۲۰۱۰–۲۰۱۹
صُلح کی خدمت گُزاری
اکتوبر ۲۰۱۸


صُلح کی خدمت گُزاری

میں گواہی دیتا کہ خُدا اور ایک دُوسرے کے ساتھ صُلح جان کے لیے تسلی و راحت لائے گی اگر ہم اِس کو پانے کے لیے کافی دلیر اور فروتن ہیں۔

گُزشتہ اَپریل کو جب صدر رسل ایم نیلسن نے خدمت گُزاری کا تصور متعارف کرایا، اُنھوں نے زور دیا کہ خُدا سے محبت اور ایک دوسرے سے پیار کرنے کے لیے یہ سب سے بڑے حکم پر چلنے کا ایک طریقہ ہے۔۱ ہم، کلیسیا کے عہدہ دران کی حیثیت سے،اِس حوالے سے آپ کے شروع کردہ زبردست جوابی ردِعمل کے لیے سرعام خراج تحسین اور مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ہم آپ کے شُکرگُزار ہیں اپنے پیارے نبی کی اِس حیرت خیز جدوجہد کی پیروی کرنے اور اِس تجویز کے لیے کہ آپ مزید ہدایات کے منتظر نہ ہوں۔ بس اِس سمندر میں چھلانگ لگاو اور تیرو۔ ضرورت مندوں کی مدد کرو۔ اِس سوچ میں پڑ کر رُک مت جانا کہ تیراکی کے کون سے طریقے کو اپناؤں، ڈُبکیاں لگاؤں یا کمر کے بل تَیروں۔ اگر ہم سکھائے ہُوئے بُنیادی اُصولوں پر عمل کرتے ہیں، کہانتی کنجیوں کی حدود میں رہتے ہیں، اور رُوحُ القُدس سے راہ نمائی مانگتے ہیں، تو ہم ناکام نہیں ہو سکتے۔

آج صبح میں آپ سے خدمت گُزاری کے اِنتہائی ذاتی زاویے سے بات کرنا چاہتا ہُوں جس میں نہ تفویض کردہ ذمہ داری شامل ہے، نہ طے شُدہ اِنٹریو، اور نہ ہی سوائے خُدا کسی کے سامنے جواب دہی کا فرض۔ میں آپ کو اِس خدمت گُزاری کی سادہ سی مثال دیتا ہُوں۔

گرانٹ مورل بون وفادار شوہر اور محنتی باپ تھا اور دوسروں کی طرح زمین دار تھا، علاقائی آلو کی فصل اچھی نہ ہونے کے باعث مالی حالات بگڑ گئے۔ اُس کی بیوی نورما اور اُس نے کوئی دوسرا پیشہ اِختیار کر لیا اور بالآخر کسی اور شہر مُنتقل ہو گئے، جہاں اُن کی اِقتصادی حالت سنبھلنے لگی۔ تاہم، اِنتہائی ناخوش گوار واقع کی وجہ سے بھائی بون کو شدید دھچکا لگا جب، ہیکل کے تصدیقی اِنٹرویو کے دوران میں اُسقف کو مورل کی پوری دہ یکی ادا کرنے کے دعویٰ پر ذرا سا شک گُزرا۔

مجھے علم نہیں کہ اُس دِن کس کے پاس زیادہ موزوں کوائف تھے، لیکن میں یہ جانتا ہُوں کہ بہن بون کو ہیکل کا تصدیق نامہ جاری ہوگیا، جب کہ بھائی بون غصے سے باہر نکلا اور پھر ۱۵ برس تک کلیسیا سے باہر رہا۔

اِس بات سے قطع نظر کہ کون دہ یکی کے حوالے سے زیادہ صحیح تھا، مگر واضح طور پر مورل اور اُسقف دونوں نجات دہندہ کی ہدایت کو بھول گئے ”اپنے مدعی سے جلد صلح کر“۲ اور پولوس کی یہ نصیحت ”سورج کےڈوبنے تک تمھاری خفگی نہ رہے۔“۳ سچ یہ ہے کہ اُن میں صلح نہ ہُوئی اور بھائی بون کی خفگی کا سورج کئی دِنوں، بلکہ ہفتوں، اور پھر برسوں تک نہ ڈوبا، اور قدیم رومی دانش ور کے قول کو سچ ثابت کر دیا، جس نے کہا تھا، ”غصّہ، اگر قابو نہ کیا جائے تواُس چوٹ سے اکثر زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے جس سے یہ پیدا ہوتا ہے۔“۴ مگر صلح کا معجزا ہمیں ہمیشہ میسر ہوتا ہے، اور اپنے خاندان کی محبت کی خاطر اور کلیسیا کی صداقت کی بدولت، مورل بون پوری طرح کلیسیا میں دوبارہ سرگرم ہو گیا۔ میں آپ کو مختصراً بتاتا ہوں کہ یہ کیسے ممکن ہُوا۔

