مجلسِ عامہ
خُداوند کی آس رکھ
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۰


خُداوند کی آس رکھ

اِیمان سے مُراد اچّھے اور بُرے وقتوں میں خُدا پر توکّل کرنا ہے، اگرچہ اِس دوران میں کچھ تکلیف بھی سہنی پڑے جب تک ہمارے واسطے وہ اپنا بازُو ظاہر نہیں کرتا۔

میرے پیارے بھائیو اور بہنوں، ہم سب خواہاں ہیں—مُجھ سے زیادہ کوئی نہیں—اپنے پیارے نبی، صدر رسل ایم نیلسن کا اختتامی کلام سننے کے لیے۔ یہ مجلس بہت شان دار رہی ہے، البتہ یہ دُوسرا موقع ہے جب COVID-19 کے طاعون نے ہماری روایتی سرگرمیوں میں ردوبدل کیا ہے۔ ہم اِس بیماری سے اتنے تنگ چکے ہیں، کہ جی چاہتا ہے کہ اپنے نال نوچ لیں۔ اور بظاہر، میرے بعض بھائیوں نے پہلے ہی اِس لائحہِ عمل کو اپنا لیا ہے۔ براہ کرم جان لیں کہ ہم اُن لوگوں کے لیے مستقل طور پر دُعا کرتے ہیں جو کسی بھی طرح سے متاثر ہوئے ہیں، خاص کر اُن کے لیے جو اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ ہر کوئی متفق ہے کہ یہ بہت زیادہ، بہت طویل ہے۔

کتنی دیر تک ہمیں اپنے اُوپر آنے والی مُشکلات سے نجات کا اِنتظار کرنا ہے؟ جِس دوران میں ہم اِنتظار کرتے ہیں اور مُنتظر ہیں اور لگے کہ مدد پہنچنے کی رفتار بہت سُست ہے، تو ذاتی آزمایشوں کو برداشت کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ جب بوجھ ہماری برداشت سے بہت زیادہ ہے تو کیوں تاخیر ہوتی ہے؟

جب اِس طرح کے سوال پوچھتے ہیں، ہم، اگر ہم کوشش کریں تو، قید خانے کی تارِیک اور چِپ چِپاتی کوٹھڑی سے اُس مُقامی علاقے کے مُطابق شدِید ترین موسمِ کے دوران میں کسی دُوسرے کی آواز کی گُونج بھی سُن سکتے ہیں۔

”اَے خُدا، کہاں ہے تُو؟“ ہم لِبرٹی جیل کے تہ خانے سے سُنتے ہیں۔ ”اور وہ سائبان کہاں ہے جو تیری پناہ گاہ کو ڈھانپتا ہے؟ کب تک تیرا ہاتھ موقُوف رہے گا؟“۱ کب تک، اَے خُداوند، کب تک؟

لہذا، جب ہم پر مُصِیبت آن پڑتی ہے یا دردِ دل رُکنے کا نام نہیں لیتا تو اَیسے سوال پُوچھنے والے نہ ہم پہلے ہیں اور نہ آخِری ہوں گے۔ مَیں اب وباؤں یا قید خانوں کی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ آپ کی، آپ کے خاندان، اور آپ کے پڑوسیوں کی بات کر رہا ہُوں جن کو بے شُمار مُشکلات کا سامنا ہے۔ مُیں اُن میں سے بہت سے لوگوں کی آرزو کے بارے میں بات کرتا ہُوں جو بیاہ کرنا چاہتے ہیں اور نہیں کر پاتے ہیں یا جو شادی شُدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ ازدواجی رشتہ تھوڑا سا اور شیری ہوتا۔ مَیں اُن لوگوں کے بارے میں بات کرتا ہُوں جنھیں کسی ناگہانی مرض سے نِپٹنا پڑتا، جو شاید لاعلاج ہے، یا جنھیں کسی مورُوثی معذوری کے ساتھ زندگی بھر لڑنا پڑتا ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ مَیں جذباتی اور دماغی صحت سے وابستہ مسائل کے ساتھ مُسلسل جدوجہد کی بات کرتا ہُوں جو بہت سارے لوگوں کی جانوں پر بھاری پڑتے ہیں، اور اُن کے عزیزوں کے دِلوں پر گراں گُزرتے ہیں۔ مُیں اُن غریبوں اور مسکِینوں کے بارے میں بات کرتا ہُوں، جن کو نجات دہندہ نے ہمیں کبھی بھی فراموش نہ کرنے کا کہا، اور مَیں آپ سے بات کرتا ہُوں جو اپنے کسی بچّے کی واپسی کے مُنتظر ہیں، خواہ اُس کی عمر کُچھ بھی ہے، جس نے اَیسی راہ چُن لی ہے جس کے آپ دُعا گو نہ تھے۔

