۲۰۱۰–۲۰۱۹
مِسیح کے اِیمان میں مضبوط اور مُستحکم
اکتوبر ۲۰۱۸


مِسیح کے اِیمان میں مضبوط اور مُستحکم

مِسیح کے اِیمان میں مضبوط اور مُستحکم رہنے کے لیے یِسُوع مِسیح کی اِنجیل کا دِل اور جان میں رچ بس جانا شرط ہے۔

پُرانے عہد نامے کی تاریخ میں، ہم متواتر اُن اَدوار کے بارے میں پڑھتے ہیں جب بنی اِسرائیل یہواہ کے ساتھ اپنے عہود پر عمل پیرا ہوتی اور اُس کی عبادت کرتی ہے اور بعض اوقات اپنے عہود پر پورا نہ اُترتے اور بُتوں یعنی بعلوں کی پرستش کرتے۔۱

اِسرائیل کی شمالی بادشاہت میں اخی اب کی حکمرانی برگشتگی کے ادوار میں سے ایک دوَر تھا۔ ایک بار ایلیاہ نبی نے اخی اب بادشاہ کو کہا کہ اِسرائیل کے باشندوں کے ساتھ ساتھ نبیوں یا بعل کے کاہنوں کو کوہِ کرمل پر جمع کرے۔ جب لوگ اِکٹھے ہوگئے، ایلیاہ نے اُن سے کہا، ”تم کب تک دو خیالوں میں ڈنواں ڈول رہو گے؟ [دوسرے لفظوں میں آخر ایک ہی بار تم کب فیصلہ کرو گے“] اگر خُداوند ہی خُدا ہے، تو اُس کے پَیرو ہو جاؤ: اور اگر بعل ہے، تو اُس کی پَروی۔ پر اُن لوگوں نے ایک حرف جواب نہ دیا۔“۲ پس ایلیاہ نے ہدایت دی کہ وہ اور بعل کے نبی ایک ایک بیل لیں اور اُسے ٹکڑے ٹکڑے کاٹ کر اپنی اپنی قربان گا کی لکڑیوں دھریں، ”مگر اُن کے نیچے آگ نہ دیں۔“۳ پھر، ”تم اپنے دیوتا سے دُعا کرنا اور میں خُداوند سے دُعا کروں گا: اور وہ خُدا جو آگ سے جواب دے وہی خُدا ٹھہرے گا۔ اور سب لوگ بول اُٹھے، خوب کہا!“۴

آپ کو یاد ہوگا کہ بعل کے کاہن اپنے دیوتا کے سامنے کئی گھڑیوں تک واویلا کرتے رہے کہ وہ آگ بھیجے، مگر ”نہ کچھ آواز ہُوئی، نہ کوئی جواب دینے والا ، نہ کوئی توجہ دینے والا تھا۔“۵ پھر ایلیاہ کی باری آئی، اُس نے خُداوند کے مذبح کو جو ڈھا دیا گیا تھا مرمت کیا، لکڑیوں کو قرینے سے چُنا اور اُس پر قربانی کو دھرا، اور پھر حکم دیا کہ اِن سب پر پانی ڈالا جائے، ایک بار نہیں بلکہ تین بار۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ نہ وہ نہ کوئی دوسری اِنسانی قوت آگ لگا سکتی تھی۔

”اور شام کی قربانی چڑھانے کے وقت ایلیاہ نبی نزدیک آیا، اور اُس نے کہا، اَے خُداوند ابرہام، اِضحاق، اور اِسرائیل کے خُدا، آج معلوم ہو جائے کہ اِسرائیل میں تُو ہی خُدا ہے، اور میں تیرا بندہ، اور میں نے اِن سب باتوں کو تیرے ہی حکم سے کیا ہے۔ —

”تب خُداوند کی آگ نازل، اور اُس نے اُس سوختنی قربانی کو لکڑیوں اور پتھروں اور مٹی سمیت بھسم کر دیا، اور اُس پانی کو جو کھائی میں تھا چاٹ لیا۔

”جب سب لوگوں نے یہ دیکھا تو مُنہ کے بل گرے اور کہنے لگے، خُداوند وہی خُدا ہے؛ خُداوند وہی خُدا ہے۔“۶

آج ایلیاہ شاید کہتا:

  • یا خُدا، ہمارا آسمانی باپ موجود ہے، یا نہیں ہے، اگر وہ موجود ہے تو اُس کی عبادت کرو۔

