۲۰۱۸
ایمان کے لئےآگےبڑھتے رہنا
جولائی ۲۰۱۸


ایمان کے لئے آگے بڑھتے رہنا

یومِ پیش رو کی سن رائز میٹنگ سے خطاب جو سالٹ لیک سٹی میں ۲۴ جولائی ۲۰۰۷ کو دیا گیا۔

خداوند یسوع مسیح کی گواہی سے لیس ، ولی ہتھ گاڑی کمپنی کے ارکان نے سختیوں اور بھوک کے برعکس آگے بڑھنا جاری رکھا۔

جس کہانی کا میں بتانے جا رہا ہوں اِس کا آغاز انگلستان کے دیہاتی علاقے رولنگ گرین سے ہوا ، جہاں جان بینٹ ہاکنز ۱۸۲۵میں گلوسسٹر میں پیدا ہوا۔ ۱۸۴۹میں اُس کا بپتسمہ ہوا اور وہ کلیسیا کا رکن بنااور اُس سال مقدس آخری ایام کی کمپنی کے ساتھ ہینری وئیرنامی بحری جہاز پر امریکہ کے لئے روانہ ہوا۔ اگست ۱۸۵۲ میں وہ یوٹاہ پہنچا ، اور یوٹاہ کے ابتدائی ایام کے آباد کاروں میں سے ایک بانی لوہار تھا۔

مستقبل میں اُس کی ہونے والی دلہن ، سارہ الزبتھ مولٹن، بھی دیہاتی انگلستان سے آئی تھی۔ اَرچیسٹر ، جو دریائے نین کے قریب ایک چھوٹا ساگاؤں ہے، اور لندن کے شمال میں تقریبا ۶۵ میل (۱۰۵)کلومیٹر , اورتقریباً اتنے ہی فاصلے پر مشرق میں برمنگھم ہے۔ سارہ الزبتھ وہاں ۱۸۳۷ میں تھامس مولٹن اور ایسٹر مارش کے گھر پیدا ہوئی سارہ الزبتھ کی ماں اُس وقت فوت ہوئی جب وہ صرف ۲سال کی تھی ، اور ۱۸۴۰میں اُس کے باپ نے سارہ ڈینٹن سے شادی کر لی ۔

جون ۱۸۳۷ میں ، ایلڈر ہیبر سی۔ قمبل (۱۸۰۱۔۶۸) جو بارہ رسولوں کی جماعت کا رکن تھا اور دیگر کلیسیائی رہنما مشنری کام کے لئے انگلستان میں تھے ۔ تبدیل ہونے والے بہت سارے لوگوں میں سے مشنریوں نے جنہیں تعلیم دی ایک خاندان نے مولٹنز کو ایک کتابچہ خبرداری کی آواز ، دیا جسے ایلڈر پارلے پی۔پراٹ نے (۱۸۰۷ ۔ ۵۷) میں لکھا جو بارہ رسولوں کی جماعت کا رکن تھا۔ اِسے پڑھ کر ، تھامس اور سارہ تبدیل ہوئے اور ۲۹دسمبر ۱۸۴۱ میں بپتسمہ لیا۔ اُس وقت ، اُن کا خاندان صرف 2 بچوں ــــسارہ الزبتھ ، عمر 4 سال؛ اور میری این ، عمر ساتھ ماہ پر مشتمل تھا۔

یورپ میں تبدیل ہونے والوں کی اکٹھے ہونے کی خواہش بہت مضبوط تھی۔ اُن کی بڑی خواہش امریکہ کی طرف ہجرت کرنے کی تھی، جہاں وہ مقدسین کی اکثریت کے ساتھ رہ سکتے۔ دیگر بہت ساروں کی طرح ، مولٹنز کے پاس اِس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اتنے پیسے نہ تھے۔ مگر اُن کا عز مضبوط تھا، اور اُنہوں نے پھل کے مرتبان میں پیسے بچانے شروع کیے۔

