صحائف
۲ نِیفی ۲


باب ۲

مُخلصی، مُقدس مَمسُوح کے وسیلہ سے آتی ہے—آزادیِ اِنتخاب (اِرادت) وجُود اور ترقی کے لِیے لازمی ہے—آدم زوال پذیر ہُوا کہ اِنسان ہوں—اِنسان آزادی اور اَبَدی زِندگی کے اِنتخاب میں خُود مُختار ہیں۔ قریباً ۵۸۸–۵۷۰ ق۔م۔

۱ اور اب یعقُوب مَیں تُجھ سے کلام کرتا ہُوں: تُو بیابان میں مُصیبت کے دِنوں کا میرا پہلوٹھا ہے۔ اور دیکھ تُو نے اپنے بھائیوں کی سختی کے سبب سے اپنے بچپن میں تکلیفیں اور بُہت دُکھ اُٹھائے ہیں۔

۲ اِس کے باوجود، یعقُوب، میرے بیابان کے پہلوٹھے، تُو خُدا کی عظمت کو جانتا ہے؛ اور وہ تیری مُصیبتوں کی تیرے فائدے کے لِیے تقدیس کرے گا۔

۳ پَس، تیری جان مُبارک ہو گی، اور تُو اپنے بھائی نِیفی کے ساتھ سلامتی سے قیام کرے گا؛ اور تیرے دِن تیرے خُدا کی خِدمت میں صِرف ہوں گے۔ پَس، مَیں جانتا ہُوں کہ تیرے فِدیہ دینے والے کی راست بازی کے سبب سے تُجھے مُخلصی ملی ہے؛ کیوں کہ تُو نے دیکھا ہے کہ زمانوں کی مَعمُوری میں وہ آتا ہے کہ اِنسان کے واسطے نجات لائے۔

۴ اور تُو نے اپنے لڑکپن میں اُس کا جلال دیکھا ہے؛ پَس تُو اُن کی طرح مُبارک ہے جِن کی وہ مُجسّم ہو کر خِدمت کرے گا؛ کیوں کہ رُوح کل، آج اور ابد تک یکساں ہے۔ اور نجات مُفت ہے اوراِنسان کی زوال پذیری کے وقت سے یہ راہ تیار کی گئی ہے۔

۵ اِنسان کی لائق طور پر ہدایت فرمائی گئی ہے کہ وہ نیک و بد کی پہچان کریں۔ اور اِنسان کو شریعت عطا کی گئی ہے۔ اور شریعت کے اِعتبار سے کوئی بشر بے قصور نہیں؛ یا، شریعت کے اِعتبار سے اِنسان کاٹ ڈالے گئے ہیں۔ ہاں، وہ آفاقی قانُون کے اِعتبار سے کاٹ ڈالے گئے تھے؛ اور رُوحانی شریعت کے اِعتبار سے بھی وہ اُس سے ہلاک ہوتے ہیں جو نیک ہے، اور ہمیشہ کے لِیے بد بخت بنتے ہیں۔

۶ پَس، مُخلصی پاک مَمسُوح میں اور اُس کے وسِیلے سے آتی ہے؛ کیوں کہ وہ فضل اور سچّائی سے مَعمُور ہے۔

۷ دیکھ، وہ شریعت کے تقاضے پُورے کرنے کے لِیے، اپنےتئیں گُناہ کی قُربانی کے واسطے نذر کرتا ہے، اُن سب کے واسطے جو شکستہ دِل اور پشیمان رُوح ہیں؛ اور کسی اور کے واسطے شریعت کے یہ تقاضے پُورے نہیں کِیے جا سکتے۔

۸ پَس، زمِین کے باشندوں کے واسطے اِن باتوں کا جاننا اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے، کہ وہ جانیں کہ کوئی اَیسا بشر نہیں جو خُدا کی حُضُوری میں قیام کر سکے، ماسِوا یہ مُقدس مَمسُوح کی فضلیت، اور رحم، اور فضل کے وسیلہ ہو، جو جِسم کے اعتبار سے اپنی جان قربان کرتا ہے، اور رُوح کی قُدرت سے پھر جی اُٹھتا ہے، تاکہ وہ مُردوں کی قیامت کا سبب ہو، کیوں کہ وہ پہلا ہے جو زِندہ ہو گا۔

۹ پَس، وہ خُدا کے لِیے پہلا پھل ہے، چُوں کہ وہ کُل بنی آدم کی شِفاعت کرے گا؛ اور وہ جو اُس پر توکّل کرتے ہیں نجات پائیں گے۔

۱۰ اور سب کی شفاعت کے طُفیل، تمام اِنسان خُدا کے پاس آتے ہیں؛ پَس، وہ اُس کی حُضُوری میں کھڑے ہوتے ہیں، کہ سچّائی اور قُدوسیت کے مُطابق اُن کی عدالت کرے جو اُس میں ہے۔ پَس، شریعت کے تقاضے جو قُدُّوس نے ہمیں دیے ہیں، اُن کا مقصد سزا لاگو کرنا ہے جو ثبت کی گئی ہے، یہ ایسی سزا ہے جو تضاد میں ثبت کی گئی ہے اُس خُوش بختی کے بدلے میزن ثبت کی گئی ہے، تاکہ کفارے کے تقاضے پُورے ہوں—

