۲۰۱۰–۲۰۱۹
دیکھو اِبنِ آدم
اپریل ٢٠١٨


دیکھو اِبنِ آدم

درحقیقت جو اِبنِ خُدا کو دیکھنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں، وہ زندگی کی بہت بڑی بڑی خوشیوں کا راستہ اور حیات کی جان لیوا مایوسیوں کا مرہم ڈھونڈ لیتے ہیں۔

میرے پیارے بھائیو بہنو، اور عزیز دوستو۔ میں اس شان دار مجلسِ عامہ میں آپ کے ساتھ شامل ہونے کے لیے ممنون ہوں۔ ہیرئیٹ اور میں آپ کےساتھ مل کربزرگ گیرٹ گانگ اور بزرگ سوارس اور کئی بھائیوں اور بہنوں کو جنھیں اِس مجلسِ عامہ کے دوران میں اہم بُلاہٹیں عطا ہوئی ہیں،آپ کے ساتھ مل کر تائید کرتے ہوئے شادمان ہوتے ہیں۔

اگرچہ میں اپنے پیارے دوست صدر مانسن کی کمی محسوس کرتا ہوں، میں ہمارے نبی صدر رسل ایم نیلسن اور ان کے مشیروں کو پیار کرتا حمایت کرتا اور اُن کی تائید کرتا ہوں۔

میں شکرگزاری اور وقار محسوس کرتا ہوں کہ ایک بار پھر بارہ رسولوں کی جماعت کے بھائیوں کی قربت میں فرض نبھاتا ہوں۔

سب سے بڑھ کر میں انتہائی فروتن محسوس کرتا ہوں اور بہت خوش ہوں کہ میں کلیسیائے یِسوع مِسیح برائے مقدسین آخری ایام کا رُکن ہوں جہاں کروڑوں، مرد، عورتیں اور بچے،کسی بھی بلاہٹ یا ذمہ داری میں جہاں ہیں وہاں پر اُوپر اُٹھانے کے لیے تیار ہیں اور خُدا کی بادشاہی کی تعمیر کے لیے، پورے دل سے خُدا اور اُس کی اُمت کی خدمت میں کوشاں ہیں۔

آج مقدس دن ہے۔ آج ایسٹر سنڈے ہے، جب ہم اُس پُرجلال صبح کی یاد مناتے ہیں جب منجی نے موت کے بندھنوں کو توڑ ڈالا۱اور فتح کے ساتھ قبر سے باہر نکل آیا۔

تاریخ میں عظیم ترین دن

حال ہی میں میں نے انٹرنیٹ سے پوچھا، ”کون سے دِن نے دُنیا کی تاریخ کا رُخ بدلا؟“

جوابات حیران کُن اور عجیب ہونے سے لے کر ادراک اور فکر اَنگیزی تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان میں سے وہ دن جب ماقبل تاریخ شہابِ ثاقب یوکٹن نامی جزیرہ نُما سے ٹکرایا؛ یا جب ۱۴۴۰ میں جوہانس گُٹن برگ نے اپنے چھاپے خانہ کی تکمیل کی؛ اور بے شک اُس دن جب ۱۹۰۳ میں رائٹ برادرز نے دکھا دیا کہ انسان درحقیقت اُڑ سکتا ہے۔

اگر یہی سوال آپ سے کیا جائے تو آپ کیا جواب دو گے؟

میرے ذہن میں جواب واضح ہے۔

تاریخ میں سب سے اہم دن تلاش کرنے کے لیےہمیں تقریباً ۲۰۰۰ سال پہلے کی اُس شام گتسمنی باغ میں جانا ہو گاجب یِسوع مِسیح انتہائی پُرزور دُعا کے لیے گھٹنوں کے بل ہُوا اور اپنے آپ کو گناہوں کے کفارے کے لیے پیش کیا۔ روح اور جسم کے ناقابل موازنہ دکھ درد کی اس عظیم اور لامحدود قربانی کے وقت یِسوع مِسیح، یعنی خُدا کےہر مسام سے لہو بہا۔ کامل محبت کے نتیجے میں، اس نے سب کچھ دے دیا کہ ہم سب کچھ پا سکیں۔ اُس کی آفاقی قربانی، سمجھنے میں مشکل، صرف دِل اور دماغ کے محسوس کرنے کے لیے ہے، ہمیں شکرگزاری کے اس آفاقی قرض کی یاد دلاتی ہے جو ہمیں مِسیح کو اس کی الہی نعمت کے لیے ادا کرنا ہے۔

