”جولائی ۲۶–اگست ۱۔ اعمال ۲۲–۲۸: ’خادِم اور گواہ‘“ آ، میرے پِیچھے ہو لے—برائے افراد و خاندان: نیا عہد نامہ ۲۰۲۱ (۲۰۲۰)
”جولائی ۲۶–اگست ۱۔ اعمال ۲۲–۲۸،“ آ، میرے پِیچھے ہو لے—برائے افراد و خاندان: ۲۰۲۱
جولائی ۲۶–اگست ۱
اعمال ۲۲–۲۸
”خادِم اور گواہ“
رُوحُ الُقدس کی سرگوشیاں اکثر دھیمی اور کئی بار مختصر ہوتی ہیں۔ اپنے تاثرات کو قلمبند کرنے سے آپ اِن پر مزید گہرائی سے غور و فکر کر سکتے ہیں۔ جب آپ اعمال ۲۲–۲۸ پڑھیں، تو حاصل کردہ خیالات اور احساسات کو قلمبند کریں اور اِن پر غور کرنے کے لیے وقت نکالیں۔
اپنے تاثرات کو قلمبند کریں
”جب ہم خُداوند کا کام کررہے ہوتے ہیں،“ صدر تھامس ایس. مانسن نے وعدہ کیا، ”تب ہم خُداوند کی مدد کے حقدار ٹھہرتے ہیں“ (”To Learn, to Do, to Be،“ انزائن یا لیحونا، نومبر ۲۰۰۸، ۶۲)۔ البتہ، ہم ہموار راستہ اور کامیابیوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ کے حقدار نہیں ہوتے۔ اِس بات کے ثبوت کے طور پر، ہم پَولُس رَسُول کی مثال دیکھتے ہیں۔ نجات دہندہ کی جانب سے اُسے یہ کام سپرد کیا گیا کہ ”قَوموں، بادشاہوں اور بنی اِسرائیل پر میرا نام ظاہِر کر“ (اعمال ۹: ۱۵)۔ اعمال کے ابواب ۲۲–۲۸میں، ہم دیکھتے ہیں کہ پَولُس اِس کام کو پورا کررہا تھا اور اُسے زبردست مخالفت کا سامنا تھا—اُسے زنجیروں میں جکڑا گیا، وہ قید خانہ میں ڈالا گیا، اُسے مارا پیٹا گیا، جس جہاز پر اُسے لے جایا جا رہا تھا وہ طوفان کی زد میں آ کر تباہ ہوگیا، اور یہاں تک کہ اُسے سانپ نے بھی کاٹا۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یِسُوع ”اُس کے پاس آکھڑا ہُؤا اور کہا خاطِر جمع رکھ،پَولُس“ (اعمال ۲۳: ۱۱)۔ پَولُس کے تجربات ایک الہامی یاد دہانی ہیں کہ جب خُداوند کے بندے اُس کی پکار کو قبول کرتے ہیں کہ ”جاؤ… اور سب قَوموں کو شاگِرد بناؤ،“ تو وہ اُن سے اپنا وعدہ پورا کرے گا: ”دیکھو مَیں دُنیا کے آخِر تک ہمیشہ تُمہارے ساتھ ہُوں“ (متّی ۲۸: ۱۹–۲۰)۔
تجاویز برائے ذاتی مُطالعہِ صحائف
یِسُوع مسِیح کے شاگِرد اپنی گواہیوں کا اشتراک بڑی دلیری کے ساتھ کرتے ہیں۔
جب پَولُس نے اعمال ۲۲ اور ۲۶ میں درج قوی گواہیوں کا اشتراک کیا، تب وہ رومی سِپاہِیوں کی قید میں تھا۔ جن لوگوں سے وہ مخاطب تھا وہ اُس کو موت کی سزا دینے کا اختیار رکھتے تھے۔ پھر بھی اُس نے بڑی دلیری سے یِسُوع مسِیح اور ”اُس آسمانی رویا“ (اعمال ۲۶: ۱۹) کی گواہی دینے کا انتخاب کیا۔ آپ اُس کے اِلفاظ سے کیا الہام حاصل کرتے ہیں؟ اپنی گواہی کا اشتراک کرنے کے مواقع پر غور کریں۔ مثال کے طور پر، آپ نے کب آخری بار اپنے گھر والوں یا دُوسروں کو بتایا کہ آپ نے اِنجیل کی اپنی گواہی کیسے حاصل کی تھی؟
یِسُوع مسِیح سے متعلق پَولُس کی رویا کے تینوں بیان مختلف کیوں ہیں؟