اِس سے بھی بڑھ کر، مَیں تسلیم کرتا ہُوں کہ اِس لمبی فہرست کی بھی جن چیزوں کے لیے ہم ذاتی طور پر آس رکھ سکتے ہیں، مَیں اُن بڑے مُعاشی، سیاسی اور مُعاشرتی خدشات کو دُور کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے جن کا ہم سب مِل کر سامنا کرتے ہیں۔ ہمارا آسمانی باپ ہم سے واضح طور پر توقع کرتا ہے کہ ہم اِن رنجیدہ عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ ذاتی مُعاملات پر بھی توجہ دیں، بلکہ ہماری زندگی میں اَیسے لمحات آئیں گے جب ہماری بہترین رُوحانی کاوِش اور پُرخلوص، مُناجاتیں اور دُعائیں بھی اُن کامیابیوں کا باعث نہیں بنتیں جن کے لیے ہم ترستے ہیں چاہیے بڑے بڑے عالمی مسائل ہوں یا چھوٹے چھوٹے ذاتی خدشات۔ لہذا جب ہم کام کرتے ہیں اور اپنی بعض دُعاؤں کے جواب کے لیے مِل کر آس رکھتے ہیں تو، مَیں آپ کو اپنا رسُولی وعدہ دیتا ہُوں کہ اُن کو سُنا جاتا ہے اور اُن کا جواب دیا جاتا ہے، حالانکہ اُس وقت یا اُس انداز میں نہیں جس طرح ہم چاہتے تھے۔ بلکہ اُن کا جواب ہمیشہ اُس وقت اور اُس طریقے سے دیا جاتا ہے جس طرح ایک ہمہ دان اور ابَدی شفِیق والد کو دینا چاہیے۔ میرے پیارے بھائیو اور بہنو، براہِ کرم اِس بات کو سمجھو کہ جو نہ کبھی اُونگھتا ہے نہ سوتا ہے۲ وہ اپنی اُمت کی خُوشی اور حتمی سرفرازی کی فکر کرتا ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ ذاتِ اِلہٰی کو تو اَیسا کرنا ہے۔ وہ خالص محبت کی پُرجلال ہستی ہے، اور رحیم باپ اُس کا نام ہے۔

”اگر یہی بات ہے تو،“ آپ کہہ سکتے ہیں، کیا اِس کی محبت اور رحمت کو ہمارے ذاتی بحرِ قُلزم کو دو حِصّوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہیے اور ہمیں خشک زمین پر اپنی پریشانیوں سے گُزرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے؟ کیا اِس کو ۲۱ویں صدی کے بگلوں کو کہیں سے پرواز کرتے ہُوئے یہاں نہیں بھیجنا چاہیے تاکہ ہمارے سب ۲۱ویں صدی کے تکلیف دہ جھینگروں کو نِگل جائیں؟

