مجلسِ عامہ
ہمارے خُداداد اِلہامی آئین کا دِفاع
مجلسِ عامہ اپریل ۲۰۲۱


ہمارے خُداداد اِلہامی آئین کا دِفاع

خُداداد اِلہام پر ہمارا اِیمان آخِری ایّام کے مُقدّسِین کو ایک منفرد ذمہ داری سونپتا ہے کہ ہم ریاست ہائے مُتحدہ اَمریکہ کے آئین اور آئین سازی کے اُصُولوں کی پاس داری اور دِفاع کریں۔

اِس شورِش زدہ دَور میں، مَیں نے ریاست ہائے مُتحدہ اَمریکہ کے اِلہامی آئین کے حوالے سے بات کرنا چاہا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ہمارے اَرکان کے لیے یہ آئین خصُوصی اہمیت کا حامل ہے، لیکن یہ پُوری دُنیا کے دساتیر کا مُشترکہ وِرثہ بھی ہے۔

آئین ریاست کی اَساس ہوتا ہے۔ یہ سرکاری اِختیارات کے اِستعمال کے لیے ڈھانچہ اور حدود مہیا کرتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا آئین سب سے قدیم تحریری آئین ہے جو آج بھی نافذ ہے۔ اگرچہ اِبتدا میں صرف تھوڑی تعداد میں نوآباد علاقوں نے اپنایا، جلد یہ دُنیا بھر میں نمونے کی صُورت بن گیا۔ آج، تِین کے علاوہ ہر قوم نے تحریری آئین کو اپنایا ہے۔۱

مَیں اپنے اِس خُطبے میں کسی سیاسی جماعت یا کسی دُوسرے گروپ کے حوالے سے بات نہیں کرتا۔ مَیں ریاست ہائے مُتحدہ کے آئین کے حوالے سے بات کرتا ہُوں، جس کا مَیں نے ۶۰ برسوں سے زائد عرصہ سے مُطالعہ کر رہا ہُوں۔ مَیں امریکہ کی عِدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس کے قانونی کلرک کی حیثیت سے اپنے تجربے کی بِنا پر بات کرتا ہوں۔ مَیں اپنے ۱۵ سالہ قانون کے پروفیسر کی حیثیت سے، اور یوٹاہ سپریم کورٹ میں ساڑھے تین برس جسٹس کی حیثیت سے بات کرتا ہُوں۔ سب سے زیادہ اہم بات، مَیں ۳۷ برس سے یِسُوع مسِیح کے رسُول کی حیثیت سے کلام کرتا ہُوں، جس کا فرض ہے کہ ریاست ہائے متحدہ کے خُداداد آئین کے اِلہامی معنی کا مُطالعہ کرُوں جو اِس کی بحال شُدہ کلِیسیا کا فرض ہے۔

ریاست ہائے مُتحدہ کا آئین نِرالا ہے کیوں کہ خُدا نے نازِل کیا چُوں کہ اُس نے اِسے ”قائم“ کیا ہے”ہر ایک اِنسان کے حُقوق اور حِفاظت کے واسطے“ (عقائد اور عہُود ۱۰۱:‏۷۷؛مزید دیکھیے آیت ۸۰)۔ اِس سبب سے دُنیا بھر میں کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسینِ آخِری ایّام کے لیے یہ خاص توجہ کا حامِل ہے۔ آیا دُنیا کے دیگر مُمالک میں بھی اِس کے اُصُولوں کا اِطلاق ہونا چاہیے یا نہیں، اِس کے بارے میں فیصلہ کرنا اُن کا مُعاملہ ہے۔

ریاست ہائے مُتحدہ کا آئین قائم کرنے میں خُدا کی کیا منشا تھی؟ ہم اِسے اَخلاقی مرضی کے عقیدے میں دیکھتے ہیں۔ بحال شُدہ کلِیسیا کی پہلی دہائی میں، مغربی سرحدوں پر اِس کے اَرکان اِنفرادی اور اِجتماعی ظُلم و سِتم کا شِکار ہو رہے تھے۔ جُزوی طور پر یہ اُس اِنسانی غُلامی کی مُخالفت کا نتیجہ تھا جو اُس وقت امریکہ میں موجود تھی۔ اِن بدبخت حالات میں، خُدا نے نبی جوزف سمتھ کے وسِیلے سے اپنی تعلیم کے بارے میں اَبَدی سچائیوں کو ظاہر کیا۔