اس رات بعد میں یِسوع مذہبی اور سیاسی حکام کے سامنے لایا گیا جنھوں نے اس کا مُذاق اُڑایا، اسے پیٹا، اور اسے عبرت ناک موت کی سزا سُنائی۔ وہ تب تک صلیب پر جان کنی میں لٹکا رہا جب تک کہ ”تمام نہ ہوا۔“ ٢ اُس کا بے جان جسم مستعار لی گئی قبر میں رکھا گیا۔ پھر تیسرے دن کی صبح ، یِسوع مِسیح ، قادر مطلق خُدا کا بیٹا شان و شوکت، نُور، اور جاہ و جلال کی جی اُٹھی ہستی کی صورت میں بڑی حشمت کے ساتھ قبر میں سے باہر آیا۔

ہاں، تاریخ میں بہت سارے واقعات ہیں، جنھوں نے قوموں اور لوگوں کی تقدیر کو یکسر بدلا ہے۔ اگر اُن سب کو اکٹھا کرلیں تب بھی اُن کا موازنہ اس کی اہمیت سے نہیں ہوسکتا جو پہلے ایسٹر کی صبح کو رونما ہوا۔

وہ کیا ہے جو یِسوع مِسیح کی لامحدود قربانی اور جی اُٹھنے کو تاریخ کا سب سے اہم واقع بنا دیتا ہے—دُنیا کی جنگوں، وحشتوں،آفتوں اور زندگی بدل دینے والی سائنسی دریافتوں سے زیادہ پُراَثر؟

کیوں کہ یِسوع مِسیح کی بدولت، ہم دوبارہ جی سکتے ہیں

جواب دو ناقابل تسخیر مسئلوں میں چھپا ہے جن کا ہم سب سامنا کرتے ہیں۔

پہلا، ہم سب مرتے ہیں۔ آپ کتنے ہی نوجوان، خوبصورت، صحت مند اور احتیاط برتنے والے کیوں نہ ہوں ، ایک دن آپ کا جسم بے جان ہو جائے گا۔ دوست اور خاندان آپ کا ماتم کریں گے۔ لیکن وہ آپ کو واپس نہ لا سکیں گے۔

لیکن، یِسوع مِسیح کی وجہ سے،آپ کی موت عارضی ہوگی۔ ایک دن آپ کے جسم اور روح کا ملاپ ہو جائے گا۔ یہ جی اُٹھا جسم پھر موت کا مزہ نہ چکھے گا اور آپ درد اور جسمانی تکلیفوں سے،٣ آزاد، ابدیت سے ابدیت تک جائیں گے۔٤

یہ یِسوع مِسیح کی بدولت ہو گا، جس نے اپنی جان دے دی اور پھر اسے دوبارہ واپس بھی لے لیا۔

اُس نے یہ اُن سب کے لیے کیا جو اُس پر اِیمان لاتے ہیں۔

اُس نے یہ ان سب کے لیے کیا جو اس پر ایمان نہیں لاتے۔

حتیٰ کہ اُس نے یہ ان سب کے لیے بھی کیا جو اس کا مُذاق اُڑاتے، ٹھٹھے مارتے اور اس کے نام پر لعنت بھیجتے تھے۔٥

یِسوع مِسیح کی بدولت ہم دوبارہ خُدا کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

دوسرا، ہم سب نے گناہ کیا ہے۔ ہمارے گناہ ہمیں ہمیشہ خُدا سے دور رکھتے ہیں کیوں کہ کوئی ناپاک چیز اُس کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتی۔٦

