۲۰۱۰–۲۰۱۹
سب کو باپ کی طرف سے دیا گیا نام اپنے تئیں اپنانا ہے
اکتوبر ۲۰۱۸


سب کو باپ کی طرف سے دیا گیا نام اپنے تئیں اپنانا ہے

نجات دہندہ کے نام میں واحد اور لازمی قدرت ہے۔ صرف یہی نام ہے جس کے وسیلے سے نجات ممکن ہے۔

چند ہفتے پہلے، میں نے بہت سارے آٹھ برس کے بچوں کے بپتسمہ میں حصہ لیا۔ اُنھوں نے اپنے والدین اور اُساتذہ سے یِسُوع مِسیح کی اِنجیل کے بارے میں سیکھنا شروع کردیا تھا۔ اُس پر اُن کے اِیمان کا بیج پھلنے پھولنے لگا تھا۔ اور اب وہ بپتسمہ کے پانی میں اُترتے ہوئے اُس کی بحال شدہ کلیسیا کے ارکان بننے کے لیے اُس کی پیروی کرنا چاہتے تھے۔ جب میں نے اُن کی پیش بینی دیکھی، تو مجھے گماں ہوا کہ بپتسمہ کے عہد کے ایک اہم پہلو: یعنی اپنے تئیں یِسُوع مِسیح کا نام اپنانے کی ذمہ داری کے بارے میں اُنھیں کتنی سمجھ ہے۔

ابتدا سے، ہمارے لیے اپنے منصوبہ میں خُدا نے یِسُوع مِسیح کے نام کی فضیلت کا اعلان کیا ہے۔ فرشتے نے ہمارے پہلے باپ، آدم کو سکھایا، ”تم اپنے سب کام بیٹے کے نام پر کرو، اور تم توبہ کرو اور ہمیشہ بیٹے کے نام پر خُدا سے دُعا کرو۔“۱

مورمن کی کتاب کے نبی بنیمین بادشاہ نے اپنے لوگوں کو سکھایا،”کوئی اور نام یا راہ یا وسیلہ نہیں بخشا گیا جس سے نجات مل سکے۔“۲

خُداوند نے اِس سچائی کو اپنے نبی جوزف سمتھ کے ساتھ دہرایا: ”دیکھو، یِسُوع مِسیح ہی وہ نام ہے جو باپ کی طرف سے دیا گیا ہے، اور کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے بنی آدم نجات حاصل کر سکیں۔“۳

ہمارے ایام میں، صدر ڈیلن ایچ اوکس نے سکھایا ہے کہ ”وہ جو یِسُوع مِسیح کے مقدس نام پر اِیمان لاتے ہیں … اور اُس کے عہد میں داخل ہوتے ہیں … وہ یِسُوع مِسیح کی کفارہ دینے والی قربانی کے دعویٰ دار بن سکتے ہیں۔“۴

ہمارا آسمانی باپ یہ صاف صاف واضح کرنا چاہتا ہے کہ اس کے بیٹے، یِسُوع مِسیح، کا نام بہت سارے ناموں میں سے مخص ایک نام ہی نہیں ہے۔ نجات دہندہ کے نام میں واحد اور لازمی قدرت ہے۔ صرف یہی نام ہے جس کے وسیلے سے نجات ممکن ہے۔ ہر دور میں اِس حقیقت پر زور دیتے ہوئے، ہمارا پیارا باپ اپنے تمام بچوں کو یقین دلاتا ہے کہ اُس کے پاس واپس جانے کا راستہ موجود ہے۔ لیکن حقیقی راہ کی موجودگی سے یہ مُراد نہیں کہ ہماری واپسی خود بخود ہو گی۔ خُدا ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے اعمال کی ضرورت ہوگی: ”لہذا، سب مرد [اور عورت] لازمی طور پر باپ کے دیے گئے نام کو اپنے تئیں اپنا لیں۔“۵

نجات بخش قدرت تک رسائی پانے کے لیے جو صرف مِسیح کے نام سے ملتی ہے، ”ہمیں خدا کے سامنے [خود کو] فروتن بنانا ہے … اور شکستہ دلوں اور پشیمان رُوحوں کے ساتھ اس کے پاس جانا ہے … اور یِسُوع مِسیح کا نام [اپنے] پر خوشی [سے] لینا ہے تاکہ وہ اِس طرح قابل بنتے ہوئے، میرے آٹھ برس کے دوستوں کی مانند، ”بپتسمہ کے وسیلے سے کلیسیا میں شامل کیے جائیں۔“۶