اَیسے سوالوں کا جواب ہے جی ہاں، خُدا فوری طور پر مُعجزات فراہم کرسکتا ہے، بلکہ جلد یا بدیر ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہمارے فانی سفر کے زمانے اور موسم صرف اور صرف اُسی کے تابع ہیں۔ وہ اِس تقویم کا اِنتظام ہم میں سے ہر ایک کو اِنفرادی طور پر کرتا ہے۔ ہر بیمار آدمی بیتِ صیدا کے تالاب میں اُتر کر فوراً شِفا پاتا ہے،۳ کسی کو موعودہ سرزمین میں قدم رکھنے کی آس میں ۴۰ برس صحرا میں گُزارنے پڑتے ہیں۔۴ ہر نیفی اور لیحی اپنے اِیمان کی آگ کے حلقے کے وسِیلے سے اِلہٰی طور پر بچائے جاتے ہیں،۵ ہمارے پاس ہر ابی نادی اپنے اِیمان کی خاطر بھڑکتی آگ کے ڈھیر پر جلایا جاتا ہے۔۶ اور ہمیں یاد ہے کہ وہی اَیلیاہ جس نے بعل کے کاہنوں کے خِلاف گواہی دینے کے لیے ایک دم آسمان سے آگ بھڑکالی تھی۷ یہ وہی ایلیاہ ہے جس نے ایک عرصہ جھیلا تھا جب برسوں سے بارش نہ ہوئی تھی اور کچھ عرصہ کے لیے جس کو صرف قلیل کھانا کھلایا گیا جو کوّے کے پنجوں میں لے جایا جاسکتا تھا۔٭ میرے اندازے کے مطابق، یہ وہ نہیں ہوسکتا ہے جسے ہم ”ہیپی مِیل“ کہتے ہیں۔

نقطہ؟ نقطہ یہ ہے کہ اِیمان سے مُراد اچّھے اور بُرے وقتوں میں خُدا پر توکّل کرنا ہے، اگرچہ اِس دوران میں کچھ تکلیف بھی سہنی پڑے جب تک ہمارے واسطے وہ اپنا بازُو ظاہر نہیں کرتا۔۹ ہماری جدید دُنیا میں یہ بات مشکل ہوسکتی ہے کیوں کہ بہت سارے لوگوں کو یہ یقین ہو چُکا ہے کہ زِندگی میں سب سے زیادہ اِفضل بات مصائب سے بچنا ہے، اور کسی کو بھی کسی بھی بات پر تکلیف نہ اُٹھانی پڑے۔۱۰ لیکن اَیسا اِیمان کبھی بھی ”مسِیح کے پُورے قَد کے اندازہ تک“ نہیں پُہنچائے گا۔۱۱

بُزرگ نیل اے میکس ویل سے معذرت کے ساتھ جو کچھ اُنھوں نے ایک بار فرمایا تھا اِس میں ترمیم اور توسیع کرنے کی جسارت کی ہے، مَیں بھی مشورہ دیتا ہُوں کہ ”اِیمان سے بھرپُور اور تناؤ سے پاک … کسی کی بھی زِندگی نہیں ہوسکتی۔“ یہ صرف ”بھولے پن سے زِندگی بسر کرنے سے“ کام نہیں چلے گا، لیموں پانی کا صرف ایک گلاس پی کر یہ کہنا کہ : ”اَے خُداوند، مُجھے اپنی ساری افضل خُوبیوں سے نواز، البتہ نہ دُکھ، نہ درد، نہ غم، نہ مُخالفت مُجھے دینا۔ براہِ کرم کوئی بھی مُجھے ناپسند نہ کرے یا مُجھے دھوکا نہ دے، اور سب سے بڑھ کر، مُجھے کبھی بھی تُو یا وہ جن سے مَیں پیار کرتا ہُوں ترک نہ کریں۔ در حقیقت، خُداوند، دھیان رکھنا مُجھے اُن سب تجربوں سے محفُوظ رکھیو جِنھوں نے تُجھے اِلہٰی بنایا تھا۔ بلکہ جب دُوسرے دُشوار گُزار راستہ پار کر لیں تو، براہِ کرم مُجھے اپنے پاس آنے اور قیام کرنے دینا، جہاں مَیں اِس بات پر شیخی بگھار سکُوں کہ ہماری خاصیتوں اور ہماری خصلتوں میں کتنی مماثلت ہے جب مَیں مسِیحیت کے آرام دہ بادِل پر پرواز کرُوں۔“۱۲