  • یا یِسُوع مِسیح خُدا کا بیٹا ہے، جو بنی نوع اِنسان کا مُردوں میں سے جی اُٹھا مُخلصی دینے والا ہے، یا وہ نہیں ہے، اگر وہ ہے تو اُس کے پیچھے چلو۔

  • یا مورمن کی کتاب خُدا کا کلام ہے، یا پھر نہیں ہے، اگر یہ ہے، تو ”اِس کو پڑھنے اور اِس کی تعلیم پر عمل کرتے ہُوئے خُدا کے قریب تر آؤ،“۷

  • یا جوزف سمتھ نے ۱۸۲۰ کے بہار کے دِنوں میں آسمانی باپ اور اُس کے بیٹے کو دیکھا اور کلام کیا، یا ایسا نہیں ہُوا، اگر ایساہُوا ہے، تو اِس نبوت کا پاس رکھو، جس میں مُہر بندی کی کُنجیاں شامل ہیں، مجھ ایلیاہ، اُس کو ودیعیت کی ہیں۔

حالیہ مجلسِ عامہ میں صدر رسل ایم نیلسن نے بیان فرمایا: ”تمھیں اِدھر اُدھر سچّ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں [دیکھیے مرونی ۱۰:‏۵]۔ آپ کو متجسس ہونے کی ضرورت نہیں کہ آپ کس پر اعتبار کر سکتے ہیں۔ ذاتی مکاشفے کے وسیلے سے آپ مورمن کی کتاب کی بابت اپنی گواہی پا سکتے ہیں کہ یہ خُدا کلام ہے، کہ جوزف سمتھ نبی ہے اور کہ یہ خُداوند کی کلیسیا ہے۔ اس سے قطعہ نظر کہ دوسرے کیا کہہ سکتے یا کر سکتے ہیں، کوئی بھی کبھی بھی آپ سے وہ گواہی نہیں لے سکتا جو آپ کے دل اور دماغ نے سچائی کے متعلق پائی ہے۔۸

جب یعقوب وعدہ کیا کہ خُدا ”اُن سب کو فیاضی سے دیتا ہے“ جو خُدا کی حکمت کے مُشتاق ہوتے ہیں،۹ اُس نے خبردار بھی کیا:

”مگر اِیمان سے مانگے اور کچھ شک نہ کرے۔ کیوں کہ شک کرنے والا سمندر کی لہر کی مانند ہے جو ہوا سے بہتی اور اُچھلتی ہے۔

”ایسا آدمی یہ نہ سمجھے کہ مجھے خُداوند سے کچھ ملے گا۔

”وہ شخص دو دِلا ہے اور اپنی سب باتوں میں بے قیام۔“۱۰

دوسری طرف، ہمارا نجات دہندہ اِستقلال کی کامل مثال ہے۔ اُس نے فرمایا؛ ”اُس نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا، کیوں کہ میں ہمیشہ وہ کام کرتا ہُوں جو اُسے پسند آتے ہیں۔“۱۱ صحائف میں اُن مردوں اور عورتوں کی تفصیل پر غور کریں جنھوں نے نجات دہندہ پسند کیا، جو مضبوط اور مُستحکم تھے:

وہ ”سچّے اِیمان کی طرف رُجوع لائے تھے، اور وہ اِس سے الگ نہ ہوتے تھے ،کیوں کہ وہ مُستحکم اور ثابت قدم اور اٹل، خُداوند کے حکموں کو تمام جانفشانی سے ماننے کے لیے آمادہ تھے۔“۱۲

”اور اُن کے ذہن مستحکم ہیں اور وہ مسلسل خُدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔“۱۳

”اور دیکھو تم خود جانتے ہو، کیوں کہ تم نے دیکھا ہے کہ اُن میں سے جتنے سچائی کے علم کی طرف لائے گئے — وہ اِیمان اور اِس چیز میں مضبوط اور ثابت قدم ہیں جس میں وہ آزاد کیے گئے ہیں۔“۱۴

”اور یہ رُسولوں سے تعلیم پانے اور رِفاقت رکھنے میں اور روٹی توڑنے اور دُعا کرنے میں مشغول رہے۔“۱۵