نتیجتاً ہر مرد، عورت اور بچہ اُس کی حضوری سے بے دخل کر دیا گیا—جب تک کہ یِسوع مِسیح، بے عیب برّے نے اپنے آپ کو ہمارے گناہوں کے کفارے کے لیے پیش نہ کیا۔ چوں کہ یِسوع اِنصاف کا قرض دار نہ تھا۔ وہ ہر روح کے لیے، اِنصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے، ہمارا قرض ادا کرسکتا۔ اور اس میں آپ اور میں شامل ہیں۔

یِسوع مِسیح نے ہمارے گناہوں کی قیمت ادا کی۔

سارے گناہوں کی قیمت۔

تاریخ کے اُس اہم ترین دن کو یِسوع نے موت کے دروازے کھول دیے اور اُن رکاوٹوں کو ہٹا دیا جو ابدی زندگی کے پاک اور اقدس مقاموں تک پہنچنے سے روکتی تھیں۔ ہمارے خُداوند اور منجی کی بدولت آپ کو اور مجھے قیمتی اور نایاب تعمت سے نوازا گیا ہے—ہمارے ماضی سے قطع نظر، ہم توبہ کر کے اس راستے پر چل سکتے ہیں جو ٹیلیسٹیئل نُور اور جلال کی طرف جاتا ہے ،آسمانی باپ کے وفادار بچوں سے بھرا ہُوا ہے۔

ہم کیوں شادمان ہوتے ہیں

ایسٹر سنڈے پر یہی تو ہم مناتے ہیں— ہم زندگی کو مناتے ہیں۔

یِسوع مِسیح کی بدولت، ہم موت کی نااُمیدی سے نکلیں گے اور بے حد شادمانی اور بے پناہ شکر گزاری سے بہتے ہُوئے آنسوؤں کے ساتھ اُنھیں گلے لگائیں گے جنھیں ہم پیار کرتے ہیں۔ یِسوع مِسیح کی بدولت ہم لا تعداد دُنیاؤں میں ابدی ہستیوں کی صورت زندہ رہیں گے۔

یِسوع مِسیح کی وجہ سے، نہ صرف ہمارے گناہ مٹ جاتے ہیں بلکہ بُھلائے جا سکتے ہیں۔

ہم پاکیزہ اور سرفراز کیے جا سکتے ہیں۔

پاک

ہمارے پیارے منجی کی وجہ سے، ہم پانی کے اُس چشمے سے ہمیشہ کے لیے پی سکتے ہیں جو ابدی زندگی میں پھوٹتا ہے۔٧ ہم ہمیشہ کے لیے بے پناہ جلال اور کامل خوشی کے ساتھ، اپنے ابدی بادشاہ کے محلات میں رہ سکتے ہیں۔

کیا ہم اِبنِ خُدا پر غور کرتے ہیں

اس سب کے باوجود، دُنیا میں آج بہت سے ایسے ہیں جو شاید نہ جانتے ہوں یا پھر اس نعمت پر اِیمان نہ لاتے ہوں جو یِسوع مِسیح نے ہمیں عطا کی ہے۔ اُنھوں نے ہو سکتا ہے کہ یِسوع مِسیح کے بارے سُنا ہو اور اسے تاریخی کردار کے حوالے سے جانتے ہوں، لیکن وہ اسے ویسے نہیں دیکھتے جو وہ حقیقت میں ہے۔

جب میں اس کے بارے سوچتا ہوں تو مجھے نجات دہندہ کی یاد آتی ہے جب وہ اپنی موت سے چند گھنٹے پہلے،یہودیہ کے فرمانروا پنطوس پیلاطُس کے سامنے کھڑا تھا۔

پیلاطُس نے یِسوع کو دُنیاوی نقطہ نظر سے دیکھا۔ پیلاطُس کو فرض نبھانا تھا، اور دو بڑی ذمہ داریاں اِس میں شامل تھیں: روم کے لیے محصولات کی وصولی اور قیامِ اَمن۔ اب یہودیوں کی مجلس اس کے سامنے ایک آدمی کو لے آئی جس کے بارے میں اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ ان دونوں میں رکاوٹ بنتا تھا۔٨

