مجلسِ عامہ
سب سے زیادہ اَہم کام کریں
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۲


سب سے زیادہ اَہم کام کریں

جب ہم اپنی زندگیوں کو یسوع مسیح پر مرکوز کرتے ہیں، ہمیں روحانی طاقت، قناعت اور خوشی سے نوازا جائے گا۔۔

کچھ عرصہ پہلے، کسی عزیز دوست نے اپنے حلقے کی ایک عورت سے ملاقات کرنے کا تاثر پایا۔ کیونکہ وہ اُس سے اچھی طرح سے واقف نہ تھی—اِس واسطے یہ بات اُسے قابلِ فہم نہ لگی تاہم اُس نے سرگوشی کو نظر انداز کر دیا۔ لیکن چونکہ یہ خیال اُس کے ذہن میں بار بار آ رہا تھا، اِس لیے اُس نے حاصل کردہ سرگوشی پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ وہ اُس ملاقات سے قبل کافی بے چینی محسوس کر رہی تھی، لہذا اپنی پریشانی کو کم کرنے کے واسطے اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اُس بہن کے پاس کچھ لے کر جائے گی۔ یقیناً وہ خالی ہاتھ نہیں جا سکتی تھی! لہذا اُس نے آئس کریم کا ایک ڈبہ خریدا، اور اُس کام کے لیے روانہ ہوئی جس کے بارے میں اُسے خدشہ تھا کہ یہ ایک پریشان کُن ملاقات ہوگی۔

اُس نے عورت کے دروازے پر دستک دی، اور جلد ہی بہن نے دروازہ کھول دیا۔ میری دوست نے اُسے بھورے کاغذ کے تھیلے میں رکھی ہوئی آئس کریم سونپ دی، اور گفتگو کا آغاز ہوا۔ میری دوست کو یہ سمجھنے میں زیادہ وقت نہ لگا کہ وہ ملاقات کیوں ضروری تھی۔ جب وہ سامنے والے مسقف دروازے پر اکٹھے بیٹھی تھیں، تو اُس عورت نے بہت سی چنوتیوں کو افشا کیا جن کا اُسے سامنا تھا۔ گرم موسم میں ایک گھنٹہ بات کرنے کے بعد، میری دوست نے بھورے کاغذ کے تھیلے سے آئس کریم کو پگھلتے ہوئے دیکھا۔

اُس نے کہا، ”مُجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کی آئس کریم پگھل گئی!“

اُس عورت نے پیار سے جواب دیا، ”کوئی بات نہیں! میں دودھ میں پائی جانے والی شکر کو ہضم کرنے سے قاصر ہوں!“

خواب میں، خُداوند نے نبی لحی کو بتایا، ”لحی، اپنے کاموں کے سبب تُم مبارک ٹھہرے ہو۔“۱

یِسُوع مسِیح کے شاگِرد ہونے کی حیثیت سے ہم سے صرف اُمید یا یقین رکھنے کی توقع نہیں کی جاتی ہے۔ اِس کے لیے کوشش، تحریک اور عزم درکار ہوتا ہے۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم، ”کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سُننے والے۔“۲

پگھلی ہوئی آئس کریم کے معاملے میں، سب سے زیادہ اہم بات کیا تھی؟ آئس کریم؟ یا درحقیقت میری دوست نے سب سے اہم کام سرانجام دیا تھا؟

ایک عزیز نوجوان لڑکی کے ساتھ میرا بہت خُوشگوار تجربہ ہوا جس نے ایک بہت ہی مخلص سوال پوچھا: ”بہن کریون، آپ کیسے جانتی ہیں کہ کلِیسیا کے بارے میں کوئی بھی بات سچّی ہے؟ کیوں کہ میں کچھ محسوس نہیں کرتی۔“

جلدی سے خُود جواب دینے سے قبل، میں نے پہلے اُس سے کچھ سوالات پوچھے۔ ”اپنے ذاتی مُطالعہِ صحائف کے بارے میں مُجھے بتائیں۔“

اُس نے جواب دیا، ”مَیں صحائف نہیں پڑھتی ہوں۔“

مَیں نے پوچھا، ”اپنے خاندان کے بارے میں بتائیں؟ کیا آپ اکٹھے آ، میرے پِیچھے ہو لے کا مُطالعہ کرتے ہیں؟“

