خدمت گزاری
بامقصدتعلقات استوار کرنا
اُصول


شبیہ
ministering

خدمت گزاری کے اصول ، اگست ۲۰۱۸

بامقصدتعلقات استوار کرنا

دوسروں کی دیکھ بھال کرنے کی ہماری قابلیت بڑھ جاتی ہے جب ہم اُنکے ساتھ بامقصدتعلقات استوار کرتے ہیں۔

دوسروں کی خدمت کرنے کی دعوت اُن کے ساتھ دیکھ بھال کاتعلق استوارکرنے کا ایک موقع ہے—اِس نوعیت کے تعلقات جس میں وہ ہماری مدد مانگنے یا قبول کرنے میں آسانی محسوس کریں۔ جب ہم اِس نوعیت کے تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں، تو خُدا دونوں جانب کے تعلقات کی زندگیوں کو بدلنے کے قابل ہوتا ہے۔

ریلیف سوسائٹی کی صدارتی مجلسِ اعلٰی میں مشیر دوم، شیرون یوبنک نے فرمایا،”میں واقعی یقین رکھتی ہوں کہ اہم تعلقات کے بغیر اہم تبدیلی ممکن نہیں ہے۔“ اوردوسروں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لئے ہمارے اعمالِ خدمت کو، اُس نے فرمایا، لازماً ” شفا دینے اور سُننے، اور تعاون کرنے،اور احترام کی مخلص خواہش میں سرایت کیا ہونا چاہیے۔“۱

بامقصدتعلقات حربے نہیں ہیں۔ یہ رحم،مخلص کوششوں، اور ” حقیقی محبت“ پر تعمیر ہوتے ہیں (تعلیم و عہود ۱۲۱: ۴۱۲

تعلقات استوار اورمضبوط کرنے کے طریقے

”ہم ایک وقت میں ایک شخص سے [تعلقات]استوار کرتے ہیں،“ بارہ رسولوں کی جماعت کے بزرگ ڈئیٹر ایف۔ اُکڈرف نے فرمایا۔۳ جب ہم اُن کے ساتھ بامقصد تعلقات استوار کرتے ہیں کہ جن کی ہم خدمت کرتے ہیں، تو رُوحُ القُدس ہماری راہنمائی کر سکتا ہے۔ ذیل کی تجاویز اُس نمونہ پر مبنی ہیں جو بزرگ اُکڈرف نے پیش کیا ہے۔۴

  • اُن کے بارے میں جانیں۔

    صدر عزرا ٹافٹ بینسن ( ۱۸۹۹–۱۹۹۴) نے سیکھایا، ” جنہیں آپ بہتر طور پر جانتے نہیں آپ اُن کی بہتر خدمت نہیں کر سکتے ہیں۔“ اُنہوں نے تجویز کیا کہ ہر رکنِ خاندان کے نام جاننااور جنم دِن، برکات، بپتسمے، شادیوں جیسے اہم مواقعوں سے باخبر ہوناچاہیے۔ یہ اُنھیں ایک نوٹ لکھنے یا رکنِ خاندان کی خاص کامیابی و کامرانی پرمبارک دینے کے لئے کال کرنے کاموقع فراہم کرتا ہے۔۵

  • اِکٹھے وقت گزارنا۔

    تعلق کو فروغ پانے میں وقت لگتا ہے۔ رابطہ قائم رکھنے کے مواقعوں کی تلاش کریں۔ مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ صحت مندانہ تعلقات کے لئے لوگوں کو بتانا ضروری ہے کہ آپ فکر کرتے ہیں۔۶ جن کی خدمت کرنے کے لئے آپ بُلائے گئے ہیں اُن سے اکثر مُلاقات کریں۔ چرچ میں اُن سے بات چیت کریں۔ جو بھی اضافی میسر وسائل سمجھ میں آئیں—جیسے ای میل، فیس بُک، انسٹاگرام، ٹیوٹر، سکائپ، فون کالیں ، یا کارڈ بھیجنا —اُنکا استعمال کریں۔ بارہ رسولوں کی جماعت کے بزرگ رچرڈ جی۔ سکاٹ ( ۲۰۱۵–۱۹۲۸)نے محبت اور تعاون کے سادہ اور تخلیقی اظہارات کی طاقت کے بارے کہا: ”میں اکثر اپنے صحائف کھولتا ہوں، …اور میں ایک پیار بھرا، معاونتی نوٹ پاتا ہوں جو جینی [میری بیوی]نے صفحات میں رکھا ہوتا تھا۔ … وہ قیتمی نوٹ…انمول تسلی اور الہام کا بیش قیمت خزانہ ہے۔“۷

