مجلسِ عامہ
سلامتی کے شاہ زادے کے پیروکار
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۳


سلامتی کے شاہ زادے کے پیروکار

جب ہم نجات دہندہ جیسی صفات کو فروغ دینے کے خواہاں ہوتے ہیں، تو ہم دُنیا میں اُس کے اِطمِینان کے وسائل بن سکتے ہیں۔

زکریاہ کو دی گئی نبُوت کی تکمیل میں،۱ یِسُوع فاتحانہ انداز سے گدھے پر سوار ہو کر شہرِ مُقدّس میں داخل ہُوا، جِسے ادب میں ”یہودی ملوکِیت کی قدیم علامت“ تصور کِیا جاتا تھا۲ جو کہ دَرحقیقت شہنشاہوں کے شہنشاہ اور سلامتی کے شاہ زادے کے لیے موزُوں تھی۔۳ شادمان شاگردوں، کے ہجوم میں گِھرے ہُوئے، جنھوں نے اپنے کپڑے، کھجوروں کی ڈالیاں، اور اُس راہ کے کِنارے درختوں کی ڈالیاں بِچھائیں جہاں سے یِسُوع گُزرا۔ اُنھوں نے خُدا کی حمد کی، بُلند آواز سے یہ کہتے ہُوئے کہ، ”مُبارک ہے وہ بادِشاہ جو خُداوند کے نام سے آتا ہے: آسمان پر صُلح، اور عالمِ بالا پر جلال۔“۴ اور پھر سے، ”اِبنِ داؤد کو ہوشعنا: مُبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام پر آتا ہے؛ عالمِ بالا پر ہوشعنا۔“۵ یہ عظیمُ الشان واقعہ، جِسے ہم اُس دِن مناتے ہیں جو کھجوروں کے اِتوار کے نام سے جانا جاتا ہے، اُن کرب ناک واقعات کا پیش خیمہ تھا جو کہ نجات دہندہ کی بے لوث قُربانی اور قیامت المسِیح کے شان دار معجزے پر اِختتام پذیر ہونے والے فیصلہ کُن ہفتے کے دوران میں پیش آئیں گے۔

اُس کے پیروکار کی حیثیت سے، ہم اُس کی خاص اُمّت ہیں، جنھیں اُس کی خُوبیاں ظاہر کرنے کے واسطے بُلایا گیا ہے،۶ اِطمِینان کو فروغ دینے والے جو اُس کے اور اُس کی کَفارہ بخش قُربانی کے وسیلے سے نہایت فراخ دِلی سے پیش کِیا گیا ہے۔ یہ اِطمِینان وہ نعمت ہے جِس کا وعدہ اُن سب سے کِیا گیا ہے جو اپنے دِلوں کو نجات دہندہ کی طرف مائل کرتے اور راست بازی سے زِندگی بسر کرتے ہیں؛ ایسا اِطمِینان ہمیں فانی زِندگی سے لُطف اندوز ہونے کی قُوت بخشتا اور ہمیں اپنے سفر کے تکلیف دَہ اِمتحانات کو برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔

۱۸۴۷ میں، خُداوند نے پیش رَو مُقدّسین کو خاص ہدایات دِیں، جنھیں پُرسکون اور مُتحد رہنے کے لیے اِطمِینان کی ضرُورت تھی جب اُنھیں مغرب کی جانب اپنے سفر میں غیر متوقع مُشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ، خُداوند نے مُقدّسین کو ہدایت دی کہ وہ ”ایک دُوسرے سے جھگڑا کرنا ترک کریں؛ ایک دُوسرے کی عیب جوئی کرنا ترک کریں۔“۷ صحائف تصدیق کرتے ہیں کہ وہ جو راست بازی کے کاموں پر عمل کرتے ہیں اور رُوحِ خُداوندی کی عجز و اِنکسار میں چلنے کے خواہاں ہوتے ہیں اُن سے افراتفری کے ایّام سے نپٹنے کے واسطے درکار اِطمِینان کا وعدہ کِیا گیا ہے جِس میں ہم آج رہتے ہیں۔۸

سلامتی کے شاہ زادے کے شاگردوں کی حیثیت سے، ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ ”اپنے دِلوں کو ایک دُوسرے سے یگانگت اور محبّت میں مُتحد رکھیں۔“۹ ہمارے عزیز نبی، صدر رسل ایم نیلسن، نے حال ہی میں فرمایا تھا کہ، ”جھگڑا ہر اُس بات کی خلاف ورزی کرتا ہے جِس کے لیے نجات دہندہ کھڑا تھا اور جو سِکھائی تھی۔“۱۰ ہمارے نبی نے یہ بھی درخواست کی تھی کہ ہم ذاتی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے ہر مُمکن کوشش کریں جو اِس وقت ہمارے دِلوں اور ہماری زِندگیوں میں پَل رہے ہیں۔۱۱

