۲۰۱۸
ناکامی منصوبہ کا حصہ ہے
جولائی ۲۰۱۸


صرف ڈجیٹل

ناکامی منصوبہ کا حصہ ہے۔

صحائف میں چار اسباق ہیں جن سے آپپسندیدہ “ ناکامیوں ” سے سیکھ سکتے ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہےانٹرنیٹ کاایک واضح حصہ پنٹرسٹ ناکامیوں سے لے کر لوگوں کی الٹی چھلانگ لگانے کی وڈیو تک“ مذاحیہ ناکامی ” سے لطف انداز ہونے کے لئے مختص کیاہے۔ شاید ہم محض یہ جاننے کی آرزو رکھتے ہیں کہ جبہماری بہترین کوششیں بھی ناکافی معلوم ہوتی ہیں تو ہم اکیلے نہیں ہوتے۔ خیر، جاننے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔

اگر آپ محسوس کریں کہ آپ کے ایام ناکامی سے معمور ہیں ، صحائف سے حوصلہ پائیں۔ وہ چند خوبصورت اورحیران کن لوگوں کی قریباً کامل کاوشوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہاں محض چند اسباق ہیں جو یہ احساس دلانے میں آپ کی مدد کرتے ہیں کہ شاید آپ اپنی سوچ سے کہیں بڑھ کر کر رہے ہیں۔

۱۔ ایمان ناکامی کو نہیں روکتا؛ یہ اُسے بامقصد بنایا ہے۔

نیفی ایمان سے لبریز تھااوور وہ اور اُسکے بھائی پیتل کے اوراق کے لئے واپس گئے، مگر اِس ایمان کے باجود—وہ دو مرتبہ، بُری طرح ناکام ہوئے۔( دیکھئے 1 ۔نیفی ۳ )۔ مگر ناکامی کی صورت میں اُسکے ایمان نے اُسکی ناکامی کو کامیابی کی تیاری کے لئے بِدلا۔ کیا لابن کے ساتھ سابقہ جھگڑوںنے نیفی کی اُسے پہچاننے، اُسکا بھیس بدلنے، اُسکے گھر کو ڈھونڈنے، اور مقدس تواریخ کے ساتھ وہاں سے نکلنے میں مدد کی؟ ہم یقین سے نہیں جانتے ہیں۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ ہماری مستقبل کی کامیابی عموماً سابقہ ناکامیوں پر تعمیر ہوتی ہے۔

۲۔ خُد اہماری ناکامیوں کو پہلے سے جانتا تھا اور پہلے سے اِ س کی منصوبہ سازی کی۔

جوزف سمتھ کے یہ جاننے کے بعد کہ مورمن کی کتاب کے ۱۱۶ صفحات مسودہ میں سے کھو گئے ہیں ، وہ چلایا، “ سب ختم ہو گیا!”۱ وہ جانتا تھا کہ وہ ناکام ہو اہے۔ وہ جانتا تھا کہ اُسے جھڑکا جائے گا اور ممکنہ طور پر نکال دیا جائے گا۔ اور پھر بھی سب کچھ ختم نہیں ہوا تھا۔ خُد اتقریباً ۲۰۰۰ سال پہلے جوزف سمتھ کی ناکامی سے آگاہ تھا اور اس کے لئے تیار تھا۔

اِسی طرح ، خُدا دُنیاکی تخلیق سے بہت پہلے ہماری ناکامیوںکے بارے جانتا تھا۔ ۲ حتی کہ وہ ہماری غلطیوں کو برکات میں بدلنے پر قادر ہے ( دیکھئے رومیوں ۸: ۲۸)۔ اور اُس نے ایک منجی فراہم کیا تاکہ جب ہماری ناکامیوں میں گناہ ملوث ہو، توہم توبہ کر سکیں ،جو ہمیں “[اپنے] تجربات سےملامتپائے بغیر سیکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔”۳

کوشش ترک مت کریں ؛ ہم ہمیشہ اپنی کامیابی نہیں دیکھتے ہیں۔

ابینادی کو لوگوں میں توبہ کی منادی کرنے کے لئے بُلایا گیا تھا۔ اگر ابینادی نے اپنی کامیابی کا اندازہ توبہ کرنے والے لوگوں کی تعداد سے لگایاہوتا، تووہ یہ یقین کرتے ہوئے مر سکتا تھا کہ وہ مکمل ناکامی تھا۔ پہلی مرتبہ جب اُس نے نوح بادشاہ کے لوگوں کو توبہ کے لئےخبردا رکیا ، اُسے رد کیا گیا اور وہ ہلاک ہونے سے بال بال بچا۔ (دیکھیں مضایاہ ۱۱: ۲۹-۲۰ ۔) ترک کرنے کی بجائے ، اُ سنے دوبارہ کوشش کی، جانتے ہوئے کہ وہ مارا بھی جا سکتا ہے—اور وہ مار ابھی گیا۔