اعمال کی کتاب میں ہمیں دمشق کی راہ پر پَولُس کی معجزاتی رویا کے تین بیان ملتے ہیں (دیکھیں اعمال ۹: ۳–۲۰؛ ۲۲: ۱–۲۱؛ ۲۶: ۹–۲۰)۔ اِن میں سے ہر ایک بیان دوسروں سے قدرے مختلف ہے، اور کچھ دُوسروں کے مقابلے میں زیادہ تفصیل فراہم کرتے ہیں۔ چونکہ بیانات کا اشتراک مختلف سامعین کے سامنے مختلف مقاصد کے لیے کیا گیا تھا، یہ مناسب ہے کہ پَولُس نے ہر گروہ کے لیے تجربے کے مختلف حصّوں پر زور دینے کا انتخاب کیا۔
اِسی طرح، جوزف سمتھ نے اپنی پہلی رویا کے متعدد بیانات قلمبند کیے۔ متعدد بیانات کا اشتراک مختلف سامعین کے سامنے مختلف مقاصد کے لیے کیا گیا تھا، اور اِس طرح وہ بصیرت فراہم کی گئی جو صرف ایک بیان کی موجودگی میں ممکن نہیں تھی۔
اعمال ۲۳: ۱۰–۱۱؛ ۲۷: ۱۳–۲۵، ۴۰–۴۴
خُداوند اُن سب کے ساتھ ہے جو اُس کی خدمت کرنے میں مگن ہیں۔
جیسا کہ پَولُس کی خدمت واضح طور پر ظاہر کرتی ہے، ہماری زندگی میں مشکلات اِس بات کی علامت نہیں ہیں کہ خُدا ہمارے کام سے ناخوش ہے۔ در حقیقت، بعض اوقات مشکلات کے دوران ہی ہم اُس کی مدد کو سب سے زیادہ مضبوطی سے محسوس کرتے ہیں۔ پَولُس کی خدمت کے بارے میں جو کچھ آپ نے حال ہی میں پڑھا ہے اُس پر نظرثانی کرنا اور اُن چیزوں کی فہرست بنانا جو اُس نے برداشت کیں دلچسپ ہوسکتا ہے (دیکھیں، مثال کے طور پر، اعمال ۱۴: ۱۹–۲۰؛ ۱۶: ۱۹–۲۷؛ ۲۱: ۳۱–۳۴؛ ۲۳: ۱۰–۱۱؛ ۲۷: ۱۳–۲۵، ۴۰–۴۴)۔ خُداوند نے اُس کا کیسے ساتھ دیا، اور اِس سے آپ کو خُداوند کی خدمت میں اپنی کوششوں کے بارے میں کیا علم حاصل ہوتا ہے؟
اعمال ۲۴:۲۴–۲۷؛ ۲۶: ۱–۳، ۲۴–۲۹؛ ۲۷
مجھے خُدا کے خادِموں کے کلام کو قبول کرنے یا رد کرنے کا انتخاب حاصل ہے۔
اپنی پوری خدمت کے دوران، پَولُس نے یِسُوع مسِیح اور اُس کی اِنجیل کی قوی گواہی دی۔ بہت سے لوگوں نے اُس کی گواہی کو قبول کیا، لیکن ہر ایک نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اعمال ۲۴:۲۴–۲۷ اور اعمال ۲۶: ۱–۳، ۲۴–۲۹ کو پڑھتے وقت، ایسے الفاظ اور جملے تحریر کریں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہودیہ میں درج ذیل رومی حکمرانوں نے پَولُس کی تعلیمات پر کیسا ردِعمل دیا:
فیلِکس
فیستُس
اگِرپّا بادشاہ
قَیصر کے تختِ عدالت کے سامنے پیش ہونے کے لیے روم جاتے ہوئے، پَولُس نے یہ پیش گوئی کی کہ جہاز اور اِس کے مسافروں کو ”تکِلیف اور بہُت نقُصان“ پہنچے گا (اعمال ۲۷: ۱۰)۔ پَولُس کے جہاز کے ساتھیوں کا اُس کی انتباہ پر کیسا ردِعمل تھا اِس کے بارے میں جاننے کے لیے باب ۲۷ پڑھیں۔ کیا آپ کو اُن کے تجربے میں سے اپنے لیے کوئی سبق حاصل ہوتا ہے؟
