صحائف
۱ نِیفی ۱۵


باب ۱۵

لحی کی نسل کو آخری ایّام میں غیر قوموں کے وسِیلے سے خُوش خبری پانا ہے—اِسرائیل کا اِکٹھا ہونا زیتون کے درخت سے مُشابہ ہے جِس کی قُدرتی شاخیں دوبارہ پیوند کی جائیں گی—نِیفی زِندگی کے درخت کی رویّا کی تعبیر بتاتا ہے اور راست بازوں کو شریروں سے الگ کرنے کے لِیے خُدا کے اِنصاف کا ذِکر کرتا ہے۔ قریباً ۶۰۰–۵۹۲ ق۔م۔

۱ اور اَیسا ہُوا کہ مَیں، نِیفی، رُوح میں اُٹھائے جانے، اور اِن ساری باتوں کو دیکھنے کے بعد، مَیں اپنے باپ کے خیمے کی طرف لوٹا۔

۲ اور اَیسا ہُوا کہ مَیں نے اپنے بھائیوں کو دیکھا کہ وہ ایک دُوسرے کے ساتھ اُن باتوں کے بارے میں تکرار کر رہے تھے جو میرے باپ نے اُن سے بیان کی تھیں۔

۳ پَس اُس نے درحقیقت کئی بڑی معنی خیز باتوں کا اُن سے ذِکر کِیا، اُن کا ادراک پانا دُشوار تھا، جب تک خُداوند سے دریافت نہ کِیا جائے؛ اور وہ اپنے اپنے دِلوں میں سخت ہُوئے، پَس اُنھوں نے خُداوند کی طرف نہ دیکھا جیسا اُنھیں چاہیے تھا۔

۴ اور اب مَیں نِیفی، اُن کے دِلوں کی سنگینی کی وجہ سے، اور اُن باتوں کے سبب سے بھی، جو مَیں دیکھ چُکا تھا، رنجیدہ ہُوا، اور جانا کہ بنی آدم کی شدید بدی کے سبب اُن کا واقع ہونا ناگزیر ہے۔

۵ اور اَیسا ہُوا کہ مَیں اپنے دُکھوں کے سبب مغلُوب ہُوا، پَس مَیں سمجھتا تھا کہ میرے لوگوں کی تباہی کے سبب سے میرے دُکھ سب سے زیادہ تھے کیوں کہ مَیں اُن کا زوال دیکھ چُکا تھا۔

۶ اور اَیسا ہُوا کہ مَیں ہمت پانے کے بعد اپنے بھائیوں سے اُن کی تکرار کا سبب معلوم کرنے کی اُمِید لِیے ہُوئے ہم کلام ہُوا۔

۷ اور اُنھوں نے کہا: دیکھ، ہم اُن باتوں کو سمجھ نہیں سکتے جو ہمارے باپ نے زیتون کے درخت کی قُدرتی شاخوں کی بابت، اور غیر قوموں کی بابت بھی فرمائی ہیں۔

۸ اور مَیں نے اُن سے کہا: کیا تُم نے خُداوند سے دریافت کِیا ہے؟

۹ اور اُنھوں نے مُجھ سے کہا: ہم نے نہیں کِیا کیوں کہ خُداوند ہم پر ایسی باتیں ظاہر نہیں کرتا۔

۱۰ دیکھو، مَیں نے اُن سے کہا: تُم خُداوند کے حُکموں کو کیوں نہیں مانتے؟ تُم کیوں اپنے دِلوں کی سنگینی کے سبب ہلاک ہوتے ہو؟

۱۱ وہ باتیں جو خُداوند نے فرمائیں کیا تُمھیں یاد ہیں؟—اگر تُم اپنے دِلوں کو سخت نہ کرو، اور اِیمان کے ساتھ مُجھ سے مانگو، اِس اعتقاد کے ساتھ کہ تُم پاؤ گے، جاں فشانی کے ساتھ میرے حُکموں پر چلو، بے شک یہ باتیں تُم پر ظاہر کی جائیں گی۔

۱۲ دیکھو، مَیں تُم سے کہتا ہُوں خُداوند کے رُوح کے وسِیلے سے جو ہمارے باپ میں تھا اِسرائیل کے گھرانے کو زیتون کے درخت سے تشبِیہ دی گئی ہے؛ اور دیکھو کیا ہم اِسرائیل کے گھرانے سے جُدا نہیں کِیے گئے اور کیا ہم اِسرائیل کے گھرانے کی شاخ نہیں ہیں؟

۱۳ اور اب غیر قوموں کی مَعمُوری کے وسِیلے سے قُدرتی شاخوں کی پیوند کاری کے متعلق ہمارے باپ کی مُراد یہ ہے کہ آخری ایّام میں جب ہماری نسل بے اعتقادی میں رُوبہ زوال ہو گی، ہاں، کئی برسوں تک، اورکئی پُشتوں کے بعد بنی آدم پر مَمسُوح کا مُجسّم ظُہُور ہوگا، تب مَمسُوح کی اِنجیل کی مَعمُوری غیر قوموں پر نازل ہو گی اور غیر قوموں سے ہماری نسل کے بقیہ پر۔

