۲۰۱۰–۲۰۱۹
سات دفعہ کے ستر بار
اپریل ٢٠١٨


سات دفعہ کے ستر بار

زندگی کا سفر ٹھوکر کھانے والے پتھروں اور خامیوں سے بھرا ہے، بار بار ملنے والے مواقوں کے لیے ہم سب شکر گزار ہیں۔

خطائیں زندگی کی حقیقت ہیں۔ مہارت سے پیانو بجانا سیکھنا ہزاروں غلطیاں کرنے کے بغیر قطعاً ممکن نہیں—حتیٰ کہ لاکھوں۔ کسی غیر ملکی زبان کو سیکھنے کے لیے، ہزاروں غلطیاں سرزد ہونے کی پریشانی سے دوچار ہونا پڑتا ہے—حتیٰ کہ لاکھوں۔ حتیٰ کہ دُنیا کے بڑے بڑے کھلاڑی کبھی غلطیوں سے مُبرا نہیں ہُوئے۔

کہاوت ہے کہ کامیابی ناکامی کی غیر موجودگی کا نام نہیں بلکہ ہمت ہارے بغیر ایک ناکامی سے دوسری ناکامی کی طرف بڑھنے کا نام ہے۔“١

کہا جاتا ہے کہ روشنی کے بلب کی ایجاد پر تھامس ایڈیسن نے کہا ’’میں ایک ہزار بار ناکام نہیں ہوا۔ روشنی کے بلب کی ایجاد کے لیے ہزار اقدام ضروری تھے۔ ۲ سی ایس لوئیس نے ناکامیوں کو ’’کامیابی کی جانب اشارہ کرنے والے راہ نما نشان کا نام دیا‘‘۳ اُمید ہے کہ ہماری ہرغلطی ہمارے لیے سبق آموز ثابت ہو، جو ٹھوکر کھانے والے پتھروں کو قدم جمانے والے پتھروں میں بدل دے۔

پُختہ اِیمان کی مدد سے نیفی ناکافی پر ناکامی سہتا رہا جب تک اُس نے پیتل کے اَوراق حاصل نہ کر لیے۔ دس بار کوشش کرنے کے بعد موسیٰ کو کامیابی نصیب ہوئی کہ وہ اِسرائیلیوں کو اپنے ساتھ مصر سے نکال لایا۔

شاید ہم حیران ہوں—اگر نیفی اور موسیٰ کارِ خُداوند پر مامور تھے تو خُداوند نے اُن کی پہلی جسارت میں آگے بڑھ کر مدد فراہم کر کے اُنھیں کامیابی کیوں نہ بخشی؟ اُس نے اُن کے ساتھ ایسا کیوں ہونے دیا–وہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہونے دیتا ہے–کہ کامیاب ہونے کے لیے ہم ٹھوکریں کھاتےاور اپنی کوششوں میں ناکام ہوتے ہیں؟ اِس سوال کے کئی اہم جواب ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

  • پہلا، خُداوند جانتا ہے کہ ’’یہ چیزیں [ہمیں] تجربہ دیں گی اور [ہمارے] بھلےکے لیے ہوں گی۔‘‘۴

  • دوسرا، ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ’’کڑوا چکھیں تا کہ [ہم] اچھے کو گراں قدر جانیں۔‘‘۵

  • تیسرا، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ’’جنگ تو خُداوند کی ہے،٦ اور یہ صرف اُس کے فضل کے سبب ہے کہ ہم خُداوند کا فرض نبھا سکیں اور اُس کی مانند بنیں۔۷

  • چوتھا، ہماری مدد کرنا کہ بہت ساری مِسیح جیسی صفات کو اپنائیں اور دقیق و لطیف بنائیں مخالفت٨ اور ”مصیبت کی کھٹالی“ میں سے گُزرے بغیر پاکیزہ و پُختہ نہیں ہو سکتیں۔٩

زندگی کا سفر ٹھوکر کھانے والے پتھروں اور خامیوں سے بھرا ہے، اِس لیے، بار بار ملنے والے مواقوں کے لیے ہم سب شکر گزار ہیں۔

