کرسمس کی عِبادات
باپ کی طرف سے تحفہ: قبول یا مسترد


باپ کی طرف سے تحفہ: قبول یا مسترد

موسیقی نہایت خوبصورت تھی اور بہن یوبینک کا پیغام نہایت عمدہ تھا۔ مخلصی دینے والے فضل کی طلوعِ صبح کتنی حیرت انگیز تھی! دسمبر کا آغاز ہے۔ ہوا سرد ہے اور کچھ برف باری بھی ہوئی ہے۔ کئی لوگوں کے نزدیک، اِس کا مطلب یہ ہے کہ کرسمس بہت قریب ہے۔ لیکن میرے نزدیک، کرسمس کا احساس ایسا نہیں۔

اِس زمین پر میرے تمام برسوں میں، کرسمس کا استقبال، ایک طویل عرصے سے، گرم دنوں اور ٹھنڈی راتوں میں کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ آسٹریلیا میں دسمبر موسم گرما کا مہینہ ہوتا ہے۔ اور مغربی افریقہ میں، جہاں میری بیوی اور میں گزشتہ پانچ سالوں سے مقیم ہیں، ہمیشہ گرمی ہوتی ہے۔

لہذا دسمبر میں عام طور پر ساحلِ سمندر، موج رانی اور بار بی کیو کا رحجان ہوتا ہے۔ کرسمس کے موقع پر، ہمارے گھر آموں کی خوشگوار مہک اور ہنسی کی آوازوں سے مؤتر ہوتے ہیں۔ لیکن عیدِ ولادت المِسیح کی رُوح ہر جگہ ایک جیسی ہوتی ہے۔ چاہے سڈنی، سالٹ لیک، یا سیرا لی یون میں؛ چاہے نکوالفا، نیو فاؤنڈ لینڈ، یا نائجیریا میں، ہمارے نجات دہندہ کی پیدائش لوگوں کو اچھے کام کرنے کا الہام بخشتی ہے۔

زیادہ تر جگہوں پر، لوگ عیدِ ولادت المِسیح کی رُوح کو منانے کے لیے تحائف کا تبادلہ کرتے، دوسروں سے ملتے، اور.نیک اعمال کرتے ہیں۔ سمووا کے ہمارے دوستوں کی ایک روایت ہے کہ کرسمس کے اگلے دن، وہ کھانا اور دیگر اشیاہِ نوش ڈبوں میں رکھتے ہیں اور انھیں نہایت غریب خاندانوں کو دے دیتے ہیں، نہ صرف اپنے حلقہ میں بلکہ باقی عوام الناس میں بھی۔ اُن کے پاس دو ایکڑ پر محیط سبزیوں کا باغ ہے، جس کی پیداوار کا زیادہ تر حصہ ضرورت مند لوگوں کو دیا جاتا ہے۔

مغربی افریقہ کے سینیگال سے ہمارے ایک عزیز دوست نے مجھے بتایا کہ آئیوری کوسٹ کے اپنے گاؤں میں، ہر کرسمس کے موقع پر، تحائف لانے کے بجائے، دیہاتی اپنے راہنماؤں کے سامنے کوئی غیر حل شدہ تنازعہ پیش کرتے ہیں۔ پھر راہنما باقی دن تنازعات کو حل کرنے کے لیے خاندانوں کے ساتھ کام کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔ گاؤں والے چاہتے ہیں کہ کرسمس پر اُس گاؤں کے ہر گھر میں امن اور ہم آہنگی ہو، کیونکہ وہ مسیح کی پیدائش کا جشن مناتے ہیں—وہ جو دُنیا میں سلامتی لانے کے مقصد سے پیدا ہوا تھا۔

اِس سال کے آغاز میں، ہم ایک نوجوان مشنری سے ملے، روانڈا کی بہن جین انگابائر، جو لائبیریا میں اپنے مشن کی خدمت کر رہی ہے۔ اُس نے مجھے ۱۹۹۴ میں روانڈا میں ہونے والی نسل کشی سے اُس کی ذات پر پڑنے والے اثرات کی دل کو دہلا دینے والی کہانی سنائی۔ اُس کے والد کا تعلق ہوٹو قبیلے سے تھا، جو ٹٹسی قبیلے کے ارکان سے نفرت کرتے تھے۔ لیکن اُس کی ماں ٹٹسی قبیلے کی رکن تھی۔ اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کی زندگی کو بچانے کے لیے، اِس بہادر باپ نے اپنے خاندان کو بہت دور چھپایا اور اکیلے اپنے گاؤں واپس گیا۔ اُس کی بیوی اور بیٹیوں نے اُسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا اور انھوں نے بقید حیات کے لیے جدوجہد کی۔ بلآخر نو سال بعد حکومت کی طرف سے منظم ایک مصالحت کے اجلاس میں شرکت کے لیے وہ واپس گئیں، جہاں انھیں پتہ چلا کہ اُن کا شوہر اور والد جب اپنے گاؤں واپس گیا تو اُس کو قتل کر دیا گیا تھا۔ پھر بھی، ناقابل یقین طور پر، بہن انگابائر کی والدہ اور اُن کے بچوں نے اُن لوگوں کو معاف کر دیا جنھوں نے اُن کے شوہر اور والد کو مار دیا تھا۔

