھیے ہیلیمن ۱۴:‏۳۱)۔ اِسی طرح، یعقوب نبی نے سِکھایا کہ یومِ آخر کو ”جو راست باز ہیں وہ راست باز رہیں گے، اور وہ جو نجس ہیں نجس ہی رہیں گے“ (۲ نیفی ۹:‏۱۶؛مزید دیکھیے مورمن ۹:‏۱۴؛ ۱ نیفی ۱۵:‏۳۳)۔ یہ طرزِ عمل ہے جس کو مرونی پہلے کہتا ہے ”یہواہ قادر کی دلِ کش عدالت،دونوں زندوں اور مُردوں کا ابدی مُنصف“ (مرونی ۱۰:‏۳۴؛ مزید دیکھیے ۳ نیفی ۲۷:‏۱۶

ہمیں ضرور توبہ کے وسیلے سے یومِ آخر سے پہلے خُدا کے حُضور پاک صاف ہونا یقینی بنانا ہے (دیکھیے مورمن ۳:‏۲۲)۔ جیسے ایلما نے اپنے گُناہ گار بیٹے سے کہا، خُداا کے حُضور ہم اپنے گُناہ چُھپا نہیں سکتے، ”اور سوائے اِس کے کہ تُو توبہ کرے وہ یومِ آخر کو تیرے خلاف گواہ ٹھہریں گے“ (ایلما ۳۹:‏۸؛ تاکید شامل ہے)۔ یِسُوع مِسیح کا کفارہ ہمیں توبہ کے وسیلے سےپاک صاف ہونے کا واحد راستہ فراہم کرتا ہے، اور یہ فانی زندگی ہی توبہ کرنے کا وقت ہے۔ اگرچہ ہمیں سِکھایا گیا ہے کہ کسی حد تک توبہ عالمِ اَرواح میں ہو سکتی ہے (دیکھیے عقائد اور عہود ۱۳۸:‏۳۱، ۳۳، ۵۸)، ایسا اِتنا حتمی نہیں۔ بُزرگ میلون جے بیلرڈ نے سِکھایا: ”جب رُوح اور جسم یک جا ہیں تب غالب آنا اور خُداوند کی خدمت کرنا قدرے آسان ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب اِنسان زیادہ حساس اور اَثر پذیر ہوتا ہے۔ … توبہ کا وقت اِسی زندگی میں ہے۔“۶

جب ہم توبہ کرتے ہیں، ہم خُدا سے تسلی پاتے ہیں کہ ہمارے گُناہ، جن میں ہمارے اعمال اور اِرادے شامل ہیں، پاک صاف کیے جائیں گے اور ہمارا رحیم و رحمان سب سے بڑا مُنصف ”اُنھیں پھر یاد نہ رکھے گا“ (عقائد اور عہود ۵۸:‏۴۲; مزید دیکھیے یسعیاہ ۱:‏۱۸؛ یرمیاہ ۳۱:‏۳۴؛ عِبرانیوں ۸:‏۱۲؛ ایلما ۴۱:‏۶؛ ہیلیمن ۱۴:‏۱۸–۱۹)۔ توبہ کے وسیلے سے پاک صاف ہو کر، ہم ابدی زندگی کے لائق ہو سکتے ہیں، جس کو بنیامین بادشاہ نے اِس طرح بیان کیا ہے کہ ”کبھی نہ ختم ہونے والی خوشی کی حالت میں خُدا کے ساتھ قیام کا [کرنا]“ (مُضایاہ ۲:‏۴۱؛ مزید دیکھیے عقائد اور عہود ۱۴:‏۷

خُدا کے ”بحالی کے مُنصوبے“ کے دوسرے حصّے کے طور پر (ایلما ۴۱:‏۲) قیامت ”سب چیزوں کو اُن کی مناسب اور کامل حالت میں“ بحال کرے گی (ایلما ۴۰:‏۲۳)۔ اِس کاملیت میں ہماری ساری جسمانی معذوری اور بدصورتی جو فانی زندگی میں مِلی، بشمول پَیدایشی بیماری یا صدمہ۔

