۲۰۱۰–۲۰۱۹
مزید ایک دِن
اپریل ٢٠١٨


مزید ایک دِن

ہمارے پاس زندہ رہنے کے لیے ”آج“ کا دن ہے، اور اپنے اِس دن کو کامیاب بنانے کی کنجی قربانی کے لیے تیار رہنا ہے۔

چند برس قبل، میرے دوست کے ہاں بہت پیارا بچہ پیدا ہوا، جس کا نام برگھم رکھا گیا۔ برگھم کی پیدایش کے بعد اُسے ایک عجیب و غریب بیماری لاحق ہوئی جسے ہنٹر سینڈرم کہتے ہیں، جس کا مطلب یہ تھا کہ برگھم کی زندگی مختصر ہو گی۔ ایک دن جب برگھم اور اُس کا خاندان ہیکل کے احاطہ میں گئے ہوئے تھے، برگھم نے یہ پُرمعنی جملہ دو مرتبہ دہرایا، اُس نے کہا، ”مزید ایک دن۔“ اُس سے اگلے دن برگھم چل بسا۔

شبیہ
برگھم
شبیہ
برگھم کا خاندان
شبیہ
برگھم کی قبر

میں چند بار برگھم کی قبر پر گیا ہوں، اور جب بھی میں جاتا ہوں تو میں اِس جملے پر غور کرتا ہوں ”مزید ایک دن۔‘‘ میری زندگی پر اِس کا کیا اَثر ہوگا اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میں صرف ایک دِن اور جیوں گا، یہ سوچ کر میں سوچ میں پڑ جاتا ہُوں۔ میں اپنی بیوی بچوں اور دوسروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کروں گا؟ میں کتنا صابر اور نرم مزاج ہوں گا؟ میں کیسے اپنے جسم کی حفاظت کروں گا؟ میں کس جوش و جذبے سے صحائف کا مطالعہ اور دُعا کروں گا؟ میں سوچتا ہوں کہ کسی نہ کسی طرح، کسی نہ کسی مرحلے پر ہم سب”مزید ایک دِن“ کا احساس پائیں گے—خاص طور پر اپنے اپنے وقت کو دانش مندی سے اِستعمال کرنے کا احساس۔

پرانے عہد نامے میں ہم حزقیاہ کی کہانی پڑھتے ہیں، جو یہوداہ کا بادشاہ تھا۔ یسعیاہ نبی نے حزقیاہ کو یہ اعلان کیا کہ حزقیاہ کی زندگی ختم ہونے کو ہے۔ جب اُس نے نبی کے یہ الفاظ سُنے، تو حزقیاہ دُعا کرنے لگا، منت کی اور زار زار رویا۔ اُس موقع پر ، یہواہ نے حزقیاہ کی زندگی میں ۱۵ سال کا اضافہ کیا۔ دیکھیں یسیعاہ ۳۸: ۱-۵۔

اگر ہمیں یہ بتا دیا گیا ہوتا کہ زندہ رہنے کے لیے ہمارے پاس بہت تھوڑے دن تھے، تو ہم بھی زیادہ دنوں کے لیے منت کرتے، اُن چیزوں کے لیے جو ہمیں کرنا تھیں یا اُنھیں مختلف طریقے سے کیا جانا چاہیے تھا۔

وقت سے قطعہ نظر، خداوند اپنی حکمت سے ہم میں سے ہر ایک کو نوازنے کے لیے پُر عزم رہتا ہے، اُس میں سے ایک نعمت کا ہمیں یقین ہو سکتا ہے: ہمارے پاس زندہ رہنے کے لیے”آج کا دن“ ہے، اور اپنے اِس دن کو کامیاب بنانے کی کنجی قربانی کے لیے تیار رہنا ہے۔

خُداوند نے فرمایا، ”دیکھو، بُلاہٹ اب عطا کی گئی ہے آج سے لے کر اِبنِ آدم کی آمد تک اور درحقیقت یہ قربانی کا دن ہے“ (عق و عہ ۶۴: ۲۳؛ تاکید شامل کی گئی)۔