ہجرت کے لئے جاری فنڈ

۱۸۴۹میں ، صدر بریگہم ینگ (۱۸۰۱-۷۷) نے کلیسیائی ارکان کی امریکہ کی طرف محفوظ نقل مکانی کے لئے ہجرت کے لئے جاری فنڈ قائم کیا۔ پہلے اِس فنڈ کی مدد کے ساتھ ویگن ٹرین کے ذریعے سفر کرتے تھا ، مگر اِس طرح نقل مکانی کا ذریعہ سست اور مہنگا تھا۔ حتیٰ کہ ہجرت کے جاری فنڈ کی مدد کے ساتھ بھی ، صرف چند ایک ہی سفر کر سکتے تھے۔ کلیسیائی رہنماؤں نے ہتھ گاڑیوں کے استعمال کے بارے تحقیق کی اور جانا کہ ہتھ گاڑیاں سفر کو زیادہ تیز اور کم خرچ بنا دیں گے۔

اُس وقت تک مولٹنز خاندان کے بچوں کی تعداد ساتھ ہو گئی تھی ، مگر پھل کے مرتبان کی بچت کے ، اور ہجرت کے جاری فنڈ ، اور نقل مکانی کے سستے ذرائع کے ساتھ ، اُن کی ہجرت کا خواب ممکن ہو سکتا تھا۔ نو افراد پر مشتمل خاندان کے لئے ، سفر کی تیاری کے لئے بڑے محتاط طریقے سے منصوبہ بندی گی گئی۔ اور سفری ضرورت کی خریداری کے لئے زیادہ پیسے بچانے کی خاطراُنہوں نے تقریباً ایک سال تک جو کے آٹے پر زیادہ تر گزارا کیا۔

جب اُن کی ہجرت کرنے کا وقت قریب تھا ، تو تھامس سفر کرنے سے ہچکچا یا، کیوں کہ اُس کی بیوی بچہ جننے کو تھی۔ لیکن سارہ ڈینٹن مولٹن ایک ایمان دار خاتون تھی اور اُس نے ہمت نہ ہاری۔ انگلستان چھوڑنے سے پہلے ، ایک مشنری نے سارہ کو برکت دی جس میں اُس نے وعدہ کیا کہ اگر وہ یوٹاہ جائے گے ، تو وہ محفوظ سفر کرنے گی اور اُس کے خاندان کے ایک رکن کا بھی نقصان نہ ہو گاــــایک ایسا خاندان جس میں عنقریب دسواں بچہ شامل ہونے کو تھا!

اِس خاندان نے ۱۸۵۶ میں لیور پول انگلستان سے تھارٹن نامی بحری جہاز پر اپنا سفر شروع کیا ، تو سفر کے تیسرے دن اُنہوں نے ایک نئے لڑکے کو اپنے خاندان میں خوش آمدید کہا۔ تھارٹن نامی جہاز کو ۷۶۴ ڈینش ، سویڈش اور انگلستانی مقدسین کو لے جانے کے لئے کرایہ پر لیا گیا تھا۔ وہ جیمز گرے ولی نامی مشنری کی زیر ہدایت تھے۔

تھاڑن جہاز چھ ہفتوں میں نیویارک بندر گارہ پر پہنچا۔ پھر مولٹن خاندان ایک ٹرین میں بیٹھا اور مغر ب کی جانب لمبے سفر کو روانہ ہوا۔ وہ جون ۱۸۵۶میں آئیوا شہر میں پہنچے ، جو ہتھ گاڑیوں کی کمپنی کے لئے نکتہ آغاز تھا۔ اُن کی آمد سے صرف تین دن قبل ، کپتان ایڈورڈ بنکر کی ہتھ گاڑی کمپنی آئیوا شہر سے ، بہت ساری دستیاب ہتھ گاڑیوں کو لے کر روانہ ہو چکی تھی۔