اُس نے کہا، ”نہیں۔“

مَیں نے اُس کی دعاؤں کے بارے میں پوچھا: ”جب آپ دُعا کرتی ہیں تو آپ کیا محسوس کرتی ہیں؟“

اُس کا جواب: ”مَیں دُعا نہیں کرتی۔“

اُس کے لیے میرا جواب بہت سادہ تھا: ”اگر آپ کچھ جاننا چاہتی ہیں، تو آپ کو کچھ کرنا ہو گا۔“

کیا یہ ہر اُس چیز پر لاگو نہیں ہوتا جو ہم سیکھنا یا جاننا چاہتے ہیں؟ مَیں نے اپنی نئی دوست کو یِسُوع مسِیح کی اِنجیل میں سِکھائے گئے کاموں کو شروع کرنے: دُعا کرنے، مُطالعہ کرنے، دُوسروں کی خدمت کرنے، اور خُداوند پر بھروسا رکھنے کی دعوت دی۔ کچھ کیے بغیر ہم رُجُوع نہیں لا پائیں گے۔ یہ رُوحُ القُدس کی قُدرت کے وسیلے سے ایسا ہوتا ہے جب ہم مانگنے، ڈھونڈنے، اور کھٹکھٹانے کے باعث جاننے کی دانستہ کوشش کرتے ہیں۔ ایسا اعمال کے باعث ہوتا ہے۔۳

عقائد اور عہُود میں، خُداوند گاہے بہ گاہے کہتا ہے، ”یہ اَہم نہیں۔“۴ یہ بات مُجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر کچھ چیزیں اَہمیت نہیں رکھتی ہیں، یا کم اَہمیت رکھتی ہیں، تو لازمی طور پر ایسی چیزیں بھی ہوں گی جو سب سے زیادہ اَہمیت کی حامل ہیں۔ کوئی بھی کام یا کیسا بھی کام کرنے کی ہماری کوششوں میں، ہم خُود سے پوچھ سکتے ہیں کہ، ”سب سے زیادہ اَہم چیز کیا ہے؟“

مشتہرین اکثر ”نہایت ضروری“ یا ”لازمی“ جیسے نعروں کا اِستعمال کرتے ہیں اِس اُمید پر کہ ہمیں یہ باور کروائیں کہ جو مصنوعات وہ بیچ رہے ہیں وہ ہماری خُوشی یا بہبود کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن وہ جو بیچ رہے ہیں کیا وہ واقعی ضروری ہے؟ کیا واقعی وہ ہمارے لیے لازمی ہے؟ کیا واقعی یہ اَہم ہے؟

مَیں آپ کے ساتھ کچھ غور طلب خیالات کا اشتراک کروں گی: سب سے زیادہ اَہم کیا ہے؟

  • ہمیں اپنی سوشل میڈیا پوسٹز پر کتنے ”لائکس“ ملتے ہیں؟ یا ہمارا آسمانی باپ ہمیں کتنا پیار کرتا اور ہماری کتنی قدر کرتا ہے؟

  • جدید ترین رجحان کے لباس پہننا؟ یا با حیا لباس پہن کر اپنے جسموں کا احترام کرنا؟

  • انٹرنیٹ سرچ کے ذریعے جوابات تلاش کرنا؟ یا رُوحُ القُدس کے وسیلے سے خُدا سے جوابات پانا؟

  • مزید پانے کی چاہت؟ یا اُس پر مطمئن ہونا جو کچھ ہمیں بخشا گیا ہے؟

صدر رسل ایم نیلسن نے سِکھایا:

”اپنے رفیق کے طور پر رُوحُ القُدس کے ساتھ، آپ شہرت والی ثقافت کے فریب کو دیکھ پاتے ہیں جس نے ہمارے معاشرے کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ آپ پچھلی نسلوں سے زیادہ ہوشیار ہو سکتے ہیں۔ …