قیدی کی تفتیش کے بعد ، پیلاطُس نے اعلان کیا “ میں اس میں کچھ قصور نہیں پاتاـ۔ـ٩ لیکن اس نے سوچا اسے یِسوع پر اِلزام لگانے والوں کو بھی مطمئن کرنا ہے ، لہذا پیلا طُس نے پُرانے دستور کو یاد دلایا جو عید فصح کے موقع پر ایک قیدی کی رہائی کی اجازت دیتا تھا کیا وہ بدنام زمانہ ڈاکو اور قاتل برابا کی بجائے یِسوع کی رہائی نہ چاہیں گے؟١٠

لیکن بپھرے ہوۓ ہجوم نے پیلاطُس سے مطالبہ کیا کہ برابا کو رہا کرے اور یِسوع کو صلیب پر چڑھائے۔

کیوں؟ پیلاطُس نے پوچھا، “۔ اس نے کیا بُرائی کی ہے؟

لیکن وہ اور زور سے چلائے، ”اسے صلیب دے!“ ١١

آخری بار کوشش کرتے ہُوئے پیلاطُس نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ یِسوع کو کوڑے لگائے جائیں ١٢ اُنھوں نے ایسا ہی کیا اور اسے زخمی کیا اور خون میں نہلا دیا۔ اُنھوں نے اس کا مُذاق اُڑایا،اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا اور اسے سرغوانی رنگ کا چوغہ پہنایا۔١٣

شایدپیلاطُس نے سوچا ہو کہ ایسا کرنے سے ہجوم کی خونی ہوس بُجھ جائے۔ شاید وہ اس پر ترس کھائیں۔ پیلاطُس نے کہا، ”دیکھو، میں اسے تمھارےسامنے لاتا ہوں تاکہ تم جانو کہ میں اس میں کوئی قصور نہیں پاتا۔ دیکھو یہ آدمی۔“١٤

خُدا کا مجسم بیٹا اہلِ یروشلم کے سامنے کھڑا تھا۔

وہ اسے دیکھ سکتے تھے، لیکن اُنھوں نے اصل میں اُسے نہ پہچانا۔

اُن کے پاس دیکھنے کے لیے آنکھیں نہ تھیں۔١٥

علامتی طور پر، ہم بھی ”اِس آدمی“ کو ”دیکھنے“ کے لیے بُلائے گئے ہیں۔ اُس کی بابت دُنیا میں مختلف آرا ہیں۔ قدیم اور جدید اَنبیا گواہی دیتے ہیں کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے۔ میں بھی یہ گواہی دیتا ہُوں۔ یہ لازمی اور ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی یہ بات ذاتی طور پر جان لے۔ پس جب آپ یِسوع مِسیح کی زندگی اور خدمت گزاری پر غور کرتے ہیں تو آپ کیا دیکھتے ہیں۔

درحقیقت جو اِبنِ خُدا کو دیکھنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں، وہ زندگی کی بہت بڑی بڑی خوشیوں کا راستہ اور حیات کی جان لیوا مایوسیوں کا مرہم ڈھونڈ لیتے ہیں۔

پس جب تم رنج اور الام کا سامنا کرو ، تو اِبنِ آدم کو دیکھو۔

جب تم خود کو اکیلے اور کھوئے ہوئے محسوس کرو، تو اِبنِ خُدا کو دیکھو۔

جب تم نااُمید، خالی،زخم خوردہ، یا شکست خوردہ محسوس کرو، تو اِبنِ آدم کی طرف دیکھو۔

وہ تمھیں تسلی دے گا۔

وہ تمھیں تسلی دے گا اور تمھارےسفر کو معانی عطا کرے گا۔ وہ اپنا رُوح اُنڈیلے گا اور آپ کےدلوں کو بہت خوشی عطا کرے گا۔١٦

