۲۰۱۸
علیحدگی میں ایمان قائم رکھنا
جولائی ۲۰۱۸


علیحدگی میں ایمان قائم رکھنا

جب جنگ، بیماری، یا دیگر حالات نے اِن اراکین کو اپنے ممالک میں تنہا چھوڑ دیا، تووہ یوں وفادار رہے۔

آج زیادہ تر مقدسینِ ایامِ آخر وارڈوں اور برانچوں میں پرستش کرتے ہیں ، جہاں وہ ” اکثرروزے اور دُعا اوراپنی جانوں کی بھلائی کے لئے ایک دوسرے سے کلام کرنے کے لئے اکٹھے ہو سکتے ہیں “( مرونی ۵:۶)۔ مگر مرونی، وہ نبی جس نے اِس کلام کو لکھا، اُس نے اپنا دیرپا ترین کام تب کیا جب وہ اپنے لوگوں کی تباہی کے بعد بطور شاگرد اکیلا رہ گیاتھا۔

سار ی کلیسیائی تاریخ میں ، بہت سے مقدسینِ ایام آخر نے اپنے ایمان کو قائم رکھا ہے جب حالات نے اُنہیں الگ تھلگ کردیا۔ کچھ نے، مرونی کی مانند، مستقبل کی نسلوں کے لئے اپنے ایام گواہ واہ اورنمونہ کے طورپر گزارے ہیں ۔ دوسرے وہ دِن دیکھنے کے لئے جیئے ہیں جب وہ پھر سے اپنے ایمان کو شئیر کرنے کے قابل ہوئے ۔

اِس دِن کے لئے برسوں دُعا کرتے ہوئے

فرانٹسیکا بورڈیلوا نے شاید ہی اُس کردار کو پیشگی دیکھا ہو گا جو وہ کلیسیائی تاریخ میں ادا کر سکتی تھی جب ۱۹۱۳ میں ویانا میں مشنریوں نے اُس کے دروازے پر دستک دی۔ اُسکی تبدیلی کے ایک سال کے بعد، پہلی عالم گیرجنگ نے آسٹر و- ہنگری سلطنت کو اپنے لپیٹے میں لے لیا، مشنری گھرواپس چلے گئے، اور بہت سے مرد اراکین فوجی خدمت میں بُلا لئے گئے ، فرانٹسیکااور چند دیگر بہنوں کو اپنے طور پر اکٹھے ہونے کے لئے چھوڑتے ہوئے۔

کئی برسوں تک فرانٹسیکا کا ارکانِ کلیسیاء کے ساتھ یہ ہی رابطہ تھا۔ جنگ کے بعد، فرانٹسیکا کے شوہر ، فرونٹو، سے چیکو سلواکیہ کی حکومت میں ایک عہدے کا وعدہ کیا گیا۔ اُنکے پراsگ میں منتقل ہونے کے بعد، فرانٹسیکا مُلک میں کلیسیاء کی واحد رُکن تھی۔ چند ماہ بعد فورنٹو وفات پا گیا، اور فرانٹسیکا دو جوان بیٹیوں — فرانسیس اور جین — کی کفالت کے لئے اکیلی رہ گئی۔

خُود سے ، فرانٹسیکانے اپنی بیٹیوں کو انجیل سیکھائی۔ “میں نےچرچ میں پرورش پائی، ” فرانسیس یاد کرتی ہے۔ “ چرچ ہمارا گھر تھا!” ۱ فرانٹیسکانے آسٹریا میں کلیسیائی راہنماکو بھی لکھا کہ چیکو سلواکیہ میں مشنریمقرر کیے جائیں۔ کلیسیائی راہنما غیر رضا مند تھے کیونکہ پراگمیں آخری مشنری کو،قریباً۴۰ سال پہلے، تبلیغ کرنے کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا اور بعد ازاں شہر بدر کر دیا گیا تھا۔ نئی حکومت کے باوجود، کلیسیائی راہنما ئوں کو ڈر تھا کہ بہت تھوڑابدلاؤآیا تھا۔

