۲۰۱۰–۲۰۱۹
دیکھو خُدا کا برّہ
مجلس عامہ اپریل ۲۰۱۹


دیکھو خُدا کا برّہ

ہماری اِتوار کی عبادات کے نظامِ اوقات میں ردوبدل نے ایک طریقے سے عشائے ربانی کی پاک رسم کو ہماری ہفتہ وار عبادت کا مقدس، واضح مرکزی نقطہ تسلیم کیا ہے۔

میں نے جب تک کوائر میں موجود نوجوانوں کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے میں بالکل ٹھیک تھا۔ یہ آنسو میرے وعظ سے کہیں زیادہ موثر ہیں۔

پانی کے کنارے سے نظریں دوڑاتے ہُوئے، بپتسمہ لینے کے خواہاں ہجوم سے آگے، یوحنا بپتسمہ دینے والے نے دُور سے اپنے خالہ زاد بھائی، یِسُوع ناصری، دیکھا جو بڑی مُستقل مزاجی سے قدم بڑھاتا ہُوا اُسی مقصد کے تحت قریب آ رہا تھا۔ تعظیم کے ساتھ، مگر کافی بُلند آواز سے تاکہ قریب کھڑے لوگ سُن لیں، یوحنا نے بڑے تحسین آمیز انداز میں کہا جو دو ہزار برس بعد بھی حیران کر دیتا ہے: ”دیکھو خُدا کا برّہ۔“۱

سیکھنے کی بات یہ ہے کہ یِسُوع کے آگے راہ تیار کرنے والے نے اُس کو یہواہ یا نجات دہندہ یا فدیہ دینے والا یا جتٰی کہ خُدا کے بیٹے کے لقب سے نہیں پُکارا—جب کہ یہ سب کے سب القاب واجب تھے۔ نہیں، یوحنا نے سب سے زیادہ قدیم اور شاید سب سے زیادہ عام روایتی مذہبی نشان چُنا جس سے لوگ واقف تھے۔ وہ اِس زوال پذیر دُنیا اور اِس میں زوال پذیر لوگوں کے گُناہوں اور مُصیبتوں کے کفارے کے واسطے قربان کیے جانے والے برّے کا اِستعارہ اِستعمال کرتا ہے۔

مہربانی سے مجھے اِس تاریخ کا ہلکا سا خاکہ یاد کرنے کا موقع دیں۔

باغِ عدن سے نکالے جانے کے بعد، آدم اور حوا کو حوصلہ شکن مُستقبل کا سامنا تھا۔ ہماری خاطر فانی اور دُنیاوی زندگی کا دروازہ کھولتے وقت، وہ لافانی اور ابدی زندگی کا دروازہ اپنے لیے بند کر چُکے تھے۔ ہوش و حواس میں خطا کے مُرتکب ہونے کی بِنا پر، اُنھیں جسمانی موت اور رُوحانی جلاوطنی کا سامنا تھا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خُدا کی حُضوری سے دُوری۔۲ اُنھیں کیا کرنا تھا؟ اِس بدنصیبی سے نکلنے کا کوئی راستہ ہوگا؟ ہمیں کوئی اَندازہ نہیں ہے کہ باغِ عدن میں دی گئی ہدایت کو کس حد تک اِن دونوں کو یاد رکھنے کی اِجازت ملی، بس وہ اِتنا جانتے تھے کہ اُنھیں خالص، بے عیب، نر، پہلوٹھے اپنے گلّے کے برّہ کو خُدا کے حضور قربانی کے لیے باقاعدگی سے نذر کرنا ہے۔۳

بعد میں فرشتے نے واضح کیا کہ یہ قربانی یاد تھی، اُس قربانی کا اِستعارا تھا جو اُن کی خاطر دُنیا کا نجات دے گا جس نے آنا تھا۔ ”یہ اَمر باپ کے اِکلوتے کی قربانی کی مشابہت ہے،“ فرشتے نے فرمایا۔ ”پس، … تُو توبہ کرنا اور خُدا کو بیٹے کے نام پر ہمیشہ پکارنا۔“۴ خُوش نصیبی سے، بچ نکلنے اور عالم بالا پر جانے کا راستہ مہیا ہونے والا تھا۔

قبل از فانی آسمانی مجالس میں، خُدا نے آدم اور حوا (اور ہم سب باقیوں) کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ مدد پاک، بے عیب، باپ کا پہلوٹھا فراہم کرے گا، خُدا کا برّہ ”بنائے عالم سے قربان ہُوا،“۵ جیسا یوحنا نے بعد میں اُس کی بابت فرمایا۔ اپنے اپنے چھوٹے برّوں کو علامت کے طور پر قربان کر کے آدم اور اُس کی نسل یِسُوع یعنی ممسوح کی کفارہ بخش قربانی پر اپنی جانوں کی نجات کے اَنحصار کے اِظہار کرتے تھے۔۶ بعد میں، بیابان میں خیمہ اِس رسم کی اَدائیگی کا مُقام ٹھہرا، اور، پھر بعد میں، ہیکل جو سُلیمان نے تعمیر کرائی۔