لفظ قربانی لاطینی زبان سے ماخوذ ہے ساکر،sacer جس کے معانی “مقدس،” اور فاسرے،facere جس کے معانی ”بنانا“—دوسرے لفظوں میں چیزوں کو مقدس بنانا، اُن کی تقدیس کرنا۔

”قربانی آسمان کی برکات لاتی ہے“ (”اِبنِ آدم کی تعریف ہو،“ گیت نمبر ۲۷)۔

قربانی کن طریقوں سے ہمارے دنوں کو بابرکت اور بامعنی بناتی ہے؟

اَوّل، شخصی قربانی ہمیں قوت بخشتی ہے اور جن کاموں کے لیے قربانی دی جاتی ہے اُنھیں اہمیت دی جاتی ہے۔

چند برس قبل، روزہ کے اتوار کو ایک اُدھیڑ عمر بہن ، جنھیں ہم جانتے نہ تھے ،عبادت خانے میں اپنی گواہی دینے کے لیے آئیں۔ اُنھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ پیرو ایمیزون کے شہر ، اِقیوٹس میں رہتی ہیں۔ اُنھوں نے ہمیں بتایا کہ اپنے بپتسمہ کے وقت سے ہی اُس نے لیما، پیرو کی ہیکل میں اپنے عہود پانے کا اِرادہ کیا تھا۔ اُنھوں نے پوری اِیمان داری سے دہ یکی دی اور اپنی معمولی آمدن میں سے کئی برس تک بچاتی رہیں۔

ہیکل جانے اور پاک عہود پانے کی خوشی کو اُس نے ان الفاظ میں بیان کیا:”آج بلاخر میں خُدا کے مطابق اُس پردے سے گزرنے کے لیے خود کو اہل پاتی ہوں۔ میں دنیا کی سب سے پر مسرت خاتون ہوں؛ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہیکل میں جانے کے لیے میں نے کتنے عرصے تک پیسے جمع کیے ہیں، اور ۷ دنوں تک دریائی سفر کرنے اور ۱۸ گھنٹے بذریعہ بس سفر کرنے کے بعد بلاخر میں خُدا کے گھر میں ہوں۔ اُس مقدس جگہ کو چھوڑتے ہوئے، میں نے خود سے کہا، ہیکل میں آنے کے لیے ان تمام قربانیوں کے بعد، میں کسی بھی اقدام کو خود پر حاوی نہ ہونے دوں گی جو مجھے ہیکل کے ان تمام عہود میں سے کسی ایک کو معمولی سمجھنے پر مجبور کرے؛ ورنہ سب ضائع ہو جائےگا۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ عہد ہے!“

میں نے اُس پیاری بہن سے یہ سیکھا کہ شخصی قربانی اَن مول قوت ہے جو ہمارے فیصلوں اور اِرادوں کا محرک ہوتی ہے۔ شخصی قربانی ہمارے اعمال، اور ہمارےعہد و پیمان کو تحریک دیتی ہے اور مقدس فریضوں کو معانی بخشتی ہے۔

دوئم، جو قربانی ہم دوسروں کے لیے اور جو دوسرے لوگ ہمارے لیے کرتے ہیں، سب کے لیے برکت کا باعث بنتی ہے۔

جب میں میڈیکل کالج میں طالب علم تھا، تو ہماری علاقائی معیشت اِتنی حوصلہ افزا نہ تھی۔ افراطِ زر کی بدولت روز بہ روز کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہو رہی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ جب مجھے جراحی کی عملی مشق کے لیے داخلہ لینا تھا تو سمسٹر کے آغاز سے قبل میرے پاس الاتِ جراحی ہونا ضروری تھے۔ میرے والدین نے ضروری رقم بچا کر رکھی تھی۔ مگر ایک رات ڈرامائی واقعہ ہوا۔ جب ہم الات خریدنے گئے تو ہمیں پتہ چلا کہ جو رقم میرے والدین نے تمام الات خریدنے کے لیے رکھی تھی اب اُس سے صرف جراحی چمٹیوں کی محض ایک جوڑی خریدی جا سکتی تھی—اور کچھ نہیں۔ ہم خالی ہاتھوں اور بُجھے دلوں، اور اِس سوچ کے ساتھ واپس لوٹ آئے کہ میرے کالج کا یہ سمسٹر ضائع ہو جائے گا۔ اچانک، میری ماں نے کہا، ”ٹیلر، میرے ساتھ چلو، آؤ باہر چلیں۔“