بھائی بون کا بیٹا برایڈ جو جنوبی آئیڈاہو میں علاقائی ستر کی حیثیت سے خدمت سرانجام دے رہا ہے اور ہمارا گہرا دوست ہے۔ بریڈ ۱۱ برس کا تھا جب یہ واقع رونما ہُوا، اور پھر ۱۵ برس تک اپنے والد کی مذہبی عقیدت کو کمزور ہوتا دیکھتا رہا، ایک ایسی ہیبت ناک فصل کی کٹائی کا وہ گواہ تھا جو غصّے اور غلط فہمی کے بیج سے تیار ہُوئی تھی۔ اِس کے حوالے سے کچھ کرنے کی ضرورت تھی۔ ۱۹۷۷ کی تھینکس گیونگ کی چُھٹیاں آئیں، بریڈ جس کی عمر ۲۶ برس اور برگھم ینگ یونی ورسٹی کا طالب علم، اُس کی بیوی ویلری، اور چھوٹا بیٹا مائیک، اپنی طالب علمی کے زمانے کی گاڑی میں سوار ہُوئے، بڑے خراب موسم کی پروا کیے بغیر بِیلینگ مونٹانا کی طرف چل دیے۔ مغربی یلو سٹون کے برفانی تودے بھی اُنھیں بھائی بون سینئر کی خدمت گُزاری سے نہ روک سکتے تھے۔

وہاں پہنچ کر بریڈ اور اُس کی بہن پیم نے اپنے باپ سے تنہائی میں ملنے کی درخواست کی۔ ”آپ ہمارے بڑے زبردست باپ ہیں،“ بریڈ نے ذرا جذباتی ہوتے ہوئے، ”اور ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمیں ہمیشہ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ لیکن کہیں نہ کہیں کچھ ٹھیک نہیں ہے، اور یہ کافی عرصے سے ہے۔ چوں کہ آپ کو ایک دفعہ دُکھ پہنچا تھا، پورا خاندان برسوں سے دُکھ اُٹھا رہا ہے۔ ہم بکھر چکے ہیں، اور صرف آپ ہی ہیں جو ہمیں ٹھیک کر سکتے ہیں۔ مہربانی کر کے، مہربانی کر کے، اِتنا عرصہ بیت جانے کے بعد، کیا آپ اپنے دِل سے اُسقف کے ساتھ ہونے والے ناخوش گوار واقع کو نکال کر اِس خاندان کی راہ نمائی کر سکتے ہیں جیسے کبھی کیا کرتے تھے؟“

ہر کوئی خاموش تھا۔ پھر بھائی بون نے اپنے اِن دونوں بچّوں کی طرف دیکھا، جو اُس کی ہڈیوں میں سے ہڈی اور اُس کے گوشت میں سے گوشت تھے،۵ اور بڑے آہستہ سے بولے، ”ہاں۔ ہاں، میں کروں گا۔“

اِس غیرمتوقع جواب پر پُرجوش مگر حیران تھے، بریڈ بون اور اُس کے خاندان نے دیکھا کہ اُن کا والد اپنے موجود اُسقف کے پاس صُلح کے جذبے سے سرشار اپنی زندگی کو راہِ راست پر لانے کے لیے گیا۔ اِس دلیرانہ مگر مکمل طور پر غیر متوقع ملاقات کے جواب میں، وہ اُسقف جس نے بار بار بھائی بون کو واپس آنے کی اِلتجائیں کی تھیں، اُس نے اپنے بازو پھیلا کر مورل کو اپنے سینے لگایا—بڑی دیر تک گلے لگائے رکھا، بڑی، بڑی دیر تک۔