۱۴ اور اُس دِن ہماری نسل کا بقیہ جانے گا کہ وہ اِسرائیل کے گھرانے سے ہیں اور کہ خُداوند کے موعود لوگ ہیں؛ اور پھر وہ جانیں گے اور اپنے اباو اَجداد کا عِلم اور اپنے مُخلصی دینے والے کی اِنجیل کی معرفت بھی پائیں گے، جِس کی اُس نے اُن کے باپ دادا میں مُنادی کی تھی؛ پَس وہ اپنے مُخلصی دینے والے کے عرفان اور اُس کی تعلیم کے ہر اُس نُکتے کو پا لیں گے، تاکہ اُنھیں عِلم ہو کہ کس طرح اُس کی طرف رجُوع کرنا اور نجات پانا ہے۔

۱۵ اور پھر اُس روز کیا وہ شادمان نہ ہوں گے اور اپنے اَبَدی خُدا کی ستایش نہ کریں گے، جو اُن کی چٹان اور اُن کی نجات ہے؟ ہاں، اُس روز کیا وہ اَنگور کے حقیقی درخت سے قُوّت اور تقویت نہ پائیں گے؟ ہاں، کیا وہ خُدا کے حقیقی گلّہ میں شامِل نہ ہوں گے؟

۱۶ دیکھو، مَیں تُم سے کہتا ہُوں، ہاں؛ وہ اِسرائیل کے گھرانے میں دوبارہ یاد کِیے جائیں گے؛ وہ زیتُون کے درخت میں، زیتون کے درخت کی حقیقی شاخ ہوتے ہُوئے پیوند کِیے جائیں گے۔

۱۷ اورہمارے باپ کا یہ ہی مطلب ہے؛ اوراُس کی مُراد یہ ہے کہ جب تک غیر قومیں اُنھیں مُنتشر نہیں کر دیتیں اَیسا نہ ہو گا؛ اور اُس کی مُراد یہ ہے کہ اَیسا غیر قوموں کے وسِیلے سے ہو گا، کہ خُداوند غیر قوموں پر اپنی قُدرت ظاہر کرے گا، اِس ہی سبب سے یہُودی، یا اِسرائیل کا گھرانا اُسے رَدّ کرے گا۔

۱۸ پَس، ہمارے باپ نے نہ صِرف ہماری نسل، بلکہ اِسرائیل کے سارے گھرانےکی بابت بھی، اُس عہد کی طرف اِشارہ کِیا جو آخری ایّام میں پُورا کِیا جائے گا؛ وہ عہد جو خُداوند نے ہمارے باپ اَبرہام سے یہ کہہ کر باندھا: کہ تیری نسل کے وسِیلے سے زمِین کے تمام قبیلے برکت پائیں گے۔

۱۹ اور اَیسا ہُوا کہ مَیں، نِیفی نے اِن باتوں کی بابت اُنھیں بُہت کُچھ بتایا؛ ہاں، مَیں نے آخری ایّام میں یہُودیوں کی بحالی کی بابت اُن سے کلام کِیا۔

۲۰ اور مَیں نے اُن کے واسطے یسعیاہ کا کلام دُہرایا، جِس نے یہُودیوں، یا اِسرائیل کے سارے گھرانے کی بحالی کی بابت کلام کِیا؛ کہ بحالی کے بعد نہ تو وہ شرمندہ ہوں گے اور نہ ہی وہ دوبارہ پراگندہ کِیے جائیں گے، اور اَیسا ہُوا کہ مَیں نے اپنے بھائیوں سے بُہت سارا کلام کِیا، تاکہ وہ تسلی پائیں اور اپنے آپ کو خُداوند کے حُضُور فروتن کریں۔

۲۱ اور اَیسا ہُوا کہ وہ یہ کہتے ہُوئے مُجھ سے پھر مُخاطب ہُوئے: جو چیز ہمارے باپ نے خواب میں دیکھی اُس سے کیا مُراد ہے؟ جو درخت اُس نے دیکھا اُس کا کیا مطلب ہے؟

۲۲ اور مَیں نے اُنھیں جواب دِیا: یہ زِندگی کے درخت کا اِستعَارہ تھا۔

۲۳ اور اُنھوں نے مُجھ سے کہا: لوہے کی باڑ سے کیا مُراد ہے جِس کو ہمارے باپ نے دیکھا، جو درخت کی جانب جاتی تھی؟

۲۴ اور مَیں نے اُنھیں کہا کہ یہ خُدا کا کلام تھا؛ اور جو خُدا کے کلام کو سُنیں گے، اور اُسے مضبُوطی سے تھامے رکھیں گے، وہ کبھی برباد نہ ہوں گے؛ نہ آزمایش اور دُشمن کے آتشی تیر غالِب آکر اُنھیں اَندھا کر سکیں گے، کہ وہ بربادی کی طرف دھکیلے جائیں۔