وہ سب جو نجات دہندہ کا نام اپنے تئیں اپنانے کا مخلصانہ ارادہ رکھتے ہیں اُنھیں اِس قابل بننا ہے اور خُدا کے لیے اپنے فیصلے کے ایک ٹھوس گواہ کے طور پر بپتسمہ کی رسم پانی ہے۔۷ لیکن بپتسمہ صرف اِبتدا ہے۔

لفظ اپنانا جامد نہیں۔ یہ لفظ متحرک ہے جس کی کئی وضاحتیں ہیں۔۸ اِسی طرح، یِسُوع مِسیح کا نام اپنے تئیں اپنانے کے عزم کو تحریک کی ضرورت ہے اور اُس کی کئی پرتیں ہیں۔

مثال کے طور پر، لفظ اپنانے کا ایک مطلب نوش کرنا یا اپنے جسم کا حصہ بنانا ہے، جیسے جب ہم کچھ پیتے ہیں۔ اپنے تئیں مِسیح کا نام اپنانے سے مُراد ہے، ہم اُس کی تعلیم قبول کرنے کا تہیہ کرتے ہیں، اُس کی صفات، اور بالآخر اُس کی محبت ہمارے وجود میں سرایت کرے تاکہ وہ ہماری ذات کا حصّہ ہوں۔ اِس طرح نوجوانوں کے لیے صدر رِسل ایم نیلسن کی دعوت کی اہمیت کہ ”دُعاگو ہو کر اور پُرزور طریقے سے [تلاش] کریں کہ [نجات دہندہ کے] مختلف خطابوں اور ناموں کے [اُن] کے لیے ذاتی طور پر کیا معانی ہیں “۹ اور صحائف، خاص طور پرمورمن کی کتاب، میں سے مِسیح کے کلام سے سیر ہوں۔۱۰

لفظ اپنانے کا دُوسرا مطلب کسی شخص کو کسی خاص صورت میں قبول کرنا یا کسی اُصول یا تصور کی سچائی کو تسلیم کرنا ہے۔ جب ہم اپنے تئیں مِسیح کا نام اپناتے ہیں، توہم اُسے اپنا نجات دہندہ قبول کرتے ہیں اور لگاتار اپنی زندگیوں کی راہ نمائی کے لیے اُس کی تعلیم کو قبول کرتے ہیں۔ اپنے ہر بامعنی فیصلے کے وقت، ہم اُس کی اِنجیل کو سچّ مانتے ہُوئے اور اپنے سارے دل، جان، عقل، اورطاقت کے ساتھ فرماں برداری سے چل سکتے ہیں۔

لفظ اپنانے سے مُراد کسی نام یا مقصد کے شانہ بشانہ چلنا بھی ہو سکتا ہے۔ ہم میں سے اکثر اپنے اپنے کام پر ذمہ داریاں نبھانے یا کسی مقصد یا تحریک کو اپنانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ جب ہم اپنے تئیں مِسیح کا نام اپناتے ہیں، تو ہم حقیقی شاگرد کی ذمہ داریاں اپنے اُوپر لیتے ہیں، ہم اُس کے مقصد کی حمایت کرتے ہیں، اور ہم ”ہر وقت اور ہر بات میں اور ہر جگہ [اُس] کے گواہ بنتے ہیں چاہے [ہم] جہاں بھی ہوتے ہیں۔“۱۱ صدر نیلسن نے ”ہر نوجوان لڑکی اور ہر نوجوان لڑکے …کو اِسرائیل کو اِکٹھا کرنے کے لیے خُداوند کی جوان فوج میں بھرتی ہونے کا بُلاوہ دیا ہے۔“۱۲ ہم سب اُس کی بحال شدہ کلیسیا کے نام، جیسا کہ نجات دہندہ نے خود عیاں کیا ہے: کلیسیائے یِسُوع مِسیح برائے مقدسینِ آخری ایام، کا اقرار کرنے کی پیغمبرانہ پکار کو قبول کرنے کے لیے شکر گزار ہیں۔۱۳

اپنے تئیں نجات دہندہ کا نام اپنانے کے عمل میں، ہمیں لازمی طور پر سمجھنا چاہیے کہ مِسیح اور اُس کی کلیسیا کا مقصد ایک ہے۔ وہ الگ نہیں ہوسکتے۔ اِسی طرح، نجات دہندہ کے لیے ہماری ذاتی تقلید اور اُس کی کلیسیا میں فعال رکنیت بھی لازم و ملزوم ہے۔ اگر ہم کسی ایک کے عزم میں لڑکھڑاتے ہیں تو، دوسرے کے لیے ہمارا عزم کم ہو جائے گا، ویسے ہی جیسے دن کے بعد رات ہوتی ہے۔

