۲۰۱۰–۲۰۱۹
سر اوپر اٹھاواور شادمان ہو
اکتوبر ۲۰۱۸


سر اٹھاوٗاور شادمان ہو

جب ہم خُداوند کے طریقے سے مشکل چیزوں کا سامنہ کرتے ہیں تو ہم اپنے سر اٹھائیں اور خوشی کریں۔

۱۹۸۱ میں میرے والد، دو قریبی دوست اور میں الاسکا میں مہم جوئی پر نکلے۔ ہم دور دراز ایک جھیل میں جہاز اتار کر خوبصورت بالائی علاقوں میں کوہ پیمائی کرنا چاہتے تھے۔ وزن اٹھانے میں کمی کرنے کے لیے ہم نے اپنی رسد، ڈبوں میں ڈال کر اُسے فوم میں لپیٹا اور اُس کے ساتھ ربن باندھ کر اپنی منزلِ مقصود کے اوپر سے اڑتے ہوئے کھڑکی سے باہر پھینک دی۔

وہاں پہنچنے کے بعد ہم نے بہت ڈھونڈا، مگر جب ہمیں کوئئ بھی ڈبہ نہ ملا تو بہت مایوس ہوئے۔ بالاخر ہمیں ایک ڈبہ مل گیا۔ اُس میں گیس کا ایک چھوٹا چوہلا، سائے بان، ٹافیاں اور قیمہ کباب بنانے کے اجزا تو تھے لیکن قیمہ نہیں تھا۔ باہر کی دنیا کے ساتھ بات کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور ہمیں واپس لے جانے والوں نے ایک ہفتے تک نہیں آنا تھا۔

میں نے اس تجربے سے دو قیمتی اسباق سیکھے، ایک تو یہ کہ کھانا کھڑکی سے باہر نہ پھینکو۔ دوسرا کہ بعض اوقات ہمیں مشکل چیزوں کا سامنہ کرنا ہی ہوتا ہے۔

اکثر مشکلات میں ہمارا ردِ عمل ہوتا ہے کہ، ”مجھ پر ہی یہ مشکل کیوں؟“ تاہم کیوں پوچھنے سے مشکلات دور نہیں ہو جاتیں۔ خداوند توقع رکھتا ہے کہ ہم مشکلات پر غالب آئیں، اور اُس نے اشارہ دیا ہے کہ ”یہ تمام چیزیں [ہمیں] تجربہ دیں گی اور [ہمارے] بھلےکے لیے ہوں گی۔“۱

بعض اوقات خُداند ہم سے مشکل چیزیں کرنے کو کہتا ہے اور بعض اوقات ہماری مشکلات، ہماری اپنی یا دوسروں کی آزاد مرضی کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں۔ نیفی نے اِن ہر دو حالات کا سامنہ کیا۔ جب لحی نے اپنے بیٹوں کو واپس جا کر لابن سے تختیاں لانے کا کہا، تو وہ کہتا ہے، ”دیکھ تیرے بھائی یہ کہتے ہوئے بڑبڑاتے ہیں کہ جو چیز میں اُنہیں کرنے کے لیے کہتا ہوں، وہ مشکل ہے، لیکن دیکھ، میں نے اُن سے یہ کرنے کو نہیں کہا بلکہ یہ خُداوند کا حکم ہے“۲ ایک اور موقع پر نیفی کے بھائیوں نے اپنی آزاد مرضی استعمال کر کے اُس کی آزاد مرضی کو محدود کر دیا، ”اُنہوں نے اپنے ہاتھ مجھ پر ڈالے، کیونکہ دیکھو وہ نہایت قہر میں تھے، اور اُنہوں نے مجھے رسیوں سے باندھ دیا، کیونکہ وہ میری جان لینے کے خواہاں تھے“۳

جوزف سمتھ نے لبرٹی جیل میں مشکل کا سامنہ کیا۔ تا حدِ نگاہ راحت نہ نظر آنے اور مایوسی میں جوزف چِلا اٹھا، ”اے خُدا، تو کہاں ہے“۴ بے شک ہم میں سے کچھ جوزف کی طرح محسوس کر چکے ہیں۔

ہر ایک کو مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے: کسی عزیز کی موت، طلاق، بھٹکی اولاد، پیماری، ایمان کے امتحان، نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھنا، اور کوئی بھی دوسری مشکل۔