۱۹۷۰ میں بی وائے یو میں اپنے پہلے برس کے دوران میں فزکس کے بُنیادی اُصولوں کا کورس شروع کیا، جسے نہایت قابل پروفیسرجے بیلیف پڑھاتے تھے۔ کورس کے ہر سبق کے اختتام پر وہ امتحان لیا کرتے تھے۔ اگر کسی طالبِ علم کا سی گریڈ آتا تو پروفیسر بیلیف اُسی مواد پر مبنی متبادل امتحان لینے کی اجازت دیتے تھے۔ اگر طالبِ علم دوسری کوشش پر بی گریڈ لیتا اور پھر بھی غیر مطمعئن ہوتا تو وہ اُسے تیسری اور چھوتھی بار امتحان لینے دیتے، اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا۔ متعدد نئے مواقعے فراہم کرتے ہُوئے اُنھوں نے سیکھنے میں میری مدد کی اور بلاخر اُن کی کلاس میں اے گریڈ حاصل کر لیا۔

شبیہ
پروفیسر جے۔ بیلیف

وہ غیر معمولی دانش ور پروفیسر تھے جو اپنے طالبِ علموں کو جہدِ مُسلسل کی تحریک دیتے تھے—ناکامی کو المیہ نہیں بلکہ اتالیق سمجھنا، اور ناکامی سے خوف نہ کھانا بلکہ اُس سے سبق حاصل کرنا۔

فزکس کے کورس کی تحصیل کے ۴۷ برس بعد میں نے حال ہی میں اس مدبر شخص کو فون کیا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ وہ شاگردوں کو اپنے اپنے گریڈ بہتر کرنے کی لامحدود کوششیں فراہم کرنے کے واسطےراضی کیوں ہو جاتے تھے۔ اُنھوں نے جواب دیا: ’’میں چاہتا تھا کہ طالب عملوں کی طرف داری کروں۔‘‘

جب ذہنی فتور یا غلطیوں کے لیے ہم بار بار ملنے والے مواقعوں کے لیے شکرگزار ہیں، اِس کے ساتھ،ہم نجات دہندہ کے فضل پرہر حال میں حیران و شُشدر رہ جاتے ہیں جوہمارے دل کی خرابیوں یا گناہوں پر غالب آنے کے لیے بار بارمواقعے عطا کرتا ہے۔

نجات دہندہ جتنی ہماری طرف داری کرتا ہے کوئی اور نہیں کر سکتا۔ وہچاہتا ہے کہ ہم بار بار اُس کی مدد حاصل کرتے رہیں۔ خُداوند کی مانند بننے کے لیے ان گنت بار بار مواقعوں کی ضرورت ہوگی، فطری اِنسان ہوتے ہُوئے اپنی روز مرہ کی کاوِشیں، جیسے کہ اِشتہا پر قابو پانا، صبر اور معانی کی تلقین پانا، سُستی و کاہلی پر غالب آنا، اور غفلتِ فرائض کے گناہوں سے بچنا، فقط چند مثالیں ہیں۔ اگر خطا کرنا انسانی فطرت ہے تو پھر کتنی غلطیوں کے بعد ہماری فطرت اِنسانی سے الہی بن سکتی ہے؟ ہزاروں؟ لگتا ہے لاکھوں۔

جانتے ہوئے کہ سکڑا اور تنگ راستہ مشکلات سے بھرا ہو گا اور ناکامیاں ہمارے لیے روز مرہ کی بات ہوگی، اس لیے ہمیں اپنے فانی امتحان میں کامیاب کرانے کے لیے نجات دہندہ نے لامتناہی قیمت ادا کی ہے تاکہ ہم جتنے بھی مواقعوں کی ضرورت ہو حاصل کر سکیں۔ عداوت جس کی وہ منظور دیتا ہے بعض اوقات قابو پانا اور اکثر برداشت کرنا ممکن نہیں لگتا، تاہم وہ ہمیں نااُمید نہیں چھوڑتا۔

زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے ہماری اُمید کو قوی رکھنے کے لیے نجات دہندہ کا فضل ہمیشہ موجود اور ہمیشہ تیار ہے۔ اُس کا فضل’’الہی مدد اور قوت کا وسیلہ ہے، … تقویت بخش قدرت، جومردوں اور عورتوں کو اس قابل بناتی ہے کہ اپنی ہر ممکن مؤثر کوشش کرنے کے بعد ابدی زندگی اور سرفرازی کو تھامیں رکھیں۔“۱۰ اُس کا فضل اور اُس کی پیار بھری نظر ہر وقت سکڑے اور تنگ راستے پر لڑکھڑاتے ہوئے اپنے لوگوں پر پورے سفر میں جمی رہتی ہے، جب وہ ہمیں تحریک بخشتا، بوجھ ہلکے کرتا، مضبوطی عطا کرنا، بچاتا، محفوظ رکھتا، شفا دیتا اور ہر طریقے سے اپنے لوگوں کی مدد کرتا ہے‘‘۱۱

توبہ خُدا کی ہمہ وقت قابلِ رساں نعمت ہےجو ایک ناکامی سے دوسری ناکامی کی طرف بِنا ہمت ہارے آگے بڑھنے کا وسیلہ فراہم کرتی ہے۔ توبہ ، ہماری ناکامی کی صورت میں اُس کا متبادل منصوبہ نہیں ہے۔ جانتے ہُوئے کہ ہم ناکام ہوں گے اِس لیے توبہ اُس کا منصوبہ ہے۔ جیسا صدر رسل ایم۔ نیلسن نے بیان کیا ہے کہ یہ توبہ کی اِنجیل ہے، یہ ’’نصابِ تاحیات ‘‘ ہوگا۔۱۲

توبہ کے اِس نصابِ تاحیات میں، خُداوند نے اپنی معافی بخشنے کی نعمت تک رسائی کے لیے عشائے ربانی کو جاری و ساری وسیلہ مقرر کیا ہے۔ اگر ہم پشیمان دل اور شکستہ روح کے ساتھ اس میں شریک ہوتے ہیں تو وہ ہمیں ہر ہفتے معافی بخشتا ہے جب ہم عہد کے راستے ہر چلتے ہُوئے ایک ناکامی سے دوسری ناکامی کی طرف بڑھتے ہیں۔ پس، ’’اُن کے گناہوں کے باوجود میرا دل اُن کے لیے رحم سے بھرا ہے۔‘‘۱۳

لیکن اصل میں وہ ہمیں کتنی بار معاف کرے گا؟ اُس کی برداشت کہاں تک ہے؟ ایک بار پطرس نے نجات دہندہ دے پوچھا ’’اے خُداوند اگر میرا بھائی میرا گناہ کرتا رہے تو میں کتنی دفعہ اُسے معاف کروں؟ کیا سات بار تک؟‘‘۱۴

شبیہ
پطرس اور یسوع

فرض کریں، پطرس نے سوچا ہو کہ سات دفعہ قصور معاف کرنا بہت بڑی بات ہے اور مہربانی کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ جواب میں نجات دہندہ نے بنیادی طور پر پطرس کو یہ بتایا کہ وہ گنتی کا نہ سوچے—معافی پر حدیں مقرر نہ کرے۔

’’یِسُوع نے اُس سے کہا میں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار، بلکہ سات دفعہ کے ستر بار تک‘‘۱۵

صاف ظاہر ہے کہ نجات دہندہ نے یہ حد بڑھا کر ۴۹۰ نہیں کی۔ یہ کہنا ایسا ہی ہو گا کہ عشائے ربانی صرف ۴۹۰ دفعہ ہی لی جا سکتی ہے اور ۴۹۱ ویں بارآسمانی حساب رکھنے والا دخل اندازی کرتا اور کہتا ہے ’’بڑے افسوس سے آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ آپ کی توبہ کے کارڈ کی معیاد ختم ہو گئی ہے—اب سے آپ تنہا ہی اپنی جنگ لڑیں گے‘‘