خُدا نے اپنی اُمت کو اَخلاقی اِرادہ—فیصلہ کرنے اور عمل کرنے کی قُدرت عطا فرمائی ہے۔ اَیسی فعالیت کے اِستعمال کی اِنتہائی ضروری شرط مردوں اور خواتین کو انفرادی پسند کے مطابق کام کرنے کی زیادہ سے زیادہ آزادی حاصل ہو۔ پھر، مُکاشفہ اِس کی یُوں وضاحت کرتا ہے کہ ”ہر آدمی روزِ عِدالت اپنے گُناہوں کا جواب دہ ہو“ (عقائد اور عہُود ۱۰۱:‏۷۸)۔ ”پَس،“ خُداوند نے ظاہر کیا، ”یہ دُرست نہیں کہ کوئی شخص دُوسرے کی غُلامی میں ہو“ (عقائد اور عہُود ۱۰۱:‏۷۹)۔ اِس کا واضح طور پر مطلب یہ ہے کہ اِنسانی غُلامی غلط ہے۔ اور اِسی اُصُول کو مدِنظر رکھتے ہُوئے، شہریوں کا اپنے حُکم ران مُنتخب کرنے یا اپنے قوانین بنانے میں کوئی آواز نہ اُٹھانا بھی ناجائز ہے۔

II۔

ہمارا یہ اِیمان ہے کہ ریاست ہائے مُتحدہ اَمریکہ کا آئین خُداداد اِلہام ہے اِس سے مُراد یہ نہیں ہے کہ اِس کا ہر لفظ اور فِقرہ خُدا کی طرف سے اُترا مُکاشفہ ہے، مثلاً ہر ریاست کے نمائندوں کی تعداد مُختص کرنے کی دفعات یا ہر ایک کی کم سے کم عمر طے کرنے کے مُعاملات۔۲ صدر جے رُوبن کلارک نے کہا کہ آئین ”پُوری طرح سے تیار شُدہ دستور“ نہیں تھا۔ ”اِس کے برعکس،“ اُنھوں نے وضاحت فرمائی، ”ہمارا اِیمان ہے کہ ترقی پذیر دُنیا کی بدلتی ہوئی ضروریات کو پُورا کرنے کے لیے اِس کی بُلوغت اور نشونما ہونی چاہیے۔“۳ مثال کے طور پر، اِلہامی ترامیم نے غُلامی کو ختم کِیا اور خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق مِلا۔ بہرحال، ہمیں سپریم کورٹ کے ہر فیصلے میں آئین کی تشریح کرتے وقت اِلہام نظر نہیں آتا۔

میرا اِیمان ہے کہ ریاست ہائے مُتحدہ امریکہ کے آئین میں کم از کم پانچ خُداداد اِلہامی اُصُول شامِل ہیں۔۴

سب سے پہلا اُصُول یہ ہے کہ ریاستی طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ اُس دَور میں جب مُطلق العنان اِقتدار بادِشاہوں کے خُدائی حق سے یا فوجی طاقت سے مِلنے کا تصُّور کیا جاتا تھا، لوگوں کو خودمختار اِقتدار سے مُنسوب کرنا بغاوت تھی۔ فلسفیوں نے اِس کی وکالت کی تھی، لیکن ریاست ہائے مُتحدہ نے پہلی بار اَیسے آئین پر عمل درآمد کِیا۔ عوام میں عِنانِ اِقتدار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مُشتعل ٹولے یا دُوسرے جتھے ریاست کو ڈرانے یا مجبور کرنے کے لیے دخل اندازی کرسکتے ہیں۔ آئین نے آئینی عوامی جمہوریہ قائم کی ہے، جہاں عوام اپنے مُنتخب نمایِندوں کے ذریعے سے اپنی طاقت کا اِستعمال کرتے ہیں۔

دُوسرا اِلہامی اُصُول قَوم اور اِس کی ذیلی ریاستوں کے مابین مُقتَدِر اِقتدار کی تقسیم ہے۔ ہمارے وفاقی نظام میں، اِس اَنوکھے اُصُول میں بعض اوقات اِلہامی ترامیم، جَیسے غُلامی کو ختم کرنے اور خواتین کو ووٹ دینے کے حقُوق میں توسیع کے ذریعے سے ردوبدل کِیا جاتا ہے، جس کا ذِکر پہلے کیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ریاست ہائے مُتحدہ امریکہ کے آئین نے قَومی حکومت کو واضح طور پر یا اِس سے جُڑے مُقتدِرہ اِختیارات کے اِستعمال پر حُدود بندی عائد کردی ہے، اور اِس سے وابستہ دیگر حُکومتی اِختیارات ”مجوزہ ریاستوں یا عوام کے پاس ہیں۔“۵