بعض لوگ یِسُوع مِسیح کے نام اور اُس کے فرض کو قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیوں کہ وہ اِسے بےجا سکڑا، محدود، اور محصور کُن سمجھتے ہیں۔ درحقیقت، یِسُوع مِسیح کا نام اپنے تئیں اپنانے سے دونوں آزادی اور بڑھوتی ملتی ہیں۔ یہ اُس آرزو کو جگاتی ہے جس کو ہم نے نجات دہندہ پر اِیمان کے وسیلے سے خُدا کے منصوبہ کو قبول کر کے محسوس کیا تھا۔ اِس آرزو کو اپنے دِلوں میں زندہ رکھ کر، ہم اپنی خُدا داد صلاحیتوں اور مہارتوں کے اصلی مقصد کو پہچان سکتے ہیں، اُس کی قدرت بخش محبت کا تجربہ کر سکتے ہیں، اور دوسروں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی فکر میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ جب ہم نجات دہندہ کا نام اپنے تئیں اپناتے ہیں، تب حقیقت میں ہر اچھی نعمت کوپاتے اور اُس کی مانند بنتے ہیں۔۱۴

اِس بات کو یاد رکھیں کہ نجات دہندہ کا نام اپنے تئیں اپنانا اِیفائے عہد ہے—وہ عہد جس کی اِبتدا ہم بپتسمہ کے وقت کرتے ہیں۔ صدر نیلسن نے سکھایا، ”اُس کے ساتھ عہود باندھنے اور اُن عہود کو پورا کرنے کے وسیلے سے نجات دہندہ کی پیروی کرنے کا [ہمارا] عزم ہر روحانی برکت اور رحمت کے دروازے کھولے گا۔“۱۵ بپتسمہ لیتے وقت نجات دہندہ کا نام اپنے تئیں اپنانے سے آسمانی اِختیارات میں سے ایک عہد کے راستے پراگلی رسم، یعنی ہمارے استحکام کی ادائیگی کی رسائی فراہم کرتا ہے۔ جب میں نے اپنے آٹھ برس کے دوستوں میں سے ایک سے پوچھا کہ مِسیح کا نام اپنے تئیں اپنانے کا اُس کے نزدیک کیا مطلب ہے، اس نے سادہ سا جواب دیا، ”اُس کا مطلب ہے میں رُوحُ القُدس حاصل کر سکتی ہوں۔“ وہ درست تھی۔

بپتسمہ کی رسم ادا کرنے کے بعد استحکام کے وسیلے سے رُوحُ القُدس کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔ یہ نعمت رُوحُ القُدس کی ہمہ وقت رفاقت حاصل کرنے کا حق اور اِمتیاز ہے۔ اگر ہم اُس کی مدھم، دھیمی آواز سنتے اور اُس کی پیروی کرتے ہیں، تو وہ ہمیں بپتسمہ کے وسیلے سے داخل ہونے والے عہد کے راستے پر قائم رکھے گا، جب ہم اِس سے دور ہونے کی آزمایش میں پڑیں گے تو وہ ہمیں خبردار کرے گا، اور توبہ کرنے کی ہمت بخشے گا اور حسبِ ضرورت اِصلاح کرے گا۔ بپتسمہ لینے کے بعد ہماری ساری توجہ کا مرکز رُوحُ القُدس کی مستقل رفاقت ہونی چاہیے تاکہ ہم عہد کے راستے پر ترقی کرتے جائیں۔ رُوحُ القُدس صرف ہمارے ساتھ تب ہی سکونت کرسکتا ہے جب ہم اپنی زندگیوں کو گناہوں سے پاک اور صاف رکھیں گے۔

