۲۰۱۸
ایزبیلا کا سفر
جولائی ۲۰۱۸


ایزبیلا کا سفر

مصنفہ ٹیکساس ، یو۔ایس۔ اے میں رہتی ہے۔

سفر لمبا اور مشکل ہو گا، مگر ہیکل پہنچے کے لئے یہ اہل تھا۔

برازیل ۱۹۹۲

ایزبیلانے ترچھی آنکھ سے گہرے نیلے آسمان کو دیکھا۔ نظر میں کوئی بادل نہ تھے۔ اُس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبانی پھیری۔

اُس کے والدین سٹیک کے صدر ، سان تیاگو سے چپکے سے بات کر رہے تھے۔ کشتی کی موٹر کا بھی شور تھا کہ وہ اُن کو سن نہ سکتی تھی۔ مگر وہ جانتی تھی کہ وہ بات کر رہے تھے۔ پینے کے لئے مزید پانی نہ تھا۔

ایزبیلا نے اپنے سفر کی وجہ پر توجہ دینے کی کوشش کی۔ وہ بطور خاندان سر بمہر ہونے کے لئے ہیکل جا رہے تھے۔ اُسے یاد ہے کہ جب سے وہ چھوٹی بچی تھی اُس کے والدین ہمیشہ ساؤپاؤلو کی خوبصورت ہیکل کے بارے بات کرتے تھے۔ وہاں جانا پریوں کی کہانی کی مانند لگتا تھا۔ آخر کار، ایزبیلا کا خاندان ماناوس میں رہتا تھا جو ایمزون کے برساتی جنگلات کے میں کافی دور رہتا تھا، اور اور ہیکل وہاں سے ۲۰۰۰ میل، (۳۲۱۹ کلومیٹر) دُور تھی۔

تب صدر سان تیاگو نے وہاں جانے کے لئے چھ دن کے سفر کا منصوبہ بنایا۔ ۱۰۰ سے زائد ارکان نے جانے کا فیصلہ کیا۔ ماں نے اُس کو بتایا تھا، ”یہ ایک قربانی ہوگی“، “مگر قربانی برکات لاتی ہے۔”

پہلے تو ، سفر پُرجو ش تھا۔ وہ کشتی کے عرشے پر جھولن کھٹولے میں سوئے، گیت گائے، اور صحائف کا مطالعہ کیا۔

مگر پھر پینے کا پانی ختم ہو گیا، اور دریا کا پانی پینے کے لئے انتہائی گندا تھا۔

ایزبیلا نے محسوس کیا کہ اُس کی ماں نے اُس کے بازو کو چھوا ہے۔ ”صدر سان تیاگو ہم سب کو اکٹھا کر رہا ہے “، اُس نے کہا۔ ”ہم بار ش کے لئے دعا کریں گے۔“

ایزبیلاگروہ میں شامل ہوئی اور دعا شروع کی۔ جب اُنہوں نے دعا ختم کی ، تو اُس نے ٹھنڈی ہوا محسوس کی جو اُ سکی گردن پر گُدگدا رہی تھی۔ اُس نے کشتی کی طرف دور لگائی اور اُسے پکڑ لیا۔ سیاہی مائل بادلوں کا طوفان اُن کی طرف آرہا تھا۔ جلد ہی بارش ہونے لگی! اپنی زبان پر بارش کے قطرے لینے کے لئے اُس نے اپنا منہ کھولا۔

”جلدی!“ ماں چلائی۔ “بالٹیاں ،تسلا ، ـــکچھ بھی لاؤ!”

ایزبیلا نے ایک تسلا پکڑا اور باہر لے گئی۔ وہ چاہتی تھی کہ جتنا بھی پانی وہ جمع کر سکتی ہے کرلے۔ ہر کوئی مل کر کام کرتا تھا، ہنستے اور خوشی مناتے ہوئے۔ جلدی ہی اُن کا گروہ بھیگا گیا تھا! طوفان 15 منٹ جاری رہا۔ اُن کے لئے ضرورت کردہ پانی اکٹھے کرنے کے لئے یہ بہت زیادہ وقت نہ تھا۔ یہ ایک معجزہ تھا۔

جلد ہی کشتی خشکی پر پہنچ گئی۔ لیکن ابھی بھی اُن کو ۱۵۰۰ میل( ۲۴۱۴ کلومیٹر) آگےجانا تھا۔ باقی سفر کے لئے ہر ایک کو بس پر سوار ہونا تھا۔ کئی دنوں تک، خراب رستوں پر جھٹکے کھاتی رہی۔ ایک بار تو اتنی بُری طرح اُچھلی کہ اِس کی سامنے والی سکرین ہی ٹوٹ گئی! بعض اوقات اُنہو ں نے گرم ، پُر ہجوم شہروں میں سفر کیا۔ مگر کم از کم وہاں کے راستے اتنے جھٹکوں والے نہ تھے۔

ہرکوئی ہمیشہ ہی شکر گزار تھا جب وہ کسی گاؤں یا قصبے میں کھانے کے لئے رُکتے ۔ وہ راستوں میں چیپلوں میں یا کلیسیائی ارکان کے ساتھ کھاتے۔ پہلی رات وہ بہت دیر سے پہنچے کہ ایزبیلا ڈر گئی کہ اب کوئی بھی اُن کا انتظا ر نہ کر رہا ہو گا۔ ماں ہی تھکی ہوئی مسکراہٹ سے کہا، ”پریشان مت ہو،“ “دیکھو!”

برانچ کا صدر اور کلیسیائی ارکان سڑک کے اُس پار قطار میں کھڑے تھے۔ اُنہوں کے ہاتھ میں ایک بینر تھا جس پر لکھا تھا “قربانی برکت لاتی ہے۔” ایزبیلا مسکرائیمامایا نے ٹھیک کہا تھا!

تین دن کے ہچکلولے دار سفر کے بعد، آخر کار وہ ساؤ پاؤلو پہنچے۔ جوں ہی بس نے موڑ لیا ایزبیلا بہتر نظارہ کے لئے نشست پر کھڑی ہوئی۔ اچانک بس پر ہر کوئی خوشی سے چلا اُٹھا۔ “اوہ ہیکل! اوہ ہیکل !” وہ کھجور کے درخت سے اوپر ہیکل کے دراز قامت باریک بُرج دیکھ سکتے تھے۔ سورج کی روشنی مرونی سنہری فرشتے پر چمک رہی تھی۔

ہر کوئی تھکا ہوا تھا، مگر کوئی بھی آرام نہ کرنا چاہتا تھا۔ وہ اُسی وقت سربمہر ہونا چاہتے تھے۔ جب ایزبیلا کے خاندان کا سربمہر ہونے کا وقت آیا تو، اُس نے بڑی احتیاط سے سفید لباس پہنچا۔ جب وہ سربمہر کرنے والے کمرے میں گئی، تو اُس نے اپنے باپ کو پُر مسرت دیکھا۔ خوشی کے آنسو ماں کے چہرے پر بہنے لگے۔ اُن کا سفر طویل حتیٰ کہ خطرناک تھا۔ “مگر قربانی اِس کے اہل تھی، ” ایزبیلا نے سوچا۔ جب اُس نے اپنے خاندان کو ہمیشہ کے لئے سربمہر کرنے کے لئے جگہ لی تو وہ مسکرائی۔