صرف چند ہفتوں کے اندر اندر—زیادہ وقت نہ لگا—بھائی بون ہر لحاظ سے کلیسیائی عبادات میں شامل ہُوا اور خود کو ہیکل میں داخل ہونے کے لائق بنایا۔ جلد اُس نے چھوٹی سی ادھ موئی شاخ کی صدارتی ذمہ داری کو قبول کیاجس میں ۲۵ افراد تھے اور محنت کر کے ۱۰۰ سے زیادہ افراد کی جماعت بنا دیا۔ یہ سب کچھ تقریباً نصف صدی پہلے ہُوا تھا، مگر بیٹے اور بیٹی کی اپنے باپ سے خدمت گُزاری کی اِلتجا کے اثرات اور باپ کی دوسروں کی کمزوریوں کومعاف کرنے اور آگے بڑھنے کی آرزو نے رحمتیں برسائیں جو اب بھی برس رہی ہیں—اور برستی رہیں گی—بون خاندان پر۔

بھائیو اور بہنو، یِسُوع نے فرمایا ہے کہ ہم ”محبت کے ساتھ اِکٹھے رہیں“۶ اِس کے ساتھ ساتھ”تم میں کوئی تکرار نہ ہو۔“۷ ”وہ جس میں جھگڑے کی روح ہے مجھ سے نہیں ہے،“ خُداوند نے نیفیوں کو خبردار کیا۔۸ درحقیقت، کسی حد تک، مِسیح کے ساتھ ہمارے رشتے کا انحصار—یا کم از کم تاثیر—دوسروں سے ہمارے تعلقات پر ہے۔

”اگر تم … میرےپاس آنے کی خواہش کرو،“ خُداوند نے فرمایا ”اور تمھیں یاد آئے کہ تمھارے بھائی کو تمھارے خلاف شکایت ہے—

”اپنے بھائی کے پاس جاؤ، اور پہلے اُس سے صُلح کرو، اور پھر دل کے کامِل اِرادے سے میرے پاس آؤ ،اور میں تمھیں قبول کروں گا۔“۹

یقیناً ہم میں سے ہر کوئی پرانے زخموں اور دُکھوں اور تکلیف دہ یادوں کی لمبی فہرست بیان کر سکتا ہے جو اِس لمحے بھی کسی شخص یا خاندان یا برادری کے دل کا چین برباد کرتا ہے۔ چاہے یہ درد ہمیں ملا ہے یا ہم نے کسی کو دُکھ دیا ہے، اُن زخموں کو بھرنے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی اُس طرح نفع بخش ہو جائے جس طرح خُدا کی منشا تھی۔ جس طرح آپ کے فرج میں پڑے کھانے کو آپ کے پوتے آپ کی خاطر بڑی احتیاط سے دیکھتے ہیں، پُرانے شکوے شکایات کی تاریخِ معیاد بڑے عرصے سے گُزر چُکی ہے۔ براہِ کرم اُنھیں اپنے دِل کے بیش قیمت خانے میں مزید نہ ٹھہرنے دیں۔ جیسے پاروسپیرو نے رنجیدہ الونسو کو ٹمپسٹ میں کہا، ”آؤ ہم اپنی یادوں کو گُزشتہ صدموں سے بوجھل نہ کریں۔“۱۰

”معاف کرو، اور تمھیں بھی معاف کیا جائے گا۔“۱۱ خُداوند نے نئے عہد نامہ کے زمانے میں سکھایا۔ اور ہمارے زمانے میں سکھایا کہ”میں، خداوند، جسے معاف کرنا چاہوں معاف کروں گا، مگر تمھارے لیے تمام آدمیوں کو معاف کرنا ضروری ہے۔“۱۲ تاہم، آپ میں سے جو بھی اذیت ناک زندگی بسر کر رہا ہے وہ یہ جان لے کہ خُداوند نے کیا نہیں کہا۔ اُس نے یہ نہیں کہا، ”تمھیں دُوسروں کے ہاتھ سے ملنے والے تلخ تجربوں کے حقیقی درد یاصدمے کو محسوس کرنے کی اِجازت نہیں۔“ نہ ہی اُس نے یہ کہا، ”مکمل طور پر معافی پانے کے لیے تمھیں زہر آلود رشتوں کو قائم رکھنا ہے یا تلخ اور پُرتشدُد حالات میں لوٹ کر جانا ہے۔“ مگر اِس کے باوجود یہاں تک کہ ہم پر سب سے زیادہ بھیانک مُصیبتیں آ پڑیں، ہم اپنے درد و غم سے اُوپر اُٹھ سکتے ہیں صرف اُس وقت جب ہم اپنا قدم حقیقی شفا کے راستے پر رکھتے ہیں۔ وہ راستہ معافی کا ہے جس پر یِسُوع ناصری گیا، جو ہم سب کو پُکارتا ہے کہ، ”میرے پیچھے چلے آؤ۔“۱۳