ہتھ گاڑی کی مشکلات

تقریباً دو ہفتے بعد، ولی کمپنی ایڈورڈ مارٹن کی زیر ہدایت مقدسین کی ایک اور کمپنی کے ساتھ شامل ہو گئی۔ آئیوا شہر میں کلیسیائی ایجنٹ، جنہوں نے پہلی تین ہتھ گاڑی کمپنیوں کو تیار اور روانہ کیا تھا، اب اُنہیں غیر متوقع طورپر دیر سے آنے والے بڑے گروہ کو ہتھ گاڑیاں مہیا کرنے کے لئے بھر پور کوشش کرنی تھی۔ اِن مقدسین کے سفر کو جاری رکھنے سے پہلے اُنہیں ۲۵۰ دستی گاڑیاں تیار کرنی تھیں۔

ہر ایک مضبوط جسم وہ جان والے مرد کو ہتھ گاڑیاں بنانے کے لئے کام پر لگانا تھا، جبکہ کہ خواتین نے سفر کے لئے درجنوں خیمے بنائے تھے ۔ اِن میں سے زیادہ تر ہتھ گاڑیاں بنانے والے اناڑی تھے پس اُنہوں نے تخصیصی عمل کے مطابق کام نہ کیا پس مختلف طرح کی مضبوطی و پیمائش کے والی ہتھ گاڑیاں بنائیں ، جو بعد میں اُن کے لئے مشکلات پیدا کرنے والی تھیں۔ کیوں کہ ضرورت کردہ تعداد میں ہتھ گاڑیوں کی ضرورت تھی ، اِس لئے اُن کو تازہ کٹی گیلی لکڑی سے بنایا گےا ور کچھ مثالوں میں پہیوں کے لئے گائے کی غیر تیار کردہ کھال اور قلعی کو استعمال کیا گیا۔ ہر ایک چھکڑے پر بہت سارے مقدسین کے لئے خوراک اور دنیاوی مال و متاع لاداہوا تھا۔

ہر دستی گاڑی پر اکثر ۴۰۰ سے ۵۰۰ پاونڈ (۱۸۰سے ۲۳۰ کلوگرام) آٹا، بستر ، کھانے کے برتن، اور کپڑے لدے ہوئے تھے۔ ہر گاڑی پر ایک شخص کے لئے صرف ۱۷ پاؤنڈ (۸کلوگرام) کا وزن لادنے کی اجازت تھی۔

تھامس مولٹن اور اُس کے خاندان کے ۱۰ افراد کو چوتھی دستی گاڑی کمپنی تفویض کی گئی جو ایک بار پھر کپتانی ولی کے زیر ہدایت تھی۔ یہ 400 مقدسین پر مشتمل تھی ، اور اِس می عمومی تعداد سے بڑھ کر بوڑھے لوگ شامل تھے ۔ اُس سال ستمبر میں ایک رپورٹ تیاری کی گئی جس میں ” ۴۰۴ لوگ، ۶چھکڑے، ۸۷ ھ گاڑیاں،۶ جوڑیاں بیلوں کی، ۳۲ گائیں ، اور ۵ خچر درج کئے گئے۔“۱

مولٹن خاندان کو ایک ڈھکی ہوئی اور ایک کھلی ہتھ گاڑی کی اجازت تھی۔ تھامس اور اُس کی بیوی نے ڈھکی ہوئی گاڑکو کو کھینچا۔ نیا بچہ چارلس اور بہن لیزی ( صوفیا الزبتھ ) اِس چھکڑے میں سوار تھیں۔ لوٹی(شارلٹ) اُس وقت سوار ہو سکتی تھی جب چھکڑا پہاڑی سے نیچے کو جاتا تھا۔ آٹھ سال کا جیمز ہیبر اپنی کمر کے گرد بندھے رسے کے ساتھ پیچھے چلتا کہ وہ بھٹک نہ جائے۔ دوسرے بھاری چھکڑے کو دو بڑی لڑکیاں ــــسارہ الزبتھ(عمر ۱۹ سال) اور میری این (عمر ۱۵ )سال ــــاور دو بھائی ولیم (عمر۱۲ سال ) اور جوزف (عمر ۱۰) سال کھینچتے تھے۔