آئیے ہم اپنے لیے مسِیح کے سچّے عِشق کے پیشِ نظر اِن اُصُولوں پر غور کریں کہ ہم، اُس کے پیروکار کی حیثیت سے، دُوسروں کے لیے بھی اِسی کے خواہاں ہوں۔ صحائف اِس طرح کے پیار کو محبّت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔۱۲ جب ہم محبّت کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہمارے ذہن عموماً لوگوں کے مصائب کو دُور کرنے کے لیے پُر فیض اَعمال اور عطیات کی طرف مائل ہوتے ہیں جو جِسمانی، مادی، یا جذباتی مُشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر بھی، محبّت کا تعلق نہ صرف کسی چِیز سے ہوتا ہے جو ہم کسی کو عطیہ کرتے ہیں، بلکہ یہ نجات دہندہ کی صفت ہے اور ہمارے کِردار کا حِصّہ بن سکتی ہے۔ یہ حیران کُن بات نہیں ہے کہ خُداوند نے ہمیں ہدایت دی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ”محبّت کے بندھن سے ملبُوس کریں، … جو کامِلیت اور صُلح کا بندھن ہے۔“۱۳ محبّت کے بغیر، ہم کُچھ بھی نہیں ہیں۱۴ اور ہم اُس جگہ کے وارث نہیں بن سکتے جو خُداوند نے ہمارے آسمانی باپ کے مکانوں میں ہمارے واسطے تیار کی ہے۔۱۵

یِسُوع نے کامل طور پر مثال پیش کی کہ کامِلیت اور اِطمِینان کے اِس بندھن کو اپنانے سے کیا مُراد ہے، خاص طور پر جب اُس نے اپنی شہادت سے پہلے کے درد ناک واقعات کا سامنا کِیا۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ یِسُوع نے کیسا محسُوس کِیا ہوگا جب اُس نے فروتنی سے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے، یہ جانتے ہُوئے کہ اِن میں سے ایک اُسی رات اُس کو دھوکا دے گا۔۱۶ یا جب یِسُوع نے، گھنٹوں بعد، رحم دِلی سے اُن آدمیوں میں سے ایک کے کان کو شِفا دی، جو اُسے گرفتار کرنے کے لیے اُس کے دھوکادینے والے، یہُوداہ کے ساتھ آیا تھا۔۱۷ یا حتیٰ کہ جب نجات دہندہ، پیلاطُس کے سامنے کھڑا تھا، اُس پر سردار کاہنوں اور بُزرگوں کی طرف سے ناجائز اِلزام لگائے گئے تھے، اور نہ ہی اپنے خلاف لگائے گئے جُھوٹے اِلزامات کے خِلاف اُس نے ایک لفظ بھی کہا، اور اُس نے رومی گورنر کو حیرت میں مُبتلا کر ڈالا۔۱۸

اِن تین افسوس ناک واقعات کے ذریعے سے، نجات دہندہ، بے تحاشا اُداسی اور دباؤ کے بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود، ہمیں اپنے نمونہ سے سِکھاتا ہے کہ ”محبّت صابر ہے، اور مہربان ہے؛ … حَسد نہیں کرتی؛ … شیخی نہیں مارتی، پھُولتی نہیں، نازیبا کام نہیں کرتی، اپنی بہتری نہیں چاہتی، جُھنجلاتی نہیں، [ اور ] بد گُمانی نہیں کرتی۔“۱۹

ایک اور اہم پہلو جِس پر زور دِیا گیا ہے، اور جو براہِ راست ہماری شاگِردی پر اثر انداز ہوتا ہے اور ہم نجات دہندہ کے اِطمِینان کو کیسے فروغ دیتے ہیں، وہ طریقہِ کار ہے جِس سے ہم ایک دُوسرے کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں۔ اُس کی فانی خِدمت کے دوران میں، نجات دہندہ کی تعلیمات نے—نہ صرف، بلکہ خاص طور پر—پیار، محبّت، صبر، فروتنی، اور ہم دردی کی خُوبی پر توجّہ مرکُوز کی—اُن کے واسطے بُنیادی صفات ہیں جو اُس کے قریب ہونا اور اُس کے اِطمِینان کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ایسی صفات خُدا کی طرف سے نعمتیں ہیں، اور جب ہم اِن کو فروغ دینے کے خواہاں ہوتے ہیں، تو ہم اپنے پڑوسی کے اِختلافات اور کم زوریوں کو زیادہ ہم دردی کے ساتھ، شعُور کے ساتھ، عِزّت کے ساتھ، اور رواداری کے ساتھ دیکھنا شُروع کریں گے۔ واضح ترین نِشانوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم نجات دہندہ کے قریب تر ہو رہے ہیں اور مزید اُس کی مانند بن رہے ہیں وہ محبّت رکھنے والا، صابر، اور ہم دردانہ طریقہ ہے جِس سے ہم اپنے ہم عصروں کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں، چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔

ہم اکثر ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو دُوسروں کی ظاہری خصوصیات، کم زوریوں، اور آرا کے بارے میں منفی اور حتیٰ کہ تضحیک آمیز تبصروں میں مشغُول ہوتے ہیں، خصُوصاً جب ایسی خصوصیات اور آرا اُن کے کام کرنے اور سوچنے کے انداز سے مُختلف یا مُتضاد ہوتی ہیں۔ اُن لوگوں کو دُوسروں کو ایسے تبصرے کرتے دیکھنا بہت عام بات ہے، جو کسی صُورتِ حال سے مُتعلق تمام حالات کو واقعی جانے بغیر سُنی سُنائی باتیں دُہراتے ہیں۔ بدقِسمتی سے، سوشل میڈیا مُبہم سچّائیوں اور شفافیت کے نام پر اِس قسم کے رویے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ بغیر روک ٹوک، ڈیجیٹل گُفت گُو اکثر لوگوں کو ذاتی حملوں اور شدید تنازعات کی طرف لے جاتی ہے، مایوسیاں پَیدا کرتی ہے، دِلوں کو گھائل کرتی، اور دہکتی دُشمنی پھیلاتی ہے۔

نِیفی نے نبوت کی کہ ایّامِ آخِر میں، دُشمن بنی آدم کے دِلوں کو غضب ناک کرے گا اور اُنھیں اُس کے خِلاف غُصّے میں جوش دِلائے گا جو بھلا ہے۔۲۰ صحائف سیکھاتے ہیں کہ ”ہر وہ بات جو نیکی کرنے، اور خُدا سے محبّت رکھنے، اور اُس کی خِدمت کرنے کی دعوت دیتی اور راغب کرتی ہے، خُدا کے اِلہام سے ہے۔“۲۱ اِس کے برعکس، ”بدی اِبلِیس کی طرف سے آتی ہے؛ کیوں کہ اِبلِیس خُدا کا دُشمن ہے، اور مُسلسل اُس کے خِلاف لڑتا ہے، اور گُناہ کرنے کے لیے اُکساتا اور دعوت دیتا ہے، اور مُسلسل بدی کے کام کرتا ہے۔“۲۲

اِس نبُوتی تعلیم پر غور کرتے ہُوئے، یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ دُشمن کے حربوں میں سے ایک یہ ہے کہ خُدا کے بچّوں کے دِلوں میں دُشمنی اور نفرت پھیلائی جائے۔ وہ خُوشی مناتا ہے جب وہ لوگوں پر تنقید کرتے، تمسخر اُڑاتے، اور ایک دُوسرے پر بُہتان لگاتے دیکھتا ہے۔ یہ رویہ کسی شخص کے کِردار، شہرت، اور خُود اعتمادی کو برباد کر سکتا ہے، خصُوصاً جب وہ شخص غیر مُنصفانہ طور پر پرکھا جائے۔ اِس بات کی نِشان دہی کرنا نہایت اہم ہے کہ جب ہم اپنی زِندگیوں میں اِس قسم کے رویے کو فروغ دیتے ہیں، تو ہم دُشمن کے لیے اپنے دِلوں میں جگہ بناتے ہیں کہ وہ ہمارے درمیان نفرت کا بیج بوئے، اور یُوں اُس کے سازشی پھندے میں پھنسنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

اگر ہم اپنے خیالات، کلام، اور اعمال میں مُحتاط نہیں ہیں، تو ہم دُشمن کی چالاکِیوں میں اُلجھ کر، اپنے اِرد گِرد کے لوگوں اور اپنے پیاروں کے ساتھ اپنے تعلُقات کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو، خُداوند کی خاص ملکِیت اور امن و امان کے پیشرو ہونے کے ناطے، ہم شیطان کی بدکاریوں کو اپنے دِلوں میں گھر کرنے کی اِجازت نہیں دے سکتے۔ ہم ایسا زہریلا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے جو احساسات، تعلقات، اور حتیٰ کہ زِندگیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ اِنجِیل بڑی خُوشی کی بشارت دیتی ہے۔