خُداوند کے شاگرد بننا اور اُس جیسا کرنے کی کوشش کرنا اُس کی دعوت میں شامل ہے، یِسُوع ہمیں اپنے کے فضل کے لائق ہونے کے لیے—”صُلح کی خدمت گُزاری“ میں ”مِسیح کے ایلچی“ ہونے کے لیے کہہ رہا ہے، جیسےپولوس نے کرنتھیوں پر یہ واضح کیا۔۱۴ ہر زخم کا شافی، خطاؤں کا بخشنے والا ہے، ہمیں اپنے ساتھ دُنیا میں صُلح و سلامتی لانے کے کٹھن فرض کو نبھانے کے لیے بُلاتا ہے کیوں کہ اِس کے علاوہ اور کوئی چارا نہیں۔

پس، جیسا فلپس بروکس نے لکھا: ”تم جو بے معنی غلط فہمیاں برس ہا برس سے پال رہے ہو، سوچتے ہو کہ کسی روز اِنھیں ختم کرو گے؛ تم جو کم بخت جھگڑوں کو زندہ رکھتے ہو کیوں کہ تم فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اپنے غرور کی اور اُن [جھگڑوں] کی قربانی دینے کا یہ ہے وہ دِن؛ تم جو گلی میں لوگوں کو غصے سے دیکھتے ہُوئے گُزر جاتے ہو، اُن کی کسی احمقانہ حرکت کی وجہ سے بات نہیں کرتے ہو … ؛ تم جو ہمدردی یا توصیف کےبول نہ بول کر [کسی کا] دِل جلاتے ہو، جو کہ تم بولنا چاہتے ہو … کسی دِن، … فوراً جاؤ اور وہ فرائض پورے کرو جنھیں کرنے کے لیے تمھیں دوبارہ موقع نہ ملے۔“۱۵

میرے عزیز بھائیو اور بہنو، میں گواہی دیتا ہُوں کہ حالیہ یا گُزشتہ نااِنصافیوں کو معاف کرنا اور بھول جانا یِسُوع مِسیح کے کفارے کی عظمت مرکزی نقطہ ہے۔ میں گواہی دیتا ہُوں کہ بالآخر ایسی رُوحانی رفو گری صرف اِلہٰی مُخلصی دینے والے کی طرف سے آ سکتی ہے، وہ جو ”اپنی کرنوں میں شفا کے ساتھ“ ہماری مدد کے لیے بے تاب رہتا ہے۔۱6 ہم اُس کے شُکر گُزار ہیں، اور اپنے آسمانی باپ کے جو اُس کو بھیجتا ہے، تجدید اور نئی زندگی، ماضی کی غلطیوں اور گُزشتہ غموں سے پاک صاف مُستقبل، نہ صرف ممکن ہے بلکہ پہلے سے خریدے جا چکے ہیں اور بہت بڑی اذیت ناک قیمت ادا کی گئی ہے جس کی نشانی برّے کا خون جو اُس نے بہایا۔

جہان کے نجات دہندہ کی طرف مجھے عطا کردہ اِس رسالتی اِختیار کے ساتھ، میں گواہی دیتا کہ خُدا اور ایک دُوسرے کے ساتھ صُلح جان کے لیے تسلی و راحت لائے گی اگر ہم اِس کو پانے کے لیے کافی دلیر اور فروتن ہیں۔ ”ایک دوسرے سے جھگڑا کرنا ترک کرو،“ نجات دہندہ فرمایا۔۱۷ اگر تم کسی پُرانی چوٹ سے واقف ہو، اُس کو سی لو۔ محبت کے ساتھ ایک دُوسرے کی فکر کرو۔

میرے عزیز دوستو، ہماری صُلح کی اِس مشترکہ خدمت گُزاری میں آپ سے اِلتماس کرتا ہُوں کہ صُلح کرانے والے بنو—صُلح سے پیار کرو، صُلح کو تلاش کرو، صُلح کو پیدا کرو، صُلح کو فروغ دو۔ میں یہ گُزارش سلامتی کے شہزادے کے نام پر کرتا ہُوں، جو ”[اپنے] دوستوں کے گھر میں زخم کھانے“۱۸ کے حوالے سے سب کچھ جانتا ہے، مگر پھر بھی معاف کرنے اور بھول جانے—اور شفا دینے کی ہمت اُس میں ہے۔ اِس واسطے، اپنے واسطے اور تمھارے واسطے میں دُعا کرتا ہُوں، خُداوند یِسُوع مِسیح کے مقدس نام پر، آمین۔