مجلسِ عامہ
خُود کفیل مُعاشرے
مجلسِ عامہ اکتوبر ۲۰۲۰


خُود کفیل مُعاشرے

اگر ہم میں سے اور ہمارے پڑوسی کافی تعداد میں خُدا کی سچّائی کے ذریعے سے اپنی اپنی زِندگی کی راہ نمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو، ہر مُعاشرے میں ضروری اَخلاقی خُوبیوں کی کثرت ہوگی۔

کوائر کتنی خُوب صُورتی سے خُوب صورت نجات دہندہ گا رہی ہے۔

۲۰۱۵ میں، اَقوامِ مُتحدہ نے ”لائحہِ عمل برائے خُود کفیل ترقی ۲۰۳۰“ اپنایا۔ اِس کو یُوں بیان کیا گیا تھا کہ ”یہ حال اور مُستقبل میں دُنیا اور لوگوں کی خُوش حالی اور سلامتی کا مُشترکہ جامع اُصول ہوگا۔“ لائحہِ عمل برائے خُود کفیل ترقی میں سن ۲۰۳۰ تک ۱۷ اَہداف کو حاصل کرنا شامِل تھا، جَیسا کہ: غُربت کا خاتمہ، بھُوک کا خاتمہ، معیاری تعلیم، جِنسی مساوات، صاف پانی اور صفائی، اور مُناسب مُلازمت کی فراہمی۔۱

خُود کفیل ترقی کا تصور اِنتہائی اہم اور دِل چسپ ہے۔ بہرکیف، اِس سے بھی زیادہ اِنتہائی ضروری خُود کفیل مُعاشروں کا بڑا سوال ہے۔ وہ کون سے بُنیادی اُصول ہیں جو خُوش حال مُعاشروں کے ضامن ہوتے ہیں، جو اپنے اَرکان کے اندر راحت، ترقی،اَمن، اور فلاح و بہبود کو بڑھاتا ہے؟ ہمارے پاس اَیسے کم از کم دو خُوش بخت مُعاشروں کے صحیفائی ثبوت موجُود ہیں۔ ہم اُن سے کیا سِیکھ سکتے ہیں؟

قدیم زمانے میں، بہت بڑے بطریق اور نبی حنُوک نے راستی کی مُنادی کی اور ا”َیسا شہر تعمیر کیا جو قُدوسِیّت کا شہر کہلاتا تھا، یعنی صِیّون۔“۲ اِس کو یُوں بتایا گیا ہے ”خُداوند نے اپنے لوگوں کو صِیّون کہا، کیوں کہ وہ یک دِل اور یک ذہن تھے، اور راست بازی میں رہتے تھے؛ اور اُن کے درمیان کوئی محتاج نہ تھا۔“۳

”اور خُداوند نے سرزمِین کو برکت دی، اور اُنھوں نے پہاڑوں پر اور اُونچے مقاموں پر برکت پائی، اور بامراد ہُوئے۔“۴

پہلی اور دُوسری صدی میں مغربی کُرہِ اَرض پر نِیفی اور لامنی قَوموں نے خُوش حال مُعاشرے کی ایک اور اعلیٰ مثال پیش کی ہے۔ اُن کے درمیان میں جی اُٹھے نجات دہندہ کی بےمثال خدمت کے بعد، ”وہ اُن حُکموں کو مانتے تھے جو اُنھوں نے خُداوند اپنے خُدا سے پائے تھے، روزے اور دُعا میں مشغُول رہتے تھے، اکثر دونوں دُعا کرنے اور خُداوند کا کلام سُننے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ …

”اور وہاں نہ کوئی حسد، نہ جھگڑے، نہ ہنگامے، نہ حرام کاریاں، نہ جھوٹ نہ قتل و غارت نہ کسی قسم کی شہوت پرستی تھی، اور یقیناً اُن تمام لوگوں میں سے جو خُدا کے ہاتھ سے خلق ہوئے یہ سب سے زیادہ خوش تھے۔“۵

