مجلسِ عامہ
سب ہمارے سچّے دِل سے
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۲


سب ہمارے سچّے دِل سے

اگر ہم چاہتے ہیں کہ نجات دہندہ ہمیں آسمان کی طرف اُٹھا لے، تو پھر اُس کے ساتھ اور اُس کی اِنجیل کے ساتھ ہماری عقِیدت معمولی یا عارضی نہیں ہو سکتی۔

اُس کے حضور نذرانہ

یسُوع مسِیح ہمارے واسطے اپنی جان دینے سے چند دن قبل، یروشلیم کے ہیکل میں، لوگوں کو ہیکل کے خزانے میں پیسے ڈالتے دیکھ رہا تھا۔ ’’بُہتیرے دولت مندبہت کچھ ڈال رہے تھے،‘‘ لیکن پھر، ایک کنگال بیوہ آئی، ’’اور اُس نے دو دمڑیاں ڈالیں۔‘‘ یہ رقم اِتنی تھوڑی تھی کہ شاید ہی یہ قلم بند کرنے کے لائق تھی۔

شبیہ
بیوہ دو مٹوں کی قربانی دے رہی ہے

اور پھر بھی اِس معمولی سی نذر پرنجات دہندہ کی توجہ مرکوز ہُوئی ۔ درحقیقت، اِس بات نے اُس پر اِس قدر اثر ڈالا کہ ”اُس نے اپنے شاگردوں کو پاس بُلا کر اُن سے کہا، میں تُم سے سچ کہتا ہوں، جو ہیکل کے خزانہ میں ڈال رہے ہیں، اِس کنگال بیوہ نے اُن سب سے زیادہ ڈالا:

”کیوں کہ سبھوں نے اپنے مال کی بہتات سے ڈالا؛ مگر اِس نے اپنی ناداری کی حالت میں جو کچھ اُس کا تھا یعنی اپنی ساری روزی ڈال دی۔“۱

اِس سادا مشاہدے سے، نجات دہندہ نے ہمیں سِکھایا کہ اُس کی بادِشاہی میں نذرانوں کو کیسے ماپا جاتا ہے—جس طرح ہم عام طور پر چیزوں کو ماپتے ہیں یہ اُس سے بالکل مختلف ہے۔ خُداوند کے نزدیک عطیے کی قدر ہدیے کی صندوقچی پر پڑنے والے پیسوں سے نہیں بلکہ نذر چڑھانے والے کے دِل پر پڑنے والے اثر سے ماپی جاتی ہے۔

اُس اِیمان دار بیوہ کو سراہتے ہُوئے، نجات دہندہ نے ہمیں اپنی شاگردی کو اُس کے کئی تاثرات کی پیمایش کے لیے ایک معیار دیا ہے۔ یسُوع نے سِکھایا کہ ہماری نذر بڑی ہو یا چھوٹی ہو، مگر جو بھی ہو، یہ سارےدِل سے ہونی چاہیے۔

مورمن کی کِتاب کے نبی عمالیق کی فریاد میں اِسی اُصُول کی بازگشت مِلتی ہے: ”تُم کی مسِیح کی طرف رُجُوع لاؤ، جو اِسرائیل کا قُدُّوس ہے، اور اُس کی نجات، اور اُس کی مُخلصی دینے والی قُدرت میں شریک ہو۔ ہاں، اُس کے پاس آؤ، اور اپنی ساری جان کو ہدیے کے طور پر اُس کی نذر گُزرانw۔“۲

مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم میں سے بُہتیروں کے لِیے، پُوری جان کے عزم کا ایسا معیار پُہنچ سے باہر لگتا ہے ہماری حالت پہلے ہی بہت پتلی ہے۔ اپنی ساری جان کو خُداوند کی نذر کرنے کے اِرادوں کے ساتھ ساتھ زِندگی کے بہت سارے تقاضوں کا توازن ہم کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟

شاید ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ توازن کا مطلب ہے اپنے وقت کو مسابقتی مفادات کے درمیان یکساں طور پر تقسیم کرنا ہے۔ اِس طرح سے دیکھا جائے تو، یِسُوع مسِیح کے ساتھ ہماری وابستگی بہت سی چِیزوں میں سے ایک ہے جس کو ہم نے اپنے مصروف اوقاتِ کار میں جگہ دینی ہے۔ لیکن شاید اِس کو دیکھنے کا ایک اور طریقہ ہے۔