مِسیح کے اِیمان میں مضبوط اور مُستحکم رہنے کے لیے یِسُوع مِسیح کی اِنجیل کا دِل اور جان میں رچ بس جانا شرط ہے، جس کا مطلب ہے کہ اِنسان کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے کئی عوامل میں سے اِنجیل ایک نہیں، بلکہ اِنسان کے کردار یا زندگی کا ہمہ گیر مرکز و محور ہے۔ خُداوند فرماتا ہے:

”میں تم کو نیا دِل بخشوں گا اور نئی رُوحُ تمھارے بطن میں ڈالوں گا: اور تمھارے جسم میں سے سنگین دِل نکال ڈالوں گا، اور گوشتین دِل تم کو عنایت کروں گا۔

”اور میں اپنی رُوحُ تمھارے بطن میں ڈالوں گا، اور تم سے اپنے آئین کی پَیروی کراؤں گا، اور تم میرے احکام پر عمل کرو گے، اور اُن کو بجا لاؤ گے۔

”اور — تم میرے لوگ ہو گے اور میں تمھارا خُدا ہُوں گا۔“۱۶

یہ وہ عہد ہے جو ہم بپتسمے اور ہیکل کی رسوم کے ذریعے سے باندھتے ہیں۔ لیکن بعض نے ابھی تک یِسُوع مِسیح کی اِنجیل کو اپنی اپنی زندگی میں پوری طرح قبول نہیں کیا۔ اگرچہ، جب پولوس فرماتا ہے، وہ ”بپتسمہ کے وسیلے سے [مِسیح] کے ساتھ دفن ہُوئے،“ اب تک اِس بات کی اُن میں کمی ہے کہ ”جس طرح مِسیح مُردوں میں سے جلایا گیا — ، اُسی طرح ہم — نئی زندگی میں چلیں گے۔“۱۷ اِنجیل ابھی تک اُن پر واضح نہیں ہُوئی۔ وہ ابھی پوری طرح مِسیح میں نہیں ہیں۔ وہ اپنی پسند کی تعلیم اور احکام پر چلتے ہیں اور کلیسیا میں اپنی مرضی کے مطابق جب چاہا اور جہاں چاہا خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ اِس کے برعکس، جو اپنے عہود پر کام طور پر چلتے ہیں، وہ ”عہود کے تحت برگُزیدہ“۱۸ فریب سے دُور اور مِسیح کے اِیمان میں ثابت قدم رہتے ہیں۔

ہم میں سے اکثر اِس لمحے خود کو دو اِنتہاؤں کے درمیان پاتے ہیں ایک طرف اِنجیلی رُسوم میں تعلقات کے زیرِ اَثر شمولیت اور دوسری جانب خُدا کی مرضی پر چلنے کے لیے مِسیح جیسی اٹل وفاداری۔ اِن دو اِنتہاؤں کے درمیان میں ہی کہیں یِسُوع مِسیح کی اِنجیل کی خوش خبری ہمارے دِل میں داخل ہوتی ہے اور ہماری جان کو اپنی پناہ میں لیتی ہے۔ ہو سکتا ہے ایسا پلک جھپکتے ہی نہ ہو، مگر ہم سب کو اُس مبارک مقام کی جانب سفر کرتے رہنا ہے۔

ایسا وقت اِس فانی زندگی میں جلد یا بدیر ہم سب پر آئے گا، جب ہمیں ایسا لگے گا کہ ہمیں ”دُکھ کی بھٹی میں“ تپایا جا رہا ہے،۱۹ یہ کٹھن ضرور ہے لیکن مضبوط اور مُستحکم رہنے کے لیے لازم ہے۔ خُدا کے بغیر، یہ تاریک تجربات مایوس کُن، افسردہ، اور حتیٰ کہ تلخ ہو جاتے ہیں۔ خُدا کے ساتھ، دُکھ کے بدلے راحت ملتی ہے، فساد کے بدلے صلح، اور مایوسی کے بدلے اُمید۔ مِسیح کے اِیمان میں مُستحکم رہنے سے خُداوند کا فضل اور مدد میسر آتے ہیں۔۲۰ وہ زحمت کو رحمت میں بدلے گا اور یسعیاہ کے اَلفاظ میں، ”خاک کے بدلے خوب صورتی … دے گا۔“۲۱

میں تین ایسی مثالیں پیش کروں گا جنھیں میں ذاتی طور پر جانتا ہُوں:

کوئی خاتون دائمی اور ناتواں کرنے والی بیماری میں مُبتلا ہے جو طبی علاج کے ساتھ ساتھ کہانتی برکات، اور روزے اور دُعا کا دامن بھی تھامے ہُوئے ہے۔ اِس کے باوجود دُعا کی قدرت پر اُس کا اِیمان اور اپنے لیے خُدا کے پیار کی حقیقت پر پختہ یقین ہے۔ وہ روز بہ روز آگے بڑھتی ہے (اور بعض اوقات لمحہ بہ لمحہ)کلیسا میں خدمت کرتی ہے، اور اپنے شوہر کے ساتھ مل کر، اپنے چھوٹے سے خاندان کی دیکھ بھال کرتی ہے، جتنا ہو سکتا ہے مُسکراتی ہے۔ دُوسروں کے لیے اُس کی ہمدردی بڑی گہری ہے، اپنی مصیبتوں میں تپائے جانے کے باوجود وہ خود کو دُوسروں کی خدمت میں بھول جاتی ہے۔ وہ ثابت قدم رہتی ہے، اور لوگ اُس سے مل کر خوش ہوتے ہیں۔

کوئی جوان ہے جس نے کلیسیا میں پرورش پائی، کُل وقتی مبلغ کی خدمت سرانجام دی، خوب صورت لڑکی سے بیاہ کیا وہ اُس وقت پریشان ہوگیا جب اُس کے چند بہن بھائی کلیسیا اور نبی جوزف سمتھ پر بے جا تنقید کرنے لگے۔ کچھ عرصے کے بعد اُنھوں نے کلیسیا کو ترک کردیا اور اُس کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنے لگے۔ جیسے اِن حالات میں اکثر ہوتا ہے، نقادوں کے تیار کردہ مضامین، پاڈ کاسٹس، اور فلمیں وہ اُسے لا لا کر دیتے، نقاد اکثر کلیسیا کے برگشتہ سابق رکن تھے۔ اُس کے بہن بھائی اُس کے عقیدے کا مذاق اُڑاتے، کہتے کہ وہ بھولا ہے اور بھٹکا ہُوا ہے۔ اُن کے سب دعووں کا وہ جواب نہ دے پاتا، اور شدید مخالفت کے تحت اُس کا اِیمان ڈگمگانا شروع ہوگیا۔ اُس نے سوچا کہ اُسے کلیسیا کی عبادات ترک کردینی چاہیے۔ اُس نے اپنی بیوی سے بات کی۔ اُس نے قابلِ اعتماد لوگوں سے بات کی۔ اُس نے دعا مانگی۔ جب اُس نے ذہنی اِنتشار کی اِس حالت پر غور کیا، اُسے وہ واقعات یاد آئے جب اُس نے رُوحُ القدس کو محسوس کیا تھا اور رُوح کے وسیلے سے حق کی گواہی پائی تھی۔ وہ اِس نتیجے پر پہنچا، ”اگر میں اپنے ساتھ دیانت دار ہُوں، تو مجھے قبول کرنا چاہیے کہ رُوح نے مجھے کئی بار چُھوا ہے اور رُوح کی گواہی سچّی ہے۔“ اُس نے تسلی اور راحت کے احساس کی تجدید کر لی تھی ایسا اُس کے اَہلِ خانہ نے بتایا۔

کوئی میاں بیوی تھے جو متواتر اور خوشی سے بھائیوں کی مشورت کو اپنی زندگیوں میں اپناتے تھے کیوں کہ اولاد پیدا کرنے میں کئی رکاوٹیں تھیں۔ طبی علاج پر اُنھوں نے پیسا پانی کی طرح بہا دیا، پھر، کچھ عرصہ کے بعد، وہ بیٹے کی نعمت سے نوازے گئے۔ بدقسمتی سے، ایک برس کے بعد بچہ کسی حادثے کا شکار ہُوا، اِس میں کسی کی غلطی نہیں تھی، مگر وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں چلا گیا، اور اُس کے دماغ کا بہت سارا حصہ ناکارہ ہو گیا۔ اُسے اعلیٰ طبی امداد فراہم کی گئی، اور ڈاکٹرز لا علم تھے کہ آگے پتہ نہیں کیا ہوگا۔ والدین بچے کو دُنیا میں واپس لانے کے لیے سخت محنت اور شدت سے دُعا کرتے تھے، اگرچہ اُنھیں کوئی اُمید نظر نہیں آتی تھی۔ دُوسری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بچے کی نگہداشت بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ اِن مُشکل ترین حالات میں اُنھوں نے خُداوند سے رُجوع کیا تھا۔ وہ اپنی ”روز کی روٹی“ پر توکل کرتے تھے جو خُداوند سے پاتے تھے۔ اُنھیں شفیق دوستوں اور خاندان سے مدد ملی اور کہانتی برکات سے تقویت پائی۔ وہ ایک دُوسرے کے قریب آ گئے تھے، اُن کا اِتفاق اِس قدر گہرا اور کامل تھا کہ شاید کسی اور چیز سے ممکن نہیں تھا۔