اِس سے بے نیاز ، فرانٹیسکا نے مشن قائم کیے جانے کے لئےخطوط لکھنا اور دُعا کرنا جاری رکھا۔ ۱۹۲۸ میں ، فرانٹیسکا کے ایک دہائی تک اکیلے رہنے کے بعد، ۸۳ سالہ - بوڑھا تھامس بئیسنجر—وہی مشنری واپس لوٹا—جس نے سالوں پہلے پراگ میں تبلیغ کی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ خاندان کی تنہائی اختتام کو پہنچ گئی تھی۔ تاہم، تھوڑے عرصہ بعد، بزرگ بئیسنجرکی گرتی ہوئی صحت نے اُسے مُلک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

فرانٹیسکا ہمت ہار گئی مگر دوسرے ممالک میں کلیسیائی راہنماؤں اور اراکین کو خطوط لکھتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ اُسکے استقلال کا اجر مِلا: ۲۴ جولائی ، ۱۹۲۹ کو ، بارہ رسولوں کی جماعت کے بزرگ جان اے۔ وسٹو( ۱۸۷۲–۱۹۵۲) مبلغین کے ایک گروہ کے ساتھ پراگ میں پہنچے۔ اُس شام، فرانٹیسکا اور گروہ قلعہ کارلسٹن کے قریب ایک پہاڑی پر چڑھے ، جہاں بزرگ وڈسئو نے چیکو سلواکیہ کی انجیل کی منادی کے لئے تقدیس کی اور باقاعدہ طور پر مشن تشکیل دیا۔ “ چند لوگ ہی اُس خوشی کو بھانپ سکتے ہیں جسکا ہم نے تجربہ کیا، ” فرانٹیسکا نے بعد میں تحریر کیا۔ “ ہم اِس دِن کے لئے برسوں دُعا کرتے رہے [تھے ]۔”۲

تقریباً چھ ماہ تک، برانچ فرانٹیسکا کے گھر میں ملتی رہی۔ فرانٹیسکا نے آخرکار اپنی بیٹیوں کی مورمن کی کتاب کا چیک زبان میں ترجمہ کرنے میں معاونت کی اور اب جو جمہوریہ چیک کہلاتا ہے اُس میں کلیسیاء کی بنیا درکھی۔

فرانٹیسکا کی مانند ، بہت سے مقدسینِ ایام آخر نے علیحدگی کو برداشت کیا ہے۔ ذیل کےمرد و زن انجیل بانٹنے اور اپنےآبائی وطنوں میں کلیسیاء کی بنیاد رکھنےوالے اولین لوگوں میں سے ہیں ،جس نے بعد میں دیگر لوگوںکومقدسین کی رفاقت میں حصہ ڈالنے کی اجازت دی۔

حقیقی ایمان کی مستقل نعمت

جب ۱۹۲۴ میں جاپان مشن بند کیا گیا، توبہت سے اراکین نے کھوئے ہونے اور فراموشی کا احساس پایا۔ جاپان میں اندازً ۱۶۰ اراکین کی رہبری کی ذمہ داری ، مُلک میں صدارت کرنے والے بزرگ، فُوجعیانار اپر آن پڑی ، جس کی ریل روڈ کی ملازمت نے اُسے اِدھر اُدھر رہنے والے اراکین سے ملنے کی اجازت دی۔ جب وہ ملنے کے قابل نہ تھا، فُوجعیا نے شُورو ( برگ کھجور) کے عنوان سے ایک رسالہ شائع کرکے رابطہ قائم رکھا جس میں اُس نے انجیل کے پیغامات بیان کیے اور آنے والے پُرہنگامہ سالوں میں باقی ماندہ اراکین کی حوصلہ افزائی کی۔

فُوجعیا کی مُلازمت کے مانچوریہ میں منتقلی کے بعد اور بطور قائم مقام صدارتی برزگ ۱۹۳۷میں اُسکی اچانک وفات سے، جاپان میں اراکین کے ساتھ رابطہ جلدختم ہو یا۔ “ اگرچہ ہمارِی سالٹ لیک سٹی سے کوئیخط و کتابت نہ تھی، ” فُوجعیا نے کہا، “ … ہمیں یقین تھا کہ چرچ[یہاں] پھر سے کھلےگا۔”۳