۱۱ چُوں کہ یہ اٹل ضرُوری ہے، کہ ہر چیز کی ضِد ہو۔ اگر اَیسا نہ ہوتا تو میرے بیابان کے پہلوٹھے، راست بازی نہ لائی گئی ہوتی، نہ بدی، نہ قُدوسیت، نہ بدحالی، نہ بھلائی اور نہ بُرائی۔ پَس، سب چیزوں کا ایک میں باہم مرکب ہونا تھا؛ پَس، اگر یہ صِرف ایک وجُود ہوتا تو یقِیناً یہ مُردے کی مانِند ہوتا، جِس میں نہ زِندگی نہ موت، نہ فنا نہ بقا، نہ اِقبال مندی نہ بدحالی، نہ اَحساس اور نہ بے حِسی ہوتی۔

۱۲ پَس، یہ یقِیناً ناچیز و نابُود کے واسطے تخلیق کی گئی ہوتی؛ لہٰذا اِس کی تخلیق کے اِرادہ کا کوئی مطلب نہ ہوتا۔ پَس، اَیسا ہونے سے خُدا کی حِکمت اور اُس کے اَبَدی اِرادے موقُوف ہو جاتے، اور قُدرت، اور رحم، اور خُدا کا اِنصاف بھی۔

۱۳ اور اگر تُو یہ کہے گا کہ کوئی شریعت نہیں، تُو یہ بھی کہے گا کہ کوئی گُناہ نہیں۔ اگر تُو کہے کہ گُناہ نہیں، تُو یہ بھی کہے گا کہ راست بازی بھی نہیں۔ اور اگر راست بازی نہ ہوتی، خُوش بختی نہ ہوتی؛ اور اگر نہ راست بازی ہوتی نہ خُوش بختی ہوتی نہ سزا اور نہ ہی بدحالی ہوتی۔ اور اگر یہ چیزیں نہیں ہیں خُدا بھی نہیں ہے۔ اور اگر خُدا نہیں ہے ہم نہیں ہیں، نہ ہی زمِین؛ کیوں کہ نہ عمل کرنے کے لِیے نہ عمل کرانے کے لِیے چیزوں کی تخلیق بھی نہ ہوتی، پَس، تمام چیزیں یقِیناً مِٹ چُکی ہوتیں۔

۱۴ اور اب میرے بیٹو، مَیں یہ باتیں تُمھارے فائدے اور تعلیم کے واسطے تُم سے کہتا ہُوں؛ کیوں کہ خُدا ہے اور اُس نے ہر شے خلق کی ہے، آسمان اور زمِین دونوں، اور ہر شے جو اُن میں ہے، ہر دو اَشیا فاعل اور معفول۔

۱۵ اور اِنسان کے واسطے اپنے اَبَدی اِرادوں کو پُورے کرنے کے لِیے، اُس نے ہمارے پہلے والدین، اور زمِین کے درندوں اور ہَوا کے پرندوں کو خلق کرنے کے بعد، اور مختصراً ہر وہ شے جو خلق کی گئی، امر کا ہونا لازم تھا کہ تضاد ہوتا؛ حتیٰ کہ شجرِ حیات کِیے تضاد میں ممنوعہ پھل؛ ایک شیریں، اور دُوسرا کڑوا۔

۱۶ پَس، خُداوند خُدا نے اِنسان کو بخشا کہ اپنے واسطے خُود عمل کرے۔ چُوں کہ، آدمی خُود عمل نہ کر سکتا تھا سِوا اِس بات کے کہ وہ کسی ایک یا کسی اور سے آزمایا جائے۔

۱۷ اور مِیں، لحی، اُن باتوں کے مُطابق جِن کو مِیں پڑھ چُکا ہُوں، ضرُور جانتا ہُوں کہ خُدا کا فرِشتہ، اُس نوشتے کے مُطابق، آسمان سے گِرایا جا چُکا تھا؛ پَس، وہ اِبلِیس بن گیا، اُس بات کا مُرتکب ہُوا جو خُدا کی نظر میں بُری تھی۔

۱۸ اور چُوں کہ وہ آسمان سے گِرایا گیا تھا، اور ہمیشہ کے لِیے بد بخت ہو چُکا تھا، وہ کُل بنی نوع اِنسان کی بد بختی کا خواہاں ہُوا۔ پَس، اُس نے حوّا سے کہا، ہاں، یعنی اُس قدیم اژدھا نے جو اِبلِیس ہے، وہ تمام جُھوٹوں کا باپ ہے، پَس اُس نے کہا: اِس ممنوعہ پھل میں سے کھا، اورتُو نہ مرے گی، بلکہ تُو نیکی اور بدی کی پہچان پا کر خُدا کی مانِند بن جائے گی۔