”باقی دُنیا کے لیے ایک معیار قائم کریں۔“۵

دیر پا خُوشی کے لیے حقیقی معنوں میں کیا ضروری ہے اُس پر توجہ مرکوز رکھنے کے لیے کوشش درکار ہوتی ہے۔ شیطان اِس سے زیادہ کچھ پسند نہیں کرتا کہ ہم اپنی اَبَدی اقدار کا غلط استعمال کریں، جس کی وجہ سے ہم اپنے قیمتی وقت، ہنر یا رُوحانی طاقت کو ایسی چیزوں پر ضائع کرتے ہیں جن کی کوئی اَہمیت نہیں ہوتی۔ مَیں ہم میں سے ہر ایک کو دعوت دیتی ہوں کہ دُعاگو ہو کر اُن باتوں پر غور کریں جو سب سے زیادہ اَہم کام کرنے سے ہماری توجہ مبذول کراتی ہیں۔

ہمارے سب سے بڑے بیٹے کی تیسری جماعت کی معلمہ نے اپنی جماعت کو ”اپنے دماغ کا حاکم بننا“ سِکھایا۔ اُس کے نوجوان طالب علموں کے لیے یہ یاد دہانی تھی کہ وہ اپنے خیالات کو اپنی گرفت میں رکھ سکتے ہیں اور اِس بنا پر وہ اپنے کاموں پر اِختیار پاسکتے ہیں۔ جب مَیں اپنے آپ کو کم اَہم چیزوں کی طرف بڑھتا ہوا پاتی ہوں تو میں خُود کو یاد دلاتی ہوں کہ ”مَیں اپنے دماغ کی حاکم“ ہوں۔

ہائی سکول کے ایک طالب علم نے حال ہی میں مُجھے بتایا کہ کلِیسیا کے کچھ نوجوانوں میں یہ بات مقبول ہو گئی ہے کہ دانستہ طور پر ایسے گُناہ سرزد کیے جائیں جن سے بعد میں توبہ کی جا سکتی ہے۔ ”یہ ایک قسم کا اعزاز مانا جاتا ہے،“ مُجھے بتایا گیا۔ یقیناً خُداوند اُن لوگوں کو معاف کرتا رہے گا جو ”صادق دِل سے“ توبہ کرتے ہیں۔۶ لیکن نجات دہندہ کا رحیم کفّارہ کبھی بھی اِس طرح کے تمسخرانہ انداز میں اِستعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم کھوئی ہوئی بھیڑ کی تمثیل سے واقف ہیں۔ بلاشبہ، چرواہا دُوسری ۹۹ بھیڑوں کو چھوڑ کر اُس کو تلاش کرے گا جو بھٹک گئی ہے۔ لیکن کیا آپ اُس خُوشی کا تصوّر کر سکتے ہیں جو اُن ۹۹ بھیڑوں کی مانند بننے کا انتخاب کرنے والوں کے باعث اچھے چرواہے کو حاصل ہوتی ہے؟ وہ جو اکٹھے رہتے اور اپنے عہُود پر قائم رہنے میں ایک دُوسرے کی مدد کرتے ہیں؟ اگر فرمان بردار ہونا مقبول چیز ہو جائے تو کیا آپ تصوّر کر سکتے ہیں کہ یہ دُنیا یا آپ کا سکول یا آپ کا کام کیسا ہوگا؟ یہ کامل طور پر زِندگی گُزارنے سے متعلق نہیں—بلکہ خُداوند کے ساتھ باندھے گئے عہُود کے مطابق جینے کی اپنی بہترین کوشش کرتے ہوئے خُوشی پانے سے متعلق ہے۔

خُدا کے بارے میں زیادہ شکوک و شبہات متعارف کرتے ہوئے دُنیا میں تذبذب اور دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، یہی وہ وقت ہے جب ہمیں لازمی طور پر نبی کے قریب تر رہنا ہے۔ چونکہ وہ خُداوند کے نمائندے ہیں، ہم اِس بات پر بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ جو کچھ وہ ہمیں کرنے کی تاکید کرتے، مشورت دیتے اور التجا کرتے ہیں وہ سب سے اَہم کام ہیں۔