کیا ایسی بحالی ہماری ساری ناپاکی یا بےقابو خواہشات یا بُری عادات سے بچاتی ہے؟ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جدید مکاشفے کے وسیلے سے ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اِرادوں کے ساتھ ساتھ ہمارے اعمال کی بھی عدالت ہوگی (دیکھیے ایلما ۴۱:‏۵؛ عقائد اور عہود ۱۳۷:‏۹) اور یہاں تک کہ ہمارے اِرادے ہمیں ملامت کریں گے (دیکھیے ایلما ۱۲:‏۱۴)۔ ہمیں ”[اپنی اپنی] توبہ کے دن کو موت تک ٹالنا“ نہیں ہے، امیولک نے سِکھایا (ایلما ۳۴:‏۳۳)، کیوں کہ وہی رُوح جو اِس زندگی میں ہمارے جسم میں موجود تھی—آیا خُدا کی یا شیطان کی—”اُس کو قُدرت حاصل ہوگی کہ ابدی دُنیا میں [ہمارے] جسم پر قبضہ کرے“ (ایلما ۳۴:‏۳۴)۔ ہمارے نجات دہندہ کے پاس قُدرت ہے اور ہمیں بُرائی سے پاک صاف کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یومِ آخر کو خُدا کی حُضوری میں کھڑے ہونے کے واسطے پاک صاف ہونے کا اب وقت ہے کہ اپنی بدیوں یا بُرے اِرادوں سے توبہ کرنے کے لیے اُس کی مدد کے طلب گار ہوں۔

رحم کے بازو

خُدا کے مُنصوبے اور اُس کے سارے احکام پر مُحیط ہمارے واسطے اُس کی محبت ہے، جو ”سب چیزوں سے بڑھ کر پسندیدہ ہے … اور رُوحوں کے لیے سب سے بڑی مُسرت“ (۱ نیفی ۱۱:‏۲۲–۲۳)۔ یسعیاہ نبی نے یقین دِلایا ہے کہ بلکہ بدکار جب ”خُداوند کی طرف رُجوع لاتا ہے … وہ رحم پائے گا … [اور] کثرت سے معافی“ (یسعیاہ ۵۵:‏۷)۔ ایلما نے سِکھایا، ”دیکھو وہ تمام لوگوں کو دعوت بھیجتا ہے، کیوں کہ اُس کے رحم کے بازو اُن کی طرف بڑھے ہیں“ (ایلما ۵:‏۳۳؛ مزید دیکھیے ۲ نیفی ۲۶:‏۲۵–۳۳)۔ جی اُٹھے خُداوند نے نیفیوں کو بتایا، ”دیکھو، میرا رحم کرنے والا ہاتھ تمھاری طرف بڑھا ہُوا ہے اور جو کوئی آئے گا میں اُس کا استقبال کروں گا“ (۳ نیفی ۹:‏۱۴)۔ اِن اور دیگر صحیفائی تعلیمات سے، ہم جانتے ہیں کہ ہمارا محبوب نجات دہندہ اپنے بازو پھیلاتا ہے کہ سب مردوں اور عورتوں کو قبول کرے اُن شفیق شرائط پر جو اُس نے خُدا کی اُمت کو اعلیٰ و ارفع برکات سے بہرہ مند ہونے کے لیے اُن کے واسطے بیان کی ہیں۔۷

کیوں کہ خُدا کے مُنصوبہ اور یِسُوع مِسیح کے کفارے کے وجہ سے میں ”اُمید کی کامل تجلی“ کی گواہی دیتا ہُوں کہ خُدا ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم توبہ کے عمل سے پاک صاف ہو سکتے ہیں۔ ہم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ”اگر [ہم] مِسیح کے کلام پر ضیافت مناتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں، اور آخر تک برداشت کریں، دیکھو، باپ یوں فرماتا ہے:تم ابدی زندگی پاؤ گے“ (۲ نیفی ۳۱:‏۲۰)۔ کاش ہم سب ایسا ہی کریں، میں دُعا اور اِلتجا کرتا ہُوں، یِسُوع مِسیح کے نام پر، آمین۔

حوالہ جات

  1. ”یِسُوع کے پاس آؤ،“ گیت، نمبر ۱۱۷۔

  2. رسل ایم نیلسن، ”توبہ اور تبدیلی،“ لیحوانا، مئی ۲۰۰۷، ۱۰۲۔

  3. رسل ایم نیلسن، ”چار نعمتیں جو یِسُوع مِسیح آپ کو عطا کرتا ہے،“ (۲۰۱۸ صدارتِ اَوّل کا کرسمس کا پیغام، ۲ دسمبر ۲۰۱۸)، نشریات۔

  4. رسل ایم نیلسن، ”ہم بہتر بن سکتے ہیں اور بہتر سرانجام دے سکتے ہیں،“ لیحونا، مئی ۲۰۱۹، ۶۹۔

  5. سپنسر ڈبلیو کمبل کی تعلیمات، اشاعت ایڈورڈ ایل کمِبل (۱۹۸۲)، ۱۰۱۔

  6. میلون جے بیلرڈ، از میلون جے بیلرڈ، میلون جے بیلرڈ:راستی کا سپاہی (۱۹۶۶)، ۲۱۲–۱۳۔

  7. دیکھیے ٹاڈ آر کالیسٹر، لامحدود کفارہ (۲۰۰۰)، ۲۷–۲۹۔