بدنصیبی سے، سچّی توبہ اور اِیمان سے بھرپُور زندگی بسر کرنے کا اِستعارا، بے عیب برّے کی قربانی زیادہ دیر تک مُفید ثابت نہ ہُوئی، جیسا کہ پُرانا عہد نامہ ظاہر کرتا ہے۔ نیک عزم جو ایسی قربانیوں کے ساتھ جُڑا ہُوا تھا بعض اَوقات قربان گاہ پر بہائے گئے خون کے سوکھنے سے پہلے ہی مر جاتا۔ بہر کیف، اِس میں تو برادر کشی کو روکنے کی بھی سکت نہ رہی، جب قائن نے اپنے بھائی ہابل کو ہلاک کیا تھا۔۷

کئی صدیوں سے ایسی آزمایشوں اور مُصیبتوں کے ہوتے ہُوئے،حیرت نہ ہونی چاہیے جب آسمان کے فرشتوں نے نعرہ لگایا، بالآخر، موعودہ مِسیح —خود یِسُوع پیدا ہُوا۔ پھر اپنی مُختصر فانی خدمت کے بعد، فسح کے اِس سب سے زیادہ پاک ترین برّہ نے عشائے ربانی کی پاک رسم کو متعارف کراتے ہُوئےاپنے شاگردوں کو اپنی موت کے لیے تیار کیا، باغِ عدن سے خروج پر متعارف کرائی گئی رسم سے زیادہ شخصی وابستگی۔ اب بھی نذر گُزرانی جا سکتی ہے، اب بھی قربانی شامل ہوتی رہے گی، لیکن یہ مِسیح کی موت کے نشان کے طور پر جو کہ بہت زیادہ گہری، بہت زیادہ باطنی اور پہلوٹھے برّوں کے خون بہانے کی نسبت بہت زیادہ اِنفرادی ہوگی۔ نجات دہندہ نے، اپنے جی اُٹھنے کے بعد، نیفیوں سے فرمایا:

”اب سے تم میرے حُضور خون نہ بہاؤ گے۔ …

”… تم پشیمان رُوح اور شِکستہ دل کی قربانی میرے حُضور گُزرانو گے۔ اور جو کوئی میرے پاس پشیمان رُوح اور شِکستہ دِل کے ساتھ آتا ہے، میں اُس کو آگ کے ساتھ اور رُوحُ القُدس کے ساتھ بپتسمہ دُوں گا۔ …

”… پس توبہ کرو، … اور نجات پاؤ۔“۸

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، خاندانوں میں اِنجیل سیکھنے کے نئے ولولہ خیز اِصرار کے ساتھ ساتھ، ہمارے لیے یہ یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ ہمیں ”عبادتوں خانوں میں جانے اور سبت کے پاک دِن اپنی اپنی پاک رُسوم نذر گُزراننے کا“ حکم اب بھی قائم ہے۔۹ خاندان مرکوز اِنجیلی تدریس پر زور دینے کے ساتھ ساتھ، ہماری اِتوار کی عبادات کے نظامِ اوقات میں ردوبدل نے ایک طریقے سے عشائے ربانی کی پاک رسم کو ہماری ہفتہ وار عبادت کا مقدس، واضح مرکزی نقطہ تسلیم کیا ہے۔ ہمیں جس حد تک ممکن ہو سکے اپنی ذات کے باطنی دروں تک یاد رکھنا ہے کہ مِسیح نے کُل بنی نوع اِنسان کی مُصیبتوں، اور گُناہوں کو تن تنہا اپنے کندھوں پر اُٹھایا اور قلبِ دریدگی کے سبب قربان ہُوا۔

ایسا ہے کہ اُس جان لیوا بوجھ میں ہمارا حصّہ تھا، جس کی بِنا پر یہ لمحہ ہماری عقیدت مندی کا طلب گار ہے۔ پس، ہمیں وقت سے پہلے پہنچنے اور عقیدت کے ساتھ،مُناسب طور پر تیاری کے ساتھ اِس مُقدس رسم میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ ”بہترین سبت کی تیاری“ کے معانی ہمارے دَور میں مدھم پڑ گئے ہیں اور اُس کے احترام میں کمی واقع ہُوئی ہے جس کی حضوری میں ہم آتے ہیں، اُس روایت کو بحال کرنے کی ضرورت ہے جہاں تک ممکن ہو سکے صاف سُتھرے لباس اور ہشاش بشاش صورت کے ساتھ۔