اُس وقت جوزف سمتھ شاید غضب ناک ہو گیا تھا، ۱۸۳۸ کے کرسمس کے موقع پر جب اُس نے کئی مہینوں تک لبرٹی جیل میں معصوم قیدی کے طور پر اسیری کاٹی، جس کے نتیجہ میں خُداوند کی طرف سے عقائد اور عہود کا سیکشن ۱۲۱ الہام کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ اِس مکاشفہ میں خُداوند نے اِس سیکشن کے آغاز میں واضح مایوسی کے جذبات پر قابو پانے میں جوزف کی مدد کی اور نبی کو سکھایا کہ مہربانی، تحمُّل، نرمی، حِلم، اور بے رِیا محبّت وہ مِثلِ مِسیح کی خصوصیات ہیں جو شاگردی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

میرے لیے کرسمس قیمتی خاندانی یادوں سے معمور ہے۔ البتہ، اِن میں سے کچھ یادیں اچھی نہیں ہیں۔ جب میں ایک چھوٹا بچہ تھا، مجھے یاد ہے کہ میرے والد نے ایک سبز میچ باکس ریسنگ کار مجھے انعام میں دی۔ ہمارا نسبتہً متوسط خاندان تھا، اور مجھے یہ تحفہ بے حد پسند آیا۔ البتہ، ایک دن ایک معمولی سی بات پر بچپنے کے غصے میں، میں نے گاڑی والے کھلونے کو ایک موٹی پھل دار بیل میں پھینک دیا جو ہماری باڑ کے ساتھ پیوست تھی۔ فوری طور پر مجھے افسوس ہوا، نہ صرف اِس وجہ سےکہ میں نے کھلونا پھینک دیا تھا بلکہ اِس احساس کی وجہ سے کہ میں نے اپنے والد کی محبت کے اظہار کو مسترد کیا تھا۔ میں نے اُسے بہت تلاش کیا، لیکن میری کوشش بے فائدہ رہی۔ موسم سرما کی آمد پر جھاڑیوں سے پتے گِرے، اور میں نے دوبارہ تلاش کی، جو ناکام رہی۔ میں اب بھی اپنے والد کے جذبات کو مجروح کرنے کا درد محسوس کرتا ہوں۔ یہ درد ابھی بھی محسوس ہوتا ہے۔

آپ جانتے ہیں، یہ بعض اوقات ہمارے آسمانی باپ کی محبت اور اُس کے تحائف کو مسترد کرنے سے مماثلت رکھتا ہے، جس میں سے سب سے عظیم تحفہ یہ ہے کہ اُس نے اپنے بیٹے کو ہمارے لیے تکلیف اٹھانے اور کفارہ دینے کے لیے بھیجا۔ اگر ہم اُس کی مخلصی دینے والی قربانی یا اُس کی خوشخبری کے عہود اور رسوم کو مسترد کرتے ہیں تو یہ کتنا ناخوشگور المیہ ہے!

کاش کہ ہم ہمیشہ مزید اُن کی مانند بن سکیں جو دوسروں کے ساتھ محبت کے اظہار کے لیے کام کرتے ہیں۔ حال ہی میں، بہت سے لوگوں نے فلوریڈا اور کیرولیناس کے رہائشیوں کی مدد کرنے کی کوشش کی جنہوں نے تباہ کن طوفان کا تجربہ کیا ہے اور کیلیفورنیا کی آگ کی زد میں آنے والوں یا دوسروں کی مدد کرنے کے لیے سامنے آئے جو دُنیا بھر میں اِسی طرح کے مصائب سے دوچار ہوئے ہیں۔

۲۵ دسمبر، ۱۹۷۴ کو، آسٹریلیا کی شمالی ریاست کا دارالحکومت تباہ ہوگیا۔ اُس کرسمس کے دن کے ابتدائی گھنٹوں میں، سائکلون ٹریسی نے ڈارون کے شہر کو آ گھیرا۔ بہت سے لوگ مر گئے، اور ڈارون کی زیادہ تر آبادی بے گھر ہو گئی۔ فلوریڈا میں حالیہ تباہی کی تصاویر ڈارون کی بربادی کی عکاسی کرتی ہیں۔ لیکن عیدِ ولادت المِسیح کی رُوح نے ناامیدی پہ فتح حاصل کی۔ آسٹریلیا بھر سے لوگوں نے عطیہ جات پیش کیے، اور بہت سے افراد سب کچھ چھوڑ کر تعمیرِ نو میں مدد کے لیے ڈارون روانہ ہوئے۔