اِن دونوں مثالوں میں دو عظیم حُکموں کی مثالی عقیدت مندی کے نتیجے میں اِن مُعاشروں نے آسمان سے برکات کی کفالت پائی: ”خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبّت رکھ،“ اور ”اپنے پڑوسِی سے اپنے برابر محبّت رکھ۔“۶ وہ اِنفرادی زِندگیوں میں خُدا کے فرماں بردار تھے، اور دُنیاوی اور رُوحانی فلاح و بہبود کے لیے ایک دُوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ عقائد اور عہُود کے کلام سے، یہ مُعاشرے مُطابقت رکھتے تھے ”ہر مرد اپنے ہمسائے کی بھلائی کی جستجو کرے، اور یہ سب چیزیں یکسوئی سے خُدا کے جلال کے لیے کرے۔“۷

بدقسمتی سے، جَیسے بُزرگ کوئنٹن ایل کُک نے آج صُبح بیان کیا، مورمن کی کِتاب کے ۴ نِیفی میں بیان کردہ یہ مثالی مُعاشرہ دُوسری صدی کے بعد قائم نہ رہ سکا۔ خُود کفالت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، اور خُوش بخت مُعاشرے وقت کے ساتھ ساتھ ناکام ہو جاتے ہیں اگر وہ خُوش حالی اور سلامتی کو برقرار رکھنے والی بُنیادی اقدار کو ترک کر دیتے ہیں۔ اِس مُعاملے میں، شیطان کے وسوّسوں میں پڑ کر، یہ لوگ ”طبقوں میں تقسیم ہونے لگے ،اور نفع حاصل کرنے خاطر اپنے لیے ہی کلیسیائیں بنانے اور مسِیح کی سچّی کلِیسیا کا اِنکار کرنے لگے۔“۸

”اور اَیسا ہُوا کہ تین سَو برس گُزرنے کے بعد، دونوں، نیفی کے لوگ اور لامنی ایک دوسرے کی مانِند نہایت بدکار ہو گئے۔“۹

ایک اور صدی کے آخِر تک، لاکھوں لوگ باہمی خُون ریزی کے سبب ہلاک ہو گئے اور ایک مُتحد قَوم جنگ جُو قبِیلوں میں بٹ چُکی تھی۔

اِس پر اور دیگر اَیسے خُوش حال مُعاشروں کی مثالوں پر جو بعد میں ناکام ہُوئے غور کرنے سے، میرا خیال ہے کہ یہ کہنا دُرست ہو گا کہ جب لوگ خُدا سے اور اَحساسِ جواب دہی سے مُنہ موڑتے اور اِس کی بجائے ”اِنسانی بازو“ پراعتماد کرتے ہیں تو تباہی گھات لگاتی ہے۔ بشَری بازُو پر بھروسہ کرنا اِنسانی حقُوق اور اِنسانی وقار کے اِلہٰی مُصنف کو نظرانداز کرنا اور دولت، طاقت، اور دُنیا کی خُوشامد کو اولین ترجیح دینا ہے (جب کہ اکثر کسی مُختلِف معیار کی تقلید کرنے والوں کا مذاق اُڑاتے اور اُن پر ظُلم کرتے ہیں)۔ اِسی دوران میں، خُود کفیل مُعاشرے مُتلاشی ہوتے ہیں، جیسے بِنیامین بادِشاہ نے فرمایا، ”اُس کے جلال کے علم میں ترقی کرنا جس نے [اُنھیں] خلق کیا یا اُس کے علم میں جو عادِل اور سچّا ہے۔“۱۰

خاندان اور مذہب کے اِدارے اَفراد اور معاشروں کو اَیسی اَقدار عطا کرنے میں اِنتہائی اہم رہے ہیں جو کسی مُعاشرے کی پائداری کی ضامن ہوتی ہیں۔ یہ اَقدار، صحائف میں پیوستہ، دیگر کے ساتھ ساتھ، سالمیت، ذمہ داری اور جواب دہی، شفقت، بیاہ اور بیاہ کی پاکیزگی، دُوسروں کا اور اُن کی جائداد کا احترام، خدمت، محنت کی اَہمیت اور عظمت شامِل ہیں۔