وہ کمزوروں کو قوت اور جن میں ہمت نہیں ، اُنھیں مستعدی عطا کرتا ہے۔١٧

جب ہم سچے دل سے اِبنِ آدم کو دیکھتے ہیں، ہم اس کی بابت سیکھتے ہیں، اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالنے کی جستجو کرتے ہیں۔ ہم توبہ کرتے اور اپنے طور طریقوں کو بہتر بناتے اور ہر روز تھوڑا تھوڑا اس کے قریب ہونے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ ہمارا توکل اُس پر ہے۔ اس کے احکام مان کر اور اپنے مقدس عہود کے مطابق زندگی گزار کر ہم اسے اپنا پیار دکھاتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں ہم اس کے شاگرد بن جاتے ہیں۔

اُس کا پاک کرنے والا نُور ہماری جانوں کو بھر دیتا ہے۔ اس کا فضل ہماری اصلاح کرتا ہے۔ ہمارے بوجھ ہلکے ہو جاتے ہیں، ہم بے حد آرام پاتے ہیں۔ جب ہم سچے دِل سے اِبنِ خُدا کو دیکھتے ہیں تو ہم بابرکت مستقبل کا وعدہ پاتے ہیں، جو زندگی کے نشیب و فراز میں ہمیں تھام لیتا اور الہام بخشتا ہے۔ ماضی میں جھانکیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا، کہ الہی منصوبہ ہے اور کہ نقطے واقعی ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔١٨

جب آپ اس کی قربانی کو قبول کرتے ہیں، اس کے شاگرد بن جاتے ہیں اور بالآخر زمینی زندگی کے سفر کی تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر آپ کے غموں کا کیا ہو گا جو آپ نے اس زندگی میں برداشت کیے ہیں؟

وہ ختم ہو جائیں گے۔

مایوسیاں، ذھوکے، ایذارسانیاں جن کا آپ نے سامنا کیا ہے

ختم۔

اِیذائیں، درد دل ، پچھتاوا، شرمندگی، اور تکلیف جن سے آپ گزر چکے ہیں؟

ختم۔

یاد نہ آئے گی۔

کیا یہ اَچنبھے کی بات ہے کہ ” ہم مِسیح کی بات کرتے ہیں، مِسیح میں خوشی مناتے ہیں— تاکہ ہماری نسلیں جانیں کہ گناہوں کی معافی کے لیے کس سر چشمہ کی طرف جانا ہے؟“١٩

کیا یہ کوئی حیرت کی بات ہے کہ ہم سچے دل سے اِبنِ آدم پر نظر کرتے ہیں؟

میرے پیارے بھائیو اور بہنو، میں گواہی دیتا ہوں کہ نسل انسانی کی تاریخ میں سب سے اہم دن وہ تھا جب ، یِسوع مِسیح، خُدا کے بیٹے نے خدا کے تمام بچوں کی خاطر موت اور گناہ پر فتح پائی۔ اور آپ کی اور میری زندگی میں سب سے اہم دن وہ ہے جب ہم ”ِاِبنِ خُدا پر نظر“ کرنا سیکھتے ہیں، جب ہم اسے اپنے اصلی روپ میں؛ جب ہم پورے دل سے اور عقل سے اس کے کفارے کی طاقت میں شریک ہوتے ہیں؛ جب تجدیدِ عزم اور ہمت کے ساتھ ہم اُس کی پیروی کا فیصلہ کرتے ہیں۔ خدا کرے یہی وہ دن ہو جو ہماری زندگی میں بار بار آتا جائے۔

میں آپ کو برکت اور اپنی گواہی دیتا ہوں کہ جب ہم ”اِبنِ خُدا“ پر نظر کرتے ہیں تو اس زمینی زندگی میں معانی،شادمانی، اور تسلی پائیں گے جب کہ اَگلے جہاں میں اَبدی زندگی۔ یِسوع مِسیح کے مُقدس نام پر، آمین۔

