مجلسِ عامہ
جو شکستہ حال ہیں مسِیح اُنھیں شفا بخشتا ہے
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۲


جو شکستہ حال ہیں مسِیح اُنھیں شفا بخشتا ہے

وہ خُدا کے ساتھ ہمارے ٹُوٹے تعلق کو آسُودہ کر تا ہے، وہ دُوسروں کے ساتھ ہمارے رشتوں کو سنوارتا، اور ہمارے اپنے ریختہ وشکستہ، حصوں کو شفا بخشتا ہے۔

چند سال پہلے، ہمارے خاندانی اِجتماع پر، میرے آٹھ سالہ بھتیجے ولیم نے ہمارے بڑے بیٹے بریٹن سے پُوچھا، اگر وہ اُس کے ساتھ گیند سے کھیلے گا۔ بریٹن نے گرم جوشی سے کہا، ”ہاں! مَیں کھیلُوں گا!“ تھوڑی دیر کھیلنے کے بعد، بریٹن سے گیند کہیں دُور جا گِری اور اچانک اُس سے اپنے دادا دادی کے قدیم برتنوں میں سے ایک ٹُوٹ گیا۔

برٹن نے بہت برا محسوس کیا۔ جیسے ہی اُس نے ٹُکڑے اُٹھاناشروع کیے، تو ولیم اپنے چچا زاد کے پاس سے گُزرا اورپیار سے اُس کی پیٹھ کو تھپ تھپاتے ہُوئے۔ اُسے تسلی دی، ”بریٹن گھبراو مت۔ مَیں نے ایک دفعہ دادا اور دادی کے گھر میں کُچھ توڑ دیا تھا، دادی نے مُجھےاپنے بازُووں میں لیا اور کہا، ’کوئی بات نہیں ولیم۔ تُم صرف پانچ سال کے ہی ہو۔‘“

جس پر بریٹن نے جواب دیا ، ”لیکن، ولیم، مَیں ۲۳ سال کا ہُوں “

ہم صحائف میں اپنے نجات دہندہ ، یِسُوع مسِیح کی بابت بُہت کُچھ سیکھ سکتے ہیں کہ عُمر کے کسی بھی حصے میں وہ کس طرح کامرانی سے ہماری زندگی میں شکستہ چیزوں کو بہتر کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔ وہ خُدا کے ساتھ ہمارے ٹُوٹے تعلق کو آسُودہ کر تا ہے، وہ دُوسروں کے ساتھ ہمارے رشتوں کو سنوارتا، اور ہمارے اپنے ریختہ وشکستہ، حصوں کو شفا بخشتا ہے۔

خُدا کے ساتھ ٹُوٹے ہُوئے تعلق

جب نجات دہندہ ہیکل میں تعلیم دینے لگا، توفقیہہ اور فریسی ایک عورت کو اُس کے پاس لے کرآ آئے۔ ہم اُس کی پُوری کہانی تو نہیں جانتے، محض یہ کہ وہ ”زِنا میں پکڑی“ گئی تھی۔۱ صحائف میں زیادہ تر لوگوں کی زندگی کا تھوڑا ہی حصہ بیان ہے،اور بعض اوقات ہم اُسی حصے کی بِنا پر سرفرازی یا مذمت کرتے ہیں۔ کسی کی بھی زندگی کو محض شان دار لمحے یا کسی عام ندامت کی بِنا پرنہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ اِن صحیفائی واقعات کا مقصد ہمیں یہ جاننے میں مدد کرنا ہے کہ تب بھی یسوع مسِیح ہر بات کا حل تھا اور وہ اب بھی ہر بات کا حل ہے۔ وہ ہماری مکمل کہانی سے اور جن حالات سے بھی ہم گُزریں واقف ہے،اُس کے ساتھ ساتھ ہماری استعداد اور کمزوریوں کو بھی جانتا ہے۔