توازن:سائیکل سواری کی مانِند ہے

میری اَہلیہ ہیریٹ،اور مَیں اِکٹھے سائیکل سواری کرنا پسند کرتے ہیں یہ ورزش کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دُوسرے کے ساتھ وقت بِتانے کا اچھا طریقہ ہے۔ جب ہم سواری کررہے ہوتے ہیں، اور مَیں بہت زیادہ ہنگامہ بپا نہیں کر رہا ہوتا تو، ہم اپنے اِردگرد کی خُوب صُورت دُنیا سے لُطف اندوز ہوتے اور خُوش گوار گُفت گُو میں مشغُول ہو جاتے ہیں شاذ و نادر ہی ہمیں اپنی سائیکلوں پر اپنا توازن برقرار رکھنے پر زیادہ توجہ دینا پڑتی ہے۔ ہم اِتنے عرصے سے سواری کر رہے ہیں کہ ہم اِس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں—ہمارے لیے یہ عام اور فطری اَمر بن گیا ہے۔

بہرکیف جب بھی مَیں کسی کو پہلی بار سائیکل چلاتے دیکھتا ہُوں، تو مجھے یاد دِلاتی ہے کہ اِن دو پتلے پتلے پہیوں پر اپنے آپ کو متوازن رکھنا آسان نہیں ہے۔ اِس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اِس کے لِیے مشق درکار ہوتی ہے اس کے لیے صبر درکار ہوتا ہے اِس کے لِیے حتی کہ ایک دو بارنیچے گرنا بھی درکار ہوتاہے۔

سب سے بڑھ کر، جو لوگ سائیکل پر توازن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ اِن اہم گُروں کو سِیکھتے ہیں:

اپنے پَیروں کی طرف نہ دیکھیں۔

آگے دیکھیں۔

اپنی آنکھیں اپنے سامنے سڑک پر رکھیں اپنی منزل پر توجہ دیں۔ اور پیڈل چلاتے جائیں۔ توازن میں رہنے کا مطلب آگے بڑھتے جانا ہے۔

جب یِسُوع مسِیح کے شاگِردوں کی حیثیت سے اپنی اپنی زِندگیوں میں توازن تلاش کرنے کی بات آتی ہے تو اِسی طرح کے اُصُول لاگو ہوتے ہیں۔ کیسے اپنے وقت اور توانائی کو اہم کاموں کے درمیان تقسیم کرنے کا طریقہِ کار ہر شخص کے لِیے اور زِندگی کے ہر موسم کے لِیے الگ الگ ہوگا۔ مگر ہمارا مشترکہ، مجموعی نصب اُلعین یہ ہے کہ ہم اپنے آقا، یسُوع مسِیح کے راستے پر چلیں، اور آسمان پر اپنے پیارے باپ کی حُضُوری میں واپس جائیں۔ اِس نصب اُلعین کو مُستقل اور مُسلسل رہنا ہوگا، چاہے ہم جیسے بھی ہیں اور جو بھی ہماری زِندگی میں ہو رہا ہے۔۳

جہاز کی مانِند: اُوپر اُٹھیں

اب، اُن کے لیے جو سائیکل چلانے کے شوقین ہیں، شاگردی کا موازنہ سائیکل سواری سے کرنا آسان تشبیہ ہو سکتی ہے۔ جو شوقین نہیں ہیں، گھبرائیں نہ۔ میرے پاس ایک دُوسری مثال ہے، جس کو، مُجھے یقین ہے، ہر مرد، عورت، اور بچّہ اپنے آپ سے جوڑ سکے گا۔

شاگِردی، زِندگی میں دِیگر کئی چیِزوں کی مانِند ہے، اِس کا موازنہ جہازاُڑانے سےبھی کر سکتے ہیں۔

