۲۰۱۰–۲۰۱۹
اُس کے لیے
اکتوبر ۲۰۱۸


اُس کے لیے

دوسروں کی خدمت میں کون اور کیوں جاننے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ محبت کا اعلیٰ اظہار خُدا کے لیے عقیدت ہے۔

اِس تاریخی شام کو میری پیاری بہنو، میں آپ میں سے ہر ایک کے لیے اپنی محبت اور تحسین کا اظہار کرتی ہوں۔ چاہے ہماری جو بھی عمر، مقام، یا حالات ہوں، ہم آج رات اتحاد، طاقت، مقصد اور گواہی میں اکٹھا ہوئی ہیں کہ ہمارا آسمانی باپ؛ ہمارا نجات دہندہ، یِسُوع مِسیح؛ اور ہمارے زندہ نبی، صدر رسل ایم نیلسن ہمیں پیار کرتے اور ہماری قیادت فرماتے ہیں۔

نوجوان جوڑے کی حیثیت سے، میرے شوہر اور مجھے ہمارے اُسقُف کی جانب سے بلاہٹ ملی کہ ایک ایسے خاندان کی خدمت گزاری کریں جو کئی برسوں سے کلیسیا میں غیر فعال تھا۔ ہم نے رضامندی سے اِس تفویض کو قبول کیا اور چند دنوں کے بعد اُن کے گھر گئے۔ ہمیں یہ فوری طور پر واضح ہو گیا تھا کہ وہ کلیسیا کی جانب سے آنے والے زائرین کو ناپسند کرتے تھے۔

لہذا اگلی بار، ہم اُن کے پاس بسکٹ کی ایک پلیٹ لے کر گئے، اِس یقین کے ساتھ کہ چاکلیٹ اُن کے دلوں کو پگھلا دیں گی۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اُس جوڑے نے جالی کے دروازے کے ذریعے ہم سے بات کی، مزید واضح کرتے ہوئے کہ ہمیں اُن کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ لیکن جب ہم گھر جانے کے لیے روانہ ہوئے، ہمیں گماں ہوا کہ شاید ہم کامیاب ہو سکتے تھے اگر ہم صرف اُن کو خستہ اور میٹھے مرمروں کی پیشکش کرتے۔

ہماری روحانی بصیرت کی کمی کے باعث مزید ناکام کوششیں مایوس کُن ثابت ہُوئیں۔ اِنکار کبھی اطمینان بخش نہیں ہوتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے خود سے پوچھنا شروع کر دیا، ”ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ہمارا مقصد کیا ہے؟“

بزرگ کارل بی کُک نے یہ مشاہدہ کیا: ”اگر ہمیں کچھ ایسا کرنے کا کہا جائے کہ جس سے ہم خوف زدہ ہوں، اگر ہم خدمت کرنے سے تھک جائیں، یا اگر ہمیں کچھ ایسا کرنے کی بلاہٹ ملے جو اِبتدا میں پُر کَشِش نہ ہو تو کلیسیا میں خدمت … ہمارے لیے مشکل ہوسکتی ہے۔“۱ ہم بزرگ کُک کے کلام کی سچائی کا تجربہ کر رہے تھے جب ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں کسی ایسے شخص سے ہدایت حاصل کرنی چاہیے جو ہمارے مقابلے میں زیادہ وسیع اُلنظر ہو۔

پس، بہت زیادہ مطالعہ اور سنجیدہ دُعا کے بعد، ہم نے اپنی خدمت کے کیوں کا جواب پا لیا۔ ہماری سوچ میں تبدیلی آئی، دل کی تبدیلی، دراصل اِلہامی تجربہ حاصل ہوا۔۲ جب ہم صحائف سے ہدایت کے خواہاں ہوئے تو خُداوند نے ہمیں سکھایا کہ دوسروں کی خدمت کرنے کے طریقہ کار کو کیسے آسان اور زیادہ معنی خیز بنایا جائے۔ یہ وہ آیت ہے جو ہم نے پڑھی اور جس نے ہمارے دلوں کو اور طرزِ نظر دونوں کو تبدیل کر دیا: ”تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبّت رکھ؛ اور یِسُوع مِسیح کے نام پر اُس کی خدمت کر۔“۳ اگرچہ یہ آیت جانی پہچانی تھی، ایسا محسوس ہوا کہ یہ ہم سے ایک نئے اور اہم طریقے سے ہم کلام ہوئی ہے۔