جولائی ۱۸۵۶میں مولٹنز نے آئیوا کو خیر باد کہااورمغرب کی جانب اپنے ۱۳۰۰ میل، (۲۰۹۰مکلومیٹر) لمبے سفر کا آغاز کیا۔ ۲۶ دن کے سفر کے بعد ، وہ ونٹر کوارٹر ز(فلورنس) نیبراسکا میں پہنچے۔ معمول کے مطابق ، اُنہوں نے کئی دن وہاں گزارے ، چھکڑوں کی مرمت کی اور خوراک کی رسد لی کیوں کہ اُس وقت ونٹر کوارٹرز اور سالٹ لیک کے درمیان کوئی بڑے شہر نہ تھے۔

اِس سے پہلے کہ ونٹرز کوارٹرز سے ولی کمپنی نکلنے کو تیار ہوتی موسم میں کافی تاخیر تھی پس ایک یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ اُن کو وہاں رکنا چاہیےیا روانہ ہونا چاہیےاِس واسطے ایک میٹنگ کا انعقاد کیا گیا۔ چند جو پہلے سے راستے میں تھے اُنہوں نے موسم میں تاخیر کے باعث سفر ی خطروں کے خلاف آگاہ کیا۔ مگر کپتان ولی اور کمپنی کے بہت سارے ارکان نے محسوس کیا کہ اُن کو جانا چاہیے کیوں کہ فلورنس میں موسمِ سرما گزارنے کے لئے اُن کے پاس کوئی رہائش نہ تھی۔

رسد کی فراہمی میں کمی

ناکافی رسد کے ساتھ ، وِلی کمپنی کے ارکان نے ۱۸ اگست کو اپنے سفر کا آغاز کیا، یہ سوچتے ہوئے وہ اپنی رسد فورٹ لارامئے (موجودہ لارمئے ، وائومنگ کے شمال میں ) سے پھر سے بھر لیں گے۔ ملنے والی اِس دھمکی کی وجہ سے ، اُنہوں نے ہر ایک چھکڑے پر ۱۰۰ پاؤنڈ (۴۵ کلوگرام) آٹے کا تھیلا زیادہ رکھ لیا اور اُن کو بھروسہ تھا کہ وہ رسد کے چھکڑوں سے جا ملیں گے جو سالٹ لیک سٹی سےروانہ ہو چکے تھے۔ تاہم، رسد لانے والے چھکڑوں کے کوچوان یہ سوچتے ہوئےکہ اب مزید کوئی مہاجرین راستے میں نہیں آ رہے وہ ستمبر کے آخر میں ولی کمپنی کے پہنچنے سے پہلے سالٹ لیک سٹی واپس لوٹ گئے۔

فلورنس میں ، مولٹنز نے یہ سوچا کہ یہ اچھا خیال ہو گا کہ وہ رسد کا ایک صندوق پیچھے چھوڑ جائیں کیوں کہ 10 لوگوں کے خاندان کے لئے جو وزن وہ کھینچ رہے تھے وہ انتہائی وزنی تھی۔ اُس وقت تک ، اُنہوں نے ایک بیگ لیورپورٹ میں چھوڑ دیا تھا، کپڑوں کا ایک صندوق بحری جہاز پر، کپڑوں کا ایک اور صندوق نیویارک سٹی میں، اور رسد کا ایک صندوق جس میں اُن کی ذاتی اشیا تھیں وہ آئیوا سٹی میں چھوڑ دیا تھا۔ حتیٰ کہ راستے پر ، بوجھ ہلکا کرنے کے لئے وہ طریقے ڈھونڈتے رہے۔

اُن لوگوں کے لئے ہتھ گاڑی کمپنیوں میں مولٹنز کے خاندان ا ور دیگراہم مرد و خواتین کی روزمرہ تکلیفوں کے بارے سوچنا بھی مشکل ہے جو آج کل کی جدید زندگی کی سہولتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کیا ہم آبلوں سے معمور ہاتھوں اور پاؤں ، دَرد بھرے پٹھوں، گرد اور پتھرو ں، جھلسا دینے والی گرمی ، مکھیوں اور مچھروں ، بھگدڑ مچانے والی بھینوں کے ریوڑوں، اور انڈینوں سے سامنا کرنے کا تصور کر سکتے ہیں؟ کیا ہم دریاؤں کو عبور کرنے اور ریت اور پھسلنے والی چٹانوں کے بارے سوچ سکتے ہیں جب وہ ہتھ گاڑیوں کو سبک رفتاری سے یا گہر ے چلتے ہوئے پانی سے گزارنے کی کوشش کرتے؟ کیا ہم اُس کمزوری کو سمجھ سکتے ہیں کو کھانے میں کمی کے باعث پیدا ہوتی ہے؟