دوسری جنگِ عظیم کے دوران میں ، فُوجعیا ٹوکیو واپس آیا، جہاں اُس نے اپنے پڑوسیوں میں منادی کی اور ہفتہ وار سبت سکول میٹنگیں تشکیل دیں۔ جنگ کے بعد، فُوجعیانے ایڈورڈ ایل۔ کلیسولڈ — امریکی فوج میں خدمت کرنے والےایک مقدسِ ایام آخر کی طرف سے— مُلک میں اراکین کلیسیا ء نے نوٹس پایا کہ وہ فوجعیا سے رابطہ کریں۔ فُوجعیا نے فوری طور پر ایڈورڈ سے اُسکے ہوٹل کے کمرہ میں ملاقات کی۔ جب ایڈورڈ نے ٹوکیو میں مقدسین ایام آخر کی میٹنگ میں شرکت کی ، وہ تقریباً ۱۰۰ لوگوں کو حاضر پا کر حیران ہوا۔

“ اس سب کے دوران، ” فوجعیا نے بعد میں کہا، “ عظیم ترین اور مستقل نعمت ، حقیقی ایمان کو جاننا اور اِسے قبول کرنا رہی ہے—اِس کا مطلب آسمانی باپ ، یسو ع مسیح اور روح القدس کو جاننا ہے۔” ۴

ہوائی میں کلیسیاء قائم کرنا

جوناتھن ایچ ناپعلااور اُس کی بیوی ، کیٹی نے جب ۱۸۵۱ بپتمسہ پایا ، تو وہ جزیرہِ ماوٗی پرایک قابل عزت جج تھا۔ کلیسیامیں شمولیت اختیا رکرنے پر جُوناتھن کو اپنے مججکے منسب سے مجبوراً مستعفی ہونا پڑا، تُو اُس نے اپنی توانائی کو ہوائی کی زبانبولنے والوں کے درمیان میں کلیسیاء کو قائم کرنے کے لئے وقف کیا۔ جُوناتھن نے مبلغ جارج کیو۔ کیینن کو زبان سیکھائی، مورمن کی کتاب کا ترجمہ کیا، اور مبلغین کوکسی بھی غیر مُلکی زبان میں تربیت دینے کا پہلا پروگرام وضع کیا۔

نتیجہ کے طور پر، تین سال میں تقریباً۳۰۰۰ مقامی ہوائی لوگکلیسیاء میں شامل ہوئے۔ “ ہمارے لئے یہ بالکل واضح ہے کہ یہ خُدا کی کلیسیاءہے، ” جُوناتھن نے تحریر کیا۔ “ اِس جزیرہ پر بہت سے ہیں جنہوں نے خُداکے فضل سےمضبوط ایمان پایا ہے ، یسو ع مسیح کے وسیلہ سے، کہ ہم روح القدس پاسکیں۔”۵

۱۸۷۲ میں ، کیٹی ناپعلا کوڑھ میں مبتلا ہو گئی اور اُسکو مقدسین کے درمیان رہنے کی بجائے مولوکائی میں کوڑھی کالونی میں منتقل کرنا ضرورت بن گیا تھا۔ مقدسین کے درمیان میں رہنے کی بجائے ، جُوناتھن نے کالونی کودرخواست دی کہ وہ اُسے بھی داخل کرے۔ “ باقی ماندہ قلیل وقت کے دوران، ” اُس نے صحت کے بورڈ کو لکھا، “ میں اپنی زوجہ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ” ۶ درخواست قبول کر لی گئی، اور جُوناتھن مولوکائی میں صدر برانچ بنا۔ جُوناتھن نے ، اُن سب کی خدمت کرنے کے لئے جو بیماری میں مُبتلا تھے مقامی کیتھولک کاہن ، فادر ڈامین ، کے ساتھ بڑی جانفشانی سے کام کیا۔ جُوناتھن بلآخر کوڑھ سے وفات پا گیا جو کالونی میں اُس نے پائی تھی۔

“ میں خُد اکے ہاتھوں میں ہتھیار ہونے میں شادمان ہوں”