اِسی وجہ سے، خُداوند نے ایک اور رسم—عشائے ربانی کے ذریعہ ہمارے بپتسمہ کی پاک تاثیر کو مسلسل تازہ رکھنے کا طریقہ فراہم کیا ہے۔ ہر سبت کو ہم”گواہ ٹھہرتے ہیں … کہ [ہم] خوشی [سے] بیٹے کا نام [اپنے] تئیں اپنائیں گے“۱۶ دوبارہ، خُداوند کے گوشت اور خون کی یادگار—روٹی اور پانی تک رسائی پا کر اور اپنے ہاتھوں میں لے کر—ان کو اپنی جانوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ بدلے میں، نجات دہندہ ہمیں دوبارہ پاک کرنے کا معجزہ سر انجام دیتا ہے اور ہمیں رُوحُ القُدس کی مسلسل رفاقت کے لائق بناتا ہے۔ کیا یہ اُس ابدی رحم کا ثبوت نہیں جو صرف یِسُوع مِسیح کے نام پر پایا جاتا ہے؟ جیسے ہم اُس کا نام اپنے تئیں اپناتے ہیں، ویسے وہ ہمارے گُناہ اور غم اپنے اوپر لے لیتا ہے، اور اُس کا ”رحم کرنے والا ہاتھ ہنوز بڑھا ہُوا ہے“۱۷ کہ ہمیں اپنی محبت کے بازوؤں میں گھیر لے۔۱۸

عشائے ربانی ایک ہفتہ وار یاد گار ہے کہ یِسُوع مِسیح کا نام اپنے تئیں اپنانا زندہ اور تابندہ عزم ہے، نہ کہ مخص ہمارے بپتسمہ کے دن رونما ہونے والا کوئی واقع۔۱۹ ہم ”اُس مقدس، پاک قربانی، جو آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے، کہ ہمارے گُناہ بخشے جائیں اور اُس کے گوشت اور خون کو لینے“ سے مسلسل اور بار بار شادمان ہو سکتے ہیں۔“۲۰ تاہم یہ ایک حیران کُن بات ہے کہ جب بھی خدا کے بچے اُن قوی، روحانی برکتوں کو سمجھ پاتے ہیں جو مِسیح کا نام اپنے تئیں اپنانے سے حاصل ہوتی ہیں، تو اُنھیں ہمیشہ خوشی کا احساس ہوتا ہے اور ہمیشہ اُن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ خُدا کے ساتھ عہد باندھیں۔۲۱

جب ہم اِس اِلہامی تیار شُدہ عہد کے راستے پر چلیں گے، تو یِسُوع مِسیح کا نام اپنے تئیں اپنانے کا ہمارا عزم اور ہماری کوششیں ہمیں مضبوطی بخشیں گی ”کہ [ہمارے] دلوں میں ہمیشہ [اُس] کا نام لکھا رہے۔“۲۲ ہم خُدا اور اپنے پڑوسیوں سے محبت رکھیں گے اور اُن کی خدمت گزاری کی تمنا کو محسوس کریں گے۔ اُس کے ساتھ مزید عہود میں داخل ہونے سے ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں گے اور اُس کے قریب تر ہونے کے مُشتاق ہوں گے۔ اور جب ہم اپنی نیک خواہشات پر عمل کرنے کے لیے خود کو کمزور اور نااہل پاتے ہیں تو، ہمیں اُس قوت کے لیے التجا کرنی چاہیے جو صرف اُس کے نام سے حاصل ہوتی ہے اور وہ ہماری مدد کے لیے آئے گا۔ جب ہم اِیمان داری سے برداشت کرتے ہیں، تو وہ دن آئے گا کہ جب ہم اُسے دیکھیں گے اور اُس کے ساتھ رہیں گے، اور ہم جانیں گے کہ ہم اُس کی مانند بن گئے ہیں،یعنی باپ کی خصوری میں واپس جانے کے اہل۔

چناں چہ نجات دہندہ کا وعدہ اَٹل ہے: وہ جو ”یِسُوع مِسیح کے نام پر اِیمان لاتے ہیں،اور اُس کے نام پر باپ کی عبادت کرتے ہیں، اور اُسکے نام پر اِیمان کے ساتھ آخر تک برداشت کرتے ہیں“۲۳ وہ خُدا کی بادشاہی میں بچائے جائیں گے۔ آپ کے ساتھ، میں خوشی مناتا ہوں کہ یِسُوع مِسیح کے نام، کی بدولت یہ لاثانی برکات ممکن بنائی گئی ہیں، جس کی اور جس کے نام کے واسطے میں گواہی دیتا ہوں، آمین۔

حوالہ جات

  1. موسیٰ ۵:‏۸۔

  2. مضایاہ۳:‏۱۷۔

  3. عقائد اور عہود ۱۸:‏۲۳۔

  4. ڈیلن ایچ۔ اوکس، ”Taking upon Us the Name of Jesus Christ،“ ،Ensign مئی ۱۹۸۵، ۸۲۔