خُدا کی اُس عزیز بیٹی کی جانب مسِیح کاجواب تھا ”مَیں بھی تُجھ پر حُکم نہیں لگاوں گا جا اور پھر گُناہ نہ کرنا“ ۲ ”جا اور پھر گُناہ نہ کرنا“ یہ دُوسرے طریقہ بھی کہا جا سکتا ہے ”آگے بڑھو اور رجُوع لاو۔“ نجات دہندہ نے اُسے توبہ کرنے کی دعوت دی:اپنے رویے کو بدلنے، اپنی صُحبت کو، اور جیسے وہ اپنےآ آپ کو،اپنے دِل کی، بابت، محسوس کرتی تھی۔

مسِیح کی بدولت،ہمارا فیصلہ ”آگے بڑھو اور رجُوع لاو“ ہمیں ”آگے بڑھنے اور شفا پانے“ کے اہل بھی کر سکتا ہے۔ عظیم ثالث اور باپ کےساتھ تلقین کرنے والا،مسِیح ٹُوٹے ہُوئے رشتوں کوپاک صاف اوربحال کرتاہے—خاص طور پر خُدا کے ساتھ ہمارا رشتہ۔

ترجمہ از جوزف سمتھ واضح کرتا ہے کہ عورت نے منجی کی مشورت پر عمل کیا اور اپنی زندگی بدل دی : ”پَس عورت نے اُسی گھڑی سے خُدا کو جلال دیا ، اور اُس کے نام پر ایمان لےآئی۔“ ۳ بد قسمتی سےہم اُس کا نام یا اُس لمحے کے بعد اُس کی زندگی کی دیگر تفصیلات نہیں جانتے بہرحال توبہ کرنےاور یِسُوع مسِیح کی طرف رجُوع لانے کے لیےاُسے بپُختہ اِرادہ، فروتنی ، اور ایمان درکار ہُوا ہوگا ۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ عورت جو کہ” اُس کے نام پر ایمان لائی تھی“ اِس فہم کے ساتھ کہ وہ اُس کی اَبدی اور لامحدود قُربانی کی پہنچ سے باہر نہیں تھی ۔

دُوسروں کے ساتھ بِگڑے ہُوئے تعلقات

لوقا ۱۵ باب میں ہم نے کسی شخص کی تمثیل پڑھی جس کے دو بیٹے تھے۔. چھوٹے بیٹے نے اپنے باپ سے میراث مانگی۔دُور دراز مُلک میں جا کر اپنا مال بدچلنی سے اُڑا دیا۔۴

” اور جب سب کُچھ خرچ کر چُکا ، تو اُس مُلک میں بڑا سخت کال پڑا ؛ اور وہ محتاج ہونے لگا۔

”اور پھر اُس مُلک کے ایک باشندے کے ہاں جا پڑا،اُس نے اُسے اپنے کھیتوں میں سُور چَرانے بھیجا ۔

”اور اُسے آرزُو تھی کہ جو پھلیاں سُور کھاتے تھے اُنہی سے اپنا پیٹ بھرے مگر کوئی اُسے نہ دیتا تھا۔

”پھر اُس نے ہوش میں آ کر کہا، میرے باپ کے بہت سے مزدُوروں کو اِفراط سے روٹی ملتی ہے، اور مَیں یہاں بُھوکا مر رہا ہُوں!

”مَیں اُٹھ کر اپنے باپ کے پاس جاوں گا، اور اُس سے کہوں گا، اَے باپ! مَیں آسمان کا اور تیری نظر میں گُناہ گار ہُوا،

”اور اب اِس لائق نہیں رہا کہ پھر تیرا بیٹا کہلاوں مُجھے اپنے مزدُوروں جیسا کر لے

”پَس وہ اُٹھا اور اپنے باپ کے پاس آیا مگر وہ ابھی دُور ہی تھا ، کہ اُس کے باپ نے اُسے دیکھا ، اور اُسے ترس آیا ، اور دوڑا ، اور اُس کو گلے لگا لیا، اور اُس کو چُوما۔“ ۵

حقیقت یہ ہے کہ باپ اپنے بیٹے کی طرف دوڑا ، مُجھے یقین ہے ، یہ بہت معنی خیز ہے ۔ وہ ذاتی دُکھ جو کہ بیٹے نےاپنے باپ کو دیا تھا یقینا بہت گہرا اورشدید تھا۔. مزید،یقیننا باپ اپنے بیٹے کے اعمال سے پر شرمندہ ہُوا ہوگا۔.