۲۵ پَس، مَیں، نِیفی نے، اُنھیں خُداوند کے کلام پر دھیان دینے کی تاکید کی، ہاں، مَیں نے اپنی جان کی پُوری قُوّت کے ساتھ، اور اپنی ساری عقل کے ساتھ اُنھیں تاکید کی، کہ وہ خُدا کے کلام پر دھیان دیں اورسب باتوں میں ہمیشہ اُس کے حُکموں کی پیروی کرنا یاد رکھیں۔

۲۶ اور اُنھوں نے مُجھ سے کہا: ہمارے باپ نے پانی کا جو دریا دیکھا اُس سے کیا مُراد ہے؟

۲۷ اور مَیں نے اُنھیں کہا کہ پانی جو میرے باپ نے دیکھا نجاست تھی اور اُس کا ذہن دُوسری چیزوں میں اِتنا مگن تھا کہ اُس نے پانی کی نجاست نہ دیکھی۔

۲۸ اور مَیں نے اُن سے کہا یہ ہولناک خلیج تھی جو شریروں کو زِندگی کے درخت اور خُدا کے مُقّدسوں سے بھی الگ کرتی تھی۔

۲۹ اور مَیں نے اُن سے کہا کہ یہ اُس ہولناک جہنم کا اِستعَارہ تھا، جِس کا فرِشتے نے مُجھ سے کہا جوکہ شریروں کے لِیے تیار کی گئی تھی۔

۳۰ اور مَیں نے اُن سے کہا کہ ہمارے باپ نے یہ بھی دیکھا کہ خُدا کے اِنصاف نے شریروں کو راست بازوں سے الگ کِیا، اور اُس کی تجلی جلتی آگ کے شعلہ کی سی تھی جو اَبدلاباد تک خُدا کی جانب اُٹھتی ہے اور اُس کی کوئی اِنتہا نہیں۔

۳۱ اور اُنھوں نے مُجھ سے کہا: کیا اِس چیز سے مُراد آزمایش کے دِنوں میں بدن کے لِیے عذاب ہے یا اُس کے معنی فانی بدن کی موت کے بعد رُوح کی آخری حالت ہے یا یہ اُن چیزوں کی بابت بتاتا ہے جو فانی ہیں۔

۳۲ اور اَیسا ہُوا کہ مَیں نے اُن سے کہا کہ یہ فانی اور رُوحانی دونوں چیزوں کا اِستعَارہ ہے کیوں کہ وہ دِن آئے گا جب ضرُور اُن کے اَعمال کی عدالت ہو گی، ہاں، یعنی آزمایش کے دِنوں میں اُن کے فانی بدن جِن اَعمال کے مُرتکب ہُوئے تھے۔

۳۳ پَس، اگر وہ اپنی بدی میں ہلاک ہوں گے تو اُن باتوں سے بھی خارج کِیے جائیں گے جو رُوحانی ہیں، جو راست بازی کے مُتعلق ہیں؛ پَس، لازم ہے کہ وہ اپنے اَعمال کے مُطابق، عدالت کے لِیے خُدا کے حُضُور پیش کِیے جائیں گے؛ اور اگر اُن کے اَعمال نجس ہوں گے تو یقِیناً وہ بھی نجس ہوں گے؛ اور اگر وہ نجس ہوں گے تو وہ خُدا کی بادِشاہی میں قیام نہ پا سکیں گے؛ اگر اَیسا ہوتا ہے تو خُدا کی بادِشاہی بھی نجس ہوتی ہے۔

۳۴ لیکن دیکھ، مَیں تُجھ سے کہتا ہُوں خُدا کی بادِشاہی نجس نہیں، اور کوئی ناپاک چیز خُدا کی بادِشاہی میں داخل نہیں ہو سکتی؛ پَس جو نجس ہیں اُن کے لِیے کسی نجس جگہ کی تیاری کی ضرُورت ہے۔

۳۵ اور جگہ تیار کی گئی ہے ہاں، یعنی وہ ہولناک جہنم جِس کی بابت میں کہہ چُکا ہوں اور اِس کو تیار کرنیوالا اِبلِیس ہے پَس، آدمیوں کی جانوں کا آخری مقام خُدا کی سلطنت میں قیام کرنا، یا خارج کِیا جانا ہے، اُس اِنصاف کے واسطے جِس کی بابت مَیں کہہ چُکا ہُوں۔

۳۶ پَس، شریر راست بازوں اور زِندگی کے اُس درخت سے الگ کِیے جاتے ہیں جِس کا پھل دُوسرے تمام پھلوں سے بڑھ کر اَن مول اور خُوش نما ہے ہاں اور یہ خُدا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے اور یُوں مَیں نے اپنے بھائیوں سے کلام کِیا۔ آمین۔