مشہور کالم نِگار جرارڈ بیکر نے اِسی سال کے شُروع میں وال سٹریٹ جرنل کے لیے اپنے والد، فریڈرک بیکر، کی ۱۰۰ویں سال گِرہ کے موقع پر کے اُس کے اَعزاز میں کالم لِکھا، بیکر نے اپنے والد کی لمبی عُمر کی وجُوہات کو بیان کیا اور پھر اِن خیالات کا تذکرہ کیا:

”اگرچہ ہم سب ایک لمبی زِندگی کا راز جاننا چاہتے ہیں، چُناں چہ مَیں اکثر یہ محسوس کرتا ہُوں کہ جب ہم زیادہ تر وقت یہ جاننے کے لیے صرف کریں گے کہ موثّر زندگی کیسے بن سکتی ہے تو ہم زیادہ موثّر ہوں گے، جتنی بھی عُمر ہمیں عطا ہُوئی ہے۔ یہاں، مَیں پُراعتماد ہُوں مُجھے اپنے والد کا راز معلوم ہے۔

”وہ اُس دوَر کے ہیں جب زِندگی بُنیادی طور پر فرض سے مُتعین تھی، حق جتانے سے نہیں، سماجی ذُمہ داریوں سے، ذاتی مراعات سے نہیں۔ اُس کی صدی کے دوران میں بُنیادی فعال اُصُول اَحساسِ فرض رہا ہے—خاندان، خُدا، وطن۔

”اَیسا دوَر جس میں ٹُوٹے ہُوئے خاندانوں کا شِیرازہ غالِب ہو، میرے والد نے اپنی اَہلیہ کے ساتھ ۴۶ برس وقف کرنے کے ساتھ ساتھ، چَھے بچّوں کے لیے فرض نبھایا۔ جب میرے والدین کو اپنے بچّے کے کھو جانے کے ناقابلِ تصور سانحہ کا سامنا کرنا پڑا تو میرا باپ ہر لمحہ حاضر اور موجُود تھا۔ …

”اور اَیسا دوَر جب مذہب زیادہ تر اَنوکھی بات ہے، میرے والد نے سچّے، اِیمان دار کاتھولک مسِیحی کی طرح زِندگی گُزاری، مسِیح کے وعدوں پر اَٹل اِیمان کے ساتھ۔ درحقیقت، بعض اوقات میں سوچتا ہُوں اُس نے اِتنی طویل عُمر اِس لیے پائی کہ اُس کی تیاری کسی بھی وفات پانے والے شخص سے زیادہ تھی جِنھیں میں جانتا تھا۔

”مَیں خُوش بخت اِنسان رہا ہُوں—اچھی تعلیم، اپنے مثالی خاندان، اور چند دُنیاوی کام یابیوں سے نوازا گیا ہُوں جن کے لائق میں نہیں تھا۔ البتہ مَیں جتنا بھی فخر اور تشکر محسوس کرُوں، اُس شخص کے لیے میرے اِفتخار اور شُکر گُزاری سے زیادہ نہ ہو گا، جس نے بغیر کسی پریشانی یا اُکتاہٹ، بغیر کسی توقع یا اجر یا کسی اَعزاز، آگے بڑھتا گیا—اب پُوری ایک صدی تک—اپنی معمولی ذمہ داریوں، فرائض اور، بالآخِر، نیک زِندگی بسر کرنے کی خُوشیوں کے ساتھ۔“۱۱

مذہب اور مذہبی عقیدے کی مُجوزہ اہمیت حالیہ برسوں میں بہت ساری اَقوام میں کم ہوئی ہے۔ لوگوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد کا خیال ہے کہ آج کی دُنیا میں اَفراد یا معاشروں میں اخلاقی راست بازی کے لیے خُدا پر اِیمان اور خُدا کی اطاعت کی ضرورت نہیں ہے۔۱۲ میرے خیال میں ہم سب اِس بات پر مُتفق ہوں گے کہ جو لوگ مذہبی عقیدے کا دعویٰ نہیں کرتے ہیں وہ بعض اوقات نیک، بااخلاق اِنسان ہو سکتے ہیں۔ پِھر بھی، ہم اِس بات پر مُتفق نہ ہوں گے، کہ اَیسا اِلہٰی تاثیر کے بغیر ہو سکتا ہے۔ میرا اِشارہ مسِیح کے نُور کی طرف ہے۔ نجات دہندہ نے فرمایا، ”حقیقی نُور مَیں ہُوں جو ہر شخص کو مُنوّر کرتا ہے جواِس دُنیا میں آتا ہے۔“۱۳ اِس سے واقف ہوں یا نہ ہوں، ہر زمانے اور ہر جگہ پر ہر عقیدے کا ہر مرد، عورت، اور بچّہ مسِیح کے نُور سے بھرا ہے اور اِسی وجہ سے اچھائی اور بُرائی کی پہچان ہوتی ہے ہم اکثر اِس کو ضمیر کہتے ہیں۔۱۴