میں ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گیا جب میں نے لوکیمیا کی مشکل میں سے گزرتے، بارہ رسولوں کی جماعت کے ایلڈر نیل اے۔ میکسویل کے یہ الفاظ سنے۔ اُنہوں نے کہا، ”میں غور و خوص کر رہا تھا جب یہ ہدایت اور تسلی بخش الفاظ میرے زہن میں آئے: ’میں نے تجھے لوکیمیا دیا تا کہ تو میرے لوگوں کو مصدقہ طور پر تعلیم دے سکے‘“ پھر اُنہوں نے بیان کیا کہ اس تجربے نے کیسے انہیں ابدیت کے حقائق کےعظیم نقطہِ نگاہ کی برکت بخشی ہے… ابدیت کی ایسی جھلک، اگلے ۱۰۰ گز سفر کرنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے، جو کہ ممکہ طور پر بہت مشکل ہو سکتا ہے۔۵

ابدیت کی ایسی جھلک کے ہمراہ، مشکل اوقات میں سفر کرنے اور فتح مند ہونے کے لیے میں دو چیزیں تجویز کرنا چاہتا ہوں۔ ہمیں مشکل چیزوں کا سامنہ پہلے دوسروں کو معاف کر کے اور دوسرا اپنے آپ کو آسمانی باپ کے سُپرد کر کے کرنا چاہیے۔

اُن لوگوں کو معاف کرنا جو ہماری مشکلات کا سبب ہے، اور ا[پنے]آپ کو خُدا کی مرضی سے ملا لینا مشکل ہو سکتا ہے۔۶ ایسا کرنا سب سے تکلیف دہ تب ہوتا ہے جب ہماری مشکلات، خاندان کے افراد، قریبی دوست یا اپنی ہی پیدا کردہ ہوں۔

ایک نوجوان بشپ کے طور پر میں نے معافی کے بارے میں تب سیکھا جب میری سٹیک کے صدر بروس ایم کُک نے یہ کہانی سنائی۔ اُنہوں نے بیان کیا:

۱۹۷۰ کی دہائی کے اواخر میں کچھ ساتھیوں اور میں نے مل کر کاروبار شروع کیا۔ گو کہ ہم نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، لیکن مشکل معیشتی حالات اور بُرے فیصلوں کے سبب ہم ناکام ہوئے۔

”اپنے گھاٹوں کی وصولی کی لیے کچھ سرمایہ کاروں نے مقدمہ دائر کر دیا۔ اُن کا وکیل میرے پماری مجلس برائے بشپ میں مشیر تھا۔ ایسے شخص کی تائید کرنا بہت مشکل تھا جو مجھے تباہ کرنے کے لیے بضد ہو۔ میں نے اپنے آپ میں اُس کے لیے تلخ عداوت پیدا کر لی اور اُسے اپنا دشمن سمجھنے لگا۔ پانچ سالہ قانونی جنگ کے نعد، ہم نے بشمول اپنے گھر کے، سب کچھ کھو دیا۔

”۲۰۰۲ میں میری بیوی اور مجھے پتہ چلا کہ جس سٹیک صدارت میں مَیں خدمت کر رہا تھا، اُس کی ترتیبِ نو ہونی تھی۔ سبکدوشی سے کچھ پہلے ہم مختصر عرصے کے لیے چھٹیاں گزارنے گئے، اُس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر مجھے سٹیک کے نئے صدر کے طور پر بلایا جاتا ہے تو میں کن کو اپنے مشیر کے طور پر چنوں گا۔ میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ بضد رہی۔ بالاخر ایک نام میرے ذہن میں آٰیا۔ پھر اُس نے اُس وکیل کا نام لیا جسے ہم ۲۰ سال پہلے اپنی مشکلات کا منبع سمجھتے تھے۔ جب وہ بات کر رہی تھی تو روح نے تصدیق کی کہ دوسرا مشیر اُسے ہی ہونا تھا۔ میں اُس شخص کو کیونکر معاف کر سکتا تھا؟