ایک اور اِلہامی اُصُول اِختیارات کی علیحدگی ہے۔ ہماری سن ۱۷۸۷ کے کانسٹی ٹیوشنل کنونشن سے ایک صدی پہلے، برطانوی پارلیمنٹ نے جب بادِشاہ سے بعض اِختیارات حاصل کیے تو وہ قانون سازی اور اِنتظامی اِختیارات کو الگ الگ کرنے کی اِبتدا تھی۔ امریکی مجلِسِ آئین سازی میں یہ بات اِلہامی تھی کہ آزاد اِنتظامیہ، مُقننہ، اور عدلیہ کو اِختیارات تفویض کیے جائیں تاکہ یہ تینوں شاخیں ایک دُوسرے کا مُحاسبہ کرسکیں۔

چَوتھا اِلہامی اُصُول اِنفرادی حقُوق کی حتمی ضمانتوں اور حُکومتی اِختیارات کی مُخصُوص حُدود بندیوں کے بِل آف رائیٹس میں موجُود ہے، جو آئین کے نفاذ کے صرف تین برس بعد ترامیم کی صُورت میں مُنظُور کیا گیا۔ بِل آف رائیٹس کوئی نیا نہیں تھا۔ برطانیہ میں بنے اُصُولوں کا عملی طور پر نافِذ ہوا اِلہامی تھا، جس کا آغاز یہاں منشُورِ آزادی سے ہُوا تھا۔ آئین کے مُصنفین اِن امُور سے واقف تھے کیوں کہ اَیسی ضمانتیں بعض نوآبادیاتی منشُوروں میں موجُود تھیں۔

بِل آف رائیٹس کے بغیر، اَمریکہ اِنجِیل کی بحالی کے واسطے میزبان قَوم کی حیثیت سے فریضہ انجام نہیں دے سکتا تھا، جو صرف تین دہائیوں کے بعد شُروع ہُوا تھا۔ اصل مسودے میں خُداداد اِلہام موجُود تھا کہ عوامی عہُدے کے لیے مذہبی اِمتحان نہیں ہونا چاہیے،۶ بلکہ پہلی ترمیم میں مذہبی آزادی اور اِنسدادِ اِستحکام کی ضمانتوں کا اضافہ ناگُزیر تھا۔ ہم پہلی ترمیم کی تقریر اور صحافت کی آزادیوں اور دیگر ترامیم میں موجُود شخصی تحفظات میں بھی خُداداد اِلہام دیکھتے ہیں، جَیسے مُجرمانہ قانونی کارروائی کے حوالے سے۔

شبیہ
ہم عوام

پانچویں اور آخِر میں، مَیں پُورے آئین کے نہایت اہم مقصد میں خُداداد اِلہام دیکھ رہا ہوں۔ ہمیں اَفراد کے نہیں قانونکی حُکم رانی کے ماتحت ہونا ہے، اور ہماری وفاداری اِس آئین اور اُس کے اُصُولوں اور عمل داریوں سے ہے، کسی عہدہ دارسے نہیں۔ اِس طریقے سے، تمام اَفراد قانون کے سامنے برابر ہیں۔ یہ اُصُول آمرانہ عزائم کو روکتے ہیں جِنھوں نے بعض مُمالک میں جمہوریت کو خراب کیا ہے۔ اِن یہ مُراد بھی ہے کہ حُکومت کی تِینوں شاخوں میں سے کوئی ایک بھی غالِب نہ ہونے پائے یا کسی دُوسری کو اپنے اپنے جائز آئینی فرائض انجام دینے سے روکے۔

III.

ریاست ہائے مُتحدہ اَمریکہ کے آئین کے خُداداد اِلہامی اُصُولوں کے باوجود، جب ناتواں فانی اِنسان بروئے کار لاتے ہیں، تو ہر بار اصل مقاصد کو حاصل نہیں کِیا گیا۔ قانون سازی کے اہم موضوعات، جَیسے خاندانی رِشتوں کے مُتعلق بعض قوانین کے نفاذ کے اِختیار کو وفاقی حُکومت نے ریاستوں سے لیا ہے۔ پہلی ترمیم میں آزادیِ تقریر کی ضمانت کو بعض اوقات کسی نامقبول تقریر کو دبانے کی خاطر محدُود کر دیا جاتا ہے۔ مُقتَدِرہ اِختیارات کو الگ کرنے کا اُصُول ہمیشہ سے دباؤ میں رہا ہے اور حُکومت کی کسی ایک شاخ کے دُوسرے حِصّے کو تفویض کیے گئے اِختیارات کو انجام دینے یا روکنے کے عمل میں اُتار چڑھاؤ رہا ہے۔