اگرچہ یہ آسان نہیں ہو سکتا، درست کام کرنے کا ہمیشہ ایک طریقہ موجود ہوتا ہے۔ سکول میں دوستوں کے ایک گروہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے، ایک نوجوان لڑکی کا دِل رنجیدہ ہو گیا۔ جب گفتگو کلِیسیا کے معیارات پر تنقید کرنے پر مائل ہوئی۔ اُسے احساس ہوا کہ وہ خاموش نہیں رہ سکتی—اُسے کچھ کرنا چاہیے۔ احترام کے ساتھ، اُس نے آسمانی باپ کی مُحبّت کے بارے میں بات کی اور بتایا کہ احکام کا مقصد اُس کے بچّوں کو برکت دینا اور اُن کی حفاظت کرنا ہے۔ اُس کے لیے کچھ نہ کرنا بہت آسان ہوتا۔ مگر سب سے زیادہ اَہم بات کیا تھی؟ ہجوم کے ساتھ گُھل مِل جانا؟ یا ”ہر وقت اور ہر بات میں اور ہر جگہ“ خُداکے گواہ کے طور پر نمایاں نظر آنا؟۷

یِسُوع مسِیح کی بحال شُدہ کلِیسیا کو گُم نامی سے باہر نکالنے کے واسطے، ہمیں خُود کو لازمی طور پر گُم نامی سے نکالنا ہے۔ عہد پر قائم رہنے والی خواتین کی حیثیت سے، ہمیں آگے بڑھ کر اور نمایاں طور پر پوری دُنیا میں اِنجِیل کے اپنے نُور کو چمکانا ہے۔ ہم یہ کام خُدا کی بیٹیوں کے طور پر اکٹھے کرتی ہیں—۱۱ سال اور اُس سے زائد عمر کی ۸۲ لاکھ خواتین کی تنظیم، جن کا کام بالکل یکساں ہے۔ نجات اور سرفرازی کے کام میں حصّہ لیتے ہوئے: یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہوئے، ضرورت مندوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے، سب کو اِنجِیل قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے، اور خاندانوں کو اَبَدیت کے لیے متحد کرتے ہوئے ہم اِسرائیل کو اِکٹھا کرتے ہیں۔۸ یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل عمل کی اِنجِیل اور خُوشی کی اِنجِیل ہے! آئیں ہم اُن کاموں کو کرنے کی اپنی صلاحیت کو حقیر نہ جانیں جو سب سے زیادہ اَہم ہیں۔ ہمارا الہٰی ورثہ ہمیں ہمت اور اعتماد بخشتا ہے کہ ہم وہ سب کچھ کریں اور وہ سب کچھ بنیں جو ہمارے پیارے آسمانی باپ کو معلوم ہے کہ ہم بن سکتے ہیں۔

اِس سال نوجوانوں کا موضوع اِمثال ۵:۳–۶ میں سے لیا گیا ہے:

”سارے دِل سے خُداوند پر توکل کراور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔

”اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔“

خُداوند پر توکل کرنے کا ایک اہم جزو آگے بڑھنا ہے، یہ یقین کرتے ہوئے کہ وہ ہماری راہ نمائی کرے گا حتیٰ کہ جب ہمارے پاس تمام جوابات موجود نہیں ہوں گے۔

بہنو، یہ آئس کریم کے بارے میں نہیں ہے۔ اور یہ مزید کام کرنے سے متعلق بھی نہیں ہے۔ یہ سب سے زیادہ اَہم کام کرنے سے متعلق ہے۔ یہ ہماری زِندگیوں میں مسِیح کی تعلیم کا اطلاق کرتے ہوئے مزید اُس کی مانند بننے کی کوشش کرنا ہے۔

عہد کی راہ پر پختگی سے قائم رہنے کے لیے ہم جتنا زیادہ کام کرتے ہیں، ہمارا اِیمان اتنا زیادہ یسوع مسیح بڑھے گا۔ جتنا زیادہ ہمارا اِیمان بڑھے گا، اتنی زیادہ توبہ کرنے کی خواہش کے ہم حامل ہوں گے۔ اور جس قدر ہم توبہ کرتے ہیں،اتنا ہی زیادہ ہم خُدا کے ساتھ اپنے عہد کے تعلق کو تقویت بخشیں گے۔ عہد کا وہ تعلق ہمیں ہیکل کی طرف متوجہ کرتا ہے، کیوں کہ ہیکلی عہُود پر قائم رہنے سے ہم آخِر تک برداشت کرتے ہیں۔

جب ہم اپنی زندگیوں کو یسوع مسیح پر مرکوز کرتے ہیں، ہمیں وہ کرنے کے لیے رہنمائی ملے گی جو سب سے اہم ہے۔ اور ہمیں نوازا جائے گا روحانی طاقت، قناعت اور خوشی سے یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