کیا کبھی آپ رُک کر سوچا ہے کہ کیا ہی حیران کُن بات ہے کہ اِتنا بڑا مُسافر طیارہ واقعی زمین پر اُترتا اور پرواز کر سکتا ہے؟ وہ کیا چِیز ہے جو اِن فضائی مشینوں کو آسمان پر خُو ب صُورتی سے بُلندی میں اُڑاتی،اور سمُندروں اور براعظموں کو عبُور کراتی ہے؟

آسان لفظوں میں، ہَوائی جہاز صرف اُس وقت اُڑتا ہے جب ہَوا اُس کے پرَوں کے اُوپر سے گُزر تی ہے۔ یہ حرکت ہَوا کے دباؤ میں ردِعمل پیدا کرتی ہے جو ہوائی جہاز کو اُوپر اُٹھاتی ہے۔ اور جہاز کو پرواز کے لیے پرَوں کے اُوپر اِتنی ہَوا کیسے مِلتی ہے؟ جواب ہے آگے بڑھنا۔

ہوائی جہاز رن وے پر کھڑے ہو کر بُلندی پر نہیں اُڑ سکتا۔ حتی کہ تیز و تُند ہَوا والے روز بھی، کافی لفٹ تخلیق نہیں کی جاتی کہ ہَوائی جہاز اُڑان نہیں بھرتا جب تک ، پِیچھے دھکیلنے والی قوتوں کا اَثر زائل کرنے کے لیے کافی زور سے آگے نہ بڑھ رہا ہو۔

جس طرح آگے کی طرف بڑھتی ہُوئی رفتار سائیکل کو متوازن اور سیدھا رکھتی ہے، اُسی طرح تیز رفتار سے آگے بڑھنے سے ہَوائی جہاز کو کشش ثقل اور دباؤ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔

یِسُوع مسِیح کے شاگِردوں کی حیثیت سے ہمارے لِیے اِس کا کیا مطلب ہے؟ اِس کا مطلب ہے کہ اگر ہم زِندگی میں توازن ڈھُونڈنا چاہتے ہیں، اور ہم چاہتے ہیں کہ نجات دہندہ ہمیں آسمان کی طرف اُٹھا لے، تو پھر اُس کے ساتھ اور اُس کی اِنجیل کے ساتھ ہماری عقِیدت معمولی یا عارضی نہیں ہو سکتی۔ یرُوشلِیم کی بیوہ کی مانِند، ہمیں اپنی ساری جان اُس کو نذر کرنی ہے۔ ہمارا نذرانہ معمولی ہو سکتا ہے،مگر یہ ہمارے دِل اور جان سے آنی چاہیے۔

یسُوع مسِیح کا شاگِرد بننا ہمارے بہت سارے کاموں میں سے صرف کوئی ایک کام نہیں ہے۔ نجات دہندہ ہمارے سارے اَنجام دینے والے کاموں کے پیچھے مُتحرک قوت ہے۔ وہ ہمارے سفر کے دوران میں کوئی سستانے کی جگہ نہیں ہے۔ وہ راہ میں کوئی قُدرتی نظارہ یا کوئی بڑا سنگِ میل نہیں ہے۔ وہ ”راہ، حق، اور زِندگی ہے: کوئی بھی باپ کے پاس نہیں آتا‘‘ “سِوا [یسُوع مسِیح] کے وسِیلے سے۔“ ۴ یہی ہماری راہ اور آخِری منزل ہے۔

توازن اور اُڑان اُس وقت عمل میں آتے ہیں جب ہم ”مسِیح میں ثابت قدمی کے ساتھ، کامِل درخشاں اُمید پا کر، اور خُدا اور کُل بنی نوع اِنسان کی محبت میں آگے بڑھتے ہیں“۔۵

قُربانی اور تخصِیص

اور اُن سب کاموں اور ذمہ داریوں کا کیا کریں جو ہماری زِندگیوں کو اِتنا مصرُوف بنا دیتے ہیں؟ اپنے عزیزوں کے ساتھ وقت گُزارنا، سکول جانا یا کسی پیشے کی تیاری کرنا، روزی روٹی کمانا، خاندان کی دیکھ بھال کرنا، کمیونٹی میں خدمت کرنا—یہ سب کیسے مُمکن ہوتا ہے؟ نجات دہندہ ہمیں یقین دِلاتا ہے:

’’تمھارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُم اِن سب چِیزوں کے مُحتاج ہو۔

’’بلکہ تُم پہلے خُدا کی بادِشاہی اور اُس کی راست بازی کو تلاش کرو، اور یہ سب چیزیں تُم کو مِل جائیں گی۔‘‘۶

اَلبتہ اِس کا مطلب ہرگز نہیں کہ یہ آسان ہے۔۷ اِس کے لیے قُربانی اور تخصِیص و تقدِیس دونوں کی ضرُورت ہے۔

اِس کے لیے بعض چِیزوں کو گھٹانے اور بعض چِیزوں کو بڑھانے کی ضرُورت ہوتی ہے۔

قُربانی اور تخصِیص و تقدیس دو آسمانی قوانین ہیں جِن کو ماننے کا عہد ہم ہیکل میں کرتے ہیں۔ یہ دونوں قوانین مُشابہ ہیں لیکن یکساں نہیں ہیں۔ قُربانی دینے سے مُراد کسی نہایت قیمتی شَے کی خاطر کسی اور شَے کو ترک کرنا۔ قدیم زمانے میں، خُدا کے لوگ مسیحا کی آمد کے اعزاز میں اپنے گَلہ کے پہلوٹھوں کو قُربان کرتے تھے۔ پُوری تارِیخ میں، اِیمان دار مُقدّسِین نے نجات دہندہ کے لیے ذاتی خواہشات، آسایشات اور یہاں تک کہ اپنی جانیں بھی قُربان کی ہیں۔

ہم سب کے پاس، چھوٹی اور بڑی چِیزیں ہیں، ہمیں یسُوع مسِیح کی زِیادہ کامِل طریقے سے تقلید کے لیے قُربانی دینے کی ضرُورت ہے۔۸ ہماری قُربانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ہم واقعی کس چِیز کی قدر کرتے ہیں۔ قُربانیاں مُقدّس ہیں اور خُدا اُنھیں قبُول کرتا ہے۔۹

تخصِیص و تقدیِس قُربانی سے کم از کم ایک خاص انداز سے مُختلف ہے۔ جب ہم کسی چِیز کی تخصِیص و تقدِیس کرتے ہیں تو ہم اُس کو قُربان گاہ پر بھسم کرنے کے لیے نہیں چھوڑ جاتے۔ بلکہ، ہم خُداوند کی خدمت میں اِستعمال کرنے کے لیے رکھتے ہیں۔ ہم اِس کو اُس کے پاک اِرادوں کے لیے مخصُوص کرتے ہیں۔۱۰ ہم وہ صلاحیتیں حاصل کرتے ہیں جو خُداوند نے ہمیں عطا کی ہیں اور اِن میں کئی گُنا، اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ خُداوند کی بادشاہی کی تعمیر میں مزید مددگار بنیں۔ ۱۱

ہم میں سے شاید ہی کسی کو نجات دہندہ کی خاطر اپنی جان قُربان کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ مگر ہم سب کو اُس کی خاطر اپنی زِندگیوں کی تخصِیص و تقدِیس کی دعوت دی جاتی ہے۔

واحد فرض، واحد خُوشی، واحد اِرادہ

جب ہم اپنی زِندگیوں کو پاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر بات میں مسِیح کی طرف دیکھتے ہیں،۱۲ تو ہر شَے میں ہم آہنگی آنا شُروع ہو جاتی ہے۔ زِندگی پھر الگ الگ کوششوں کی ایک لمبی فہرست نہیں لگتی جو نحیف توازن میں اَٹکی ہو۔

وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب واحد فرض بن جاتا ہے۔

واحد خُوشی۔

واحد پاک اِرادہ

یہ فریضہ خُدا سے محبّت اور اُس کی خِدمت کرنے کا ہے۔ یہ خُدا کے اطفال سے مَحبّت اور اُن کی خدمت کرنا ہے۔ ۱۳

جب ہم اپنی زِندگیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور کرنے کے لیے سو چیِزوں کو دیکھتے ہیں تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ جب ہم صرف ایک ہی بات کو دیکھتے ہیں—خُدا اور اُس کے بچّوں سے محبُت اور اُن کی خدمت، سو مخُتلف طریقوں سے—تو ہم خُوشی کے ساتھ اُن باتوں پر کام کر سکتے ہیں۔