اِس کے علاوہ بھی دیگر خطرات ہیں جو ریاست ہائے مُتحدہ امریکہ کے آئین کے اِلہامی اُصُولوں کو مُجروح کرتے ہیں۔ آزادی اور خُود مُختاری کی بجائے حالیہ معاشرتی رجحانات کو بُنیاد بنا کر اِس میں تبدیلی کی کوششیں آئین کی قدرومنزلت کو کم کرتی ہیں۔ آئین کے اِختیار کو اُمیدوار یا عہدیدار بےتوقیر کرتے ہیں جو اِس کے اُصُولوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ اِختیارات اور حُکومت کے محدود اِختیار کا سرچشمہ ہونے کی حیثیت اپنے بُلند مقام کے باوجُود آئین کے وقار اور طاقت کو اُن لوگوں نے کم کیا ہے جو اِس کو وفاق کا اِمتحان یا سیاسی نعرے بازی کا رنگ دیتے ہیں۔

IV۔

خُداداد اِلہام پر ہمارا اِیمان آخِری ایّام کے مُقدّسِین کو ایک منفرد ذمہ داری سونپتا ہے کہ ہم جہاں بھی رہتے ہیں، ریاست ہائے مُتحدہ اَمریکہ کے آئین اور آئین سازی کے اُصُولوں کی پاس داری اور دِفاع کریں۔ ہمیں خُداوند پر توّکل کرنا چاہیے اور اِس قَوم کے مستقبل کے حوالے سے مُثبت ہوں۔

بااِیمان مُقدّسِینِ آخِری ایّام کو مزید کیا کرنا ہے؟ ہمیں خُداوند سے دُعا کرنی ہوگی کہ وہ ساری قَوموں اور اُن کے قائدین کو ہدایت اور برکت عطا کرے۔ یہ ہمارے اِیمان کے اَرکان کا جُز ہے۔ صدور یا حُکم رانوں کے تابع ہونا۷ یقیناً ہمارے اِنفرادی قوانین یا پالیسیوں کے خِلاف نہیں ہے۔ ضُرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہم اپنی آئینی حُدود اور قابلِ اطلاق قوانین کے دائرہِ کار کے اندر، اپنے اَثر و رسُوخ کو مُہذب اور اَمن و امان سے اِستعمال کریں۔ مُتنازع امُور پر، ہمیں اعتدال پسندی اور مُفاہمت کی کوشش اِختیار کرنی چاہیے۔

اِس کے علاوہ بھی دیگر فرائض منصبی اِلہامی آئین کی پاس داری کا حصہ ہیں۔ ہمیں آئین کے اِلہامی اُصُولوں کو سیکھنا اور اِن کی حمایت کرنا چاہیے۔ ہمیں دانِش مند اور نیکوکار افراد کی تلاش اور اُن کی تائید کرنی چاہیے جو اپنے عوامی مُعاملات میں اِن اُصُولوں کی حمایت کریں گے۔۸ ہمیں باشعُور شہری بننا ہے جو شہری مُعاملات میں اپنے اثر و رسوخ کو بارآور کرانے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔

ریاست ہائے مُتحدہ میں اور دیگر جمہوریتوں میں، سیاسی اثر و رسوخ کا اِستعمال سرکاری عہُدوں کے لیے اِنتخاب لڑنے (جس کی ہم حوصلہ افزائی کرتے ہیں)، ووٹ ڈالنے، مالی مُعاونت کرنے، سیاسی جماعتوں میں ممبرشپ لینے اور خدمات کے ذریعے سے، اور عہدیداروں، جماعتوں، اور اُمیدواروں سے لگاتار رابطوں کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ موّثر کام کرنے کے لیے، جمہوریت کو اِن سب کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن کسی ایک باضمیر شہری کویہ سارے فرائض کو پُورا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

بہت سارے سیاسی مسائل ہیں، اور نہ ہی کوئی جماعت، کوئی پلیٹ فارم، نہ ہی کوئی اکیلا اُمیدوار تمام ترجیحات کو پُورا کرسکتا ہے۔ لہذا ہر شہری کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سے مسائل اُس کے لیے اُس خاص قت پر سب سے زیادہ اہم ہیں۔ تب اَرکان اپنے اپنے ووٹ کو اِستعمال کرنے کے لیے معرفت پائیں کہ اپنی اپنی اِنفرادی ترجیحات کے مُطابق اپنے شعُور کا اِستعمال کریں۔ یہ عمل آسان نہ ہوگا۔ اِس کے لیے جماعت کی حمایت یا اُمیدوار کے اِنتخاب کو بدلنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے، یہاں تک کہ ہر اِنتخاب کے موقع پر۔