ہمیں احساس ہوا کہ ہم اِس خاندان اور اپنے اُسقُف کی خدمت کرنے کی پُرخلوص کوشش کر رہے تھے، لیکن ہمیں خود سے پوچھنا پڑتا تھا کہ کیا ہم واقعی خُدا کی محبت کے باعث خدمت کر رہے تھے۔ بنیمین بادشاہ نے اِس فرق کی وضاحت کی جب اُس نے کہا، ”دیکھو میں تم سے کہتا ہوں، چوں کہ میں نے تم سے کہا کہ میں نے اپنے ایّام تمھاری خدمت میں گزارے ہیں، میری خواہش نہیں کہ شیخی ماروں ،پس میں صرف خُدا کی خدمت میں رہا ہوں۔“۴

تو بنیمین بادشاہ درحقیقت کس کی خدمت کر رہا تھا؟ آسمانی باپ اور نجات دہندہ کی۔ دوسروں کی خدمت میں کون اور کیوں جاننے سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ محبت کا اعلیٰ اظہار خُدا کے لیے عقیدت ہے۔

جب ہماری توجہ آہستہ آہستہ تبدیل ہوئی تو ہماری دعائیں بھی بدل گئیں۔ خُداوند سے اپنی محبت کی خاطر ہم اُس عزیز خاندان سے ملاقات کرنے کے لیے بے تاب رہنے لگے۔۵ ہم یہ اُس کی خاطر کر رہے تھے۔ اُس نے ہماری جدوجہد کو آسان بنایا۔ کئی مہینوں تک دروازے کے باہر کھڑے رہنے کے بعد، خاندان نے ہمیں اندر آنے کی اجازت دی۔ بلآخر، ہم نے باقاعدگی سے اکٹھے دعا کرنے اور شفیق اِنجیلی گفتگو کا آغاز کیا۔ ایک طويل المعياد دوستی کو فروغ حاصل ہوا۔ ہم خُدا کے بچوں سے محبت کرکے اُس کی عبادت اور محبت کر رہے تھے۔

کیا آپ کسی ایسے وقت کے بارے میں سوچ سکتی ہیں جب آپ نے پیار بھرے طریقے سے کسی ضرورت مند کی مدد کے لیے پُرخلوص کوشش کی اور محسوس کیا کہ آپ کی کوششوں کو سراہا نہیں گیا یا شاید ناپسندیدہ یا یہاں تک کہ غیر مَطلُوب سمجھا گیا؟ اُس لمحے میں، کیا آپ نے اپنی خدمت کی اہمیت پر سوال اُٹھایا؟ اگر ایسا ہے تو بنیمین بادشاہ کا کلام آپ کے شک اور حتٰی کہ آپ کی تکلیف کو تبدیل کرے: ”تم فقط اپنے خُدا کی خدمت کر رہے ہوتے ہو۔“۶

خفگی کی بجائے، ہم خدمت کے ذریعے، اپنے آسمانی باپ کے ساتھ مزید کامل رشتہ قائم کرسکتے ہیں۔ اُس کے لیے ہماری محبت اور عقیدت، ہماری شخصی بڑائی یا تحسین کی خواہش کو موقوف کر دیتی ہے اور اُس کی محبت کو ہم میں اور ہم میں سے پھوٹنے کی اجازت دیتی ہے۔

بعض اوقات شروع شروع میں ہم فرض یا ذمہ داری کے احساس سے خدمت کرتے ہیں، لیکن یہ خدمت ہی ہمیں اپنے اندر کی کسی بالا تر چیز کی طرف متوجہ ہونے میں ہماری راہ نمائی کر سکتی ہے، ہماری ”زیادہ ممتاز انداز“ سے خدمت کرنے میں راہ نمائی کرتے ہوئے ۷—جیسا کہ صدر نیلسن کے ”دوسروں کی دیکھ بھال اور خدمت گزاری کے لیے نئے، زیادہ پاکیزہ طرزِ نظر“ کے دعوت نامہ میں پایا جاتا ہے۔۸