تو بھی، جب لادینیت اِنفرادی اور عوامی اَخلاق کو خُدا کے سامنے جواب دہی کے احساس سے الگ تھلگ کرتی ہے، تو یہ پودے کو جڑ سے کاٹ ڈالتی ہے۔ مُعاشرے میں اخلاق کو برقرار رکھنے کے لیے صرف ثقافت اور روایت پر ہی اَنحصار کرنا کافی نہ ہوگا۔ جب کسی کے سامنے اپنے سے بڑا کوئی معبود نہیں اور صرف اپنی ترجیح اور بھُوک مِٹانے کے علاوہ کسی بڑے مقصد کی تلاش میں نہیں، تو اِس کے اَثرات اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے۔

مثال کے طور پر ایک ایسا مُعاشرہ ، جس میں جِنسی سرگرمی پر فقط اِنفرادی رضامندی رکاوٹ ہے، تو یہ مُعاشرہ اَنحطاط کا شکار ہے۔ زناکاری، آزاد جِنسی تعلقات، مرضی کا اِسقاط حمل،۱۵ اور نِکاح کی حُدود سے باہر بچّوں کی پَیدایش بعض اَیسے تلخ ثمرات ہیں جو جِنسی اِنقلاب کے ذریعہ منظور کردہ غیر اخلاقی حرکتوں سے پَیدا ہوتے ہیں۔ صحت مند مُعاشرے کے اِستحکام کے خلاف کام کرنے والے نتائج میں غُربت اور باپ دادا کے مثبت اَثر و رسُوخ کے بغیر بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد شامل ہے، بعض اوقات کئی نسلوں تک، خواتین کو تن تنہا باہمی ذمہ داریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور سنگِین حد تک ناقص تعلیم جب کہ سکولوں کو، دیگر اِداروں کی طرح، یہ کام سونپا گیا ہے کہ گھر میں پَیدا ہونے والی ناکامی کا اَزالہ کریں۔۱۶ اِن سماجی اَمراض کے ساتھ ساتھ اِنفرادی دل شِکنی اور مایوسی کی بےحساب مثالیں ہیں—گُناہ گاروں اور بےگُناہ لوگوں کو ذہنی اور جذباتی تباہی کا شِکار ہونا پڑا۔

نِیفی مُنادی کرتا ہے:

”اُس پر اَفسوس جو اِنسانوں کے حُکموں پر توجہ دیتا ہے، اور خُدا کی قُدرت، اور رُوحُ القُدس کی نعمت کا اِنکار کرتا ہے! …

”… اُن سب پر اَفسوس جو خُدا کی سچّائی کے سبب کانپتے اور خفا ہوتے ہیں!“۱۷

اِس کے برعکس، ہمارے بچّوں اور کُل بنی نوع اِنسان کے لیے ہمارا خُوش کُن پیغام یہ ہے کہ ”خُدا کی سچّائی“ زیادہ بہتر طریقہ دِکھاتی ہے، یا جَیسے پولُوس نے فرمایا، ”سب سے عُمدہ طرِیقہ،“۱۸ جو اِس وقت ذاتی خُوشی اور مُعاشرے کی بھلائی کا طریقہ ہے اور اِس کے بعد ابَدی سکُون اور شادمانی۔