اِس طرح کے آزادانہ اقدامات سے بعض اوقات ووٹرز کو اُمیدواروں یا سیاسی جماعتوں یا پلیٹ فارم کی حمایت کرنے کی ضرورت ہوگی جن کے دیگر نقطہِ نظر کو وہ منظور نہیں کر سکتے۔۹ یہی ایک وجہ ہے کہ ہم اپنے اَرکان کو سیاسی مُعاملات میں ایک دُوسرے کے لیے فیصلے کرنے سے باز رہنے کی حوصلہ اَفزائی کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی بااِیمان آخِری ایّام کا مُقدّس کسی خاص پارٹی سے تعلق نہیں رکھ سکتا یا کسی خاص اُمیدوار کو ووٹ نہیں دے سکتا۔ ہم راست اُصُول سِکھاتے ہیں اور اپنے اَرکان پر چھوڑتے ہیں کہ اپنی ترجیح کو خُود چُنیں اور وقتاً فوقتاً درپیش مسائل کے لیے کن اُصُولوں کو لاگو کرتے ہیں۔ ہم زور بھی دیتے ہیں، اور ہم اپنے مقامی راہ نماؤں سے کہتے ہیں، سیاسی اِنتخاب اور وابستگیاں ہماری کسی بھی کلِیسیائی کے عِبادات میں تعلیمات یا وکالت کا موضُوع نہ ہوں۔

کلِیسیائے یِسُوع مسِیح برائے مُقدّسِینِ آخِری ایّام، یقیناً، اَیسی مخصُوص قانون سازی کی تجاویز کی توثیق یا اِختلاف کے اپنے حق کا اِستعمال کرے گی جسے ہم مذہب کا آزادانہ اِظہار یا کلِیسیائی تنظیموں کے لازمی مفادات کے منافی مانتے ہیں۔

مَیں ریاست ہائے مُتحدہ کے خُداداد اِلہامی آئین گواہی دیتا ہُوں اور دُعا کرتا ہُوں کہ ہم جو اُس اِلہیٰ ہستی کو پہچانتے ہیں جس نے اِسے اِلہامی بنایا وہ ہمیشہ اِسے اور اِس کے اُصُولوں کو سربُلند رکھے اور حفاظت کرے۔ یِسُوع مسِیح کے نام پر، آمین۔

حوالہ جات

  1. See Mark Tushnet, “Constitution,” in Michel Rosenfeld and András Sajó, eds., The Oxford Handbook of Comparative Constitutional Law (2012), 222. (The three countries with unwritten codified constitutions are the United Kingdom, New Zealand, and Israel. Each of these has strong traditions of constitutionalism, though the governing provisions are not collected in a single document.)

  2. ریاست ہائے مُتحدہ امریکہ کا آئین، دفعہ۱، شِق ۲۔

  3. “J. Reuben Clark Jr., “Constitutional Government: Our Birthright Threatened,” Vital Speeches of the Day, Jan. 1, 1939, 177, quoted in Martin B. Hickman, “J. Reuben Clark, Jr.: The Constitution and the Great Fundamentals,” in Ray C. Hillam, ed., By the Hands of Wise Men: Essays on the U.S. Constitution (1979), 53. Brigham Young held a similar developmental view of the Constitution, teaching that the framers “laid the foundation, and it was for aftergenerations to rear the superstructure upon it” (Discourses of Brigham Young, sel. John A. Widtsoe (1954), 359.

  4. These five are similar but not identical to those suggested in J. Reuben Clark Jr., Stand Fast by Our Constitution (1973), 7; Ezra Taft Benson, “Our Divine Constitution,” Ensign, Nov. 1987, 4–7; and Ezra Taft Benson, “The Constitution—A Glorious Standard,” Ensign, Sept. 1987, 6–11. See, generally, Noel B. Reynolds, “The Doctrine of an Inspired Constitution,” in By the Hands of Wise Men, 1–28.

  5. آئینِ ریاست ہائے مُتحدہ، ۱۰ ویں ترمیم۔

  6. آئینِ ریاست ہائے مُتحدہ، دفعہ ۶۔

  7. دیکھیے اِیمان کے اَرکان ۱:‏۱۲۔

  8. دیکھیں عقائد اور عہود ۹۸:‏۱۰۔

  9. See David B. Magleby, “The Necessity of Political Parties and the Importance of Compromise,” BYU Studies, vol. 54, no. 4 (2015), 7–23.