فیڈرکس اور ہوپ خاندان ارجنٹائن میں واحد مقدسینِ ایام آخر تھے جب وہ ۱۹۲۰ کی دہائی کے اوائل میں جرمنی سے وہاں منتقل ہوئے۔ ولحلیم فیڈرکس اور ایملی ہوپ نے اپنے نئے وطن میں انجیل بانٹنے کے، پمفلٹ تقسیم کرنے، اور دوسروں کو اپنی میٹنگوں میں مدعوکرنے کی کوشش کی۔ “ میرا اپنے آسمانی باپ پر مکمل اعتماد تھا کہ وہ انجیل قبول کرنے کے لئے مخلص احباب کو بھیجے گا”، ولحلیم نے تحریر کیا، “ کیونکہ میں خُدا کے ہاتھو ں میں ہتھیار ہونے میں شادمان ہوں۔”۷

تاہم، وہاں نمایاں چنوتیاں تھیں۔ خاندان دور دراز رہتے تھے اور باکٹھے ہونے کے لئے دو گھنٹے سفر کرنا پڑتا تھا۔ چونکہ ہارونی کہانت میں ایملی ڈیکن اور ولحلیم استاد تھا، وہ رسوم جیسے کہ ساکرامنٹ یا کہانتی برکات دینے سے قاصر تھے۔

۱۹۲۴ میں، ہیلڈئیگارڈی ہوپ نے ایک لڑکی کو جنم دیا، جو دو ماہ بعد وفات پا گئی۔ جب وہ سوگ منا رہی تھی، ہیلڈئیگارڈی نے پوچھا کہ بچی کا نام کلیسیاء کے ریکار ڈ میں کیسے شامل ہو گا۔ نتیجہ کے طور پر، ولحلیم نے سالٹ لیک سٹی میں کلیسیائِ راہنماؤں سے خط و خطابت شروع کی۔

ڈیڑھ سا ل بعد، بارہ رسولوں کی جماعت کے ایلڈر میلون جے۔ بیلرڈ ( ۱۸۷۳—۱۹۳۹)کو دیگر مشنریوں کے ساتھ تبدیل شدگان کے بڑھتے ہوئے گروہ سے ملنے کے لئے بیونس آئرس بھیجا گیا۔ جب وہ دسمبر ۱۸۲۵ کو پہنچے، بزرگ بیلرڈ نے کئی تبدیل شدگان کو بپتسمہ دیا اور برانچ تشکیل دی۔ کرسمس کے روز، برزگ بیلرڈ نے جنوبی امریکہ کو مشنری کام کے لئے منظم کیااور براعظم پر پہلامشن تشکیل دیا۔

اپنے لوگوں کے لئے انجیل واپس لاتے ہوئے

فیلیپی اور اینیلیز اسارڈ نے ایک پُرسکون زندگی قائم کر لی تھی جبمشنریوں نے، ۱۹۸۰ میں کلون ، جرمنی میں ، اُنکے دروازے پر دستک دی۔ اُنہوں نے انجیل کو جلدی سے قبول کر لیا اور “ غالب برکات” محسوس کیا۔ فیلیپی نے جلد ہی بحال شدہ انجیل بیان کرنے کے لئے اپنے آبائی وطن کوٹ ڈی آئیوری کو لوٹنے کی قوی خواہش محسوس کی۔ “پس ۱۹۸۶ میں، اپنی بیوی کے ساتھ بہت سی دُعاؤں اور روزوں کے بعد، ” فیلیپی یاد کرتا ہے، “ میں نے جو پایا تھا اُسے دینے ، اپنے خاندان اور اپنے لوگوں کی حالت بہتر کرنے کے لئے آئیوری کوسٹ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔”۸

جرمنی چھوڑنے سے پہلے، فیلیپی نے کلیسیائی راہنمائوں سے مشورہ کیا۔ اگرچہ کوٹ ڈی آئیوری میں کوئی کلیسیائی اکائی نہیں تھی، وہا ں اراکین کی ایک تعداد تھی جنہوں نے کلیسیاء میں شمولیت اختیار کیتھی جب وہ دوسرے ممالک میں تھے۔ اسارڈز کو اُنکے ناموں کی فہرست دی گئی اور اگلا ایکسال ہر ایک کو جانفشانی سے خط لکھے۔ بتدریج، اسارڈز نے دوسروں میں ایمان کے شعلہ کو ازسر نو جلایا اور اپنے گھر میں سبت میٹنگیں منعقد کرنے کا آغاز کرنےکی اجازت پائی۔ وارڈیں اور برانچیں بنیں ، اور ۱۹۹۷ میں ، پہلی کوٹ ڈی آئیوری سٹیک منظم کی گئی۔