۱۹ اور ممنوعہ پھل کھا نےکے بعد آدم اور حوُا کوباغ عدن سے نِکالا گیا، کہ زمِین پر کھیتی باڑی کریں۔

۲۰ اور اُن کے ہاں بچے پَیدا ہُوئے؛ ہاں، یعنی ساری زمِین کے خاندان۔

۲۱ اور خُدا کی مرضی کے مُطابق کُل بنی نوع اِنسان کے ایّام کو بڑھایا گیا تاکہ بدن میں ہوتے ہُوئے تَوبہ کریں؛ پَس، اُن کی حالت کیفِیّتِ کارِ آموزی بن گئی، اور اُن کی عُمروں کو طویل کِیا گیا، اُن حُکموں کے مُطابق جو خُداوند خُدا نے بنی نوع اِنسان کو عطا کِیے۔ کیوں کہ اُس نے حُکم دِیا کہ سب اِنسان ضرُور تَوبہ کریں؛ چُوں کہ اُس نے تمام اِنسانوں پر ظاہر کِیا کہ وہ اپنے والدین کی خطا کے باعث بھٹک گئے تھے۔

۲۲ اور اب، دیکھو، اگر آدم نے خطا نہ کی ہوتی تو وہ زوال پذیر نہ ہُوا ہوتا، بلکہ اُس نے باغ عدن میں ہی قیام کِیا ہوتا۔ اور تمام چیزیں جو خلق کی گئیں ضرُور اُسی حالت میں رہتیں جِس حالت میں وہ خلق کی گئیں تھیں؛ اور وہ ہمیشہ اُسی طرح رہتیں، اور کوئی انجام نہ ہوتا۔

۲۳ اور اُن کے ہاں بچّے نہ ہُوئے ہوتے؛ پَس وہ معصُومیت کی حالت میں رہ رہے ہوتے، شادمانی محسُوس نہ کی ہوتی، کیوں کہ وہ بد بختی سے واقف نہ ہوتے؛ کسی نیکی کا اِرتکاب نہ کِیا ہوتا، چُوں کہ وہ گُناہ سے ناواقف ہوتے۔

۲۴ لیکن دیکھو، تمام چیزیں اُس کی حِکمت کے تحت سرانجام پائی ہیں جو تمام چیزوں کو جانتا ہے۔

۲۵ آدم زوال پذیر ہُوا تاکہ اِنسان ہوں؛ اور اِنسان ہیں، تاکہ وہ شادمانی پائیں۔

۲۶ اور زمانے کی مَعمُوری میں مَمسُوح آتا ہے، تاکہ وہ بنی آدم کو زوال پذیری سے مُخلصی دے۔ اور چُوں کہ اُنھیں زوال پذیری سے مُخلصی عطا کی گئی ہے وہ ہمیشہ کے لِیے آزاد ہو چُکے ہیں، نیکی اور بدی کو پہچانتے ہُوئے؛ اپنے تئیں فاعل ہوں اور معفول نہ ہوں، سِوا اِس کے کہ عظیم اور یومِ آخر شریعت کی سزا کے تحت، اُن حُکموں کے مُطابق جنھیں خُدا دے چُکا ہے۔

۲۷ پَس، اِنسان بشری لحاظ سے آزاد ہیں؛ اور سب چیزیں جو آدمی کے لِیے مُفِید ہیں اُنھیں عطا کی گئی ہیں۔ اور کُل بنی نوع اِنسان کے عظیم ثالث کے وسِیلے سے وہ آزادی اور اَبَدی زِندگی چُننے، یا اِبلِیس کی اسِیری اور اِختیار کے لحاظ سے غلامی اور موت چُننے میں خُود مُختار ہیں؛ کیوں کہ وہ چاہتا ہے کہ کُل اِنسان اُسی کی مانِند بد بخت ہوں۔

۲۸ اور اب، میرے بیٹو، مَیں چاہتا ہُوں کہ تُم عظیم ثالث کی طرف دیکھو، اور اُس کے عظیم حُکموں پر کان لگاؤ؛ اور اُس کے کلام کے وفادار رہو، اور اُس کے پاک رُوح کی مرضی کے مُطابق اَبَدی زِندگی چُن لو۔

۲۹ اور بشری خواہش اور اُس بُرائی کے مُطابق جو اُس کے اندر ہیں اَبَدی موت نہ چُنو، جو اِبلِیس کی رُوح کوغالِب آنے کا اِختیار دیتی ہے، کہ تُمھیں جہنم میں لے جائے، تاکہ وہ اپنی بادِشاہی میں تُم پر حُکم رانی کرے۔

۳۰ میرے بیٹو، مَیں نے یہ چند باتیں تُم سب کے واسطے، اپنی آزمایش کے آخری ایّام میں فرمائیں ہیں؛ اور مَیں نے نبی کے کلام کے مُطابق اچھّا حِصّہ چُنا ہے۔ اور تُمھاری جانوں کی دائمی بھلائی کے علاوہ میرا کوئی اور اِرادہ نہیں ہے۔ آمین!