پَس باپ نے اپنے بیٹے کا اِنتظار کیوں نہ کیا کہ وہ معافی مانگتا؟ اُس نے معافی اور محبت بڑھائے جانے سے پہلے صُلح اورتلافی کا اِنتظار کیوں نہیں کیا؟ یہ وہ چیز ہے جس پر مَیں نے نہایت غور کیا ہے۔

خُداوند ہمیں سِکھاتا ہے کہ دُوسروں کو معاف کرنا عالمگیر حُکم ہے : ”مَیں ، خُداوند ، جسے معاف کرُوں معاف کرُوں گا ، مگر تمھیں سب آدمیوں کو معاف کرنا لازم ہے۔ “ ۶ معاف کرنے کے لیے نہایت زیادہ ہمت اور فروتنی لازم ہوسکتی ہے ۔. اِس میں وقت بھی لگ سکتا ہے ۔ اِس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے دِلوں کی کیفیت کی جواب دہی کے طور پر خُداوند پر اپنا ایمان اور بھروسہ رکھیں۔ یہیں پر ہمارے اِرادےکی اہمیت اور قوت ہے۔

مُسرف بیٹے کی تمثیل میں اُس باپ کی شبیہہ کے ساتھ، نجات دہندہ نے تاکید کی کہ معافی اُن اعلیٰ ترین نعمتوں میں سے ایک ہے جو ہم ایک دُوسرے کو اور خاص طور پراپنے آپ کو دے سکتے ہیں۔ معافی کی بدولت اپنے دِلوں کا بوجھ ہلکا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ، مگر یِسُوع مسیح کی تقویت بخش قُدرت کے وسیلے سے ، ایسا ممکن ہے۔

خود کے ٹوٹے ہوئے حصے

اعمال ۳ باب میں ہم ایک ایسے شخص کی بابت سیکھتے ہیں جو لنگڑا پیدا ہُوا تھا اور ”جس کو وہ ہر روز ہیکل کے دروازہ پر بِٹھا دیتے تھے جو خُوب صُورت کہلاتاہے ، تاکہ ہیکل میں آنے جانے والوں سے بِھیک مانگے۔“ ۷

لنگڑے بِھکاری کی عُمر ۴۰ برس سے زیادہ تھی۸ اور وہ اپنی زیادہ تر زندگی بظاہر کبھی نہ ختم ہونے والی خواہش اور اِنتظار میں گُزار چُکا تھا ، پَس وہ دُوسروں کی فراخ دِلی پر انحصار کرتا تھا۔

ایک روز اُس نے دیکھا ”پطرس اور یُوحنا ہیکل میں جاتے ہیں[اور] اُن سے بِھیک مانگی۔

”جب پطرس اور یُوحنا نے اُس پر غور سے نظر کی تو پطرس نے کہا ہماری طرف دیکھ۔

”اور وہ اُن سے کُچھ مِلنے کی اُمید پر اُن کی طرف متوجہ ہُوا۔

”پھر پطرس نے کہا چاندی سونا میرے پاس نہیں، مگر جو میرے پاس ہے وہ تُجھے دے دیتا ہُوں۔یِسُوع مسِیح ناصری کے نام پر چل پھر۔

”اور اُس کا دہنا ہاتھ پکڑ کر، اُس کو اُٹھایا اور اُسی دم اُس کے پاوں اور ٹخنے مضبوط ہو گئے۔

”اور وہ کُود کر کھڑا ہُو گیا اور چلنے پھرنے لگا، اور کُودتا اور خُدا کی حمد کرتا ہُوا اُن کے ساتھ ہیکل میں گیا۔“ ۹