میرے عزیز بھائیو اور بہنو، مسِیحیت غم گُسار ضرور ہے، لیکن یہ غالباً آرام دہ نہیں ہوتی ہے۔ قُدوسیّت اور خُوشی کا راستہ یہاں اور آگے طویل اور بعض اَوقات پتھریلا ہے۔ اِس پر چلنے کے لیے وقت اور مُشقّت درکار ہوتی ہے۔ بلکہ، یقیناً، ایسا کرنے کا اجر بہت بڑا ہے۔ یہ سچّائی صاف صاف اور موثّر انداز میں ایلما کے ۳۲ویں باب میں مورمن کی کِتاب میں سِکھائی گئی ہے۔ اِس میں یہ اعلیٰ کاہن سِکھاتا ہے کہ اگر ہمارے دِلوں میں خُدا کا کلام محض ایک بیج کی طرح بویا گیا ہے، اور اگر ہم اِسے پانی دیتے، جڑی بُوٹیاں نِکالتے، دیکھ بھال کرتے، اور اِس کو پروان چڑھاتے ہیں، تو یہ مُستقبل میں پھل لائے گا ”جو بیش قیمت ہے … ہر طرح کی مِٹھاس سے زیادہ میٹھا ہے،“ جس کے کھانے سے اَیسی صُورت پَیدا ہوگی کہ نہ تم بھُوکے، نہ ہی پیاسے رہو گے۔۱۳

اِس قابلِ ذِکر باب میں بہت سارے سبق سِکھائے گئے ہیں، لیکن اِن سب کا مرکزی محور یہ ہے کہ بیج کو پروان چڑھانا ہے اور ہمیں اِس کے بڑھنے کا اِنتظار ضرور کرنا ہے، ہمیں ”آس [رکھنی] ہے اِس کے پھل پر اِیمان کی آنکھ سے۔“۱۴ ہماری پَیداوار، ایلما فرماتا ہے، ”فی الفَور آتی ہے۔“۱۵ اِس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ وہ ہمارے دِلوں میں خُدا کے کلام کی پرورش کے لیے تین بار جاں فشانی اور صبر کو دُہراتے ہوئے اپنی قابلِ ذِکر ہدایات کا اختتام کرتا ہے، ”تحمل مزاجی“ کے ساتھ ”آس رکھ کر“ جیسا کہ وہ فرماتا ہے، ”اُس درخت کے لیے کہ تُمھارے واسطے پھل لائے۔“۱۶

COVID اور کینسر، شک اور مایُوسی، مالی پریشانی اور خاندانی آزمایش۔ یہ بوجھ کب اُٹھائے جائیں گے؟ جواب ہے ”فی الفور۔“۱۷ اور آیا عرصہ مُختصر ہے یا طویل ہم ہمیشہ نہیں بتا سکتے، لیکن خُدا کے فضل سے، اُن لوگوں پر برکتیں نازِل ہوں گی جو یِسُوع مسِیح کی اِنجِیل کو مضبُوطی سے تھامے رکھتے ہیں۔ یہ مسئلہ بہت عرصہ پہلے بڑے تنہا باغ اور یروشلیم کی ایک بہت ہی عوامی پہاڑی پر حل ہُوا تھا۔

جیسا کہ اب ہم اپنے پیارے نبی کو اِس مجلس کے اختتام پر سُنتے ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے، جیسا کہ رسل ایم نیلسن نے اپنی ساری زندگی یہ بتایا ہے، جو ”خُداوند کی آس رکھتے ہیں وہ از سرِنو زور حاصل کریں گے [اور] عُقابوں کی مانِند بال و پر سے اُڑیں گے، وہ دَوڑیں گے، اور نہ تھکیں گے؛ … وہ چلیں گے، اور ماندہ نہ ہوں گے۔“۱۸ میری دُعا ہے کہ ”فی الفور“—جلد یا بدیر—وہ برکتیں آپ میں سے ہر ایک پر نازِل ہوں جو اپنے دُکھوں سے چھُٹکارا اور اپنے غموں سے آزادی کے مُتلاشی ہیں۔ مَیں خُدا کی محبت اور اُس کی پُرجلال اِنجِیل کی بحالی کا گواہ ہُوں، جو، کسی نہ کسی طریقے سے، ہماری زِندگی میں پیش آنے والے ہر مسئلے کا جواب ہے۔ یِسُوع مسِیح کے رہائی بخش نام پر، آمین۔