ہم اِس طرح اپنی ساری جان کو نذر کرتے ہیں—ہر اُس چِیز کو قُربان کر تے ہیں جو ہمیں روکتی ہے اور باقی سب کو خُداوند اور اُس کے اِرادوں کی تخصِیص و تقدیس کے لِیے وقف کرتے ہیں۔

حوصلہ افزائی اور گواہی کے کلمات

میرے پیارے بھائیو اور بہنو اور میرے عزیز دوستو ، ایسے اوقات بھی ہوں گے جب آپ مزید کچھ کرنے کی خواہش کریں گے۔ آپ کا شفیق آسمانی باپ آپ کے دِلوں کو جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آپ ہر وہ کام نہیں کر سکتے جو آپ کا دِل کرنا چاہتا ہے۔ مگر آپ خُدا سے مَحبّٗت اور اُس کی خدمت کر سکتے ہیں۔ آپ اس کے حکموں کو ماننے کے لیے اپنی بہترین کوشش کر سکتے ہیں۔ آپ اُس کے اطفال سے مَحبّت اور اُن کی خدمت کرسکتے ہیں۔ آپ کی کوششیں آپ کے دِل کو پاک کر رہی ہیں اور آپ کو کسی شان دار مُستقبل کے لیے تیار کر رہی ہیں۔

یہ ہی بات ہے جو ہَیکل کے خزانے پر بیوہ نے سمجھ لی تھی۔ وہ یقیناً جانتی تھی کہ اُس کی نذر اِسرائِیل کی قسمت نہیں بدلے گی، لیکن یہ اُس کو بدلے گی اور بابرکت بنائے گی—کیوں کہ، بے شک تھوڑی، مگر یہی اُس کی ساری ملکیت تھی۔

پَس، میرے عزیز دوستو اور یسُوع مسِیح کے پیارے شاگِرد ساتھیو، ”نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہارو ، کیوں کہ [ہم] ”ایک عالی و اَرفع کام کی بُنیاد رکھ رہے ہیں۔“ اور ہماری معمولی کاوِشوں سے وہ رُونما ہوگا ”جو اَفضل ہے۔“۱۴

مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ یہ سچّ ہے،مَیں یہ بھی گواہی دیتا ہُوں کہ یسُوع مسِیح ہمارا آقا ہے، ہمارا مُخلصی دینے والا ہے، اور ہمارا ایک اور صرف ایک ہی راستہ جو ہمیں پیارے آسمانی باپ کے پاس لے جاتا ہے۔ یِسُوع مسِیح کے مُقدّس نام پر، آمین۔

حوالہ جات

  1. مرقس ۱۲:‏۴۱–۴۴۔

  2. اومنی ۱:‏۲۶۔

  3. ہم اپنے بچّوں اور نوجوانوں کو دعوت دیتے ہیں یسُوع مسِیح کی پیروی کرنے سے وہ متوازن طریقے سے بڑھتے ہیں، جو خُود لڑکپن میں ”حکمت اور قدوقامت میں اور خُدا اور اِنسان کی مقبُولیت میں ترقی کرتا گیا“ (لُوقا ۲:‏۵۲

  4. یُوحنّا ۱۴:‏۶۔

  5. ۲ نیفی ۳۱:‏۲۰۔

  6. ۳ نیفی ۱۳:‏۳۲–۳۳؛ مزید دیکھیے متّی ۶:‏۳۲–۳۳۔ ترجمہ از جوزف سمتھ، متّی ۶:‏۳۸ مزید معرفت عطا کرتا ہے: ”اِس دُنیا کی چِیزوں کی فِکر نہ کرو بلکہ تُم پہلے اُس کی بادِشاہی کو تعمیر کرنے،اور اُس کی راست بازی کو قائم کرنے کی فِکر کرو“ (متّی ۶:‏۳۳، زیریں حاشِیہ اے میں)۔