حوالہ جات

  1. فرانسیس میک اُمبر، روت میک اُومبرپراٹ میں ، Frantiska Vesela ” Brodilova,“ غیر شائع شدہ مسودہ ( ۲۰۰۹)، ۱۸۔

  2. Františka Brodilová, in Pratt, “Frantiska Vesela Brodilova,” ۲۵ .

  3. فُوجعیا نارا ، لی بینسن میں، “Japanese Member Survives Adversity,” Church News, فروری ۱۷، ۱۹۷۹، ۷۔

  4. Fujiya Nara, in Benson, “Japanese Member Survives Adversity,” ۷.

  5. جُوناتھن ناپعلا، ”غیر مُلکی خط و خطابت: جزائرِ سینڈوچ—مکاؤ کانفرنس کی مختصر روداد، یکم اپریل ، ۱۸۵۲،“Deseret Newsمیں، نومبر ۲۷، ۱۸۵۲، ۴۔

  6. جُوناتھن ناپعلا، فرید ای۔ وُوڈز کی، “A Most Influential Mormon Islander: Jonathan Hawaii Napela,” The Hawaiian Journal of History, vol. ۴۲ میں، ( ۲۰۰۸)، ۱۴۸۔

  7. ولحلیم فیڈرک، خط، بتاریخ مارچ ۵، ۱۹۲۴، ارجنٹائن مشن خط و کتابت، کلیسیائی تاریخ کی لائبریری۔

  8. رابرٹ ایل مرسر، Pioneers in Ivory Coast,” Liahona مارچ، ۱۹۹۹، ۱۹۔

وضاحت از کین سپینسر

فرانٹیسکا بورڈیلوا ویانا میں ۱۹۱۳ میں کلیسیاء میں شامل ہوئی— پہلی عالم گیر جنگ شروع ہونے سے ایک سال پہلے—اور ۱۹۲۹ تک اراکینِ کلیسیا سے کسی رابطہ میں نہیں تھی۔

فرانٹیسکا وسیلا ورڈیلوا کا پورٹریٹ بشکریہ Visual Resources Library

فرانٹیسکا موجو دتھی جب بزرگ جان اے۔ وڈسٹو( دونوں درمیانی لائن میں ) نے ۱۹۲۹ میں ، چیکو سلواکیہ کی انجیل کی منادی کے لئے تقدیس کی۔

اُسکے خاوند کی وفات کے بعد، فرانٹیسکا نے اپنی دو بیٹیوں کی اکیلے ہی پرورش کی۔

بطور صدارتی بزرگ، فُوجعیا نارا ( گہرے رنگ کے سوٹ میں)نے ۱۹۲۴ میں جاپان مشن کے بند ہوجانے کے بعد اراکین سے رابطہ رکھنے کی ذمہ داری لی۔

دائیں: ہوائی میں پہلے تبدیل شدگان میں سے ایک ، جُوناتھن ناپعلا نے ہوائی زبان میں مورمن کی کتاب کا ترجمہ کرنے میں مدد کی۔ نیچے: ولحلیم فیڈرکس( بائیں سے دوسرا) اور ایملی ہوپ( پچھلی لائن میں درمیان میں ) نے ارجنٹائن میں پہلے بپتسمہ میں شرکت کی۔

جُوناتھن ناپعلا کا پورٹریٹبشکریہ کلیسیائی تاریخ او رآرکائیو

جب فیلیپی اور اینیلیز اسارڈ ( بائیں ) لوسئن اور آگاتھا آفیئو سے کوٹ ڈی آئیوری میں ملے، دونوں جوڑے یہ جان کر خوش ہوئے کہ وہ کلیسیاء میں اکیلے نہیں تھے۔