جب ہم اُس سب پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جو خُدا نے ہمارے لیے کیا ہے تو ہماری خدمت قلبِ ممنون سے پھوٹتی ہے۔ جب ہم خدمت کے عوض اپنی بڑائی کے بارے میں کم فکر مند ہوں گے تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہماری خدمت کا مرکز خُدا کو اولیت دینا ہوگا۔۹

صدر ایم رسل بیلرڈ نے سیکھایا، ”یہ صرف اُس وقت ہوتا ہے جب ہم خُدا اور مِسیح سے اپنے سارے دل، جان اور عقل سے محبت رکھتے ہیں کہ ہم اِس محبت کا اِظہار رحم دلی اور خدمت کے اعمال کے وسیلے سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کر سکتے ہیں۔“۱۰

دس احکام کا پہلا حکم اِس الہٰی حکمت کو ظاہر کرتا ہے: ”میں خُداوند تیرا خُدا ہوں۔ … میرے حضور تُو غیر معبودوں کو نہ ماننا۔“۱۱ اِس حکم کی ترتیب سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ اگر ہم اسے اپنی بُنیادی ترجیح مانتے ہیں تو باقی سب چیزیں خودبخود مرتب ہو جائیں گی—حتیٰ کہ دوسروں کے لیے ہماری خدمت۔ جب ہم دیدہ دانستہ فیصلے کی بنا پر اُس کو اپنی زندگیوں میں افضل مقام دیتے ہیں تو وہ ہمارے اعمال کو ہمارے اور دوسروں کے لیے برکت کا باعث بنانے میں قادر ہوتا ہے۔

خُداوند نے ہدایت دی ہے کہ، ”ہر بات میں مجھ پر بھروسہ رکھنا۔“۱۲ اور ہر ہفتے ہم ایسا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں—کہ ”ہمیشہ اُسے یاد رکھیں۔“١۳ کیا ہم ہر کام میں خُدا کی طرف توجہ مرکوز کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی معمولی کام سر انجام دینے سے بھی اُس سے ہماری محبت اور عقیدت کا مظاہرہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے اور ایسا ہو گا۔

ہم اپنے کاموں کی فہرست کی ہر چیز کو اُسے جلال دینے کا سبب بنا سکتے ہیں۔ ہم ہر کام کو اُس کی خدمت کا اعزاز اور موقع سمجھ سکتے ہیں، حتیٰ کہ جب ہم اپنے ہداف کی تکمیل میں مصروفِ عمل، اپنے فرائض نبھانے میں مصروفِ عمل، یا کپڑے دھونے میں مصروفِ عمل ہوتے ہیں۔

جیسا کہ عمون نے کہا،”ہاں میں جانتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں؛ اپنی طاقت کے اعتبار سے میں کمزور ہوں؛ سو میں اپنے آپ پر فخر نہیں کرتا، بلکہ میں اپنے خُدا پر فخر کروں گا، کیوں کہ میں سارے کام اُس کی قدرت سے کرتا ہوں۔“۱۴

جب اپنے خُدا کی خدمت ہماری زندگی کا بُنیادی نصب اُلعین بن جاتا ہے تو ہم خود کو کھو دیتے ہیں، اور بالآخر، ہم اپنی حقیقی پہچان پالیتے ہیں۔۱۵

نجات دہندہ نے اِس اصول کو بڑے سادہ اور واضح طریقے سے سکھایا: ”پس تمھارا نُور اِن لوگوں کے سامنے منور ہو وہ تمھارے نیک کاموں کو دیکھیں اور تمھارے باپ کی جو آسمان پر ہے تمجِید کریں۔“۱۶