اُن کے سفر کے دوران ، مولٹنز کے بچے اپنے ماں کے ساتھ کھیتوں میں جاتے اور وہاں سے جنگلی گندم اکٹھی کر کے لاتے اور اپنی خوراک میں ملاتے جو تیزی سے جمع ہوتی جا رہی تھی۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ اِس خاندان کےتین لوگوں کے لئے روزانہ جو کی روٹی اور ایک سیب ہوتا تھا۔

صرف 12 ستمبر کے تڑکے سے پہلے ، جو برٹش مشن سے واپس آرہا تھا کیمپ میں پہنچا۔ اُن کی رہنمائی بارہ رسولوں کی جماعت کے رکن ایلڈر فرینکلن ڈی۔ رچرڈ (۱۸۲۱۔۹۹) کر رہے تھے جو میری بیوی کے پڑدادا تھے۔ جب ایلڈر رچرڈز اور دیگر لوگوں نے ہتھ گاڑی کمپنی کی تکلیفوں کو دیکھا ، اُنہوں نے جلداز جلد سالٹ لیک ویلی پہنچ کر واپس مدد بھیجنے کا وعدہ کیا۔

۳۰ ستمبر کو ولِی کمپنی فوٹ لارمئے ، وائومنگ پہنچی ، جو سالٹ لیک سٹی کے مشرق میں ۴۰۰ میل (۶۴۵ کلومیٹر) دور ہے۔

اکتوبر کے شروع میں ، موسم سرما کا آغاز ہو گیا، اور تکلیفیں بڑھ گئیں جب کمپنی نے آگے بڑھنے کی کوشش کی۔ رسد اِس قدر کم ہو گئی کہ کپتان وِلی کو مجبوراً خوراک کی مقدار کم کر کے مردوں کے لئے ۱۵ اونس(۴۲۵ گرام) آٹا، عورتوں کے لئے ۱۳ اونس، بچوں کے لئے ۹ اونس اور شیر خوار بچوں کے لئے ۵ اونس کرنا پڑا۔ جلد ہی اُن کو سخت ہواؤں اور بھٹکا دینے والے برفانی موسم کا سامنا کر نا تھا۔ ۲۰ اکتوبر کی صبح سے ۴ انچ ( ۱۰ سینٹی میٹر) گہری برف باری ہو چکی تھی ، اور خیمے اور ویگنوں کے خول اِس کے وزن سے ٹوٹ چکے تھے۔ کمپنی کے پانچ ارکان اور چند زور کھینچنے والے چند جانور سردی اور بھوک کی وجہ سے ایک رات پہلے کے طوفان میں مر چکے تھے ، اور اگلے تین روز میں پانچ مزید ارکان فوت ہو گئے تھے۔ عورتوں ، بچوں ، اور بیماروں کو پہلے کھلانے کے باعث بہت سارے مضبوط لوگ بغیر کچھ کھائے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔

ریلیف پارٹیاں روانہ ہوئیں

سویٹ واٹر دریا پر روکی ریج سے ۲ میل (۳ کلومیٹر) نیچے، کمپنی نے کیمپ لگایا اور بھوک، سردی ، اور تکلیف میں طوفان گزر جانے کا انتظا ر کیا۔

جب فرینکلن ڈی۔ رچرڈز کی پارٹی سالٹ لیک سٹی پہنچی ، اُنہوں نے فوری طورپر صدر ینگ کو مہاجرین کی خطرناک صورت حال کے بارے اطلاع دی۔ وادی میں مقدسین اگلے سال تک مزید مہاجرین کے آنے کی توقع نہ کرتے تھے ، پس اُن کی تکلیف دہ حالت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