کئی سال قبل، جب ہماری سب سے بڑی بیٹی صرف دو سال کی تھی، تو کرسمس سے تھوڑا پہلے اُس کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور ہسپتال میں کئی ہفتوں تک اُس کی ٹانگ کو ایک خصوصی فریم سے لٹکایا گیا۔ یہ نہایت صبر آزما کرسمس تھا۔ ہمارے حلقہ کا ایک خاندان جو مالی طور پر انتا خوشحال نہیں تھا، کرسمس کے دن اُس سے ملنے آیا۔ ہماری بیٹی کو اپنی طرف سے تحفہ کے طور پر پیش کرنے کے لیے، اُن کے چھوٹے بچوں میں سے ہر ایک اپنا پسندیدہ تحفہ لے کر آیا، جو اُسی صبح اُن کو ملے تھے۔ اُن بچوں اور اُن کے والدین کی خالص اور حقیقی مہربانی کی وجہ سے میری بیوی، کے، اور میں آبدیدہ ہوگئے۔

یہی عیدِ ولادت المِسیح کی اصل رُوح ہے—افراد دوسروں کی مدد کریں۔ آخر کار، نجات دہندہ کی میراث کا ایک اہم حصہ ہر ”ایک“ کی خدمت کرنا ہے۔ یہ یقینی طور پر ایک ایسا اصول ہے جسے افریقہ کی کلیسیا کے ارکان قبول اور لاگو کرتے ہیں، اور جس کا وہ ہم سے بھی تقاضا کرتا ہے۔

صدر ایم رسل بیلرڈ نے کہا ہے کہ کفارہ نجات دہندہ کا حتمی عمل ہے جو اُس نے فقط ہم میں سے ہر ”ایک“ کے لیے دیا ہے۔ صدر بیلرڈ کے الفاظ تھے:

”اگر ہم صحیح طور پر کفارہ اور ہر رُوح کی ابدی قدر کو سمجھیں تو، ہم خُدا کے … ہر … بھٹکے ہوئے بچے کو تلاش کریں گے۔ ہم اُن کے لیے مِسیح کے پیار کا فہم حاصل کرنے میں اُن کی مدد کریں گے۔ ہم وہ سب کچھ کریں گے جن سے اُن کو اِنجیل کی بچانے والی رسوم کو حاصل کرنے کی تیاری میں مدد ملے گی۔

”یقیناً، اگر مسیح کا کفارہ حلقہ اور شاخ کے راہنماؤں کے ذہنوں میں سب سے ممتاز ہو، تو کوئی نیا یا دوبارہ فعال رکن کبھی بھی نظر انداز نہیں ہو گا۔ …

”… کفارہ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ گویا یہ لامحدود اور ابدی ہے، پھر بھی یہ انفرادی طور پر، ایک وقت میں ایک شخص پر لاگو ہوتا ہے۔ …

”بھائیو اور بہنو،کبھی بھی، ایک کی قدروقیمت کو قطعاً حقیر مت جانیں۔“۱

اگر ہم سب اِس اور ہمارے پیارے نبی صدر رِسل ایم نیلسن کی مشورت پر عمل کریں—کہ ایک اعلیٰ اور مقدس طریقہ سے دو عظیم احکامات مانیں تو یہ نہایت حیرت انگیز بات ہوگی۔ اور اگر آپ کو ایسا کرنے کی اپنی صلاحیت پہ شک ہے تو، اِس افریقی قول پر غور کریں: ”اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ادنیٰ ہیں اور آپ کے وجود سے کوئی فرق نہیں پڑتا، تو پھر آپ نے کبھی ایک مچھر کے ساتھ رات نہیں گزاری۔“

ہمیں فرق لانے یا ہمارے نجات دہندہ کے قریب آنے کے لیے مقدس زمین تک سفر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عیدِ ولادت المِسیح ایک ایسا وقت ہے جب ہم دوسروں کو مسلسل پیار کرنے اور اُن کی مدد کرنے سے نجات دہندہ کو اپنا ذاتی تحفہ دینے پر توجہ مزکور کر سکتے ہیں۔ تب ہم میں سے کسی کے لیے بھی بیت الحم زیادہ دور نہیں ہو گا۔ مِسیح کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے—اُس کے پیش کردہ تحائف کو قبول کرنے اور اُسے اپنے دل کا تحفہ دینے کا فیصلہ۔ میں اُس سے پیار کرتا ہوں اور میں آپ میں سے ہر ایک کے لیے اُس کے کبھی نہ ختم ہونے والے پیار کی گواہی دیتا ہوں یِسُوع مِسیح کے نام پر، آمین۔

حوالہ جات

  1. ایم رسل بیلرڈ، ”The Atonement and the Value of One Soul،“ لیحونا، مئی ۲۰۰۴، ۸۶–۸۷۔