جب ایلڈر ڈیوڈ ای۔ سورنسن نے مجھے بطور سٹیک کے صدر خدمت کرنے کی دعوت دی تو اُنہوں نے مجھے اپنے مشیر چننے کے لیے ایک گھنٹہ دیا۔ میں نے آنسوں سے جواب دیا کہ خُداوند نے یہ بات پہلے ہی منکشف کر دی تھی۔ جب میں نے اُس شخص کا نام لیا جسے میں اپنا دشمن سمجھتا تھا تو دل میں بسا غصہ دشمنی اور نفرت سب غائب ہو گئے۔ اُس لمحے میں، میں نے اُس سکون کے بارے میں سیکھا جو مسیح کے کفارہ کے ذریعے معاف کرنے سے آتا ہے۔

بہ الفاظِ دیگر میری سٹیک کے صدر نے اُسے ایام القدیم کے نیفی کی طرح ”بے تکلفی“ سے معاف کر دیا۷ میں صدر کُک اور اُن کے مشیروں کو دو راست باز کہاتی حاملین کے طور پر جانتا تھا جو ایک دوسرے کو عزیز رکھتے تھے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اُن کی طرح بنوں گا۔

کئی سال قبل الاسکا میں اپنی بد نصیبی کے دوران میں نے جلد ہی سیکھ لیا تھا کہ دوسروں کو اپنے حالات پر موردِ الزام ٹھہرانا —پایلٹ نے کھانا گھٹتی روشنی میں کھڑی سے باہر پھینکا— کوئی حل نہیں تھا۔ تاہم جسمانی تھکاوٹ، خوراک کی کمی، بیماری اور بڑے طوفان میں فقط ایک ترپال کےنیچے زمین پر سونے کے دوران میں نے سیکھا کہ ”خُدا کے لیے کوئی بھی چیز نا ممکن نہیں۔“۸

نوجوان نڑکو لڑکیو، خُداوند تقاضہ کرتا ہے کہ آپ مشکل چیزیں کریں۔ ایک ۱۴ سالہ نیگ ومن باسکٹ بال کے مسابقتی کھیلوں میں حصہ لیا کرتی تھی۔ اُس کا خواب تھا کہ وہ اپنی بڑی بہن کی طرح اپنے ہائی سکول کی ٹیم میں کھیلے۔ پھر اُسے پتہ چلا کہ اُس کے والدین کو گواٹے مالا میں مشن کی صدارت کے لیے بلایا گیا ہے۔

وہاں پہنچنے پر اُسے پتہ چلا کہ اُس کی کچھ کلاسیں ہسپانوی زبان میں ہوں گی جوزبان وہ ابھی بولتی نہیں تھی۔ اُس کے سکول میں کسی بھی کھیل میں لڑکیوں کی ٹیم نہیں تھی۔ وہ سخت سکیورٹی میں عمارت کی چودھویں منزل پر رہتی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حفاظتی اقدام کے سبب وہ باہر اکیلی نہیں جا سکتی تھی۔

کئی ماہ تک اُس کے والدین اُس کے سونے سے پہلے اُس کی سسکیاں سنتے رہے۔ اُن کا دل ٹوٹ جاتا تھا! بالاخر اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اُسے ہائی سکول کے لیے اُس کی دادی کے پاس بھیج دیں گے۔

جب میری بیوی ہماری بیٹی کو ہمارا فیصلہ بتانے کے لیے اُس کے کمرے میں گئی تو دعا میں گٹھنے ہوئی تھی اور مورمن کی کتاب بستر پرکُھلی ہوئی پڑی تھی۔ روح نے میری بیوی سے سرگوشی کہ ”وہ ٹھیک ہو جائے گی“ اور میری بیوی خاموشی سے کمرے سے باہر آ گئی۔

ہم نے دوبارہ اُسے کبھی بھی سونے سے پہلے سسکیاں لیتے ہوئے نہیں سنا۔ عزم اور خُداوند کی مدد سے اُن نے تین سال کا دلیری سے سامنہ کیا۔

ہمارے مشن کے اختتام پر میں نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ آیا وہ کُل وقتی مشن پر خدمت کرے گی۔ اُس کا جواب تھا ”نہیں ابو میں پہلے ہی خدمت کر چکی ہوں۔“

میرے لیے یہ بات قابلِ قبول تھی! لیکن چھ ماہ بعد، روح نے مجھے رات کو اس خیال سے بیدار کیا کہ ”میں نے تمہاری بیٹی کو مشن پر خدمت کے لیے بلایا ہے“