حواشی

  1. دیکھئے مضایاہ ۱۸: ۲۱ ۔

  2. یوحنا ١٩: ٣٠۔

  3. دیکھئے ایلما ١١: ٤٥۔

  4. دیکھیں مکاشفہ ٢١: ٤۔

  5. دیکھئے ١ کرنتھیوں ١٥: ٢١–٢٣۔

  6. ٣نیفی ٢٧: ١٩۔

  7. دیکھئے یوحنا ٤: ١٤۔

  8. دیکھیں لوقا ٢٣: ٢۔

  9. یوحنا ١٨: ٣٨. یِسُوع کی عدالت نہ کرنے کی وجہ سے، پیلاطُس کوشش کرتا ہے کہ یہ مقدمہ ہیرودیس انتیپاس کی طرف منتقل کر دیا جائے۔ ہیرودیس جس نے یوحنا بپتسمہ دینے والی کی موت کا حکم دیا تھا(دیکھیے متی ١٤: ٦–١١)، اگر یِسُوع کو مجرم قرار دے دیتا تو پیلاطُس فیصلے کی فرضی مُہر ثبت کرتا اور یہ دعویٰ کرتا کہ یہ معمولی سا مقامی مسئلہ ہے اور اَمن وامان کی خاطر وہ اِس فیصلے سے مُتفق ہوتا،(دیکھیے متی ١٤: ٦–١١ )۔ مگر یِسُوع نے ہیرودیس کے سامنے ایک لفظ بھی نہ کہا (دیکھیے لوقا ٢٣: ٦–١٢)،اور ہیرودیس نے اُس کو پیلاطُس کے پاس واپس بھیج دیا۔

  10. دیکھیے مرقس ١٥: ٦–٧؛ یوحنا ١٨ :٣٩–٤٠۔ عہدِ جدید کا ایک عالم لکھتا ہے، ”ایسا لگتا ہے کہ ایسی کوئی رسم تھی، کہ عیدِ فسح کے موقع پر رومی صوبہ دار یہودیوں کے واسطے کسی بدنامِ زمانہ سزائے موت یافتہ قیدی کو آزاد کر دیا کرتا تھا“ (الفریڈ ایڈرشیم،, یِسُوع اَلمِسیح کا زمانہ اور زندگی [١٨٩٩]، ٢: ٥٧٦)۔ برابا نام کا مطلب ”باپ کا بیٹا“ ہے۔ اَہلِ یروشلم کو اِن دو مَردوں میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اِختیار دینا حیرت خیز ستم ظریفی ہے۔

  11. دیکھیے مرقس ١٥: ١١–١٤۔

  12. کوڑوں کی یہ مار اِتنی بھیانک تھی کہ اِس کو”نیم موت“ کہا جاتا تھا (ایڈرشیم، یِسُوع اَلمِسیح، ٢: ٥٧٩)۔

  13. دیکھیں متی ١٩: ١–٣۔

  14. یوحنا ١٩: ٤–٥۔

  15. شروع میں ہی یِسُوع نے محسوس کیا کہ ”اِس اُمت کے دل پر چربی چھا گئی ہے، اور وہ کانوں سے اُونچا سُنتے ہیں، اور اُنھوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں؛ تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے وہ معلوم کریں اور کانوں سے سُنیں اور دل سے سمجھیں، رُجوع لائیں، اور میں اُن کو شفا بخشوں۔“ اور شفقت کے ساتھ اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”لیکن مبارک ہیں تمھاری آنکھیں اِس لیے کہ وہ دیکھتی ہیں اور تمھارے کان اِس لیے کہ وہ سُنتے ہیں“ (متی ١٣: ١٥–١٦)۔ کیا ہم اپنے دل سخت کریں گے، یا اپنی آنکھیں اور دل کھولیں گے تاکہ ہم واقعی اِبنِ خُدا کو پہچانیں؟

  16. دیکھئے مضایاہ ۱۸: ۲۱ ۔

  17. دیکھیں یسعیاہ ٤٠: ٢٩ ۔

  18. دیکھیےڈیٹر ایف اکڈورف، ”فانی زندگی کی مہم جوئی“ (بین الاقوامی نوجوان بالغوں سے وعظ، ١٤ جنوری ٢٠١٨)، broadcasts.lds.org.

  19. ٢ نیفی ٢٥: ٢٦ ۔