خُدا کی حقیقت اُن بُنیادی سچّائیوں کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو اُس کی اُمت کے لیے اُس کے خُوشی کے منصُوبے کی بُنیاد ہے۔ وہ سچّائیاں یہ ہیں کہ خُدا زندہ ہے؛ کہ وہ ہماری رُوحوں کا آسمانی باپ ہے؛ کہ اُس کی محبت کے ظہُور کے طور پر، اُس نے ہمیں ایسے احکام دیے ہیں جو اُس کے ساتھ شادمانی کی مَعمُوری میں مُبتلا ہوجاتے ہیں؛ کہ یِسُوع مسِیح خُدا کا بیٹا اور ہمارا نجات دہندہ ہے؛ کہ اُس نے ہماری توبہ کی شرط پر گُناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے دُکھ اُٹھایا اور مر گیا؛ کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا، اور کُل بنی نوع اِنسان کے لیے قیامت کو مُمکن بنایا؛ اور کہ ہم سب اُس کے حُضُور عدالت کے لیے پیش ہوں گے؛ تاکہ ہم اپنی زِندگیوں کا حساب دیں۔۱۹

مورمن کی کِتاب میں ”قضات کی حکومت“ کہلائے جانے کے نو برسوں بعد، ایلما نبی نے کلِیسیا کی قیادت کو پُورا وقت دینے کے لیے اپنے اعلیٰ قاضی کے عُہدے سے اِستعفیٰ دے دیا۔ اُس کا مقصد لوگوں کے درمیان میں اور خاص طور پر کلِیسیا کے اَرکان کے درمیان میں بڑھتے ہُوئے تکبر، تشدُد، اور لالچ کو دُور کرنا تھا۔۲۰ جَیسا کہ بُزرگ سٹیفن ڈی ناڈالڈ نے ایک دفعہ بتایا، ”[ایلما کا] اِلہامی فیصلہ اپنے لوگوں کے طرز عمل کو دُرست کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ قوانین بنانے اور نفاذ کرنے کی کوشش میں زیادہ وقت صرف کرنا نہیں تھا، بلکہ خُدا کے کلام کے بارے میں اُن سے بات کرنا، عقیدے کی تعلیم دینا تھا اور مُخلصی کے منصُوبے کے بارے میں اُن کو سمجھانا تھا جو اُن کے طرز عمل کو تبدیل کرنے میں راہ نمائی کرتا۔“۲۱

ہم وطن اور ہم سائے ہونے کے ناطے جن مُعاشروں میں ہم رہتے ہیں اُن کی کام یابی اور اِستقامت کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں، اور یقیناً ہماری سب سے زیادہ بُنیادی اور دیرپا خدمت خُدا کے مُخلصی کے عظیم منصُوبے میں موجُود سچّائیوں کو سِکھانا اور اُن کے مُطابق زِندگی بسر کرنا ہے۔ جَیسا کہ گیت کے اِن اَلفاظ میں بیان کیا گیا ہے:

ہمارے باپ دادا کا اِیمان، ہم پیار کریں گے

ہماری تمام تر کش مکش میں دوست اور دُشمن دونوں ،

اور تُو بھی مُنادی کر، یعنی کیسے محبت جانتی ہے،

حُسنِ مُعاشرت اور خُوش اُسلوبی سے۔۲۲

اگر ہم میں سے اور ہمارے پڑوسی کافی تعداد میں خُدا کی سچّائی کے ذریعے سے اپنے اپنے فیصلے اور اپنی اپنی زِندگی کی راہ نمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو، ہر مُعاشرے میں ضروری اَخلاقی خُوبیوں کی کثرت ہوگی۔

اپنی محبت کی خاطر، اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ ہم ہمیشہ کی زِندگی پائیں۔۲۳

”[یِسُوع مسِیح]دُنیا کی بھلائی کے سِوا کوئی امر انجام نہیں دیتا؛ اِس لیے کہ وہ دُنیا سے محبّت کرتا ہے، حتیٰ کہ وہ اپنی جان تک دے دیتا ہے تا کہ سب اِنسان اُس کی طرف رُجُوع لائیں۔ پس، وہ کسی کو یہ حکم نہیں دیتا کہ اُس کی نجات میں شریک نہ ہوں۔