دو دن بعد، ۶ اکتوبر ۱۸۵۶، جنرل کانفرنس پرانے خیمہ اجتماع میں منعقد ہوئی۔ منبر سے ، صدر ینگ نے مَردوں، خوراک، اور خچروں یا گھوڑوں والے چھکڑوں میں رسد کے لئے کہاجو اگلے دن مد د فراہم کرنے کے لئے روانہ ہونے تھے ۔ ۲

جان بینٹ ہاکنز اُس دن پرانے خیمہ اجتماع میں تھا اور اُس نے اُس مدد کی اُس پکار کا جواب دیا۔ وہ ریلیف پارٹیوں کے ہزاروں افراد میں سے ایک تھا جو سالٹ لیک سٹی سے چلی تھی۔ ۲۱ اکتوبر کو، بچانے والے چھکڑے بالآخری ولی کیمپ میں پہنچے۔ ٹھٹھرے ہوئے اور بچ جانے والے لوگوں نے اُن کا خوشی سے استقبال اور شکریہ کیا۔ جان بینٹ ہاکنز اور سارہ الزبتھ مولٹنز کی یہ پہلی ملاقات تھی ، جو میرے پڑدادا اور پڑدادی بنے۔

۲۲ اکتوبر کو، چند مزید بچانے والے دوسری ہتھ گاڑی کمپنیوں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ، جب کہ ولیم ایچ ۔ قمبل باقی چھکڑوں کے ساتھ ، ولی کمپنی کے انچارج کے طورپر واپس سالٹ لیک سٹی لوٹا۔

وہ جو اپنی ہتھ گاڑیوں کو کمزوری کے باعث نہ کھینچ سکتے تھے اُنہوں نے سارا مال و متاع اُن چھکڑوں میں رکھا اور خود اُن کے ساتھ چلنے لگے۔ وہ جو چلنے کے قابل بھی نہ تھے وہ چھکڑوں میں سوار ہو گئے۔ جب وہ راکی ریجز پر پہنچے، تو ایک اور خطرناک برفانی طوفان اُن پر ٹوٹ پڑا۔ جب اُنہوں نے پہاڑی کے اوپر کی طرف چڑھنے کی کوشش کی ، تو اُنہیں خود کو کمبلوں، اور رضائیوں میں لپیٹنا پڑا، کہ وہ جم کر مر نہ جائیں۔ کمپنی کے ۴۰ لوگ پہلے سے ہی فوت ہو چکے تھے ۔ ۳

موسم اِس قدر شدید تھا کہ بہت سارے مقدسین کے ہاتھ ، پاؤں، اور چہروں کو پالا ماری کی وجہ سے تکلیف اُٹھانا پڑی جب وہ اُس پہاڑ کو پار کر رہے تھے۔ اُس برفانی طوفان سے ایک عورت اندھی ہو گئی تھی۔

ہم مولٹنزکے بارے اُ ن کے آٹھ بچوں کے ساتھ تصور کر سکتے ہیں ، جو اپنی دو ہتھ گاڑیوں کو دھکیلتے اور کھینچتے تھے جب اُنہوں نے اُس گہری برف میں سے گزرنے کی کوشش کی۔ ایک چھکڑا تھامس اور اُس کی بیوی اپنے قیمتی سامانـــلوٹی، لیزی، اور بچے چارلز ـــاور اُس کے ساتھ چھوٹے جیمز ہیبر کے ساتھ کھینچ رہے تھے جو لڑکھڑا کر چل رہا تھا اپنی کمر پر رسے کی وجہ سے کھینچا جا رہا تھا۔ دوسرا چھکڑا سارہ الزبتھ اور دوسرے تین بچے کھینچ رہے تھے۔ ایک مہربان، بزرگ خاتون، جو چھوٹے جیمز ہیبر کو کوشش کرتے دیکھ رہی تھی ، اُس نے اُس کے ہاتھ کو پکڑا جب وہ ہتھ گاڑی کے پیچھے گھسیٹا جا رہا تھا۔ اِس مہربانہ عمل نے اُس کے دائیں ہاتھ کو بچا لیا، مگر اُس کا بایاں ہاتھ ، منفی درجہ حرارت میں جم گیا۔ جب وہ سالٹ لیک سٹی پہنچے ، تو اُس کے اُس ہاتھ کی کئی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔

9 نومبر دوپہرکے آغاز میں ، دکھی انسانیت کے چھکڑے دہ یکی کے دفتر کی عمارت کے سامنے رکے، جہاں اب سالٹ لیک سٹی میں جوزف سمتھ میموریل عمارت ہے۔ بہت سارے جمے ہوئے ہاتھوں او ر پاؤں کے ساتھ آئے۔ اُنہتر سفر میں فوت ہوگئے تھے۔ مگر انگلستان میں مولٹنز خاندان کو دی گئی برکت کا وعدہ پورا ہوا تھا۔ تھامس اور سارہ ڈینٹن مولٹن کا ایک بھی بچہ نہیں کھویا تھا۔

حفاظت سے رومانس تک

کمپنی کا استقبال سالٹ لیک سٹی کے ہزاروں افراد نے کیا جو بے تابی سے اُن کے آنے کا انتظار کر رہے تھے اور اُن کی مدد اور حفاظت کے لئے تیار تھے۔ ایک نوجوان ہیرو کا شکریہ کرتے اور سراہتے ہیں جس نے مولٹنز کی مدد کی اور موت کے چنگل سے چھڑایا اور جلد ہی سارہ الزبتھ کی محبت اور رومانس میں گرفتار ہو گیا۔

۵ دسمبر ، ۱۸۵۶ کو اپنے عزیزوں کی نیک خواہشات کے ساتھ ، سارہ الزبتھ کی شادی جان بینٹ ہاکنز سے ہوئی ، جو اُس کا بچانے والا تھا۔ وہ اگلے جولائی میں اینڈوؤمنٹ ہاؤس میں وقت اور ابدی طور پر سربمہر ہوئے۔ اُنہوں نے اپنا گھر سالٹ لیک سٹی میں بنایااور اُن کو تین بیٹوں اور سات بیٹیوں ساتھ برکت ملی۔ اُن میں سے ایک بیٹی ، ایسٹر ایملی کی شادی میرے دادا چارلس ریسبینڈ سے ۱۸۹۱ میں ہوئی۔

۲۴ جولائی کو ہم یومَ پیش رو مناتے ہیں ، اور ہم بہت سارے پیش روؤں کے لئے تشکر کا اظہار کرتے ہیں جنہوں نے سالٹ لیک وادی اور مغربی ریاست ہائے متحدہ میں دیگر بہت ساری کمیونٹیز کو بنانے کے لئے اپنا سب کچھ دیا۔ ہم ساری دنیا کے مقدسین آخری ایام کے پیش روؤں کے لئے شکریے کا اظہار کرتے ہیں جنہوں نے پہلی دفعہ سفر کیاـــــاوردوسروں کی پیروی کے لئے انجیلی راستے پر کر رہے ہیں۔

کون سی بات اُنہیں تحریک بخشتی ہے؟ کون سی با ت اُنہیں جاری رکھنے کی تحریک بخشتی ہے؟ اِس کا جواب خداوند یسوع مسیح کی گواہی ہے۔ پیش روؤں کا پڑپوتا ہونے کے ناطے، میں اپنی شہادت اور گواہی دیتاہوں کہ اُن کی کوششیں بے سود نہ تھیں۔ جو اُنہوں نے محسوس کیا ، میں محسوس کرتا ہوں۔ جو وہ جانتے تھے ، میں جانتا ہوں اور اُس کا ریکارڈ رکھتا ہوں۔

بائیں : موجودہ دَور میں گلوسسٹر ، انگلستان

ساؤتھ ویلز، انگلستان میں کھیتوں کی تصاویر ، اور سکاٹس بلیف قومی یاد گار گیٹی امیجز سے۔

سکاٹس بلیف کی قومی یاد گار ، مغربی نیبراسکا ، یو۔ایس۔ اے میں۔

سویٹ واٹر ریور نزد مارٹنز کوو، وائمنگ ، یو۔ایس۔اے