جہاں تک پابندیِ وقت کا تقاضا ہے، وہ مائیں جو بچّوں، سلانٹیوں، اور ڈائیپرز کے تھیلوں کو گھسیٹے ہُوئے افراتفری کے عالم میں دیر سے پہنچتی ہیں اُن کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، خُوش قسمت ہیں کہ آتی تو ہیں۔ اِن کے علاوہ، اور بھی ہوں گے جن کو اِتوار کی صُبح علم ہوتا ہے کہ اُن کا بَیل گڑھے میں گر گیا ہے۔ بہرحال، ایسے گروہ کے لوگوں کا کبھی کبھی دیر سے آنا سمجھ میں آتا ہے، لیکن اگر بَیل ہر اِتوار کو گڑھے میں گر جاتا ہے، تو ہم پُرزور نصحیت کرتے ہیں کہ آپ بَیل بیچیں یا گڑھا بھریں۔

بالکل اِسی طرح، ہم آپ سے پیغمبرانہ اِلتجا کرتے ہیں کہ عبادت گاہوں میں شور کو کم کریں۔ ہم ایک دوسرے سے مِل کر خُوش ہوتے ہیں، اور ہونا بھی چاہیے—عبادت خانہ میں حاضری سے مِلنے والی خُوشیوں میں سے ایک یہ ہے—لیکن یہ ایسی جگہ پر نہ ہو جو خاص طور پر عبادت کے لیے مخصوص ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ مہمان جو ہمارے عقیدے کے نہیں اُن پر بے توقیری گراں گُزرتی ہوگی جب کبھی دُعا اِلہام اور تسلی و تشفی کے مُقام پر ایسی ابتری دیکھتے ہوں گے۔ شاید کسی حد تک آسمان بھی حیران ہوتا ہوگا۔

اگر صدارتی راہ نما عشائے ربانی کی عبادات کے شروع ہونے سے پہلے الطار پر موجود ہوں، تو عقیدت و احترام میں اِضافہ ہوگا، اُن کی قبل از وقت موجودگی اور اِبتدائیہ گیتوں کو سُننا ہم سب کے لیے نمونہ ہوگا جس کی ہم تقلید کریں گے۔ اگر کوئی باتونی الطار پر ہے،جماعت میں باتونی دیکھ کر حیران نہ ہونا چاہیے۔ ہم اُن اُسقُفی صدارتوں کو مُبارک باد پیش کرتے ہیں جنھوں نے اُن اعلانات کا خاتمہ کر دیا ہے جو عبادتی رُوح کو مجروح کرتے ہیں۔ میں، ایک بار بھی، اِس بات کا تصور نہیں کر سکتا، کہ خُداوند کی ہیکل کاقدیم کاہن زکریاہ—اعلیٰ کہانت میں شریک ہونے کو ہو، قربانی گُزراننے کے اِختیار کے ساتھ جو اُس کو زندگی میں صرف ایک بار نصیب ہو—میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ قربان گاہ پر رُک کر ہمیں چھے ہفتوں بعد ہونے والی تفریحی سرگرمی یاد دِلائے۔

بھائیو اور بہنو، یہ گھڑی خُداوند کے لیے مُقرر ہے ہمارے پُورے ہفتے کے دوران میں سب سے زیادہ مُقدس ترین گھڑی۔ بحکمِ خُداوندی، عالم گیر رسم ادا کرنے کے لیے ہم کلیسیا میں اِکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ اُس کی یاد میں ہے جس نے اِلتجا کی تھی کہ اگر ہو سکے جو پیالہ وہ پینے کو تھا ٹل جائے، بلکہ اُس کو یہ پینا تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ ہماری خاطر یہ نہیں ٹل سکتا۔ اگر ہم یاد رکھیں تو ہمیں مدد ملے گی کہ اُس پیالے کی علامت آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔

خُداوند کے حُضور اپنی اپنی قربانی گُزراننے کی جب وہ مُقدس گھڑی آ پہنچتی ہے، ہمیں اپنے گُناہوں اور خطاؤں اور مُصیبتوں کو حل کرنا ہے۔ بلکہ ایسی پشیمانی میں ہم زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں اگر ہم دوسرے شِکستہ دِلوں اور دُکھی رُوحوں کو یاد رکھیں جو ہمارے اِردگرد جمع ہیں۔ کوئی بیٹھا ہُوا زیادہ دُور نہیں ہو سکتا ہے رو رہا ہو—ظاہری یا باطنی طور پر—عشائے ربانی کے پُورے گیت کے دوران۔ کیا خاموشی سے ہم اِس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اپنے آرام کا چھوٹا سا چھلکا اور ہم دردی کا چھوٹا سا پیالہ اُن کی نذر کر سکتے ہیں? یا رونے والوں کے واسطے، کش مکش میں مُبتلا رُکن کے واسطے جو عبادت میں موجود نہیں اور، سوائے ہمارے کسی نجات بخش عمل کے، ہو سکتا ہے وہ اَگلے ہفتے بھی غیر حاضر رہے؟یا اپنے اُن بھائیوں اور بہنوں کے واسطے جو ہماری کلیسیا کے بالکل رُکن نہیں ہیں؟ دُنیا میں دُکھوں کی کوئی کمی نہیں ہے، کلیسیا کے اندر یا باہر، بس جس طرف بھی دیکھو آپ کو کوئی نہ کوئی مِل جائے گا جو درد کے بوجھ تلے دبا ہے اور جس کے دردِ دل کا انت نہیں۔ ”اُس کو یاد رکھنے“۱۰ کا ایک طریقہ اُس سب سے بڑے طبیب کے ساتھ شامل ہو جائیں جس کا نا ختم ہونے والا فرض اُن کی مدد کرنا جو بوجھ تلے دب گئے ہیں اور پریشان حالوں کو تسلی دینا ہے۔

پیارے دوستو، جب ہم ہر ہفتے دُنیا بھر میں اِکٹھے ہوتے ہیں جو خُدا کے اِکلوتے بیٹے کے اعلیٰ و ارفع کفارے کی عالم گیر نعمت کی پاک ترین قُدوسیت کا اعتراف ہے، عشائے ربانی کی قربان گاہ پر ہم لائیں”اُس کے دُکھوں کے واسطے زیادہ آنسو [اور] اُس کی مُصیبتوں کے لیے زیادہ درد۔“ پھر، جب ہم غور کرتے ہیں، دُعا کرتے ہیں، اور تجدیدِ عہد کرتے ہیں، ہم اُس مُقدس گھڑی سے ”مُصیبت میں زیادہ صبر، … آسودگی کے واسطے زیادہ شتایش پائیں۔“۱۱ ایسے صبر اور آسودگی کے لیے، ایسے تقدس اور اُمید کے لیے، میں ہم سب کے لیے دُعا گو ہوں اُس کے نام پر جس نے معافی کی پہلی روٹی توڑی اور نجات کی پہلی مے اُنڈیلی، یعنی یِسُوع مِسیح، بیش قیمت، رحیم و رحمان، خُدا کا پاک برٗہ، آمین۔

حوالہ جات

  1. یوحنا ۱:‏۲۹۔

  2. دیکھیے ۲ نیفی ۹:‏۸–۹۔

  3. دیکھیے موسیٰ ۵:‏۵؛ مزید دیکھیے خروج ۱۲:‏۳–۱۰۔

  4. موسیٰ ۵:‏۵–۷; مزید دیکھیے موسیٰ ۵:‏۹۔

  5. مُکاشفہ ۱۳:‏۸۔

  6. دیکھیے بائِبل لُغت ”مسح کیا ہُوا“”؛ مزید دیکھیے راہ نمائے صحائف،”مسح کیا ہُوا،“ scriptures.ChurchofJesusChrist.org۔

  7. ستم ظریفی دیکھیے، قائن کا ہابل کو ہلاک کرنا، ایسا فعل تھا جس کا شیطان نے حکم دیا تھا، ہو سکتا ہے اِس کا واسطہ قائن کے ہدیوں کی خُداوند کی طرف سے نامنظوری پر غُصّہ ہو جب کہ ہابل کے قبول ہو گئے تھے۔

    ”خُدا … اپنے بیٹے کی قُربانی کا ہدیہ تیار کیا، جو … دروازہ کھولے گا جس میں سے اِنسان گُزر کر اِنسان خُداوند کی حُضوری میں داخل ہو۔ …

    ”اِس کفارے یا نجات کے منصوبے پر اِیمان کے وسیلے سے، ہابل نے خُدا کے حُضور قُربانی گُزرانی جو قبول کی گئی، جو کہ گلے کے پہلوٹھے کی تھی۔ قائن نے کھیت کے پھلوں کی قُربانی گُزرانی، اور قبول نہ کی گئی۔ … [اُس کی قُربانی میں شامل ہونا تھا] خُون کا بہانا“ (کلیسیائی صدور کی تعلیمات:جوزف سمتھ [۲۰۰۷]، ۴۸؛ مزید دیکھیے ۱۰۷–۸

  8. ۳ نیفی ۹:‏۱۹–۲۰، ۲۲۔

  9. عقائد اور عہود ۵۹:‏۹۔

  10. مرونی ۴:‏۲؛ ۵:‏۲۔

  11. ”زیادہ تقدیس مجھے عطا کر،“ گیت، نمبر ۱۳۱۔