”دیکھو، کیا وہ کسی پر زور سےچِلا کر کہتاہے: مُجھ سے دُور ہو جاؤ؟ دیکھو،مَیں تُم سے کہتا ہُوں، نہیں؛ بلکہ وہ فرماتا ہے: اِنتِہایِ زمِین کے سب رہنے والو میرے پاس آؤ، دُودھ اور شہد بغیر پیسوں اور قیمت کے خریدو۔“۲۴

ہم یہ مُنادی کرتے ہیں ”دِل کی متانت کے ساتھ، رُوح کی حلیمی سے،“۲۵ اور یِسُوع مسِیح کے نام سے، آمین۔

حوالہ جات

  1. See “The 17 Goals,” United Nations Department of Economic and Social Affairs website, sdgs.un.org/goals.

  2. موسیٰ ۷:‏۱۹۔

  3. موسیٰ ۷:‏۱۸۔

  4. موسیٰ ۷:‏۱۷۔

  5. ۴ نیفی ۱:‏۱۲، ۱۶۔

  6. متّی ۲۲:‏۳۷ ،۳۹۔

  7. عقائد اور عہد ۸۲:‏۱۹۔

  8. ۴ نیفی ۱:‏۲۶۔

  9. ۴ نیفی ۱:‏۴۵۔

  10. مضایاہ ۴:‏۱۲۔

  11. Gerard Baker, “A Man for All Seasons at 100,” Wall Street Journal, Feb. 21, 2020, wsj.com.

  12. See Ronald F. Inglehart, “Giving Up on God: The Global Decline of Religion,” Foreign Affairs, Sept./Oct. 2020, foreignaffairs.com; see also Christine Tamir, Aidan Connaughton, and Ariana Monique Salazar, “The Global God Divide,” Pew Research Center, July 20, 2020, especially infographic “Majorities in Emerging Economies Connect Belief in God and Morality,” pewresearch.org.Oct. 2020, foreignaffairs.com; see also Christine Tamir, Aidan Connaughton, and Ariana Monique Salazar, “The Global God Divide: Majorities in Emerging Economies Connect Belief in God and Morality,” Pew Research Center, July 20, 2020, pewresearch.org

  13. عقائد اور عہُود ۹۳:‏۲؛ مزید دیکھیے ملاکی ۷:‏۱۶، ۱۹۔

  14. See Boyd K. Packer, “The Light of Christ,” Liahona, Apr. 2005, 10; see also D. Todd Christofferson, “Truth Endures,” Religious Educator, vol. 19, no. 3 (2018), 6.

  15. یہ مثال دے کر، مَیں بچّوں کو پیش آنے والے منفی نتائج کو ”تلخ ثمرات“ کہہ رہا ہُوں اور خُود بچّے اِس سے مُراد نہیں۔ خُدا کا ہر بچّہ بےمثال ہے، اور ہر زِندگی کی اَن مول قیمت ہے تجسیم کی صُورتِ حال سے قطع نظر۔

  16. دیکھیے، مثال کے طور پر،Pew Research Center, “The Changing Profile of Unmarried Parents,” Apr. 25, 2018, pewsocialtrends.org; Mindy E. Scott and others, “5 Ways Fathers Matter,” June 15, 2016, childtrends.org; and Robert Crosnoe and Elizabeth Wildsmith, “Nonmarital Fertility, Family Structure, and the Early School Achievement of Young Children from Different Race/Ethnic and Immigration Groups,” Applied Developmental Science, vol. 15, no. 3 (July–Sept. 2011), 156–70.

  17. ۲ نیفی ۲۸:‏۲۶، ۲۸۔

  18. ‏۱ کرنتھیوں ۱۲:‏۳۱۔

  19. دیکھیں ایلما ۳۳:‏۲۲۔

  20. دیکھیں ایلما ۴:‏۶–۱۹۔

  21. Stephen D. Nadauld, Principles of Priesthood Leadership (1999), 13; مزید دیکھیں ایلما ۳۱:‏۵۔

  22. “Faith of Our Fathers,” Hymns, no. 84.

  23. دیکھیں یوحنا ۳: ۱۶۔

  24. ۲ نیفی ۲۶:‏۲۴–۲۵؛ مزید دیکھیں 2 نیفی ۲۶:‏۳۳۔

  25. عقائد اور عہُود ۱۰۰:‏۷۔