خُداوند نے سات بار کے ستر دفعہ کے حساب کا اِستعمارہ اپنے لا محدود کفارے، اپنی بے پناہ محبت اور اپنے بے حد فضل، کے لیے استعمال کیا۔ ’’ہاں جتنی بار بھی میرے لوگ توبہ کریں گے میں اپنے خلاف اُن کی خطائیں معاف کروں گا ‘‘۱۶

اس کا یہ مطلب نہیں کہ عشائے ربانی گناہ کرنے کا اجازت نامہ ہے۔ یہی ایک وجہ ہے کہ خُداوند نے مرونی کی کتاب میں یہ حوالہ شامل کیا: ’’لیکن جتنی بار بھی اُنھوں نے توبہ کی اور سچی نیت سے، معافی کے طالب ہوئے، اُنھیں معاف کیا گیا۔‘‘۱۷

سچی نیت کا اِطلاق حقیقی کوشش کے ساتھاور سچی تبدیلی سے ہوتا.ہے۔ ’راہ نمائے صحائف میں توبہ کی تعریف بتاتے ہوئے لفظ ’تبدیلی‘‘ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ توبہ: ”ذہن اور دل کی ایسی تبدیلی جو خُدا کی جانب، اپنی ذات اور عمومی زندگی کے لیے نئے روئیے کو جنم دیتی ہے۔“۱۸ اِس قسم کی تبدیلی کا نتیجہ روحانی ترقی ہوتا ہے۔ ہماری کامیابی ایک ناکامی سے دوسری ناکامی کی طرف جانا نہیں بلکہ، سبق سیکھنا ایک ناکامی سے دوسری ناکامی تک بِنا کسی قسم کی ہمت ہارے۔

تبدیلی کے حوالے سے اِس سیدھے سادھے سے جملے پر توجہ دیں: ”وہ چیزیں جو تبدیل نہیں ہوتیں جوں کی توں رہتی ہیں۔“ یہ سیدھی سادھی بات کہنے کا مقصد آپ کی فراست کی تحقیر کرنا نہیں ہے بلکہ یہ صدر بوائڈ کے۔ پیکر کی جانب سے گہری حکمت کی بات ہے جنھوں نے مزید کہا، ’’اور جب ہم تبدیل ہونا ترک کر دیتے ہیں—تو ہم ختم ہو جاتے ہیں‘‘۱۹

چوں کہ ہم اُس وقت تک ختم نہیں ہونا چاہتے جب تک ہم نجات دہندہ کی مانند نہیں بن جاتے اس لیے ضروری ہے کہ ہر بار گرنے کے بعد ہم اپنی کمزوریوں کے باوجود آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے جذبے کے ساتھ پھر سے اُٹھ کھڑے ہوں۔۲۰ ہماری کمزوری میں وہ ہمیں یقین دلاتا ہے، ’’میرا فضل تمھارے لیے کافی ہے: کیوں کہ کمزوری میری قوت سے کامل ہوتی ہے۔‘‘۲۱

جسمانی نشوونماکو وقت کے وقفے وقفے پر محیط کھینچی ہوئی تصاویر یا نشوونما کے گراف میں ہی دیکھا جا سکتا ہے، اسی طرح ہماری روحانی نشوونما بھی عام طور پر نظر نہیں آتی جب تک اسے وقت کے آئینے میں پیچھے مُڑ کر نہ دیکھا جائے۔ دانش مندی یہ ہو گی کہ اُسی آئینے میں باقائدگی سے اپنی چانچ کی جائے تا کہ ہم اپنی نشوونما کی نشان دہی کر سکیں اور ”اُمید کی کامل تجلی لے کر مِسیح میں ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھیں۔“٢٢

میں اپنے آسمانی والدین اور نجات دہندہ کی محبت بھری شفقت، صبر اور آخر تک برداشت کے لیے شکر گزار ہوں جو اپنی حضوری میں واپس آنے کی راہ میں ہمیں لاتعداد نئے مواقعے فراہم کرتے ہیں۔ یِسُوع مِسیح کے نام سے، آمین۔