میرا ردِ عمل یہ تھا ”آسمانی باپ وہ پہلے ہی بہت قربانی دے چکی ہے۔“ روح نے فورا میری تصحیح کی اور میں یہ سمجھا کہ بطور مشنری اُس کی خدمت خُداوند کا تقاضہ تھا۔

کچھ ہی عرصہ بعد میں اپنی بیٹی کو دوپہر کے کھانے پر لے گیا۔ میز کی دوسری جانب بیٹھے میں نے اُس سے کہا، ”گانزی تمہیں پتہ ہے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟“

اُس نے کہا، ” ہاں، ابو۔ آپ کو پتہ ہے کہ مجھے مشن پر خدمت کے لیے جانا ہے۔ میں جانا نہیں چاہتی مگر پھر بھی جاوٗں گی۔“

کیونکہ اُس نے اپنی مرضی خُداوند کو سونپ دی تھی، اس نے اپنے سارے دل، جان، عقل اور طاقت سے خدمت کی۔ اُس نے اپنے باپ کو سکھایا ہے کہ مشکل چیزیں کیسے کی جاتی ہیں۔

نوجوانوں کے لیے بین الاقوامی ڈیوشنل میں صدر رسل ایم نیلسن نے نوجوانوں سے کچھ سخت چیزیں کرنے کی درخواست کی ہے۔ صدر نیلسن نے کہا کہ ”پانچویں چیز جس کی میں نوجوانوں کو دعوت دیتا ہوں وہ یہ کہ منفرد ٹھہریں اور دنیا سے مختلف ہوں… خُداوند کو مطلوب ہے کہ آپ دیکھنے، سننے، عمل کرنے، اور پہناوے میں یسوع مسیح کے حقیقی شاگرد نظر آئیں۔۹ ایسا کرنا مشکل ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ ایسا کر سکتے ہیں—وہ بھی شادمان دل سے۔

یاد رکھیں،”آدمی کا وجود خوشی حاصل کرنے کے لیے ہے“۱۱ مام مشکل چیزوں کا سامنہ کرنے کے باوجود بھی لحی نے خوشی پائی۔ یاد رکھیں جب ایلما ایمونایاہ کے لوگوں کے سبب ”غم تلے دبا ہوا تھا۔“۱۱ تو فرشتے نے اُسے کہا ایلما تو بابرکت ہے، اس لیے اپنا سر اٹھا اور خوشی کر … کیونکہ تو خُدا کے احکام ماننے میں وفادار رہا ہے۔“۱۲ ایلما نے ایک عظیم سچائی سیکھی: جب ہم احکام پر عمل کرتے ہیں تو ہمیشہ خوش رہ سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ کپتان مرونی کے دور میں جنگوں اور مشکلات کے دوران بھی”نیفی کے لوگوں میں اس سے بڑھ کر خوشی کا کوئی اور دور نہیں تھا۔“۱۳ مشکل چیزوں کا سامنہ کرتےہوے ہمیں خوشی مل سکتی ہے اور ملنی بھی چاہیے۔

نجات دہندہ نے مشکل چیزوں کا سامنہ کیا: ”دنیا نے اُسے حقیر جانا، اس لیے اُنہوں نے اُسے کوڑے مارے اور اُس نے برداشت کیا، اور اُنہوں نے اُسے مارا اور اُس نے برداشت کیا، ہاں اُنہوں نے اُس پر تھوکا اور اُس نے ، بنی نوع انسان کے لیے اپنی رحیم محبت اور تا دایر برداشت کے سبب یہ سہا۔“۱۴

اُسی رحیم محبت کے سبب مسیح نے کفارہ دیا۔ اس کے نتیجے میں وہ ہم سب سے کہتا ہے، ”تم دینا میں مصیبت اٹھاتے ہو، لیکن خاطر جمع رکھو، میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔“۱۵ مسیح کے سبب ہم بھی دنیا پر غالب آ سکتے ہیں۔

جب ہم خُداوند کے طریقے سے مشکل چیزوں کا سامنہ کرتے ہیں تو ہم اپنے سر اٹھائیں اور خوشی کریں۔ دینا کو گواہی دینے کے اس مقدس موقعے پر میں اعلان کرتا ہوں کہ نجات دہندہ زندہ ہے اور اپنی کلیسیا کی رہنمائی کرتا ہے۔ یسوع مسیح کے نام میں، آمین۔