کیا میں آپ کے ساتھ حکمت کی چند باتوں کا تذکرہ کرسکتی ہوں جو کلکتہ، بھارت میں کسی یتیم خانے کی دیوار پر تحریر تھیں: ”اگر آپ شفیق ہیں، لوگ آپ پر خود غرض، مذموم عزائم کا الزام لگا سکتے ہیں۔ پھر بھی شفیق بنیں۔ جس شے کی تعمیر کے لیے آپ نے کئی برس بیتا دیے، کوئی راتوں رات اُس کو تباہ کر سکتا ہے۔ پھر بھی تعمیر کریں۔ آپ کے آج کے نیک کام، لوگ اکثر کل بھول جائیں گے۔ پھر بھی نیکی کریں۔ دُنیا کو اپنی بہترین کارگردگی دِکھائیں، اور یہ کبھی کافی نہ ہوگی۔ پھر بھی دُنیا کو اپنی بہترین کارگردگی دِکھائیں۔ آپ دیکھتے ہیں، کہ حتمی تجزیہ میں، یہ ویسے بھی … آپ اور آپ کے خُدا کے درمیان میں ہے۔“۱۷

بہنو، یہ ہمیشہ سے ہمارے اور خُداوند کے درمیان میں ہے۔ صدر جیمز ای فاوسٹ نے کہا: ”’دُنیا کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟‘ … ’کیا دُنیا بھر میں ہر شخص کی بڑی ضرورت نجات دہندہ کے ساتھ شخصی، مُستقل، روزمرہ کی بنیاد پر، جاری و ساری رشتہ قائم کرنا نہیں ہے؟‘ ایسا رشتہ قائم ہونے سے اپنے اندر کی اُلوہیت کو اُجاگر کیا جا سکتا ہے، اور جب اپنی اپنی زندگیوں میں ہم خُدا کے ساتھ اپنے اِلہٰی رشتے کو جانتے اور سمجھتے ہیں تو کوئی اور شے ہماری زندگیوں پر اَثر انداز نہیں ہو سکتی۔“۱۸

اِسی طرح، ایلما نے اپنے بیٹے پر واضح کیا، ”ہاں، تیرے سب کام خُداوند کے لیے ہوں، اور جہاں بھی تو جائے خُداوند ہی میں ہو؛ ہاں، تیرے سب خیال خُداوند کی طرف لگے رہیں؛ ہاں،ـ تیرے دل کی لگن ہمیشہ تک خُداوند ہی کی طرف لگی رہے۔“۱۹

اور صدر رسل ایم نیلسن نے بھی اسی طرح ہمیں سکھایا ہے، ”جب ہم خُداوند کے بےلوث کفارے کا فہم پاتے ہیں تو ہماری طرف سے کسی بھی قربانی کے احساس پر اُس کی خدمت کے اِمتیاز کے لیے شُکر گُزاری کا گہرا احساس مکمل طور پر غالب آ جاتا ہے۔“ ۲۰

بہنو، میں گواہی دیتی ہوں کہ یِسُوع مِسیح جب اپنے کفارہ کے وسیلے سے، ہم پر اور ہم میں کام کرتا ہے، تو وہ دوسروں کو برکت دینے کے لیے ہمارے ذریعے سے کام شروع کررہا ہوتا ہے۔ ہم اُن کی خدمت کرتے ہیں، لیکن ایسا ہم اُس سے محبت اور اُس کی خدمت کرنے سے کرتے ہیں۔ ہم ویسے بن جاتے ہیں جیسا کہ صحیفہ بیان کرتا ہے”ہر مرد [اور عورت] اپنے ہمسائے کی بھلائی کی جستجو کرے، اور یہ سب چیزیں یکسوئی سے خُدا کے جلال کے لیے کرے۔“۲۱

شاید ہمارے اُسقُف کو معلوم تھا کہ میں اور میرا شوہر یہ سبق خُدا کے پیارے بیٹے اور بیٹیوں کی خدمت گزاری کی اپنی ابتدائی اورخیر اندیش، مگر ناکامل، کوششوں سے سیکھیں گے۔ میں اُس بھلائی اور محبت کے لیے اپنی ذاتی اور یقینی گواہی دیتی ہوں جس کا ذکر وہ ہمارے ساتھ تب بھی کرتا ہے جب ہم اُس کے لیے خدمت کرنے کی بے حد کوشش کرتے ہیں۔ یِسوع مِسیح کے مُقدس نام پر، آمین۔