۲۳جولائی ۱۸۳۷ کو خُداوند نے اُس وقت کے بارہ رُسولوں کی جماعت کے صدر تھامس بی مارش کو مکاشفہ دیا۔ اِس میں یوں مرقوم ہے:

”اور بارہ کی جماعت کے اپنے بھائیوں کے لیے دُعا کرو۔ اُنھیں میرے نام کی خاطر سختی سے تنبیہ کرو، اور اُنھیں اُن کے تمام گُناہوں کے لیے تنبیہ پانے دو، اور میرے حضور میرے نام کے وفادار رہو۔

”اور ان کی آزمایشوں کے بعد، اور بہت مصیبتوں کے بعد، دیکھو، میں خُداوند ان کو پرکھوں گا، اور اگر وہ اپنے دِلوں کو سخت نہیں کرتے اور اپنی گردنوں کو میرے خلاف سخت نہیں کرتے، وہ تبدیل کئے جائیں گے، اور میں اُنھیں شفا دوں گا۔“۲۲

میرا اِیمان ہے کہ اِن آیات میں بیان کردہ اُصول ہم سب پر لاگو ہوتے ہیں۔ جن آزمایشوں اور مُصیبتوں کا ہم سامنا کرتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ کوئی اِمتحان جس کو خُداوند ہمارے لیے مناسب سمجھتا ہے، ہماری شفا اور مکمل رُجوع لانے کے طرف راہ نمائی کرتے ہیں۔ مگر یہ تب ہوتا ہے اگر، اور صرف اگر، ہم اپنے اپنے دِل سنگین نہیں کرتے یا اُس کے خلاف ہم گردن کش نہیں ہوتے۔ اگر ہم مضبوط اور مُستحکم رہتے ہیں، چاہے کچھ بھی ہو جائے، ہم ایسے بدل جاتے ہیں جیسے نجات دہندہ چاہتا ہے جب اُس نے پطرس سے فرمایا، ”جب تُو رُجوع لائے تو بھائیوں کو مضبوط کرنا،“۲۳ ایسی کامل تبدیلی کہ اِس کو بدلا نہ جا سکے۔ وعدہ کی گئی شفا ہماری گُناہ آلودہ زخمی جان کو دھوتی اور تقدیس کرتی، ہمیں پاک ٹھہراتی ہے۔

مجھے ہماری ماؤں کی نصیحت یاد آ گئی: ”سبزیاں کھایا کرو؛ یہ تمھارے لیے مُفید ہیں۔“ ہماری مائیں دُرست فرماتی ہیں، اور اِس سیاق میں اِیمان میں ثابت قدمی، ”سبزیاں کھانا“ باقائدگی سے دُعا کرنا ہے، روزانہ صحائف کا بغور مطالعہ کرنا ہے، کلیسیا میں خدمت کرنا اور عبادت کرنا ہے، ہر ہفتے لائق طور پر عشائے ربانی میں شریک ہونا ہے، اپنے پڑوسی کو پیار کرنا ہے، اورہر روز خُدا کی فرماں برداری میں اپنی صلیب اُٹھانا ہے۔۲۴

اب اور اِس کے بعد، اُن کے لیے جو مِسیح کے اِیمان میں مضبوط اور مُستحکم ہیں ہمیشہ اعلیٰ نعمتوں کے وعدے کو یاد رکھیں جو آنے کو ہیں۔ ”مقدسین کی خوشی، اور ابدی زندگی“ کو یاد رکھو۔۲۵ ”تم سب جو پاک دِل ہو ،اپنے سروں کو اُٹھاؤ اور خُدا کا خُوش کُن کلام قبول کرو اور اُس کی محبت سے سیر ہو؛ کیوں کہ ،اگر تمھاری عقلیں اٹل ہوں، تو ابد تک ایسا کر سکتے ہو۔“۲۶ یِسُوع مِسیح کے نام پر، آمین۔