  7. ایک مثال ہمارے نبی صدر رسل ایم نیلسن کی ہے۔ جب وہ ہارٹ سرجن کے طور پر اپنے پیشہ ورانہ کیرئیر کے عروج پر تھے تو اُنھیں میخ کے صدر بُلاہٹ عطا کی گئی تھی۔ بُزرگ سپینسر ڈبلیو کمبل اور لی گرینڈ رچرڈز نے یہ بُلاہٹ عطا کی۔ اُن کی پیشہ ورانہ زِندگی کے تقاضوں کو دیکھتے ہُوئے، اُنھوں نے اُن سے کہا، ’’اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ بہت مصرُوف ہیں اور آپ کو بُلاہٹ قبُول نہیں کرنی چاہیے، تو یہ آپ کا حق ہے۔‘‘ اُنھوں نے جواب دیا کہ بلاہٹ پر خدمت کرنے یا نہ کرنے کے مُعاملے کا فیصلہ بہت پہلے ہو چُکا تھا، جب اُنھوں نے اور اُن کی اَہلیہ نے خُداوند کے ساتھ ہیکل میں عہد باندھے تھے۔ ”ہم نے تب عزم کِیا تھا،“ اُنھوں نے فرمایا، ”’تلاش کرنا …پہلے خُدا کی بادشاہی اور اُس کی راست بازی‘ [متّی ۶:‏۳۳]، اِس یقین کا احساس تھا کہ باقی سب چِیزیں بھی ہم کو مِل جائیں گی، جِس کا خُداوند نے وعدہ کِیا“ (رسل میرین نیلسن، دِل سے دِل تک: خُود نوشت [۱۹۷۹]، ۱۱۴)۔

  8. صدر نیلسن نے حال ہی میں اِس کی بابت فرمایا کہ ”ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی زِندگی سے بوسِیدہ و ناکارہ ملبے کو، اپنے نجات دہندہ کی مدد سے، نِکالنے کی اَشد ضرورت ہے۔… مَیں آپ کو دعوت دیتا ہُوں،“ اُنھوں نے فرمایا، کہ ”اپنے اپنے بوسِیدہ ملبے کو پہچاننے اور جاننے کے لیے دُعا کریں تاکہ آپ اُس کو اپنی زِندگی سے ہٹا دیں تاکہ آپ اور زیادہ لائق بن سکیں،“ (”کلماتِ خیر مقدملیحونا، مئی ۲۰۲۱، ۷)۔

  9. صحائف بتاتے ہیں کہ، خُدا کے نزدیک، ہماری کام یابیوں کی نسبت ہماری قُربانیاں زیادہ مُقدّس ہیں (دیکھیے عقائد اور عہُود ۱۱۷:‏۱۳)۔ یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ خُداوند نے دولت مندوں کے عطیات سے زیادہ بیواہ کی دمڑیوں کی قدر کی۔ موّخر الذِکر قُربانی تھی، جو دینے والے پر پاکیزہ تاثِیر رکھتی ہے۔ اَوّل الذکر، اگرچہ اُس نے مالی طور پر بہت زیادہ دِیا ہوگا،لیکن قُربانی نہ تھی، اور اِس نے دینے والے کو تبدیل نہ کِیا تھا۔

  10. ہم میں سے شاید ہی کسی کو نجات دہندہ کی خاطر اپنی جان قُربان کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ مگر ہم سب کو اُس کی خاطر اپنی زِندگیوں کی تخصِیص و تقدِیس کی دعوت دی جاتی ہے۔

  11. دیکھیں متّی ۲۵:‏۱۴–۳۰۔

  12. دیکھیں عقائد اور عہُود ۶:‏۳۶۔

  13. اِس طریقے سے، ہم اپنی زِندگیوں میں پولُس رسُول کی پیشین گوئی کی تکمیل دیکھتے ہیں: ”[خُدا] زمانوں کے پُورے ہونے کا اَیسا اِنتِظام کرے گا کہ مسِیح میں سب چِیزوں کا مجمُوعہ ہو جائے، خواہ وہ آسمان کی ہوں خواہ زمِین کی: یعنی اُسی میں۔(اِفِسیوں ۱:‏۱۰

  14. عقائداور عہود ۶۴:‏۳۳۔