مگر چونکہ اُس نے ہمت نہ ہاری، آخرکار لوگوں نے توبہ کی( دیکھئے مضایاہ ۲۱: ۳۳)۔ اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتا تھا، ایلما تبدیل ہوا، بہت سوں کو سیکھایا اور بپتسمہ دیا، اور نیفیوں کے درمیان میں کلیسیاء کو منظم کیا۔ ایلما کی اُولاد نے کلیسیاء کی ، اور بعض اوقات قوم کی ، یسوع مسیح کے آنے تک ، ہزاروں کو تبدیل کرتے ہوئے، زیادہ تر لامنوں سمیت ، راہنمائی کی ۔ ( دیکھئے ہیلیمن ۵: ۵۰)۔ ایک شخص جو ناکامی کی صور ت میں ہمت نہیں ہارتا شاندار فرق پید اکر سکتا ہے۔

۴۔ بعض اوقات مسائل سے سیکھنا اُن کو حل کرنے کی نسبت زیادہ اہم ہے۔

اولیو رگرینجر کام کو سر انجام دینے کے لئے اختیار رکھنے کاعادی تھا۔ ۱۸۳۰ میں کلیسیا میں شمولیت اختیا رکرنے سے پیشتر، وہ کاؤنٹی کا شیرف، فوج میں کرنل، اور اپنی کلیسیاء کا لائسنس یافتہ مبلغا تھا۔ شمولیت اختیار کرنے کے بعد، اُس نے دو مشنوں پر گیااور کرٹ لینڈ مجلس اعلیٰ کا رکن تھا۔ مگر تب جوزف سمتھ نے اولیور کو کلیسیائی راہنماؤں کےمعاملات کو حل کرنے کی تقریباً ناممکن ذمہ داری دی جو کرٹ لینڈ سے نکال دیے گئے تھے۔۴

ناکامی محسوس کرتے ہوئے، اولیور، جوزف کے پاس گیا اور خُداوند کو فرماتے ہوئے سُنا،”میرا خادم اولیور گرینجر مجھے یاد ہے؛ … اور جب وہ گرے گا وہ پھر اُٹھ کھڑا ہو گا، کیونکہ اُس کی قربانی میرے حضوراُس کی کامیابی سے زیادہ مقدس ہوگی“ (تعلیم و عہد ۱۱۷: ۱۲–۱۳)۔ اولیور سے ، ہم سیکھتے ہیں کہ ننتیجتاًخُدا جوچاہتا ہے ہمیشہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی چنوتیو ں کے درست حل نکالیں ، بلکہ ہم اُن کامقابلہ کرنے سےفروغ پائیں۔

ترقی بے ترتیب ہو سکتی ہے

ہم یہاں سیکھنے اور فروغ پانے کے لئے ہیں ، مگرفروغیتکبھی بھی مخالفت کے بغیر نہیں آتی۔ ہم سب غلطیاں کرتے ہیں، صدارتی مجلس اعلٰی میں مشیر دوم صدر ڈئیٹر ایف۔ اکڈورف نے فرمایا، مگر ”ہماری منزل کا فیصلہ ہمارے ٹھوکر کھانے کی تعداد سے نہیں بلکہ اُٹھ کھڑے ہونے ، خُود سے گرد جھاڑنے، اور آگے بڑھنے کی تعداد سے کیا جاتا ہے۔“۵

حوالہ جات:

  1. دیکھئے “Lucy Mack Smith, History, 1844–1845,” book 7, pages 5–6. اِس تجربہ سے مزید اسباق سیکھنے کے لئے ، دیکھئے کیتھ ڈبلیو۔ پرکنز ، “Thou Art Still Chosen,” Ensign, Jan. 1993, 14–19.

  2. جوزف نے بعد میں سیکھایا: ”عظیم یہواوہ نے نجات کے منصوبہ سے متعلق ، زمین سے وابستہ تمام واقعایات پر ، اِس کے وجود میں آنے سے پیشترغو رکیا۔ … وہ زندوں اور مُردوں دونوں کی حالت کو جانتا ہے، اور اُن کی مخلصی کے لئے خاطر خواہ سہولت مہیا کی ہے“ (in Teachings of Presidents of the Church: Joseph Smith [۲۰۰۷]۷,- ۴۰۶)

  3. بروس سی ہیفن، “The Atonement: All for All,” Liahona, May 2004, 97.

  4. دیکھئے بوائیڈ کے۔ پیکر، “The Least of These,” Liahona, نومبر ۲۰۰۴, ۸۶–۸۸; The Joseph Smith Papers, History, 1۱۸۳۸تا ۱۸۵۶, volume B–1 [1 September ۱۸۳۴–۲ November ۱۸۳۸], ۸۳۷ بھی دیکھئے۔

  5. ڈئیٹر ایف اُکڈرف ، “ You Can Do It Now!” ”Liahona, Nov. 2013, 55.