ہم شہر کے اُس حصے میں پہنچے جہاں زیورات کی خرید و فروخت کی بہت سی دُکانیں تھیں۔ جب ہم ایک دُکان پر پہنچے،میری ماں نے اپنے پرس میں سے نیلا ویلوٹ کا چھوٹا بیگ نکلا جس میں سونے کا بریسلٹ تھا اور اُس پر یہ الفاظ کندہ تھے، ”میری پیاری بیٹی کے لیے ، تمھارے باپ کی طرف سے۔“ یہ بریسلٹ میرے نانا نے میری ماں کو اُن کی سالگرہ پر تحفے میں دیا تھا۔ پھر، میری آنکھوں کے سامنے، اُنھوں نے اُسے بیچ دیا۔

جب انھوں نے پیسے وصول کئے، انھوں نے مجھے بتاہا، ”اگر مجھے کسی ایک بات کا یقین ہے تو وہ یہ کہ تم دانتوں کے ڈاکٹر بنو گے۔ جاؤ اور وہ تمام الات خریدو جس کی تمھیں ضرورت ہے۔“ اب، آپ یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ میں اُس لمحے کے بعد کیسا طالب علم بن گیا؟ میں سب سے زیادہ بہترین بننا اور اپنی پڑھائی جلدی ختم کرنا چاہتا تھا کیوں کہ میں اُس قربانی کی بڑی قیمت سے واقف تھا جو اُنھوں نے ادا کی تھی۔

میں نے یہ سیکھا کہ ہمارے عزیزجو قربانیاں ہمارے لیے دیتے ہیں، صحرا میں ٹھنڈے پانی کی طرح ہیں جو ہمیں تر و تازہ کر دیتی ہیں۔ ایسی قربانی اُمید اور عزم کا سبب ہوتی ہے۔

سوئم، ہماری کوئی بھی قربانی خُدا کے بیٹے کی قربانی کے سامنے بہت چھوٹی ہے۔

خُدا کے بیٹے کی قربانی کے سامنے کسی پسندیدہ سونے کے بریسلیٹ کی کیا حیثیت ہے؟ ہم اِس لا محدود قربانی کی کیسے قدر کر سکتے ہیں؟ ہم ہر روز یہ یاد کر سکتے ہیں کہ ہمارے پاس زندہ رہنے اور اِیمان دار بننے کے لیے مزید ایک دِن ہے۔ اَمیولک نے سکھایا، ہاں، ”میں چاہتا ہوں؛ تم آؤ اور اپنے دلوں کو مزید سخت نہ کرو؛ کیوں کہ دیکھو، تمھاری نجات کا وقت اور دِن اب ہے ؛اور اِس لیے اگر تم توبہ کرو گے اور اپنے دِلوں کو سخت نہ کرو گے تو فی الفور مُخلصی کا عظیم منصوبہ تمھاری طرف لایا جائے گا“ (ایلما ۳۴: ۳۱)۔ دوسرے لفظوں میں، اگر ہم خُداوند کو شکستہ دل اور پشیمان رُوح کی قربانی دیتے ہیں، تو فی الفور خوشی کے منصوبہ کی برکات ہماری زندگیوں میں بخش دی جاتی ہیں۔

یِسُوع مِسیح کی قربانی کے صدقے نجات کا منصوبہ ممکن ہوا۔ جیسا کہ اُس نے خود فرمایا، وہ قربانی ”جس نے مجھے، حتیٰ کہ خُدا، سب سے عظیم کو، درد سے لرزا دیا، اورہر مسام سے خون بہہ نکلا، اور رُوح اور جسم دونوں کو دُکھ اُٹھانا پڑا،—اور چاہا کہ میں یہ کڑوا پیالہ نہ پیوں، اورپیچھے ہٹوں“ (عق و عہ ۱۹: ۱۸