    یہ بھی یاد رکھیں، کہ تعلقات دو طرفہ ہونے چاہیۓ۔ آپ محبت اور دوستی پیش کرسکتے ہیں، مگر جب تک پیشکش قبول اور لوٹائی نہ جائے تعلقات فروغ نہیں پائیں گے۔ اگر دوسرا شخص قبول نہیں کرتا تو اُسے تعلقات پروان چڑھانے پر مجبور مت کریں۔ اُس کو اپنی مخلص کاوشوں کو دیکھنے ( سمجھنے )کے لئے وقت دیں، اور اگر ضروری ہو، تو اپنے راہنمائوں سے مشورت کریں آیا کہ اب بھی بامقصد تعلقات کا امکان ممکن ہے یا نہیں۔

  • احتیاط سے گفتگوکریں۔

    بامقصد تعلقات استوار کرنا ہم سے سطحی تعلق سے آگے جانے کا تقاضا کرتا ہے۔ سطحی تبادلہِ خیال شیڈول(معمولات)، موسم، اور دیگر معمولی معاملات کے بارے مختصر بات چیت سے معمور ہوتا ہے، مگر اِس میں بامقصد رابطے قائم کرنے کے لئے ضروری احساسات، اعتقادات، تفکرات،اور مقاصد کا اشتراک شامل نہیں ہوتا ہے۔ آسمانی باپ نے اِس مزید بامقصدقسم کے تبادلہِ خیال کا اپنے بیٹے ( دیکھئے یوحنا۵: ۲۰) اور ہمارے ساتھ اپنے انبیاء ( دیکھئے عاموس ۳: ۷)کے ذریعے اپنے احساسات اور منصوبے بانٹ کر نمونہ دیا ہے۔ روز مرہ کے واقعات اور زندگی کی چنوتیوں کا رُوحُ کی راہنمائی کے موافق، ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہوئے ، ہم ایک دوسرے کے لئے قدرپاتے ہیں جب ہم عام مفادات اورمشترکہ تجربات تلاش کرتے ہیں۔

    غور سے سُننا گفتگو کا وہ نازک حصہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ آپ فکر کرتے ہیں۔۸ جب آپ غور سے سُنتے ہیں، تو دوسروں کو مسیح کے پاس لانے میں مدد دینے کا آپکاموقع بڑھ جاتا ہے جب آپ اُن کی ضروریات کا فہم اور بصیرت پاتے ہیں اور جب وہ محفوظ، سمجھے گئے اور محبت کیے گئے محسوس کرتے ہیں۔

  • مماثلتوں اور متفرقات دونوں کو سراہیں۔

    ” کچھ … محسو س کرتے ہیں کہ کلیسیا ہر رکن کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہے—کہ ہر کوئی دوسرے جیسا نظر آئے، محسوس کرے، سوچے، اور سلوک کرے،“ بزرگ اُکڈرف نے فرمایا۔ ”یہ خُدا کی دانش سے متضاد ہے، جس نے ہر ایک بشر کو اپنے بھائی سے مختلف خلق کیا ہے۔ …

    ”کلیسیاء نمو پاتی ہے جب ہم اِس تنوع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو اپنے ساتھی شاگردوں کو اُبھارنے اور مضبوط کرنے کے لئے استعمال کرنے اور فروغ دینے کی ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔“۹

    دوسروں سے ویسے محبت کرنا جیسے خُدا ہم سے کرتاہے، تقاضا کرتاہے کہ ہم دوسروں کو ویسے دیکھنے کی کوشش کریں جیسے خُدا ہمیں دیکھتا ہے۔ صدر تھامس ایس۔ مانسن ( ۲۰۱۸–۱۹۲۷)نے سیکھایا، ” ہمیں [دوسروں ] کو ویسے دیکھنے کی استعداد پیداکرنی چاہیے جیسے وہ بن سکتے ہیں نہ کہ جیسے وہ موجودہ طور پر ہیں۔“۱۰ ہم دوسروں کو خُدا کی نگاہ سے دیکھنے میں مد دکے لئے دُعا کر سکتے ہیں۔ جب ہم دوسروں سے اُنکی ممکنہ بڑھوتی کی بنیا دپر ( پیش آتے) سلوک کرتے ہیں، تو اُنکا اکژ مواقعوں میں ہماری توقعات سے بہتر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔۱۱