بے شک، ہم میں سے کوئی بھی کامِل نہیں ہے، اور یقیناً ایسا وقت آتا ہے جب ہم اِس قسم کے رویے میں مُبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہمارے اِنسانی رُجحانات کی کامِل محبّت اور ہمہ گیر عِلم میں، نجات دہندہ ہمیشہ ہمیں ایسے خطرات سے خبردار کرنے کا خواہاں ہے۔ اُس نے ہمیں سِکھایا ہے، ”کیوں کہ جِس طرح تُم عَیب جوئی کرتے ہو، تُمھاری بھی عَیب جوئی کی جائے گی: اور جِس پَیمانہ سے تُم ناپتے ہو، اُسی سے تُمھارے واسطے ناپا جائے گا۔“۲۳

میرے عزیز بھائیو اور بہنو، جب ہم نجات دہندہ جیسی صفات کو فروغ دینے کے خواہاں ہوتے ہیں، تو ہم اُس نمونے کے مُوافق دُنیا میں اُس کے اِطمِینان کے وسائل بن سکتے ہیں جو اُس نے خُود قائم کِیا تھا۔ مَیں آپ کو دعوت دیتا ہُوں کہ ایسے طریقوں پر غور کریں جن سے ہم خُود کو ترقی اور معاون اُمّت میں بدل سکتے ہیں، ایسی اُمت جو فہمیدہ اور مُعاف کرنے والے دِل رکھتی ہو، ایسی اُمّت جو دُوسروں میں عُمدگی اور نفاست کی تلاش کرتی ہو، ہمیشہ یہ یاد رکھتے ہُوئے کہ ”اگر کوئی بات پاکِیزہ، پسندِیدہ، یا دِل کش یا قابلِ آفریں ہو تو، ہم اَیسی باتوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔“۲۴

مَیں آپ سے وعدہ کرتا ہُوں کہ جب ہم اِن صفات کی پیروی کرتے اور فروغ دیتے ہیں، تو ہم اپنے ہم عصروں کی ضرُوریات کے لیے زیادہ سے زیادہ خُوش گوار اور حساس ہو جائیں گے۲۵ اور خُوشی، اِطمِینان، اور رُوحانی ترقی کا تجّربہ پائیں گے۔۲۶ بے شک، خُداوند ہماری کاوشوں کو تسلیم کرے گا اور ہمیں وہ نعمتیں عطا کرے گا جِس کی ہمیں ایک دُوسرے کے اختلافات، کم زوریوں، اور خامیوں کے ساتھ زیادہ برداشت اور صبر کرنے کی ضرُورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، ہم دُوسروں سے خفا ہونے یا ہمیں تکلیف پہنچانے والوں کو خفا کرنے کی ترغیب کے خِلاف بہتر طور پر مزاحمت کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ جیسا کہ نجات دہندہ نے کِیا، اُن لوگوں کو مُعاف کرنے کی ہماری تمنا جو ہمارے ساتھ بدسلوکی کرتے یا ہمارے مُتعلق بدکلامی کرتے ہیں یقیناً بڑھے گی اور ہمارے کِردار کا حِصّہ بنے گی۔

کاش ہم آج، کھجوروں کے اِس اِتوار کو، پیار کے چُغے اور محبّت کی کھجوروں کی ڈالیاں بچھائیں، سلامتی کے شاہ زادے کے نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے جب ہم آنے والے اِتوار کو قیامت المسِیح کا معجزہ منانے کی تیاری کرتے ہیں۔ مسِیح میں بھائیوں اور بہنوں کی حیثیت سے، آئیے خُوشی سے پرچار کریں، ”اِبنِ داؤد کو ہوشعنا: مُبارک ہے وہ جو خُداوند کے نام پر آتا ہے؛ عالمِ بالا پر ہوشعنا۔“۲۷

مَیں گواہی دیتا ہُوں کہ یِسُوع مسِیح زِندہ ہے اور کہ اُس کی کامِل محبّت، جو اُس کی کَفارہ بخش قُربانی کے وسیلے سے آشکار کی گئی ہے، اُن سب کو بخشی جاتی ہے جو اُس کے ساتھ چلنے اور اِس جہان اور آنے والے جہان میں اُس کے اِطمِینان سے لطف اندوز ہونے کے آرزُو مند ہیں۔ مَیں یہ سب کُچھ نجات دہندہ یِسُوع مسِیح کے مُقدّس نام پر کہتا ہوں، آمین۔