اور یہ اِسی قربانی کی بدولت ہے کہ، سچی توبہ کے عمل کی پیروی کرکے ہم اپنی غلطیوں اور اپنے گناہوں کے بوجھ کو ہلکا ہوتا ہُوا محسوس کر سکتے ہیں۔ درحقیقت، پچھتاوا، شرم، افسوس، اور خود سے نفرت کی جگہ صاف ضمیر، خوشی، مسرت اور اُمید لے لیتے ہیں۔

اسی اِثنا میں، جب ہم اُس کی قربانی کی قدر کرتے اور اُس کے لیے شکر گزار ہوتے ہیں،ہم یہ شدید آرزو پا سکتے ہیں کہ خُدا کے بہتر بچے بنیں، گناہوں سے دُور رہیں اور عہود کی پاس داری ایسے کریں جیسے پہلے کبھی نہیں کی۔

پھر انوس کی طرح، اپنے گناہوں کی معافی پانے کے بعد ، ہم خود کو قربان کرنے اور اپنے بہن بھائیوں کی بھلائی کے مُشتاق ہوں گے (دیکھیے اَنوس ۱: ۹)۔ اور بھر ہم صدر ہاورڈ ڈبلیو ہنٹر کی اُس دعوت کی تقلید کرنے کے لیے ہر ”مزید ایک دن“ کے لیے اور زیادہ رضامند ہوں گے جب اُنھوں نے فرمایا:”جھگڑا ختم کریں۔ کسی بھولے بسرے دوست کو تلاش کریں۔ شک کو دور کریں اور اِسے بھروسے سے تبدیل کر دیں۔ … نرمی سے جواب دیں۔ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنی وفاداری کو کلام اور اعمال سے ظاہر کریں۔ وعدہ نبھائے۔ دشمنی کو ختم کریں۔ دشمن کو معاف کریں۔ معافی مانگیں۔ سمجھنے کی کوشش کریں۔ دوسروں سے اپنے مطالبات کا اعادہ کریں۔ پہلے کسی اور کا سوچیں شفیق بنیں۔ نرم مزاج ہوں۔ ذرا اور مُسکرائیں۔ اپنی شکر گزاری کا اظہار کریں۔ اجنبی کو خوش آمدید کہیں۔ کسی بچے کے دِل میں خوشی بھر دیں۔ … محبت کی بولی بار بار بولیں“ (کلیسیائی صدور کی تعلیمات: ہارورڈ ڈبلیو. ہنٹر [۲۰۱۵]، ۳۲؛ سے ماخوذ ”کرسمس کے حوالے سے ہمارا تصور،“ میک کالز، دسمبر ۱۹۵۹، ۸۲–۸۳)۔

کاش ہم اپنے دنوں کو اُس سوچ اور قوت سے بھریں جو ہماری شخصی قربانی اور اُس قربانی سے جو دوسرے ہمارے لیے دیتے ہیں۔ خُدا کرے کہ ہم خاص طور سےاُس تسلی اور خوشی کو محسوس کر سکیں جو اِکلوتے بیٹے کی قربانی ہمیں فراہم کرتی ہے؛ ہاں، وہ تسلی جس کا ایلما میں ذکر کیا گیا ہے کہ آدم زوال پذیر ہُوا کہ اِنسان ہیں، اور اِنسان شادماں ہوں گے، اور اِنسان ہیں—آپ ہیں—آپ ہوں گے (دیکھیے ۲ نیفی ۲: ۲۵)۔ یہ خوشی حقیقی خوشی ہے جو صرف یِسُوع مِسیح کی قربانی اور نجات سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ میری دُعا ہے کہ ہم اُس کی تقلید کریں، کہ ہم اُس پر اِیمان لائیں، کہ ہم اُس سے پیار کریں اور مزید ایک دِن زندہ رہنے کا موقع پانے پراُس کی قربانی سے ظاہر ہونے والے پیار کو محسوس کر سکیں۔ یِسُوع مِسیح کے مُقدس نام سے، آمین۔