  • اُنکی خدمت کریں۔

    جن کی آپ خدمت کرتے ہیں اُنکی ضروریات سے حساس رہیں اور اپنے وقت، صلاحیتوں کو دینے کے لئے رضامند رہیں، چاہے بوقتِ ضرورت یا محض اِس لئے کہ آپ خِیال کرتے ہیں۔ جب کوئی ایمرجنسی، بیماری، یا ضروری صوتحال ہو تو آپ تسلی، تعاون، اور ضرورت کردہ مدد فراہم کرنے کے لئے موجود ہو سکتے ہیں۔ مگر بہت سے تعلقات میں ہم جوابی ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں۔ خُدانے ہمیں خودمختاری دی ہے تاکہ ہم عمل کریں نہ کہ عمل کیے جائیں (دیکھئے ۲ نیفی ۲: ۱۴)۔ جیسے یوحنا رسول نے سیکھایا کہ ہم اِس لِئے محبّت رکھتے ہیں کہ پہلے اُس نے ہم سے محبّت رکھّی (دیکھئے ۱ یوحنا ۴: ۱۹)، جب دوسرے ہمارے اعمالِ خدمت سے ہماری حقیقی محبت کو محسوس کرتے ہیں، تو یہ دِلوں کو نرم کرتا اور محبت اور بھروسے کو بڑھاتا ہے۔۱۲ یہ شفیق اعمال میں مسلسل اضافہ پیدا کرتا ہے جو تعلقات کی تعمیر کرتے ہیں۔

منجی کی مانند خدمت کرنا

یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ بامقصد تعلقات استوار کیے تھے ( دیکھئے یوحنا ۱۱: ۵)۔ وہ اُنھیں جانتا تھا (دیکھئے یوحنا۱: ۴۷–۴۸)۔ وہ اُن کے ساتھ وقت گزارتا تھا ( دیکھئے لوقا ۲۴: ۳۱–۱۳)۔ اُسکی گفتگو سطحی سے کہیں بڑھ کر تھی ( دیکھئے یوحنا ۱۵:۱۵)۔ اُس نے اُنکے متفرقات کو سراہا ( دیکھئے متی ۹: ۱۰) اور اُنکی صلاحیتوں کو دیکھا ( دیکھئے یوحنا ۱۷: ۲۳)۔ اگرچہ وہ سب کا خُداوند تھا، پھر بھی اُس نے ہر ایک کی یہ کہتے ہوئے خدمت کی، کہ وہ خدمت کروانے نہیں بلکہ خدمت کرنے آیا ہے ( دیکھئے مرقس ۱۰: ۴۲ –۴۵)۔

جن کی خدمت کرنے کے لئے آپ بُلائے گئے ہیں آپ اُن کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرنے کے لئے کیا کریں گے؟

حوالہ جات

  1. Sharon Eubank, in “Humanitarian Acts Must Be Rooted in Relationship, Sharon Eubank Says,” mormonnewsroom.org.

  2. دیکھئے،Ministering Principles: Reach Out in Compassion,” لیحونا، جولائی ٢٠١٨، ٩–٦۔

  3. ڈئیٹر ایف۔ اُکڈرف، ., “Of Things That Matter Most,” لیحونا, نومبر. ۲۰۱۰، ۲۲۔

  4. دیکھئے ڈئیٹر ایف۔ اُکڈرف ، “ “Of Things That Matter Most,” ۲۲۔

  5. دیکھئے عزرا ٹافٹ بینسن،“To the Home Teachers of the Church,” انزائن ، مئی، ۱۹۸۷، ۵۰۔

  6. دیکھئے چارلس اے۔ ولکنسن اور لورین ایچ۔ گرل،“Expressing Affection: A Vocabulary of Loving Messages,” in Making Connections: Readings in Relational Communication, ایڈیشن کیتھلین ایم گیلون، ۵واں ایڈیشن ( ۲۰۱۱)، ۱۶۴ –۷۳۔

  7. رچرڈ جی۔ سکاٹ, “The Eternal Blessings of Marriage,” لیحونا, مئی ۲۰۱۱, ۹۶۔

  8. دیکھئے ”Ministering Principles: Five Things Good Listeners Do،“ لیحونا، جون ٢٠١٨، ٩-٦)۔

  9. ڈئیٹر ایف۔ اُکڈرف، “Four Titles,” لیحونا, مئی ، ۲۰۱۳، ۵۹۔

  10. تھامس ایس۔ مانسن، ”See Others as They May Becomeلیحونا, نومبر ۲۰۱۲، ۶۹۔

  11. دیکھئے ٹیرنس آر۔ مچل اور ڈینیس ڈئنیلز، , “Motivation,” in Handbook of Psychology, والیم ۱۲، ایڈیشن والٹر سی بورمین اور دیگر (۲۰۰۳)، ۲۲۹۔

  12. دیکھئے ایڈروڈ جے۔ لالیر، ربیقہ فورڈ، اور مائیکل ڈی۔ لارج، “Unilateral Initiatives as a Conflict Resolution Strategy,” Social Psychology Quarterly,والیم ۶۲، نمبر ۳ (ستمبر ۱۹۹۹)، ۵۶ –۲۴۰۔