کلیسیائی راہ نماؤں کی تعلیمات کو سُنتے ہوئے کیا آپ نے کبھی اِن لوگوں میں سے کسی کی طرح ردِعمل کا اظہار کیا ہے؟ اِس طرح کے ردِعمل کے اظہار کے کون سے چند ممکنہ نتائج ہوسکتے ہیں؟ آپ اُس کے خادِموں کے ذریعہ دی گئی خُداوند کی مشورت پر عمل کرنے کے بارے میں اِس کہانی سے کیا سیکھتے ہیں؟
مزید دیکھیں ۲ نیفی ۳۳: ۱–۲؛ جوزف سمتھ—تاریخ ۱: ۲۴–۲۵؛ ڈی ٹاڈ کرسٹوفرسن، ”The Voice of Warning،“ انزائن یا لیحونا، مئی ۲۰۱۷، ۱۰۸–۱۱۔
تجاویز برائے خاندانی مُطالعہِ صحائف و خاندانی شام
جب آپ اپنے خاندان کے ساتھ صحائف کا مُطالعہ کرتے ہیں تو، رُوح آپ کی یہ جاننے میں مدد کرسکتا ہے کہ اپنی خاندانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کِن اُصولوں پر زور دینا اور گفتگو کرنی چاہیے۔ یہاں کچھ تجاویز پیش کی گئی ہیں:
رُجُوع لانے سے قبل، پَولُس کی خُدا کے خِلاف جارحیت کی ایک لمبی تاریخ تھی۔ لیکن چونکہ وہ تَوبہ کرنے پر آمادہ تھا، تاہم وہ یہ کہنے کے قابل ہوا، ”اِسی لِئے مَیں خُود بھی کوشِش میں رہتا ہُوں کہ، خُدا، اور آدمِیوں کے باب میں میرا دِل مُجھے کبھی ملامت نہ کرے“ (مزید دیکھیں عقائد اور عہود ۱۳۵: ۴)۔ ہم ایسا کیا کرسکتے ہیں کہ خُدا، اور آدمِیوں کے باب میں ہمارا دِل بھی ہمیں کبھی ملامت نہ کرے؟
اِن آیات میں، خُداوند نے پَولُس کو کِن چِیزوں کے لیے مُقرّر کیا؟ اِسی طرح کے کاموں کو سر انجام دینے کے لیے ہمیں کون سے مواقع حاصل ہیں؟
کیا آپ کے خاندان میں سے کسی کو سانپ پسند ہیں؟ آپ اُس شخص یا خاندان کے کسی اور فرد سے اعمال ۲۸: ۱–۹ میں پائی جانے والی کہانیاں بتانے کا کہہ سکتے ہیں۔ آپ کے بچے اِن کہانیوں کی تصویر بنانے یا اِن کی کردار نگاری کرنے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ہم اِن کہانیوں سے کون سے اسباق حاصل کر سکتے ہیں؟ اِن میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ خُداوند اپنے خادِموں سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، آپ مرقس ۱۶: ۱۸ میں کیے گئے وعدوں کی تکمیل کا موازنہ پَولُس کے تجربات کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ آپ حالیہ مجلسِ عامہ میں خُداوند کے خادِموں کی جانب سے کیے گئے کسی ایک وعدہ کے بھی متلاشی ہو سکتے ہیں—شاید ایک ایسا وعدہ جو آپ کے خاندان کے لیے معنی خیز ہو—اور اِس کی نمائش اپنے گھر میں کریں۔ ہم اپنا اِیمان کس طرح ظاہر کر سکتے ہیں کہ یہ وعدہ پورا ہوگا؟
پَولُس کے دنوں میں کلیسیا کی مانند (آیت ۲۲میں جسے ”فِرقہ“ کہا گیا ہے)، آج بھی اکثر کلیسیا کے ”خِلاف بولا“ جاتا ہے۔ جب لوگوں نے نجات دہندہ اور اُس کی کلیسیا کے خِلاف بات کی، تو پَولُس نے کیا جواب دیا؟ ہم پَولُس کے تجربہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
مزید تجاویز برائے تدریسِ اطفال کے لیے، آ، میرے پِیچھے ہو لے—برائے پرائمری میں اِس ہفتے کا خاکہ دیکھیں۔