  5. عقائد اور عہود ۱۸:‏۲۴؛ تاکید شامل ہے۔

  6. عقائد اور عہود ۲۰:‏۳۷؛ تاکید شامل ہے۔

  7. صدر ڈیلن ایچ اوکس نے سیکھایا: ”ہم اپنے تئیں ہمارے نجات دہندہ کا نام تب اپناتے ہیں جب ہم کلیسیائے یسوع مسیح برائے مقدسین آخری ایام کے رکن بن جاتے ہیں۔ … مِسیح کے حقیقی پیروکار کی حیثیت سے، مِسیحیوں کی طرح، ہم نے خوشی سے اُس کا نام اپنے تئیں اپنایا ہے“( ”Taking upon Us the Name of Jesus Christ ،“ ۸۰)۔

  8. The Merriam-Webster online dictionary lists 20 meanings of the transitive form of the verb take, which is the form in which the verb is used in the phrase “take upon us the name of Jesus Christ” (see merriam-webster.com/dictionary/take).

  9. رِسل ایم نیلسن، ”اَنبیا، قیادت، اور الہیٰ قانون“ (بین الاقوامی نوجوان سے وعظ، ۸ جنوری ٢٠١۷)، broadcasts.lds.org۔

  10. دیکھیں رسل ایم نیلسن، ”مورمن کی کتاب: اِس کے بغیر آپ کی زندگی کیسی ہوگی؟لیحونا، نومبر ۲۰۱۷، ۶۰ -۶۳ ۔

  11. مضایاہ ۱۸:‏۹۔

  12. رِسل ایم نیلسن، ”اسرائیل کی اُمید“ (بین الاقوامی نوجوانوں کا رُوحانی اجلاس ، ۳ جون ٢٠١٨)، HopeofIsrael.lds.org۔

  13. ”خُداوند نے اُس نام کی اہمیت کو جس کا حکم اُس نے اپنی کلیسیا کے لیے صادر کیا تھا میرے دماغ پر بھرپور طریقے سے نقش کیا، حتیٰ کہ کلیسائے یِسُوع مِسیح برائے مقدسین آخری ایام۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آپ کو اُس کی مرضی کے ساتھ ہم آہنگ کریں“ (رسل ایم نیلسن،”The Name of the Church “ [سرکاری بیان، ۱۶ اگست، ۲۰۱۸] میں، mormonnewsroom.org)۔

  14. دیکھیے مرونی ۷:‏۱۹۔

  15. رسل ایم نیلسن، ”جب ہم یک دل ہو کر آگے بڑھتے ہیں،“ لیحونا، اپریل ۲۰۱۸، ۷۔

  16. عقائد اور عہود ۲۰:‏۷۷ تاکید شامل ہے۔

  17. ۳ نیفی ۹:‏۱۴؛ مزید دیکھیے ایلما ۵:‏۳۳–۳۴۔

  18. دیکھیں ۲ نیفی۱:‏۱۵۔

  19. ”جب ہم خوشی سے یِسُوع مِسیح کا نام اپنے تئیں اپنانے کے گواہ بنتے ہیں، تو ہم وہ سب کرنے کے اپنے عزم کی تصدیق کرتے ہیں جس سے ہم اپنے باپ کی بادشاہی میں ابدی زندگی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہم اپنی امیدواری کا اظہار کر رہے ہیں—سیلیسٹیئل بادشاہی میں سرفرازی پانے—کے لیے اپنی کوششوں کا عزم کرتے ہوئے۔ …

    ”… ہم یہ گواہی نہیں دیتے کہ ہم نے اس کا نام اپنے تئیں اپناتے ہیں بلکہ ہم ایسا کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اِس لحاظ سے، ہماری گواہی مستقبل کے کچھ واقع سے متعلق ہیں یا حیثیت جس کا حصول خود سے نہیں فرض کیا گیا، لیکن خود نجات دہندہ کے اختیار یا پہل پر منحصر ہے“ (ڈیلن ایچ اوکس ”Taking upon Us the Name of Jesus Christ ،“ ۸۳ ، ۸۲)۔

  20. ”اے خُدا، ابدی باپ،“ گیت، نمبر ۱۷۵۔

  21. دیکھیں مضایاہ ۵؛ ‏۶؛ ‏۱۸؛ ‏۳ نیفی ۱۹۔

  22. مضایاہ ۵:‏۱۲۔

  23. عقائد اور عہود ۲۰:‏۲۹۔