اکثر ہم خُود بھی اُس بِھکاری کی مانِند ، ہیکل کے دروازے پر ، صبر سے—یا بعض اوقات بے صبری سے—خُداوند کا اِنتظار کرتے [رہے ]رہتے ہیں ۔ “ ۱۰ جسمانی یا رُوحانی شفا پانے کے مُنتظر ہوتے ہیں۔ ایسے جوابات کے مُنتظر ہوتے ہیں جو کہ ہمارے دِلوں کی گہرائیوں میں اُتر جائیں۔ کسی معجزے کے مُنتظرہونا

خداوند کا انتظار کرنا ایک مقدس مقام ہو سکتا ہے—وہ مقام جو نجات دہندہ کو نہایت ذاتی طور پر جاننے میں ہمیں بہتر کرتا اور نِکھارتا ہے۔ خداوند کا انتظار کرنا ایسی جگہ بھی ہو سکتا ہے جہاں ہم خود سے یہ پوچھتے ہوئے پائے جاتے ہیں، ”اے خدا ، تو کہاں ہے؟“۱۱—ایسا مقام جہاں روحانی استقلال کا تقاضا ہے کہ ہم دانستہ طور پر بار بار اس کا انتخاب کرتے ہوئے مسیح پر ایمان کی مشق کریں مَیں اُس مقام کو جانتا ہُوں، اور مَیں اِس قسم کے اِنتظار کو سمجھتا ہُوں۔

مَیں نے کینسر کے علاج کی جگہ پر لاتعداد گھنٹے گُزارے ہیں ،جہاں پر دیگر لوگ جو شفا پانے کے لیے ترس رہے تھے، میرے ساتھ میری تکلیف میں مُتحد تھے۔ کُچھ زندہ ہیں اور دیگر نہیں۔ مَیں نے یہ بڑے پُختہ طریقے سے سیکھا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کااپنی آزمائشوں سے نِکلنے کا طریقہ مختلف ہے، پَس ہماری توجہ اُس طریقے پر کم اور ہمارے نجات دہندہ پر زیادہ ہونی چاہیے۔ ہماری اہمیت کا مرکز ہمیشہ یِسُوع مسِیح ہونا چاہیے!

مسِیح پر ایمان کا مطلب صرف خُدا کی مرضی پر بھروسہ کرنا نہیں بلکہ اُس کے وقت پر بھی۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ہمیں کب ضرورت ہے۔ جب ہم خداوند کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں، تو ہم بالآخر اس سے کہیں زیادہ پائیں گے جو ہم چاہتے تھے۔

میرے عزیز دوستو، ہم سب کو اپنی زندگی میں کہیں نہ کہیں کُچھ چیزوں کی اِصلاح، مرمت، یاشفا کی ضرورت ہوتی ہے۔ جُوں ہی ہم نجات دہندہ کی طرف رجُوع کرتے ہیں، تو ہم اپنے دِلوں اور خیالوں کو اُس کے ساتھ محفوظ رکھتے ہیں، جب ہم توبہ کرتے ہیں، تو وہ ”اپنے پَروں میں شفا کے ساتھ،“ہمارے پاس آتا ہے،۱۲ ہمیں محبت سےاپنے بازووں میں گھیر لیتاہے، اور کہتا ہے، ”سب ٹھیک ہے۔ آپ صرف ۵—یا ۱۶ ، ۲۳ ، ۴۸ ، ۶۴ ، ۹۱ ہیں۔ ”ہم اس کو باہم مل کر ٹھیک کر سکتے ہیں!

مَیں گواہی دیتی ہُوں کہ آپ کی زندگی میں کوئی بھی شکستہ چیزیِسُوع مسِیح کی مُخلصی، اور مُجازی قُدرت کی تصیح سے باہر نہیں ہے۔ یِسُوع مسِیح کے مُقدس اور پاک نام پر وہ جو شفا بخشنے میں قادر ہے،آمین۔